مومن کے لیے دنیوی مصائب کی حیثیت

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا يُصِيبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ، وَلَا هَمٍّ وَلَا حُزْنٍ، وَلَاأَذًى وَلَا غَمٍّ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ(متفق عليه)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ !ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان کو جو بھی تھکاوٹ،بیماری، رنج وملال، تکلیف اور غم لاحق ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے اور وہ اس پر صبر سے کام لیتا ہےتو اللہ تبارک وتعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفّارہ بنادیتا ہے۔

نصب: تھکاوٹ کو کہتے ہیں، اور وصب: دائمی تکلیف،یا مرض کو کہتے ہیں۔ ھم: مستقبل کی باتوں کی فکرکرنے کو کہتے ہیں۔ الحرن: ماضی میں ہونے والے کسی حادثہ کے بارے میں فکرو بے چینی لاحق کو کہتے ہیں۔ اور یہ بغیر ارادہ کے انسان سے ظاہر ہوتے ہیں اور یہ عموماً دل کو لاحق ہوتے ہیں۔ اذًی: یہ عام تکلیف ہے جو سب کو شامل ہے۔

اس دنیا میں انسان بہت سی مشکلات اور تھکاوٹ اور نیز تفکرات اور غموں سے دوچارہوتا ہے۔ اس حدیث میں نبی کریمﷺ نے ایک بڑی بات بتلارہے ہیں، جسے ہمیں تمام حالات میں یاد رکھنا چاہیے، کیوں کہ یہ ایسی بات ہے، جس سے قلب کو سرور او ر اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

انسان کو جو بھی تھکاوٹ، بیماری، رنج وغم، فکر واندیشہ اور تکلیف لاحق ہوتی ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنادیتا ہے اور یہ مصیبتیں اس کے گناواں کی مغفرت نیز گناہوں کے ازالے اور خاتمے کا سبب بن جاتی ہیں اور انسان مصیبت کے خاتمہ پراپنے گناہوں سے پاک وصاف ہوکر نکلتا ہے اور اپنےمالک و پروردگا ر سے قریب ہوجاتا ہے۔نبی کریم ﷺ کے فرمان کا یہ جملہ ’’ یہاں تک کہ اسے کوئی کانٹا بھی چھبتا ہے۔اس بات کی دلیل ہےکہ انسان کو جو تکلیف بھی لاحق ہوتی ہے وہ اس کے لیے کفارہ بن جاتی ہے، اگرچہ معمولی تکلیف ہی کیوں نہ ہو، جیسےکانٹا چھبنا وغیرہ۔

مصیبت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے دل قبول اور پسند نہ کرے، لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت خواہ وہ تکلیف و بیماری کی صورت میں ہو یا حادثہ و صدمہ کی شکل میں، ہمیشہ اللہ کے قہر اور عذاب ہی کے طور پر نہیں آتی، بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس بندہ پر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کا سایہ کرنا چاہتا ہے اسے خیر و بھلائی کے راستہ پر ڈالنا چاہتا ہے تو اسے کسی مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے، جس سے نہ صرف یہ کہ اس کے گناہ صاف ہو جاتے ہیں، بلکہ اس کے قلب و دماغ کو مصیبت کی سختی مجلی و مصفا کر کے خیر و بھلائی کے نور کو اپنے اندر ضیا بار کرنے کی صلاحیت پیدا کر دیتی ہے۔

انسانی زندگی خوشی ومسرت اور رنج وغم کا عجیب سنگم ہے، پل میں مصیبت، پل میں راحت؛ لیکن نہ یہاں کے فرحت وسرور کے لمحات کو دوام ہے اور نہ درد والم کے صدمات کو قرار، ساری زندگی ہی تغیر وتبدل سے عبارت ہے، یہ مصائب ومشکلات، زندگی کے یہ نشیب وفراز، حیاتِ انسانی کو درپیش یہ اونچ نیچ اور اتارچڑہاوٴ کی کیفیات، جو بظاہر ناکامی ونامرادی کی تصویر نظر آتے ہیں، اگر ان کے حقائق ومضمرات اور شرعی نقطہٴ نظر سے ان منفی احوال کا تجزیہ کیا جائے تو یہ مصائب مومن کے لیے خیر ہی خیر نظر آتے ہیں، ان ہی شرور وفتن کے بطن سے خیر وبھلائی کے پہلووجود میں آتے ہیں۔ علمائے امت فرماتے ہیں اگر کوئی ایسی صورتِ حال میں اسلامی اَحکام کی رعایت رکھےگا تو اس کے لیے یہ مصیبت بھی اللہ کی رحمت بن جائے گی! اس لیے دنیا میں تکلیف اور مصیبت نیک مؤمن پر بھی آتی ہے اور گناہ گار مؤمن اور کافر پر بھی آتی ہے، بعض کے لیے تکلیف و مصیبت رفعِ درجات کا سبب ہوتی ہے، اور بعض کے حق میں گناہوں کی معافی کا ذریعہ اور بعض کے لیے آخرت کے عذاب سے پہلے دنیاوی پکڑ ثابت ہوتی ہے تاکہ کافر و گناہ گار اسے دیکھ کر عبرت حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔ بیماری یا تکلیف کے رحمت بننے کی علامت یہ ہے کہ بیماری یا تکلیف کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع بڑھ جائے اور عملی زندگی میں اِصلاح اور مثبت تبدیلی آجائے تو یہ رحمت کا باعث ہے، اور اگر شکوہ شکایت، جزع فزع، اور اللہ سے رجوع ہٹ کر صرف دنیاوی اسباب اور غموم و ہموم کی طرف ہوجائے تو یہ آزمائش یا پکڑ کی علامت ہے۔ یہ سب باتیں قرآنِ مجید کی تعلیمات رسول اللہ ﷺ کی احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں ثابت شدہ ہیں۔ مصائب میں مبتلا شخص ان دعاوٴں کا خوب اہتمام کرتا ہے:

”اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ اَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ الٰی نَفْسِیْ طَرْفَةَ عینٍ وَاَصْلِحْ لِیْ شَانِی کُلَّہ لااِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ“

اے اللہ! میں تیری رحمت کی امید کرتا ہوں تو مجھے پل بھر بھی میرے سپرد نہ کر اور میرا سارا حال درست فرمادے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔

”یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بَرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ“

اے زندہ اور اے قائم رکھنے والے! میں تیری رحمت کے واسطے سے فریاد کرتا ہوں۔

”اَللہُ، اَللہُ رَبِّیْ، لَااُشْرِکُ بِہ شَیئًا۔“

اللہ! اللہ میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں بناتا۔

ان دعاوٴں کو مصائب اور پریشانیوں کے دفاع میں خوب اثر ہے، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضراتِ صحابہ کو مصائب اور مشکلات کے وقت انھیں دعاوٴں کی تلقین فرمائی تھی۔اللہ رب العزت ہم سب کو عافیت عطافرمائیں۔ آمین یارب العٰلمین!

40 hadees Hadith 16 Hadees 16 momin ke liye duniya ke masaib ki hesiyat Urdu Translation umargallery ویڈیو

Please watch full video, like and share 40 hadees Hadith 16 Hadees 16 momin ke liye duniya ke masaib ki hesiyat Urdu Translation umargallery. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 06:43

https://youtu.be/WYv2fqpfDMs

مومن کے لیے دنیوی مصائب کی حیثیت

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ))مَا يُصِيبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ، وَلَا هَمٍّ وَلَا حُزْنٍ، وَلَاأَذًى وَلَا غَمٍّ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ(( متفق عليه)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ !ﷺ نے فرمایا : ’’مسلمان کو جو بھی تھکاوٹ،بیماری، رنج وملال، تکلیف اور غم لاحق ہوتی ہے یہاںتک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے اور وہ اس پر صبر سے کام لیتا ہےتو اللہ تبارک وتعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفّارہ بنادیتا ہے۔
نصب :تھکاوٹ کو کہتے ہیں،اور وصب:دائمی تکلیف،یا مرض کو کہتے ہیں۔ھم :مستقبل کی باتوں کی فکرکرنے کو کہتے ہیں۔الحرن: ماضی میں ہونے والے کسی حادثہ کے بارے میں فکرو بے چینی لاحق کو کہتے ہیں۔اور یہ بغیر ارادہ کے انسان سے ظاہر ہوتے ہیں اور یہ عموماً دل کو لاحق ہوتے ہیں۔ اذًی:یہ عام تکلیف ہے جو سب کو شامل ہے۔
اس دنیا میں انسان بہت سی مشکلات اور تھکاوٹ اور نیز تفکرات اور غموں سے دوچارہوتا ہے۔ اس حدیث میں نبی کریمﷺ نے ایک بڑی بات بتلارہے ہیں ،جسے ہمیں تمام حالات میں یاد رکھنا چاہیے، کیوں کہ یہ ایسی بات ہے، جس سے قلب کو سرور او ر اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
انسان کو جو بھی تھکاوٹ، بیماری، رنج وغم ، فکر واندیشہ اور تکلیف لاحق ہوتی ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنادیتا ہے اور یہ مصیبتیں اس کے گناواں کی مغفرت نیز گناہوں کے ازالے اور خاتمے کا سبب بن جاتی ہیں اور انسان مصیبت کے خاتمہ پراپنے گناہوں سے پاک وصاف ہوکر نکلتا ہے اور اپنےمالک و پروردگا ر سے قریب ہوجاتا ہے۔نبی کریم ﷺ کے فرمان کا یہ جملہ ’’ یہاں تک کہ اسے کوئی کانٹا بھی چھبتا ہے۔اس بات کی دلیل ہےکہ انسان کو جو تکلیف بھی لاحق ہوتی ہے وہ اس کے لیے کفارہ بن جاتی ہے، اگرچہ معمولی تکلیف ہی کیوں نہ ہو، جیسےکانٹا
چھبنا وغیرہ۔
” مصیبت” ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے دل قبول اور پسند نہ کرے، لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت خواہ وہ تکلیف و بیماری کی صورت میں ہو یا حادثہ و صدمہ کی شکل میں، ہمیشہ اللہ کے قہر اور عذاب ہی کے طور پر نہیں آتی، بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس بندہ پر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کا سایہ کرنا چاہتا ہے اسے خیر و بھلائی کے راستہ پر ڈالنا چاہتا ہے تو اسے کسی مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے، جس سے نہ صرف یہ کہ اس کے گناہ صاف ہو جاتے ہیں، بلکہ اس کے قلب و دماغ کو مصیبت کی سختی مجلی و مصفا کر کے خیر و بھلائی کے نور کو اپنے اندر ضیا بار کرنے کی صلاحیت پیدا کر دیتی ہے۔
انسانی زندگی خوشی ومسرت اور رنج وغم کا عجیب سنگم ہے، پل میں مصیبت، پل میں راحت؛ لیکن نہ یہاں کے فرحت وسرور کے لمحات کو دوام ہے اور نہ درد والم کے صدمات کو قرار، ساری زندگی ہی تغیر وتبدل سے عبارت ہے، یہ مصائب ومشکلات، زندگی کے یہ نشیب وفراز، حیاتِ انسانی کو درپیش یہ اونچ نیچ اور اتارچڑہاوٴ کی کیفیات، جو بظاہر ناکامی ونامرادی کی تصویر نظر آتے ہیں، اگر ان کے حقائق ومضمرات اور شرعی نقطہٴ نظر سے ان منفی احوال کا تجزیہ کیا جائے تو یہ مصائب مومن کے لیے خیر ہی خیر نظر آتے ہیں، ان ہی شرور وفتن کے بطن سے خیر وبھلائی کے پہلووجود میں آتے ہیں۔علمائے امت فرماتے ہیں اگر کوئی ایسی صورتِ حال میں اسلامی اَحکام کی رعایت رکھےگا تو اس کے لیے یہ مصیبت بھی اللہ کی رحمت بن جائے گی! اس لیے دنیا میں تکلیف اور مصیبت نیک مؤمن پر بھی آتی ہے اور گناہ گار مؤمن اور کافر پر بھی آتی ہے، بعض کے لیے تکلیف و مصیبت رفعِ درجات کا سبب ہوتی ہے، اور بعض کے حق میں گناہوں کی معافی کا ذریعہ اور بعض کے لیے آخرت کے عذاب سے پہلے دنیاوی پکڑ ثابت ہوتی ہے تاکہ کافر و گناہ گار اسے دیکھ کر عبرت حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔ بیماری یا تکلیف کے رحمت بننے کی علامت یہ ہے کہ بیماری یا تکلیف کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع بڑھ جائے اور عملی زندگی میں اِصلاح اور مثبت تبدیلی آجائے تو یہ رحمت کا باعث ہے، اور اگر شکوہ شکایت، جزع فزع، اور اللہ سے رجوع ہٹ کر صرف دنیاوی اسباب اور غموم و ہموم کی طرف ہوجائے تو یہ آزمائش یا پکڑ کی علامت ہے۔ یہ سب باتیں قرآنِ مجید کی تعلیمات رسول اللہ ﷺ کی احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں ثابت شدہ ہیں۔مصائب میں مبتلا شخص ان دعاوٴں کا خوب اہتمام کرتا ہے:”

اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ اَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ الٰی نَفْسِیْ طَرْفَةَ عینٍ وَاَصْلِحْ لِیْ شَانِی کُلَّہ لااِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ“

“اے اللہ! میں تیری رحمت کی امید کرتا ہوں تو مجھے پل بھر بھی میرے سپرد نہ کر اور میرا سارا حال درست فرمادے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔”یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بَرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ“ اے زندہ اور اے قائم رکھنے والے! میں تیری رحمت کے واسطے سے فریاد کرتا ہوں۔”اَللہُ، اَللہُ رَبِّیْ، لَااُشْرِکُ بِہ شَیئًا۔“ اللہ! اللہ میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں بناتا۔ان دعاوٴں کو مصائب اور پریشانیوں کے دفاع میں خوب اثر ہے، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضراتِ صحابہ کو مصائب اور مشکلات کے وقت انھیں دعاوٴں کی تلقین فرمائی تھی۔اللہ رب العزت ہم سب کو عافیت عطافرمائیں۔آمین یارب العٰلمین!