سلام کو عام کرنے کی اہمیت

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلَاأَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ (رواه مسلم)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ !ﷺ نےفرمایا: ’’تم جنت میں نہیں جاوگے یہاں تک کہ ایمان لے ؤ اورتم اس وقت تک) کامل ایمان والے نہیں بنو گے یہاں تک کہ آ پس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگ جاؤ۔ کیامیں تمھیں ایسی چیز کی طرھ نہ رہنمائی کروں کہ جب تم اسے کرنے لگو تو تم پس میں محبت کرنے والے بن جاؤ؟ تم آ پس میں سلام کو عام کرو۔‘‘ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث شریف میں ہمیں ایک نہایت ہی اہم بات کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم آپس میں محبت کرنے والے بن جائیں۔ نبی کریم ﷺ نےہمیں بتلایا ہے کہ ہم اس وقت تک جنت میں نہیں داخل ہوں گے جب تک کہ ایمان والے نہ بن جائیں اور ہم حقیقی ایمان والے اسی وقت بن سکتے ہیں جب ہم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگ جائیں۔

سلام کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔ سلام اسلام کا شعار ہے۔ ایک مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کو سلام کرکے اس سے دلی محبت کا اظہار کرتا ہے۔ اسی طرح جس کو سلام کیاگیاہے وہ بھی جواب دے کر سلام کرنے والے سے محبت کااظہار کرتا ہے۔ سلام صرف اسلام کا شعار ہی نہیں ہے بلکہ ایک اہم دینی واخلاقی فریضہ بھی ہے۔

اس حدیث سے جہاں ایک طرف یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سلام اہل ایمان کے درمیان محبت بڑھانے کا اہم ذریعہ ہے۔ اور آپس میں جب محبت بڑھے گی تو ایمان میں پختگی آئے گی۔ اور جب ایمان پختہ ہوگا تو جنت میں داخلہ آسان ہوجائے گا۔ وہیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ سلام ہر خاص وعام کو کرنا چاہیے۔ سلام کو کسی طبقے یہ ہم منصب لوگوں کے درمیان محدود نہیں کرنا چاہیے۔

دنیا کے ہر مذہب و ملت میں ہر قوم نے بوقت ملاقات کچھ الفاظ اور طریقے مقرر کر لیے ہیں چناں چہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ جب آپس میں ملتے تھے تو ’’حیاک اللہ‘‘ یعنی اللہ تجھے زندہ رکھے کے الفاظ ایک دوسرے کو کہتے تھے۔ ہندو آپس میں ملاقات کے وقت ’’نمستے‘‘ کہتے ہیں۔ عیسائی یا انگریزوں کے ہاں وقت کے حساب سے الفاظ ادا کیے جاتے ہیں۔ مثلًا صبح میں گڈ مارننگ، شام میں گڈایوننگ اور رات میں گڈ نائٹ کے الفاظ کہے جاتے ہیں۔ سکھ لوگ ’’جے گرو‘‘ کے الفاظ بولتے ہیں۔ السلام علیکم میں دین و دنیا کی سلامتی کی دعا ہے اور ظاہر ہے کہ سلامتی کی دعا زندگی کی دعا سے زیادہ جامع ہے یعنی دنیا میں یا مرتے وقت، قبر میں یا حشر میں ہر جگہ ہر آفت سے بچے رہو، سلامت رہو، نیز بغیر سلامتی کے زندگی عذاب بن جاتی ہے۔

سلام نہایت جامع دعائیہ کلمہ ہے کہ یہ کلمہ پیار ومحبت اوراکرام کے اظہار کے لیے بہترین لفظ ہے اوراس کی کئی معنوی خصوصیات ہیں:

سلام اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے ہے۔ اس کلمہ میں صرف اظہارِ محبت ہی نہیں ؛ بلکہ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ تمام آفات اور آلام سے محفوظ رکھیں۔ یہ کلمہ اپنے سے چھوٹوں کے لیے شفقت، مرحمت اور پیار ومحبت کا کلمہ بھی ہے اور بڑوں کے لیے اکرام وتعظیم کا لفظ بھی۔سلام کرنے میں پہل کرے؛ اس لیے کہ سلام میں پہل کرنے سے عاجزی وتواضع پیداہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کو بندوں سے تواضع نہایت محبوب ہے۔

ایک مرتبہ حضور نبی اکرمؐ صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے حاضر ہوکر اس طرح سلام کیا۔ السلام علیکم، حضور نبی اکرمؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا اس کے لیے 10 نیکیاں ہیں۔ پھر دوسرا شخص حاضر ہوا اور اس طرح سلام کیا ’’السلام علیکم و رحمۃاللہ‘‘ آپؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا اس کے لیے 20 نیکیاں ہیں۔ پھر تیسرا شخص حاضر ہوا اور اس طرح سلام کیا ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکۃ‘‘ حضور نبی اکرمؐ نے اس کے بھی سلام کا جواب دیا اور فرمایا اس کے لیے 30 نیکیاں ہیں۔ (ترمذی و ابو داؤد)

سلام کرنا سنت کفایہ ہے۔مگر اس کا جواب دینا فرض ہے۔ سلام کے جواب میں بہتر جواب دینا مستحب ہے اور برابر کا جواب دینا واجب ہے۔ اگر جماعت میں سے کسی ایک نے بھی سلام کرلیا تو سب کی طرف سے ادا ہوگیا۔ اگر پوری جماعت میں سے کسی نے بھی نہ کیا تو سب سنت کے تارک ہوں گے۔ اسی طرح کسی نے اگر سلام کیا پوری جماعت میں سے کسی ایک نے بھی جواب دے دیا تو سب کی طرف سے ادا ہوگیا لیکن اگر پوری جماعت میں سے کسی نے بھی جواب نہ دیا تو سب کے سب گنہگار ہوں گے۔ سلام کرنے والے کو چاہیے کہ بلند آواز میں سلام کرے تاکہ سامنے والا سن لے، جواب دینے والے کو بھی چاہیے کہ باآواز بلند جواب دے تاکہ سلام کرنے والا سُن لے اور سلام سن کر اس کا فوراً جواب دے۔ بغیر شرعی عذر کے دیر سے سلام کا جواب دینے سے جواب نہ ہوگا اور گناہ گار بھی ہوگا۔

جب اپنے گھر میں داخل ہوں تو گھر والوں بیوی، بچوں کو سلام کریں، اس سے اتحاد و اتفاق پیدا ہوگا اور رزق میں خیر و برکت ہوگی۔ جب خالی گھر جائیں تو السلام علیک ایھا النبی کہیں، جب قبرستان جائیں تو ’’السلام علیکم یا اہل القبور کہیں۔ جب دو مومن آپس میں ملاقات کریں تو سلام کرنے کے بعد ہاتھ ملانا بھی سنت ہے، مگر مرد مرد سے ملائے اور عورت عورت سے ملائے۔ مرد و عورت کا ہاتھ ملانا یا مصافحہ کرنا گناہ ہے۔ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا ’’میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔‘‘اکیلی بوڑھی عورت کو سلام کرنا سنت ہے۔ اجنبی جوان عورت کو سلام کرنا منع ہے، اس سے فتنے کا اندیشہ ہے۔ عورتیں آپس میں جب ملیں تو ان کے درمیان سلام کے وہی احکام ہیں جوکہ مردوں کے آپس میں ملنے کے ہیں۔

سلام کرنا کب منع ہے؟

جو بھی شخص رفع حاجت کر رہا ہو، اسے سلام کرنا منع ہے۔ ایسے ہی جو شخص نماز پڑھ رہا ہو یا غسل کررہا ہو، برہنہ ہو اس کو سلام کرنا منع ہے۔ اسی طرح کوئی کھانا کھا رہا ہو، دینی سبق پڑھ رہا ہو یا سو رہا ہو ان سب حالتوں میں سلام کرنا ممنوع ہے۔ یوں ہی خطبے کے وقت، اذان یا تکبیر کے وقت سلام کرنا منع ہے۔ سلام اسے کیا جائے جو جواب دیتا بھی ہو اور سلام سنتا بھی ہو، جیسے سوتے ہوئے، غائب یا بہرا ہو اسے سلام کرنا منع ہے اور جو سلام تو سنتا ہو مگر جواب نہ دے سکتا ہو، جیسے نماز یا استنجے میں مصروف شخص اس کو بھی سلام کرنا منع ہے۔ یوں ہی جو سلام سنتا بھی ہے جواب بھی دے سکتا ہے مگر پھر بھی سلام کا جواب نہیں دیتا اسے بھی سلام کرنا منع ہے۔ (فتاویٰ عالم گیری)

صحابۂ کرامؓ نے جب آپؐ کی زبان مبارک سے سلام کی یہ تاکید اور فضیلت سنی تو ان کا معمول ہوگیا تھا کہ وہ آپس میں کثرت سے سلام کرتے، یہاں تک کہ اگر ان کے درمیان ایک دیوار کی اُوٹ حائل ہوجاتی تو بھی جب دوبارہ سامنا ہوجاتا تو بلاتکلف سلام کرتے۔ایسا اس لیے تھا کہ صحابۂ کرام نیکیوں کے حریص تھے، انھوں نے آپؐ کی زبانِ مبارک سے سن رکھاتھا کہ ’’السلام علیکم‘‘ کہنے پر دس نیکی ملتی ہے اور’’رحمۃ اللہ‘‘ کہنے پر بیس نیکی اور ’’وبرکاتہ‘‘ کہنے پر تیس نیکی ملتی ہے۔ اسی لیے سلام کے آداب میں سے ہے کہ سلام کی ابتدا کرنے والا ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘‘ کہے اور جواب دینے والا بھی ’’وعلیکم السلام رحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہے۔ اور ایسا کہنا مستحب ہے۔لہذا مسلمان شخص کو سلام پھیلانے کا حریص ہونا چاہیے، اس کا اہتمام کرنا چاہیے اوراس سے شرم نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ نیکی اور ایمان میں بڑھوتری کا سبب ہے اورجنت میں داخلہ کا بھی سبب و ذریعہ ہے۔علمائے کرام فرماتے ہیں کہ سلام اگرچہ ایک ہی آدمی کو کرے مگر ’’علیکم‘‘ جمع کی ضمیر استعمال کرے کیوں کہ ہر شخص کے ساتھ فرشتے ہوتے ہیں جیسے کراماً کاتبین اور محافظ فرشتے۔ جمع کا صیغہ استعمال کرنے سے ان فرشتوں کو بھی سلام ہو جاتا ہے۔سلام کی اہمیت اور اس کے ثمرات ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہم شعوری طورپر اس سنتِ مطہرہ کا اپنی زندگی میں خود بھی اہتمام کریں۔ اور اپنے دوست و احباب، ماتحتوں اور لواحقین کو بھی وقتاً فوقتاً تاکید کرتے رہیں۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین

Hadith 18 Hadees 18 Salam ko Aam Karne ki Ahmiyat Importance of Generalizing Greetings Umar Gallery ویڈیو

Please watch full video, like and share Hadith 18 Hadees 18 Salam ko Aam Karne ki Ahmiyat Importance of Generalizing Greetings Umar Gallery. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 08:54

https://youtu.be/TJr1ioLxowE

سلام کو عام کرنے کی اہمیت

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ))لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلَاأَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ( رواه مسلم )

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ !ﷺ نےفرمایا:’’تم جنت میں نہیں جاوگے یہاں تک کہ ایمان لے ؤ اورتم اس وقت تک )کامل ایمان والے نہیں بنو گے یہاں تک کہ آ پس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگ جاؤ۔ کیامیں تمھیں ایسی چیز کی طرھ نہ رہنمائی کروں کہ جب تم اسے کرنے لگو تو تم پس میں محبت کرنے والے بن جاؤ ؟ تم آ پس میں سلام کو عام کرو۔‘‘ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
اس حدیث شریف میں ہمیں ایک نہایت ہی اہم بات کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم آپس میں محبت کرنے والے بن جائیں۔ نبی کریم ﷺ نےہمیں بتلایا ہے کہ ہم اس وقت تک جنت میں نہیں داخل ہوں گے جب تک کہ ایمان والے نہ بن جائیں اور ہم حقیقی ایمان والے اسی وقت بن سکتے ہیں جب ہم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگ جائیں۔
سلام کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔ سلام اسلام کا شعار ہے۔ ایک مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کو سلام کرکے اس سے دلی محبت کا اظہار کرتا ہے۔ اسی طرح جس کو سلام کیاگیاہے وہ بھی جواب دے کر سلام کرنے والے سے محبت کااظہار کرتا ہے۔ سلام صرف اسلام کا شعار ہی نہیں ہے بلکہ ایک اہم دینی واخلاقی فریضہ بھی ہے۔
اس حدیث سے جہاں ایک طرف یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سلام اہل ایمان کے درمیان محبت بڑھانے کا اہم ذریعہ ہے۔ اور آپس میں جب محبت بڑھے گی تو ایمان میں پختگی آئے گی۔ اور جب ایمان پختہ ہوگا تو جنت میں داخلہ آسان ہوجائے گا۔ وہیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ سلام ہر خاص وعام کو کرنا چاہیے۔ سلام کو کسی طبقے یہ ہم منصب لوگوں کے درمیان محدود نہیں کرنا چاہیے۔
دنیا کے ہر مذہب و ملت میں ہر قوم نے بوقت ملاقات کچھ الفاظ اور طریقے مقرر کر لیے ہیں چناں چہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ جب آپس میں ملتے تھے تو ’’حیاک اللہ‘‘ یعنی اللہ تجھے زندہ رکھے کے الفاظ ایک دوسرے کو کہتے تھے۔ ہندو آپس میں ملاقات کے وقت ’’نمستے‘‘ کہتے ہیں۔ عیسائی یا انگریزوں کے ہاں وقت کے حساب سے الفاظ ادا کیے جاتے ہیں۔ مثلًا صبح میں گڈ مارننگ، شام میں گڈایوننگ اور رات میں گڈ نائٹ کے الفاظ کہے جاتے ہیں۔ سکھ لوگ ’’جے گرو‘‘ کے الفاظ بولتے ہیں۔السلام علیکم میں دین و دنیا کی سلامتی کی دعا ہے اور ظاہر ہے کہ سلامتی کی دعا زندگی کی دعا سے زیادہ جامع ہے یعنی دنیا میں یا مرتے وقت، قبر میں یا حشر میں ہر جگہ ہر آفت سے بچے رہو، سلامت رہو، نیز بغیر سلامتی کے زندگی عذاب بن جاتی ہے۔
سلام نہایت جامع دعائیہ کلمہ ہے کہ یہ کلمہ پیار ومحبت اوراکرام کے اظہار کے لیے بہترین لفظ ہے اوراس کی کئی معنوی خصوصیات ہیں:سلام اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے ہے۔ اس کلمہ میں صرف اظہارِ محبت ہی نہیں؛ بلکہ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ تمام آفات اور آلام سے محفوظ رکھیں۔یہ کلمہ اپنے سے چھوٹوں کے لیے شفقت، مرحمت اور پیار ومحبت کا کلمہ بھی ہے اور بڑوں کے لیے اکرام وتعظیم کا لفظ بھی۔سلام کرنے میں پہل کرے؛ اس لیے کہ سلام میں پہل کرنے سے عاجزی وتواضع پیداہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کو بندوں سے تواضع نہایت محبوب ہے۔
ایک مرتبہ حضور نبی اکرمؐ صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے حاضر ہوکر اس طرح سلام کیا۔ السلام علیکم، حضور نبی اکرمؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا اس کے لیے 10 نیکیاں ہیں۔ پھر دوسرا شخص حاضر ہوا اور اس طرح سلام کیا ’’السلام علیکم و رحمۃاللہ‘‘ آپؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا اس کے لیے 20 نیکیاں ہیں۔ پھر تیسرا شخص حاضر ہوا اور اس طرح سلام کیا ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکۃ‘‘ حضور نبی اکرمؐ نے اس کے بھی سلام کا جواب دیا اور فرمایا اس کے لیے 30 نیکیاں ہیں۔ (ترمذی و ابو داؤد)
سلام کرنا سنت کفایہ ہے۔مگر اس کا جواب دینا فرض ہے۔ سلام کے جواب میں بہتر جواب دینا مستحب ہے اور برابر کا جواب دینا واجب ہے۔ اگر جماعت میں سے کسی ایک نے بھی سلام کرلیا تو سب کی طرف سے ادا ہوگیا۔ اگر پوری جماعت میں سے کسی نے بھی نہ کیا تو سب سنت کے تارک ہوں گے۔ اسی طرح کسی نے اگر سلام کیا پوری جماعت میں سے کسی ایک نے بھی جواب دے دیا تو سب کی طرف سے ادا ہوگیا لیکن اگر پوری جماعت میں سے کسی نے بھی جواب نہ دیا تو سب کے سب گنہگار ہوں گے۔ سلام کرنے والے کو چاہیے کہ بلند آواز میں سلام کرے تاکہ سامنے والا سن لے، جواب دینے والے کو بھی چاہیے کہ باآواز بلند جواب دے تاکہ سلام کرنے والا سُن لے اور سلام سن کر اس کا فوراً جواب دے۔ بغیر شرعی عذر کے دیر سے سلام کا جواب دینے سے جواب نہ ہوگا اور گناہ گار بھی ہوگا۔
جب اپنے گھر میں داخل ہوں تو گھر والوں بیوی، بچوں کو سلام کریں، اس سے اتحاد و اتفاق پیدا ہوگا اور رزق میں خیر و برکت ہوگی۔ جب خالی گھر جائیں تو السلام علیک ایھا النبی کہیں، جب قبرستان جائیں تو ’’السلام علیکم یا اہل القبور کہیں۔ جب دو مومن آپس میں ملاقات کریں تو سلام کرنے کے بعد ہاتھ ملانا بھی سنت ہے، مگر مرد مرد سے ملائے اور عورت عورت سے ملائے۔ مرد و عورت کا ہاتھ ملانا یا مصافحہ کرنا گناہ ہے۔ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا ’’میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔‘‘اکیلی بوڑھی عورت کو سلام کرنا سنت ہے۔ اجنبی جوان عورت کو سلام کرنا منع ہے، اس سے فتنے کا اندیشہ ہے۔ عورتیں آپس میں جب ملیں تو ان کے درمیان سلام کے وہی احکام ہیں جوکہ مردوں کے آپس میں ملنے کے ہیں۔
سلام کرنا کب منع ہے؟:جو بھی شخص رفع حاجت کر رہا ہو، اسے سلام کرنا منع ہے۔ ایسے ہی جو شخص نماز پڑھ رہا ہو یا غسل کررہا ہو، برہنہ ہو اس کو سلام کرنا منع ہے۔ اسی طرح کوئی کھانا کھا رہا ہو، دینی سبق پڑھ رہا ہو یا سو رہا ہو ان سب حالتوں میں سلام کرنا ممنوع ہے۔ یوں ہی خطبے کے وقت، اذان یا تکبیر کے وقت سلام کرنا منع ہے۔ سلام اسے کیا جائے جو جواب دیتا بھی ہو اور سلام سنتا بھی ہو، جیسے سوتے ہوئے، غائب یا بہرا ہو اسے سلام کرنا منع ہے اور جو سلام تو سنتا ہو مگر جواب نہ دے سکتا ہو، جیسے نماز یا استنجے میں مصروف شخص اس کو بھی سلام کرنا منع ہے۔ یوں ہی جو سلام سنتا بھی ہے جواب بھی دے سکتا ہے مگر پھر بھی سلام کا جواب نہیں دیتا اسے بھی سلام کرنا منع ہے۔ (فتاویٰ عالم گیری)
صحابۂ کرامؓ نے جب آپؐ کی زبان مبارک سے سلام کی یہ تاکید اور فضیلت سنی تو ان کا معمول ہوگیا تھا کہ وہ آپس میں کثرت سے سلام کرتے، یہاں تک کہ اگر ان کے درمیان ایک دیوار کی اُوٹ حائل ہوجاتی تو بھی جب دوبارہ سامنا ہوجاتا تو بلاتکلف سلام کرتے۔ایسا اس لیے تھا کہ صحابۂ کرام نیکیوں کے حریص تھے، انھوںنے آپؐ کی زبانِ مبارک سے سن رکھاتھا کہ ’’السلام علیکم‘‘ کہنے پر دس نیکی ملتی ہے اور’’رحمۃ اللہ‘‘ کہنے پر بیس نیکی اور ’’وبرکاتہ‘‘ کہنے پر تیس نیکی ملتی ہے۔ اسی لیے سلام کے آداب میں سے ہے کہ سلام کی ابتدا کرنے والا ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘‘ کہے اور جواب دینے والا بھی ’’وعلیکم السلام رحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہے ۔ اور ایسا کہنا مستحب ہے۔لہذا مسلمان شخص کو سلام پھیلانے کا حریص ہونا چاہیے، اس کا اہتمام کرنا چاہیے اوراس سے شرم نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ نیکی اور ایمان میں بڑھوتری کا سبب ہے اورجنت میں داخلہ کا بھی سبب و ذریعہ ہے۔علمائے کرام فرماتے ہیں کہ سلام اگرچہ ایک ہی آدمی کو کرے مگر ’’علیکم‘‘ جمع کی ضمیر استعمال کرے کیوں کہ ہر شخص کے ساتھ فرشتے ہوتے ہیں جیسے کراماً کاتبین اور محافظ فرشتے۔ جمع کا صیغہ استعمال کرنے سے ان فرشتوں کو بھی سلام ہو جاتا ہے۔سلام کی اہمیت اور اس کے ثمرات ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہم شعوری طورپر اس سنتِ مطہرہ کا اپنی زندگی میںخود بھی اہتمام کریں۔اور اپنے دوست و احباب ، ماتحتوں اور لواحقین کو بھی وقتاً فوقتاً تاکید کرتے رہیں۔اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین