ماہ محرم کے پہلے عشرہ کی فضیلت
سنگ میل ۔ عبدالحفیظ امیرپوری (شمارہ 561)
تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں اس پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں ’’ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب‘‘ میں ہر عبادت کا ثواب اور دنوں سے زیادہ ہوتا ہے اور ان میں اگر کوئی گناہ کرے، تو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہے۔ (معارف القران)
امام جصاصؒ احکام القران میں فرماتے ہیں:
’’اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ان متبرک مہینوں کا خاصہ یہ ہے کہ ان میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے، اس کو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اور ہمت ہوتی ہے۔ اسی طرح جو شخص کوشش کر کے ان مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برے کاموں سے بچالے، توسال کے باقی مہینوں میں اس کو ان برائیوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان مہینوں سے فائدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے۔‘‘ (معارف احکام القرآن)
علامہ ابن رجبؒ فرماتے ہیں:
’’ہمارے اسلاف تین عشروں کی بہت عظمت ولحاظ کرتے تھے۔ ایک رمضان المبارک کا آخری عشرہ، دوسرا ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور تیسرا محرم الحرام کا پہلا عشرہ۔ بعض نے کہا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیس دن کے بعد چالیس دن کی تکمیل کے لیے جن دس دنوں کا اضافہ کیا تھا، وہ یہی محرم الحرام کے دس دن تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دس محرم الحرام کے دن باری تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محرم الحرام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمانا، اس کے شرف اور خصوصی فضیلت پر دالّ ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی مخلوق کی نسبت ہی اپنی طرف فرماتا ہے۔‘‘ (لطائف المعارف)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’قریش زمانۂ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، تا آنکہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے، (تو یومِ عاشوراء کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (اب) جس کا جی چاہے یومِ عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔ (بخاری، مسلم)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا، تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک نیک اور اچھا دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن یعنی فرعون سے نجات دی تھی، اسی لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر ہم موسیٰ سے تمہاری بنسبت زیادہ قریب ہیں اور اس کے تم سے زیادہ مستحق ہیں، چنانچہ آپ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم دیا۔(بخاری، مسلم)
اس سے قبل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت گزر چکی کہ مشرکینِ قریش زمانۂ جاہلیت ہی سے اس دن روزہ رکھتے تھے، غالباً یہ کسی نبی اللہ کی باقیات میں سے ہوگا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے انصار کو بھی اس کا حکم دیا تھا۔ روایتوں میں یہ بھی ہے کہ عیسائی بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ شریعتوں میں اس دن کا روزہ مشروع تھا۔ (تفہیم البخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا، تو آپﷺنے ارشاد فرمایا:
عاشوراء کا روزہ، گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ (مسلم، ابو داؤد)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ عاشوراء میں روزہ رکھنے کو اپنا اصول ومعمول بنایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا، تو بعض صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس دن کو تو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (گویا یہ ان کا قومی ومذہبی شعار ہے) اور خاص اس دن ہمارے روزہ رکھنے سے ان کے ساتھ اشتراک اور تشابہ ہوتا ہے، تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے، جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات باقی نہ رہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان شاء اللہ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں محرم کو بھی روزہ رکھیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ لیکن آئندہ سال ماہِ محرم آنے سے قبل ہی رسول اللہﷺوفات پاگئے۔ (مسلم، ابن ماجہ)
اسی لیے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ اور اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد یعنی نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا مستحب ہے اور صرف عاشوراء کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی ہے، اس لیے کہ اس میں یہود کی مشابہت ہے۔ (شامی،نصب الرایہ)
البتہ حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ فرماتے ہیں:
ہمارے زمانہ میں چونکہ یہود ونصاریٰ وغیرہ یومِ عاشوراء کا روزہ نہیں رکھتے، بلکہ ان کا کوئی کام بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا، اس لیے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں، لہٰذا فی زماننا رفعِ تشابہ کے لیے نویں یا گیارہویں کے روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے۔
اس ماہ مبارک کی فضیلت ایک یہ بھی ہے کہ اسلامی کلینڈرکاآغاز اسی مہینے سے ہوتاہے۔ اسلامی سال کی ابتداء پر دور فاروقی میں مشاورت ہوئی، آراء کاتبادلہ ہوا، کئی ایک تجاویزسامنے آئیں، مثلًاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یوم ولادت سے سال کاآغازکیاجائے۔ ایک رائے یہ سامنے آئی کہ بعثت کے واقعے کو بنیاد بنایاجائے، مگربحث ومباحثے اور غور وفکر کے بعد اور معاملے کی حساسیت کومدنظررکھتے ہوئے بالآخرتمام تجاویزمستردہوئیں اور اس پرسب صحابہ کااتفاق ہواکہ ہجرت کے واقعے سے اسلامی سال کاآغاز کیاجائے۔ البتہ پہلا مہینہ ماہِ محرم کو ہی برقرار رکھا گیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اس ماہ مبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بدعات اور رسومات سے ہماری حفاظت فرمائیں۔ آمین
٭…٭…٭