ماہِ صفر کا بیان
ارشاد فرمایا حق تعالیٰ شانہ نے کہ بے شک مہینوں کا ہٹانا کفر میں ترقی (کا باعث) ہے۔ (یعنی منجملہ اور کفریات کے یہ حرکت بھی کفر ہے جو کفارِ قریش ماہِ محرم وغیرہ کے متعلق کیا کرتے تھے۔ مثلاً: اپنی غرض سے محرم کو صفر قرار دے کر اس میں لڑائی کو حلال کہہ دیتے تھے۔ وغیر ذلک۔)
اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ نہ (مرض کا) تعدیہ ہے (بلکہ جس طرح اولاً حق تعالیٰ شانہ کسی کو مریض بناتے ہیں، اسی طرح دوسرے کو اپنے مستقل تصرف سے مریض کردیتے ہیں۔ میل جول وغیرہ سے کوئی مرض کسی کو نہیں لگتا یہ سب وہم ہے) اور نہ (جانور اُڑنے سے) بد شگونی لینا کوئی چیز ہے (جیسا کہ لوگوں میں مشہور ہے کہ دا ہنی جانب سے تیتر وغیرہ اُڑے تو اس کو اچھا سمجھتے ہیں اور بائیں جانب سے اڑے تو منحوس جانتے ہیں، یہ سب ڈھکوسلے ہیں) اور نہ اُلّوکی نحوست کوئی چیز ہے (جیسا کہ عام طور پر اس کو لوگ منحوس خیال کرتے ہیں) اور نہ صفر کی نحوست کوئی چیزہے۔1
فائدہ: آج کل بھی بہت جگہ ماہ ِصفر کو منحوس سمجھتے ہیں، یہ بالکل من گھڑت بات ہے اور حدیث شریف کے صریح خلاف ہے، اور اس کی نحوست سے محفوظ رہنے کے واسطے تیرھویں تاریخ کو گھونگنیاں تقسیم ہوتی ہیں۔ اس کا بناء الفاسد علی الفاسد ہونا ظاہر ہی ہے۔ اور اگر کسی کو نحوست کا خیال نہ ہو تب بھی گھونگنیاں پکانا مباح میں التزام اور پابندی کی وجہ سے بدعت اور گمراہی تو ہے ہی۔ (کما لا یخفی) اور ایک رسم اس ماہ میں آخری چہار شنبہ کی مروجہ ہے یہ بھی بالکل بے اصل اور بدعتِ سیّئہ ہے۔
اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ بد فالی ایک شرک ہے۔ اس کو تین مرتبہ فرمایا۔ اور ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ ہم میں ایسا کوئی نہیں جس کو خیال نہ آتا ہو، لیکن اس کو توکل کے ذریعہ بھگا دیتا ہے۔2
فائدہ: جوبات مشہور ہو اس کا خیال وقت پر ہی آجاتا ہے، لیکن اُس خیال پر عمل کرنا یا اس کو دل میں جمانا جائز نہیں ہے، بلکہ تو کّل کے خیال کو غالب کرے تو وہ خیالِ باطل فوراً رفع دفع ہوجائے گا۔
اور رسولِ خدا ﷺ سے عورت اور مکان اور گھوڑے میں نحوست ہونا جو ’’بخاری‘‘ و’’ مسلم‘‘ میں مروی ہے اس کے
معنی یہ ہیں کہ اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو اُن میں ہوتی۔3
بعض مقامات پر صفر کے آخری چہار شنبہ کو تہوار مناتے ہیں اور ایک عیدی بھی دیتے ہیں جس کا یہ مضمون ہے:
آخری چہار شنبہ آیا ہے
غسلِ صحت نبی نے پایا ہے
اور مکتبوں میں چھٹی بھی ہوتی ہے، سویہ سب ایجاد فی الدّین ہے۔
لطیفہ:ایک نواب زادے نے اپنے معلّم سے جوکہ محقق تھے اس تاریخ میں عیدی مانگی، انھوں نے عیدی کے پیرایہ میں اس رسم کی خوب نفی کی ہے:
آخری چہار شنبہ ماہِ صفر
ہست چوں چہار شنبہ ہائے دگر
نہ حدیثی شدہ در آں وارد
نہ در وعید کرد پیغمبر
اضافہ بر مضمون سابق:بعض کتبِ تصوّف میں ایک حدیث لکھ دی ہے کہ
مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرٍ بَشَّرْتُہٗ بِالْجَنَّۃِ۔
یعنی حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مجھ کو ماہ صفر کے گزرنے کی بشارت دے گا میں اس کو جنت کی بشارت دوں گا۔
آہ! اس سے بعض نے اس ماہ کی نحوست پر استدلال کیا ہے۔ مگر یہ دلیل ثبوتاً و دلالۃً دونوں طرح مخدوش ہے۔ یعنی نہ تو یہ حدیث ثابت ہے اور نہ ہی اس مضمون پر دال ہے۔ اس کا مدلول بر تقدیر قطع نظر ازعدم ثبوت یہ ہے کہ آپﷺ کی وفات ماہِ ربیع الاوّل میں ہونے والی تھی اور آپ لقاء اللہ مسبوق بالموت کے مشتاق تھے اور اس وجہ سے ربیع الاوّل کی ابتدا اور صفر کے انقضا کی خبر کا آپ ﷺ کو انتظار تھا۔
پس اس خبر کے لانے پر آپ ﷺ نے بشارت کو مرتب فرمایا۔ چناں چہ کتبِ تصوّف میں اسی مقصود کے اثبات و تائید کے لیے اس کو وارد کیا ہے۔ بہر حال یہ دلیل ثابت ہے اور نہ اس کی دلالت ثابت ہے۔ پس دعوائے نحوست منہدم و منعدم ہوگیا۔