داڑھی

“داڑھی تو شیطان کی بھی ہے” کہنے والا کیا مسلمان رہتا ہے؟

س… ہماری مسجد میں مستقل پانچ نمازوں کے لئے اِمام صاحب ضعیف العمر ہونے کی وجہ سے نہیں آسکتے، یعنی فجر اور عشاء میں غیرحاضر ہوتے ہیں۔ ان نمازوں میں انتظامیہ کے صدر صاحب اپنی مرضی سے کسی بھی شخص کو نماز پڑھانے کی دعوت دیتے ہیں، خاص کر فجر میں۔ جبکہ وہ خود بھی بغیر داڑھی کے ہیں اور کبھی خود پڑھاتے ہیں، اَذان و اِقامت بھی خود کرتے ہیں، اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ جن حضرات کو وہ نماز پڑھانے کی دعوت دیتے ہیں یا تو وہ بغیر داڑھی کے ہوتے ہیں یا پھر داڑھی کتروانے والے صاحب ہوتے ہیں۔ جس پر میں نے اعتراض کیا کہ داڑھی کترنے، یعنی مشت سے کم یا بغیر داڑھے والے دونوں کے پیچھے نمازنہ پڑھی جائے جبکہ باشرع سنت کے مطابق داڑھی والے موجود ہیں اور دِین کا علم بھی ہے تو پھر کوئی گنجائش نہیں۔ جن صاحب کو نماز پڑھانے سے منع کیا تھا کہ آپ کی داڑھی کتری ہوئی ہے، نماز پڑھتے وقت آپ کے ٹخنے بھی ننگے نہیں ہوتے، آپ نماز پڑھانے کے اہل نہیں تو ان صاحب نے جتنی داڑھی تھی وہ بھی یہ کہتے ہوئے کٹوادی کہ مجھے پہلے سے ہی داڑھی والوں سے نفرت ہے اور اعلاناً داڑھی کٹوائی، صاف کردی۔ اس شخص کے لئے اسلام میں کیا مقام ہے؟ اور یہ کہنا کہ داڑھی شیطان کی بھی ہے اور تم بھی شیطان ہو، یعنی داڑھی والے شخص سے کہنا، ایسے شخص کے بارے میں شریعت کیا حکم دیتی ہے؟ اور اسی تنازع کی وجہ سے جماعت ہورہی ہوتی ہے اور کچھ لوگ صف میں کھڑے ہوکر جب اِمام تکبیر کہتا ہے الگ ہوجاتے ہیں، آیا ان کا الگ نماز پڑھنا دُرست ہے؟ نماز ہوجاتی ہے؟

ج… اس سوال کے جواب میں چند اُمور عرض کرتا ہوں۔

اوّل:… داڑھی منڈانا اور کترانا (جبکہ ایک مشت سے کم ہو) تمام فقہاء کے نزدیک حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اور داڑھی منڈانے اور کترانے والا فاسق اور گناہگار ہے۔

دوم:… فاسق کی اَذان و اِقامت اور اِمامت مکروہِ تحریمی ہے، یہ مسئلہ فقہِ حنفی کی تقریباً تمام کتابوں میں درج ہے۔

سوم:… ان صاحب کا ضد میں آکر داڑھی صاف کرادینا اور یہ کہنا کہ: “مجھے پہلے ہی داڑھی والوں سے نفرت ہے” یا یہ کہ: “داڑھی تو شیطان کی بھی ہے” نہایت المناک بات ہے۔ یہ شیطان کی طرف سے چوکا ہے، شیطان کسی مسلمان کے صرف گناہگار رہنے پر راضی نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مسلمان اپنے کئے پر ندامت کے آنسو بہاکر سارے گناہ معاف کرالیتا ہے، اس لئے وہ کوشش کرتا ہے کہ اسے گناہ کی سطح سے کھینچ کر کفر کی حد میں داخل کردے، وہ گناہگار کو چوکا دے کر اُبھارتا ہے اور اس کے منہ سے کلمہٴ کفر نکلواتا ہے۔

ذرا غور کیجئے! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کو ایک حکم فرماتے ہیں کہ داڑھی بڑھاوٴ اور مونچھیں صاف کراوٴ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم سن کر اگر کوئی شخص کہے کہ: “مجھے تو داڑھی والوں سے نفرت ہے” یا یہ کہے کہ: “داڑھی تو شیطان کی بھی ہے” کیا ایسا کہنے والا مسلمان ہے؟ یا کوئی مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا جواب دے سکتا ہے؟ داڑھی والوں میں تو ایک لاکھ بیس ہزار (کم و بیش) انبیاء علیہم السلام بھی شامل ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور اولیائے عظام بھی ان میں شامل ہیں، کیا ان سب سے نفرت رکھنے والا مسلمان ہی رہے گا؟

میں جانتا ہوں کہ ان صاحب کا مقصد نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو رَدّ کرنا ہوگا نہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام، صحابہ کرام اور اولیائے کرام سے نفرت کا اظہار کرنا ہوگا، بلکہ یہ ایک ایسا لفظ ہے جو غصّے میں اس کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا، یا زیادہ صحیح لفظوں میں، شیطان نے اشتعال دِلاکر اس کے منہ سے نکلوادیا، لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ الفاظ کتنے سنگین ہیں اور ان کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ اس لئے میں ان صاحب سے گزارش کروں گا کہ وہ ان الفاظ سے توبہ کریں اور چونکہ ان الفاظ سے اندیشہٴ کفر ہے اس لئے ان صاحب کو چاہئے کہ اپنے ایمان اور نکاح کی بھی احتیاطاً تجدید کرلیں، فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

“جن الفاظ کے کفر ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہو ان کے قائل کو بطورِ احتیاط تجدیدِ نکاح اور توبہ کا اور اپنے الفاظ واپس لینے کا حکم کیا جائے گا۔”

چہارم:… آپ کا یہ مسئلہ بتانا تو صحیح تھا، لیکن آپ نے مسئلہ بتاتے ہوئے انداز ایسا اختیار کیا کہ ان صاحب نے غصّے اور اشتعال میں آکر کلمہٴ کفر منہ سے نکال دیا، گویا آپ نے اس کو گناہ سے کفر کی طرف دھکیل دیا، یہ دعوت، حکمت کے خلاف تھی، اس لئے آپ کو بھی اس پر اِستغفار کرنا چاہئے اور اپنے مسلمان بھائی کی اصلاح کے لئے دُعا کرنی چاہئے، اس کو اِشتعال دِلاکر اس کے مقابلے پر شیطان کی مدد نہیں کرنی چاہئے۔

“مجھے داڑھی کے نام سے نفرت ہے” کہنے والے کا شرعی حکم

س… میں ایک تقریب میں گیا تھا، وہاں ایک لڑکی کے رشتے کی بابت باتیں ہو رہی تھیں، لڑکی کی والدہ نے فرمایا کہ: “یہ رشتہ مجھے منظور نہیں ہے، اس لئے کہ لڑکے کے داڑھی ہے۔” جب یہ کہا گیا کہ لڑکا آفیسر گریڈ کا ہے، تعلیم یافتہ ہے اور داڑھی تو اور بھی اچھی چیز ہے، اس زمانے میں راغب بہ اسلام ہے۔ تو فرمایا کہ: “مجھے داڑھی کے نام سے نفرت ہے” آپ فرمائیں کہ داڑھی کی یہ تضحیک کہاں تک دُرست ہے؟ کیا ایسا کہنے والا گناہگار نہیں ہوا؟ اور اگر ہوا تو اس کا کفارہ کیا ہے اور گناہ کا درجہ کیا ہے؟

ج… داڑھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے رکھنے کا حکم فرمایا، داڑھی منڈے کے لئے ہلاکت کی بددُعا فرمائی اور اس کی شکل دیکھنا گوارا نہیں فرمایا۔ اس لئے داڑھی رکھنا شرعاً واجب ہے اور اس کا منڈانا اور ایک مشت سے کم ہونے کی صورت میں اس کا کاٹنا تمام اَئمہ دِین کے نزدیک حرام ہے۔

جو مسلمان یہ کہے کہ: “مجھے فلاں شرعی حکم سے نفرت ہے” وہ مسلمان نہیں رہا، کافر مرتد بن جاتا ہے۔ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل سے نفرت کرے وہ مسلمان کیسے رہ سکتا ہے․․․؟ یہ خاتون کسی داڑھی والے کو اپنی لڑکی دے یا نہ دے، مگر اس پر کفر سے توبہ کرنا اور ایمان کی اور نکاح کی تجدید کرنا لازم ہے۔

داڑھی کا جھولا بنے ہوئے کارٹون سے شعائرِ اسلامی کی توہین

س… اس خط کے ساتھ بندہ ایک کارٹون کوپن بھیج رہا ہے جس میں دو آدمیوں کے پاوٴں تک داڑھیاں بنائی گئی ہیں اور دُوسری جگہ اس کا جھولا بناکر ایک بچی اس پر جھول رہی ہے۔ یہ کارٹون عام کرنے کے لئے مشہور ٹافیوں کے کارخانے نے ٹافیوں میں لپیٹ دیا ہے، ایک عام مسلمان کے یہ دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ شعائرِ اسلام کی یہ بے حرمتی اور بے عزّتی اور پھر ایسے ملک میں جہاں “اسلام، اسلام” کہتے تھکتے نہیں۔ بدقسمی سے پاکستانی قانون میں جو گندگی کے ڈھیر یعنی انگریزی قانون کا بدلا ہوا نام ہے، کوئی آرڈی نینس موجود نہیں جو شعائرِ اسلام کو تحفظ دے سکے، ورنہ اس کمپنی کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی۔ ہم افسوس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرسکتے اور اپنا کام صرف لکھنے اور بولنے تک محدود رکھتے ہیں کہ یہ بھی ایمان کا دُوسرا درجہ ہے۔ لہٰذا میرے یہ جذبات قارئین تک پہنچائیں اور اگر کرسکیں تو اس کمپنی کے خلاف کارروائی کریں تاکہ پھر کوئی شعائرِ اسلام کا اس طرح مذاق نہ اُڑائے۔

ج… یہ اسلامی شعائر کی صریح بے حرمتی ہے، تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ ایسے ناہنجار شریروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لئے ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ہے کہ ان کے خلاف انضباطی کارروائی کریں۔ شعائرِ اسلام کی تضحیک کفر ہے اور ایک اسلامی ملک میں ایسے کفر کی کھلی چھٹی دینا غضبِ الٰہی کو دعوت دینا ہے۔

اکابرینِ اُمت نے داڑھی منڈانے کو گناہِ کبیرہ شمار کیا ہے

س… اکابرینِ اُمت میں مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے اپنی اپنی کتابوں میں داڑھی منڈوانے کو گناہِ کبیرہ کی فہرست میں شامل کیوں نہیں کیا؟

ج… حضرت تھانوی “امداد الفتاویٰ” (ج:۴ ص:۲۲۳) میں لکھتے ہیں:

“داڑھی رکھنا واجب اور قبضے سے زائد کٹانا حرام ہے۔”

نوٹ:… یہاں “قبضے سے زائد کٹانے” سے مراد یہ ہے کہ جس کی داڑھی قبضے سے زائد ہو اس کو قبضے سے زائد حصے کا کٹانا تو جائز ہے، اور اتنا کٹانا کہ جس کی وجہ سے داڑھی قبضے سے کم رہ جائے، یہ حرام ہے۔

اور صفحہ:۲۲۱ پر لکھتے ہیں:

“ایک تو داڑھی کا منڈانا یا کٹانا معصیت ہے ہی، مگر اُوپر سے اصرار کرنا اور مانعین سے معارضہ کرنا، یہ اس سے زیادہ سخت معصیت ہے۔”

اور صفحہ:۲۲۲ پر لکھتے ہیں:

“حدیث میں جن افعال کو تغیر خلق اللہ، موجبِ لعن فرمایا ہے، داڑھی منڈوانا یا کٹانا بالمشاہدہ اس سے زیادہ تغیر کا اتباع شیطان ہونا اور اتباع شیطان کا موجبِ لعنت و موجبِ خسران و موجبِ وقوع فی الغرور، موجبِ جہنم ہونا منصوص ہے، اب مذمتِ شدیدہ میں کیا شک رہا ہے؟”

ان عبارتوں میں حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ داڑھی منڈانے اور کٹانے کو حرام، معصیت، موجبِ لعنت، موجبِ خسران اور موجبِ جہنم فرما رہے ہیں، کیا اس کے بعد بھی آپ کا یہ کہنا دُرست ہے کہ حضرت تھانوی نے اس گناہ کو کبیرہ گناہوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا․․․؟

مولانا مفتی محمد شفیع صاحب آیتِ کریمہ: “لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللهِ” کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

“وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے، اور یہ اعمالِ فسق میں سے ہے، جیسے داڑھی منڈانا، بدن گدوانا وغیرہ۔” (معارف القرآن ج:۲ ص:۵۹)

مفتی صاحب کے بقول جب داڑھی منڈانا اعمالِ فسق میں سے ہے، اور داڑھی منڈانے والا فاسق ہے، تو کسی سے پوچھ لیجئے کہ جس گناہ سے آدمی فاسق ہوجائے وہ صغیرہ ہوتا ہے یا کبیرہ؟

“رسالہ داڑھی کا مسئلہ”

س:۱… داڑھی کی شرعی حیثیت کیا ہے، واجب ہے یا سنت؟ اور داڑھی منڈانا جائز ہے یا مکروہ یا حرام؟ بہت سے حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ داڑھی رکھنا ایک سنت ہے، اگر کوئی رکھے تو اچھی بات ہے اور نہ رکھے تب بھی کوئی گناہ نہیں۔ یہ نظریہ کہاں تک صحیح ہے؟

س:۲… شریعت میں داڑھی کی کوئی مقدار مقرّر ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کتنی؟

س:۳… بعض حفاظ کی عادت ہے کہ وہ رمضان مبارک سے کچھ پہلے داڑھی رکھ لیتے ہیں اور رمضان المبارک کے بعد صاف کردیتے ہیں، ایسے حافظوں کو تراویح میں اِمام بنانا جائز ہے یا نہیں؟ اور ان کے پیچھے نماز دُرست ہے یا نہیں؟

س:۴… بعض لوگ داڑھی سے نفرت کرتے ہیں اور اسے نظرِ حقارت سے دیکھتے ہیں، اگر اولاد یا اعزّہ میں سے کوئی داڑھی رکھنا چاہے تو اسے روکتے ہیں اور طعنے دیتے ہیں، اور کچھ لوگ شادی کے لئے داڑھی صاف ہونے کی شرط لگاتے ہیں، ایسے لوگوں کا کیا حکم ہے؟

س:۵… بعض لوگ سفرِ حج کے دوران داڑھی رکھ لیتے ہیں اور حج سے واپسی پر صاف کرادیتے ہیں، کیا ایسے لوگوں کا حج صحیح ہے؟

س:۶… بعض حضرات اس لئے داڑھی نہیں رکھتے کہ اگر ہم داڑھی رکھ کر کوئی غلط کام کریں گے تو اس سے داڑھی والوں کی بدنامی اور داڑھی کی بے حرمتی ہوگی۔ ایسے حضرات کے بارے میں کیا حکم ہے؟

ج:۱… داڑھی منڈانا یا کترانا (جبکہ ایک مشت سے کم ہو) حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اس سلسلے میں پہلے چند احادیث لکھتا ہوں، اس کے بعد ان کے فوائد ذکر کروں گا۔

۱:… “عن عائشة رضی الله عنہا قالت: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: عشر من الفطرة قص الشارب واعفاء اللحیة․” الحدیث۔(صحیح مسلم ج:۱ ص:۱۲۹)

ترجمہ:… “حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: دس چیزیں فطرت میں داخل ہیں، مونچھوں کا کٹوانا اور داڑھی کا بڑھانا ․․․الخ۔”

۲:… “عن ابن عمر رضی الله عنہما عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: احفوا الشوارب واعفو اللّحی۔”

ترجمہ:… “ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: مونچھوں کو کٹواوٴ اور داڑھی بڑھاوٴ۔”

“وفی روایة: انہ أمر باحفاء الشوارب واعفاء اللحیة۔” (صحیح مسلم ج:۱ ص:۱۲۹)

ترجمہ:… “اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مونچھوں کو کٹوانے اور داڑھی کو بڑھانے کا حکم فرمایا۔”

۳:… “عن ابن عمر رضی الله عنہما قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: خالفوا المشرکین، أوفروا اللحٰی واحفوا الشّوارب۔”(متفق علیہ، مشکوٰة ص:۳۸۰)

ترجمہ:… “ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مشرکوں کی مخالفت کرو، داڑھیاں بڑھاوٴ اور مونچھیں کٹاوٴ۔”

۴:… “عن أبی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: جزّوا الشّوارب وارخوا اللحٰی، خالفوا المجوس۔” (صحیح مسلم ج:۱ ص:۱۲۹)

ترجمہ:… “حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مونچھیں کٹواوٴ اور داڑھیاں بڑھاوٴ، مجوسیوں کی مخالفت کرو۔”

۵:… “عن زید بن أرقم رضی الله عنہ أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: من لم یأخذ من شاربہ فلیس منا۔” (رواہ احمد والترمذی والنسائی، مشکوٰة ص:۳۸۱)

ترجمہ:… “زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مونچھیں نہ کٹوائے وہ ہم میں سے نہیں۔”

۶:… “عن ابن عباس رضی الله عنہما قال قال النبی صلی الله علیہ وسلم: لعن الله المتشبھین من الرجال بالنساء والمتشبھات من النساء بالرجال۔”

(رواہ البخاری، مشکوٰة ص:۳۸۰)

ترجمہ:… “حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ کی لعنت ہو ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں، اور اللہ کی لعنت ہو ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں۔”

فوائد:

۱:… پہلی حدیث سے معلوم ہوا کہ مونچھیں کٹانا اور داڑھی بڑھانا انسان کی فطرتِ سلیمہ کا تقاضا ہے، اور مونچھیں بڑھانا اور داڑھی کٹانا خلافِ فطرت ہے، اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ فطرة اللہ کو بگاڑتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے کہ شیطان لعین نے خدا تعالیٰ سے کہا تھا کہ میں اولادِ آدم کو گمراہ کروں گا، اور میں ان کو حکم دُوں گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بگاڑا کریں۔ تفسیر حقانی اور بیان القرآن وغیرہ میں ہے کہ داڑھی منڈانا بھی تخلیقِ خداوندی کو بگاڑنے میں داخل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مردانہ چہرے کو فطرةً داڑھی کی زینت و وجاہت عطا فرمائی ہے۔ پس جو لوگ داڑھی منڈاتے ہیں وہ اغوائے شیطان کی وجہ سے نہ صرف اپنے چہرے کو بلکہ اپنی فطرت کو مسخ کرتے ہیں۔

چونکہ حضراتِ انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہی صحیح فطرتِ انسانی کا معیار ہے، اس لئے فطرت سے مراد انبیائے کرام علیہم السلام کا طریقہ اور ان کی سنت بھی ہوسکتی ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ مونچھیں کٹوانا اور داڑھی بڑھانا ایک لاکھ چوبیس ہزار (یا کم و بیش) انبیائے کرام علیہم السلام کی متفقہ سنت ہے اور یہ وہ مقدس جماعت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے: “أُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللهُ فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہْ” (سورة الانعام:۹۰) اس لئے جو لوگ داڑھی منڈاتے ہیں وہ انبیائے کرام علیہم السلام کے طریقے کی مخالفت کرتے ہیں۔ گویا اس حدیث میں تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ داڑھی منڈانا تین گناہوں کا مجموعہ ہے۔ ۱-انسانی فطرت کی خلاف ورزی، ۲-اغوائے شیطان سے اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بگاڑنا، ۳-اور انبیائے کرام علیہم السلام کی مخالفت۔ پس ان تین وجوہ سے داڑھی منڈوانا حرام ہے۔

۲:… دُوسری حدیث میں مونچھیں کٹوانے اور داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے اور حکمِ نبوی کی تعمیل ہر مسلمان پر واجب اور اس کی مخالفت حرام ہے، پس اس وجہ سے بھی داڑھی رکھنا واجب اور اس کا منڈانا حرام ہوا۔

۳:… تیسری اور چوتھی حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ مونچھیں کٹوانا اور داڑھی رکھنا مسلمانوں کا شعار ہے، اس کے برعکس مونچھیں بڑھانا اور داڑھی منڈانا مجوسیوں اور مشرکوں کا شعار ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو مسلمانوں کا شعار اپنانے اور مجوسیوں کے شعار کی مخالفت کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اسلامی شعار کو چھوڑ کر کسی گمراہ قوم کا شعار اختیار کرنا حرام ہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

“من تشبہ بقوم فھو منھم۔”(جامع صغیر ج:۲ ص:۸)

ترجمہ:… “جو شخص کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہوگا۔”

پس جو لوگ داڑھی منڈاتے ہیں وہ مسلمانوں کا شعار ترک کرکے اہلِ کفر کا شعار اپناتے ہیں، جس کی مخالفت کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا، اس لئے ان کو وعیدِ نبوی سے ڈرنا چاہئے کہ ان کا حشر بھی قیامت کے دن انہی غیرقوموں میں نہ ہو۔ نعوذ باللہ!

۴:… پانچویں حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ مونچھیں نہیں کٹواتے وہ ہماری جماعت میں شامل نہیں، ظاہر ہے کہ یہی حکم داڑھی منڈانے کا ہے، پس یہ ان لوگوں کے لئے بہت ہی سخت وعید ہے جو محض نفسانی خواہش یا شیطانی اغوا کی وجہ سے داڑھی منڈاتے ہیں، اور اس کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے اپنی جماعت سے خارج ہونے کا اعلان فرما رہے ہیں، کیا کوئی مسلمان جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذرا بھی تعلق ہے، اس دھمکی کو برداشت کرسکتا ہے․․․؟

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو داڑھی منڈانے کے گناہ سے اس قدر نفرت تھی کہ جب شاہِ ایران کے قاصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی داڑھیاں منڈی ہوئی اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں:

“فکرہ النظر الیھما، وقال: ویلکما! من امرکما بھٰذا؟ قالا: أمرنا ربنا یعنیان کسریٰ، فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ولٰکن ربّی أمرنی باعفاء لحیتی وقصّ شاربی۔”

(البدایہ والنہایہ ج:۴ ص:۲۷۰، حیاة الصحابہ ج:۱ ص:۱۱۵)

ترجمہ:… “پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف نظر کرنا بھی پسند نہ کیا اور فرمایا: تمہاری ہلاکت ہو! تمہیں یہ شکل بگاڑنے کا کس نے حکم دیا ہے؟ وہ بولے کہ: یہ ہمارے رَبّ یعنی شاہِ ایران کا حکم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیکن میرے رَبّ نے تو مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم فرمایا ہے۔”

پس جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رَبّ کے حکم کی خلاف ورزی کرکے مجوسیوں کے خدا کے حکم کی پیروی کرتے ہیں، ان کو سو بار سوچنا چاہئے کہ وہ قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں کیا منہ دِکھائیں گے؟ اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں کہ: تم اپنی شکل بگاڑنے کی وجہ سے ہماری جماعت سے خارج ہو، تو شفاعت کی اُمید کس سے رکھیں گے؟

۵:… اس پانچویں حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مونچھیں بڑھانا (اور اسی طرح داڑھی منڈانا اور کترانا) حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی گناہِ کبیرہ پر ہی ایسی وعید فرماسکتے ہیں کہ ایسا کرنے والا ہماری جماعت سے نہیں ہے۔

۶:… چھٹی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت کریں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت کریں۔ اس حدیث کی شرح میں مُلَّا علی قاری صاحبِ مرقاة لکھتے ہیں کہ: “لعن الله” کا فقرہ، جملہ بطور بددُعا بھی ہوسکتا ہے، یعنی ان لوگوں پر اللہ کی لعنت ہو، اور جملہ خبریہ بھی ہوسکتا ہے، یعنی ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ لعنت فرماتے ہیں۔

داڑھی منڈانے میں گزشتہ بالا قباحتوں کے علاوہ ایک قباحت عورتوں سے مشابہت کی بھی ہے، کیونکہ عورتوں اور مردوں کے درمیان اللہ تعالیٰ نے داڑھی کا امتیاز رکھا ہے، پس داڑھی منڈانے والا اس امتیاز کو مٹاکر عورتوں سے مشابہت کرتا ہے، جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کا موجب ہے۔

ان تمام نصوص کے پیشِ نظر فقہائے اُمت اس پر متفق ہیں کہ داڑھی بڑھانا واجب ہے، اور یہ اسلام کا شعار ہے، اور اس کا منڈانا یا کترانا (جبکہ حدِ شرعی سے کم ہو) حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعیدیں فرمائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس فعلِ حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ج:۲… احادیثِ بالا میں داڑھی کے بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے اور ترمذی کتاب الادب (ج:۲ ص:۱۰۰) کی ایک روایت میں جو سند کے اعتبار سے کمزور ہے، یہ ذکر کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ریش مبارک کے طول و عرض سے زائد بال کاٹ دیا کرتے تھے۔ اس کی وضاحت صحیح بخاری کتاب اللباس (ج:۲ ص:۸۷۵) کی روایت سے ہوتی ہے کہ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما حج و عمرے سے فارغ ہونے کے موقع پر اِحرام کھولتے تو داڑھی کو مٹھی میں لے کر زائد حصہ کاٹ دیا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی مضمون کی روایت منقول ہے (نصب الرایہ ج:۲ ص:۴۵۸)۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ داڑھی کی شرعی مقدار کم از کم ایک مشت ہے۔ (ہدایہ کتاب الصوم)

پس جس طرح داڑھی منڈانا حرام ہے، اسی طرح داڑھی ایک مشت سے کم کرنا بھی حرام ہے، در مختار میں ہے:

“وأما الأخذ منھا وھی دون ذٰلک کما یفعلہ بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم یبحہ أحد، وأخذ کلھا فعل یھود الھند ومجوس الأعاجم۔”

(شامی طبع جدید ج:۲ ص:۴۱۸)

ترجمہ:… “اور داڑھی کترانا جبکہ وہ ایک مشت سے کم ہو جیسا کہ بعض مغربی لوگ اور ہیجڑے قسم کے آدمی کرتے ہیں، پس اس کو کسی نے جائز نہیں کہا، اور پوری داڑھی صاف کردینا تو ہندوستان کے یہودیوں اور عجم کے مجوسیوں کا فعل تھا۔”

یہی مضمون فتح القدیر (ج:۲ ص:۷۷) اور بحر الرائق (ج:۲ ص:۳۰۲) میں ہے، شیخ عبدالحق محدث دہلوی “اشعة اللمعات” میں لکھتے ہیں:

“حلق کردن لحیہ حرام است وگزاشتن آں بقدر قبضہ واجب است۔” (ج:۱ ص:۲۲۸)

ترجمہ:… “داڑھی منڈانا حرام ہے، اور ایک مشت کی مقدار اس کا بڑھانا واجب ہے (پس اگر اس سے کم ہو تو کترانا بھی حرام ہے)۔”

امداد الفتاویٰ میں ہے:

“داڑھی رکھنا واجب ہے، اور قبضے سے زائد کٹوانا حرام ہے۔ لقولہ علیہ السلام: خالفوا المشرکین أوفروا اللحٰی۔ متفق علیہ۔ فی الدر المختار: یحرم علی الرجل قطع لحیتہ وفیہ السنة فیھا القبضة۔”

ترجمہ:… “کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاوٴ۔ (بخاری و مسلم) اور درمختار میں ہے کہ: مرد کے لئے داڑھی کا کاٹنا حرام ہے اور اس کی مقدارِ مسنون ایک مشت ہے۔”

ج:۳… جو حافظ داڑھی منڈاتے یا کتراتے ہوں وہ گناہِ کبیرہ کے مرتکب اور فاسق ہیں۔ تراویح میں بھی ان کی اِمامت جائز نہیں، اور ان کی اقتداء میں نماز مکروہِ تحریمی (یعنی عملاً حرام) ہے۔ اور جو حافظ صرف رمضان المبارک میں داڑھی رکھ لیتے ہیں اور بعد میں صاف کرادیتے ہیں ان کا بھی یہی حکم ہے۔ ایسے شخص کو فرض نماز اور تراویح میں اِمام بنانے والے بھی فاسق اور گنہگار ہیں۔

ج:۴… اس سوال کا جواب سمجھنے کے لئے یہ اُصول ذہن نشین کرلینا ضروری ہے کہ اسلام کے کسی شعار کا مذاق اُڑانا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سنت کی تحقیر کرنا کفر ہے، جس سے آدمی ایمان سے خارج ہوجاتا ہے، اور یہ اُوپر معلوم ہوچکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کو اسلام کا شعار اور انبیائے کرام علیہم السلام کی متفقہ سنت فرمایا ہے، پس جو لوگ مسخِ فطرت کی بنا پر داڑھی سے نفرت کرتے ہیں، اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کے اعزّہ میں سے اگر کوئی داڑھی رکھنا چاہے تو اسے روکتے ہیں یا اس پر طعنہ زنی کرتے ہیں، اور جو لوگ دُولہا کے داڑھی منڈائے بغیر اسے رشتہ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے، ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے، ان کو لازم ہے کہ توبہ کریں اور اپنے ایمان اور نکاح کی تجدید کریں۔ حکیم الاُمت مولانا اشرف علی تھانوی “اصلاح الرسوم” ص:۱۵ پر لکھتے ہیں:

“من جملہ ان رُسوم کے داڑھی منڈانا یا کٹانا، اس طرح ہے کہ ایک مشت سے کم رہ جائے، یا مونچھیں بڑھانا، جو اس زمانے میں اکثر نوجوانوں کے خیال میں خوش وضعی سمجھی جاتی ہے، حدیث میں ہے کہ: “بڑھاوٴ داڑھی کو اور کتراوٴ مونچھوں کو” روایت کیا ہے اس کو بخاری و مسلم نے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صیغہٴ اَمر سے دونوں حکم فرمائے ہیں، اور اَمر حقیقتاً وجوب کے لئے ہوتا ہے، پس معلوم ہوا کہ یہ دونوں حکم واجب ہیں اور واجب کا ترک کرنا حرام ہے، پس داڑھی کا کٹانا اور مونچھیں بڑھانا دونوں فعل حرام ہیں، اس سے زیادہ دُوسری حدیث میں مذکور ہے۔ ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: “جو شخص اپنی لبیں نہ لے وہ ہمارے گروہ سے نہیں۔” روایت کیا اس کو احمد اور ترمذی اور نسائی نے۔

جب اس کا گناہ ہونا ثابت ہوگیا تو جو لوگ اس پر اصرار کرتے ہیں اور اس کو پسند کرتے ہیں، اور داڑھی بڑھانے کو عیب جانتے ہیں، بلکہ داڑھی پر ہنستے ہیں اور ان کی ہجو کرتے ہیں، ان سب مجموعہ اُمور سے ایمان کا سالم رہنا از بس دُشوار ہے۔ ان لوگوں کو واجب ہے کہ اپنی اس حرکت سے توبہ کریں اور ایمان اور نکاح کی تجدید کریں اور اپنی صورت موافق حکم اللہ اور رسول کے بناویں۔”

ج:۵… جو حضرات سفرِ حج کے دوران یا حج سے واپس آکر داڑھی منڈاتے ہیں یا کتراتے ہیں، ان کی حالت عام لوگوں سے زیادہ قابلِ رحم ہے، اس لئے کہ وہ خدا کے گھر میں بھی کبیرہ گناہ سے باز نہیں آتے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وہی حج مقبول ہوتا ہے جو گناہوں سے پاک ہو۔ اور بعض اکابر نے حجِ مقبول کی علامت یہ لکھی ہے کہ حج سے آدمی کی زندگی میں دِینی انقلاب آجائے یعنی وہ حج کے بعد طاعات کی پابندی اور گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرنے لگے۔

جس شخص کی زندگی میں حج سے کوئی تغیر نہیں آیا، اگر پہلے فرائض کا تارک تھا تو اَب بھی ہے، اور اگر پہلے کبیرہ گناہوں میں مبتلا تھا تو حج کے بعد بھی بدستور گناہوں میں ملوّث ہے، ایسے شخص کا حج درحقیقت حج نہیں محض سیر و تفریح اور چلت پھرت ہے، گو فقہی طور پر اس کا فرض ادا ہوجائے گا، لیکن حج کے ثواب اور برکات اور ثمرات سے وہ محروم رہے گا۔ کتنی حسرت و افسوس کا مقام ہے کہ آدمی ہزاروں روپے کے مصارف بھی اُٹھائے اور سفر کی مشقتیں بھی برداشت کرے، اس کے باوجود اسے گناہوں سے توبہ کی توفیق نہ ہو، اور جیسا گیا تھا ویسا ہی خالی ہاتھ واپس آجائے۔ اگر کوئی شخص سفرِ حج کے دوران زنا اور چوری کا ارتکاب کرے اور اسے اپنے اس فعل پر ندامت بھی نہ ہو اور نہ اس سے توبہ کرے تو ہر شخص سوچ سکتا ہے کہ اس کا حج کیسا ہوگا؟ داڑھی منڈانے کا کبیرہ گناہ ایک اعتبار سے چوری اور بدکاری سے بھی بدتر ہے کہ وہ وقتی گناہ ہیں، لیکن داڑھی منڈانے کا گناہ چوبیس گھنٹے کا گناہ ہے، آدمی داڑھی منڈاکر نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، حج کا اِحرام باندھے ہوئے ہے، لیکن اس کی منڈی ہوئی داڑھی عین نماز، روزہ اور حج کے دوران بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس پر لعنت بھیج رہی ہے، اور وہ عین عبادت کے دوران بھی حرام کا مرتکب ہے۔ حضرت شیخ قطب العالم مولانا محمد زکریا کاندہلوی ثم مدنی نوّر اللہ مرقدہ اپنے رسالے “داڑھی کا وجوب” میں تحریر فرماتے ہیں:

“مجھے ایسے لوگوں کو (جو داڑھی منڈاتے ہیں) دیکھ کر یہ خیال ہوتا تھا کہ موت کا کوئی وقت مقرّر نہیں، اور اس حالت میں (جب داڑھی منڈی ہوئی ہو) اگر موت واقع ہوئی تو قبر میں سب سے پہلے سیّد الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہٴ انور کی زیارت ہوگی تو کس منہ سے چہرہٴ انور کا سامنا کریں گے؟

اس کے ساتھ ہی بار بار یہ خیال آتا تھا کہ گناہِ کبیرہ: زنا، لواطت، شراب نوشی، سود خوری وغیرہ تو بہت ہیں، مگر وہ سب وقتی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “لا یزنی الزانی وھو موٴمن ․․․․ الخ” یعنی جب زناکار زنا کرتا ہے تو وہ اس وقت موٴمن نہیں ہوتا۔

مطلب اس حدیث کا مشائخ نے یہ لکھا ہے کہ زنا کے وقت ایمان کا نور اس سے جدا ہوجاتا ہے، لیکن زنا کے بعد وہ نورِ ایمانی مسلمان کے پاس واپس آجاتا ہے۔ مگر قطعِ لحیہ (داڑھی منڈانا اور کترانا) ایسا گناہ ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے، نماز پڑھتا ہے تو بھی یہ گناہ ساتھ ہے، روزے کی حالت میں، حج کی حالت میں، غرض ہر عبادت کے وقت یہ گناہ اس کے ساتھ لگا رہتا ہے۔” (داڑھی کا وجوب ص:۲)

پس جو حضرات حج و زیارت کے لئے تشریف لے جاتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بارگاہ میں حاضر ہونے سے پہلے اپنی مسخ شدہ شکل کو دُرست کریں اور اس گناہ سے سچی توبہ کریں، اور آئندہ ہمیشہ کے لئے اس فعلِ حرام سے بچنے کا عزم کریں، ورنہ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ شیخ سعدی کے اس شعر کے مصداق بن جائیں:

خرِ عیسیٰ اگر بہ مکہ رود

چو بیاید ہنوز خر باشد

ترجمہ:… “عیسیٰ کا گدھا اگر مکے بھی چلا جائے، جب واپس آئے گا تب بھی گدھا ہی رہے گا۔”

انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ وہ روضہٴ اطہر پر سلام پیش کرنے کے لئے کس منہ سے حاضر ہوں گے؟ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی بگڑی ہوئی شکل دیکھ کر کتنی اذیت ہوتی ہوگی․․․؟

ج:۶… ان حضرات کا جذبہ بظاہر بہت اچھا ہے اور اس کا منشا داڑھی کی حرمت و عظمت ہے۔ لیکن اگر ذرا غور و تأمل سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ خیال بھی شیطان کی ایک چال ہے، جس کے ذریعے شیطان نے بہت سے لوگوں کو دھوکا دے کر اس فعلِ حرام میں مبتلا کردیا ہے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھئے۔ ایک مسلمان دُوسروں سے دغا فریب کرتا ہے، جس کی وجہ سے پوری اسلامی برادری بدنام ہوتی ہے، اب اگر شیطان اسے یہ پٹی پڑھائے کہ: “تمہاری وجہ سے اسلام اور مسلمان بدنام ہورہے ہیں، اسلام کی حرمت کا تقاضا یہ ہے کہ تم ․․․نعوذ باللہ․․․ اسلام کو چھوڑ کر سکھ بن جاوٴ” تو کیا اس وسوسے کی وجہ سے اس کو اسلام چھوڑ دینا چاہئے؟ نہیں! بلکہ اگر اس کے دِل میں اسلام کی واقعی حرمت و عظمت ہے تو وہ اسلام کو نہیں چھوڑے گا بلکہ ان بُرائیوں سے کنارہ کشی کرے گا جو اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا موجب ہیں۔ ٹھیک اسی طرح اگر شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ: “اگر تم داڑھی رکھ کر بُرے کام کروگے تو داڑھی والے بدنام ہوں گے اور یہ چیز داڑھی کی حرمت کے خلاف ہے” تو اس کی وجہ سے داڑھی کو خیرباد نہیں کہا جائے گا، بلکہ ہمت سے کام لے کر خود ان بُرے افعال سے بچنے کی کوشش کی جائے گی جو داڑھی کی حرمت کے منافی ہیں اور جن سے داڑھی والوں کی بدنامی ہوتی ہے۔

ان حضرات نے آخر یہ کیوں فرض کرلیا ہے کہ ہم داڑھی رکھ کر اپنے بُرے اعمال نہیں چھوڑیں گے؟ اگر ان کے دِل میں واقعی اس شعارِ اسلام کی حرمت ہے تو عقل اور دِین کا تقاضا یہ ہے کہ وہ داڑھی رکھیں، اور یہ عزم کریں کہ اِن شاء اللہ اس کے بعد کوئی کبیرہ گناہ ان سے سرزد نہیں ہوگا، اور دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس شعارِ اسلام کی حرمت کی لاج رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ بہرحال اس موہوم اندیشے کی بنا پر کہ کہیں ہم داڑھی رکھ کر اس کی حرمت کے قائم رکھنے میں کامیاب نہ ہوں، اس عظیم الشان شعارِ اسلام سے محروم ہوجانا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے، اس لئے تمام مسلمانوں کو لازم ہے کہ شعارِ اسلام کو خود بھی اپنائیں اور معاشرے میں اس کو زندہ کرنے کی پوری کوشش کریں تاکہ قیامت کے دن مسلمانوں کی شکل و صورت میں ان کا حشر ہو، اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور حق تعالیٰ شانہ‘ کی رحمت کا مورد بن سکیں۔

“عن أبی ھریرة رضی الله عنہ أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: کل أمتی یدخلون الجنّة اِلَّا من أبٰی، قالوا: ومن یأبی؟ قال: من أطاعنی دخل الجنّة، ومن عصانی فقد أبٰی۔” (صحیح بخاری ج:۲ ص:۱۰۸۱)

ترجمہ:… “حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت کے سارے لوگ جنت میں جائیں گے، مگر جس نے انکار کردیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا کہ: انکار کون کرتا ہے؟ فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا، اور جس نے میری حکم عدولی کی، اس نے انکار کردیا۔”

داڑھی منڈانے والے کے فتوے کی شرعی حیثیت

س… آج کل ٹی وی پر ماڈرن قسم کے مولوی فتوے دیتے ہیں، یعنی ایسے مولوی جو کلین شیو کرکے اور پینٹ پہن کے ٹی وی پر آتے ہیں اور لوگوں کے مسائل کے جوابات دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے فتوے پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں؟

ج… داڑھی منڈانے والا کھلا فاسق ہے، اور فاسق کی خبر دُنیوی معاملات میں بھی قابلِ اعتماد نہیں، دِینی اُمور میں کیونکر ہوگی․․․؟

قبضے سے کم داڑھی رکھنے کے باطل استدلال کا جواب

س۱:… عام طور پر علمائے کرام کی تحریروں میں پڑھا ہے کہ اسلام نے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کترانے کا حکم دیا ہے، نیز یہ کہ اسلام میں داڑھی تسلیم کی جائے گی تو اس کی حد کم از کم یک مشت ہوگی، اس حد سے کم مقدار کی داڑھی نہ سنت کے مطابق ہے اور نہ ہی شریعت میں معتبر۔ مجھے صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ اگر اسلام نے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے جو کہ ضد ہے کم کرنے کی تو حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نے قبضے سے زائد داڑھی کیوں ترشوادی تھی؟ کیا بڑھانا اور ترشوانا ایک دُوسرے کی ضد نہیں؟

ج:۱… داڑھی بڑھانے کی حدیث حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اور انہی سے قبضے سے زائد کے تراشنے کا عمل مروی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ داڑھی بڑھانے کے وجوب کی حد قبضہ ہے، اس سے زیادہ واجب نہیں۔

س:۲… پاکستان سے ایک عالمِ دِین نے داڑھی کے متعلق لکھا ہے جس کا خلاصہ یوں ہے کہ داڑھی کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مقدار مقرّر نہیں کی، صرف یہ ہدایت فرمائی ہے کہ رکھی جائے، البتہ داڑھی رکھنے میں فاسقین کی صفت سے پرہیز کریں اور اتنی داڑھی رکھ لیں جس پر عرفِ عام میں داڑھی رکھنے کا اطلاق ہوتا ہے، دیکھنے میں ایسا بھی نہ لگے کہ جیسے چند یوم سے داڑھی نہیں مونڈی اور دیکھنے والا یہ دھوکا نہ کھائے، تو شارع کا منشا پورا ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں آپ سے یہ پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ کیا داڑھی رکھنے یعنی اس کی مقدار میں اختلاف ہے یا نہیں؟ معلوم ہوا ہے کہ بعض کے نزدیک داڑھی بڑھانا یعنی اسے اپنے حال پر چھوڑ دینا ہی عین سنت ہے، اور بعض کے نزدیک مٹھی بھر داڑھی رکھنا ہی مسنون ہے اور اپنے حال پر چھوڑنا مکروہ ہے، اور بعض کے نزدیک کوئی خاص حد مقرّر نہیں، بس جو داڑھی عرفِ عام میں داڑھی ہو وہ رکھنا مشروع ہے، وضاحت طلب ہے۔

ج:۲… ایک قبضہ تک بڑھانے کے وجوب پر تو اِجماع ہے، اس سے کم کرنا کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں، البتہ قبضے سے زیادہ میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک زائد کا کاٹنا مطلقاً ضروری یا مباح ہے۔ بعض کے نزدیک حج و عمرے کا اِحرام کھولتے ہوئے حلق و قصر کے بعد قبضے سے زائد کا تراش دینا مستحب ہے، عام حالات میں مستحب نہیں۔ بعض کے نزدیک اگر داڑھی کے بال اتنے بڑھ جائیں کہ بدنما نظر آنے لگیں تو ان کو تراش دینا ضروری ہے، الغرض اختلاف جو کچھ ہے قبضے سے زائد میں ہے۔

ان عالمِ دِین کا یہ کہنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کی کوئی حد مقرّر نہیں فرمائی، غلط ہے، اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانے کا حکم فرمایا ہے، کاٹنے کا حکم نہیں فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی داڑھیاں قبضے سے زائد ہوتی تھیں، البتہ بعض صحابہ مثلاً حضرت ابنِ عمر، حضرت عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے قبضے سے زائد کو تراشنے کا عمل منقول ہے، اور ترمذی کی روایت میں، جس کو ضعیف قرار دیا گیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حج و عمرے کے موقع پر قبضے سے زائد کا تراشنا نقل کیا گیا ہے، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عملی بیان سے معلوم ہوجاتا ہے کہ داڑھی کی کم سے کم حد ایک قبضہ ہے، ایک قبضے سے کم کا تراشنا جائز نہیں، کیونکہ اگر جائز ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پوری عمر میں کم سے کم ایک مرتبہ تو بیانِ جواز کے لئے اس کو کرکے ضرور دِکھاتے، اور کسی نہ کسی صحابی سے بھی یہ عمل ضرور منقول ہوتا، پس فاسقین کی جس وضع کی مخالفت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے وہ وضع یہی ہے کہ قبضے سے کم تراشی جائے۔

س:۳… مذہبی کتب میں اور علمائے کرام کی تحریروں میں یہ بات موجود ہے کہ ایک مٹھی سے کم کو کسی نے جائز نہیں کہا اور اس پر اِجماع ہے، لیکن علامہ عینی “عمدة القاری” کتاب اللباس، باب تقلیم الاظفار میں توفیر لحیہ کی حدیث کی شرح کرتے ہوئے اِمام طبری کے حوالے سے فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی دلیل ثابت ہے کہ (داڑھی بڑھانے کے متعلق) حدیث کا حکم عام نہیں بلکہ اس میں تخصیص ہے، اور داڑھی کا اپنے حال پر چھوڑ دینا ممنوع اور اس کا ترشوانا واجب ہے، البتہ سلف میں اس کی مقدار اور حد کے معاملے میں اختلاف ہے، بعض نے کہا اس کی حد لمبائی میں ایک مٹھی سے بڑھ جائے اور چوڑائی میں بھی پھیل جانے کی وجہ سے بُری معلوم ہو ․․․․․ بعض اصحاب اس بات کے قائل ہیں کہ لمبائی اور چوڑائی میں کم کرائے بشرطیکہ بہت چھوٹی نہ ہوجائے۔ اسی کے بعد فرماتے ہیں: اس کا مطلب میرے نزدیک یہ ہے کہ داڑھی کا ترشوانا اس حد تک جائز ہے کہ وہ عرفِ عام سے خارج نہ ہوجائے۔

ج:۳… جن مذہبی کتابوں میں یہ نقل کیا ہے کہ ایک قبضے سے کم کرنے کو کسی نے بھی مباح نہیں کہا اور یہ اس پر اِجماع ہے، یہ نقل بالکل صحیح ہے۔ چنانچہ اَئمہ فقہاء کے جو مذاہب مدوّن ہیں، یا جن کے اقوال کتابوں میں نقل کئے گئے ہیں، ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی کا قبضے سے کم کرنا حرام ہے۔ جہاں تک علامہ عینی رحمة اللہ علیہ کی عبارت کا تعلق ہے، علامہ عینی رحمة اللہ علیہ نے اِمام طبری کے کلام کی تلخیص کی ہے، اور آپ نے علامہ عینی رحمة اللہ علیہ کی عبارت کا خلاصہ نقل کردیا ہے۔ بہرحال اس میں دو باتیں قابلِ توجہ ہیں۔ اوّل یہ کہ آپ کی نقل کردہ عبارت میں جو دو قول نقل کئے گئے ہیں، ان پر ظاہری نظر ڈالنے سے یہ شبہ ہوتا ہے (اور یہی شبہ آپ کے سوال کا منشا ہے) کہ پہلا فریق تو داڑھی کی حد ایک قبضہ مقرّر کرتا ہے اور زائد کو کاٹنے کا حکم دیتا ہے، اور دُوسرا فریق قبضے سے کم کو بھی کاٹنے کی اجازت دیتا ہے، “بشرطیکہ بہت چھوٹی نہ ہوجائے” مگر عبارت کا مطلب صریحاً غلط ہے۔ جیسا کہ میں اُوپر بتاچکا ہوں سلف میں سے کسی سے بھی قبضے سے کم داڑھی کاٹنے کی اجازت منقول نہیں، علامہ عینی نے جو اِختلاف نقل کیا ہے وہ مافوق القبضہ میں ہے، اور ان کا مطلب یہ ہے کہ بعض سلف نے تو کاٹنے کی صاف صاف حد مقرّر کردی، قبضے سے زائد کو کاٹ دیا جائے، گویا ان حضرات کے نزدیک داڑھی بس ایک قبضے تک رکھی جائے، زیادہ نہیں۔ اس کے برعکس بعض اس کی تعیین نہیں کرتے کہ داڑھی بس ایک ہی قبضہ رکھی جائے، وہ قبضے سے زیادہ رکھنے کے قائل ہیں، البتہ طول و عرض سے معمولی تراشنے کی اجازت دیتے ہیں، بشرطیکہ یہ تراش خراش ایسی نمایاں نہ ہو کہ جس سے داڑھی چھوٹی نظر آنے لگے۔ پس سلف کا یہ اختلاف بھی قبضے سے زائد کے تراشنے نہ تراشنے میں ہے، قبضے سے کم میں نہیں۔

دُوسری قابلِ توجہ بات علامہ عینی کا یہ قول ہے، جس کا ترجمہ آپ نے یہ نقل کیا ہے کہ: “اس کا مطلب میرے نزدیک یہ ہے کہ داڑھی کا ترشوانا اس حد تک جائز ہے کہ وہ عرفِ عام سے خارج نہ ہوجائے۔” دیکھنا یہ ہے کہ یہ “عرف الناس” جس کو آپ نے “عرفِ عام” سے تعبیر فرمایا ہے کہ اس سے کن لوگوں کا عرف مراد ہے؟ آیا ایسے معاشرے کا عرف جو صحیح اسلامی معاشرے کی عکاسی کرتا ہو؟ یا ایسے معاشرے کا عرف جس پر فسق و فجور اور ہوائے نفس کا غلبہ ہو؟ غالباً سوال لکھتے وقت آنجناب کے ذہن میں عرفِ عام کی یہی دُوسری صورت ہوگی، لیکن اگر آپ ذرا سی توجہ سے کام لیتے تو واضح ہوجاتا کہ یہاں علامہ عینی، سلف کے مسلک میں گفتگو کر رہے ہیں اور “سلف صالحین” کا لفظ عموماً صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس لئے اس عبارت میں انہی کا عرفِ عام مراد ہے، انہی کا عرف صحیح اسلامی معاشرے کی نمائندگی کرتا ہے، اور انہی کے عرف کو بطورِ سند اور دلیل پیش کیا جاسکتا ہے اور کیا جاتا ہے۔ اب دیکھئے کہ بات کیا نکلی؟ بات یہ نکلی کہ صحابہ و تابعین کے دور میں عام طور سے جتنی داڑھی رکھنے کا رواج تھا، اس سے کم کرنا سلف کی اس دُوسری جماعت کے نزدیک جائز نہیں۔ اب میں پوچھتا ہوں کہ صحابہ و تابعین کا عرفِ عام تو الگ رہا! کیا کسی ایک صحابی یا تابعی سے بھی ایک مشت سے کم داڑھی رکھنا ثابت ہے؟ اگر نہیں، تو علامہ عینی رحمة اللہ علیہ کی عبارت سے ایک قبضے سے کم داڑھی رکھنے کا جواز کیسے نکل آیا؟ بہرحال علامہ عینی کی عبارت میں نہ تو قبضے سے کم تراشنا مراد ہے اور نہ لوگوں کے “عرفِ عام” سے بگڑے ہوئے معاشرے کا عرفِ عام مراد ہے۔

داڑھی کے ایک قبضہ ہونے سے کیا مراد ہے؟

س… داڑھی ایک قبضہ ہونی چاہئے، یہ قبضہ کہاں سے شروع ہوتا ہے؟ آیا لبوں کے نیچے سے یا ٹھوڑی کے نیچے سے قبضہ ڈالنا چاہئے، پھر جہاں تک چار اُنگلیوں کا گھیر آجائے۔

ج… ٹھوڑی کے نیچے سے، یعنی بال ہر طرف سے ایک قبضہ ہونے چاہئیں۔

بڑی مونچھوں کا حکم

س… ایک شخص کی مونچھیں اتنی بڑی ہیں کہ پانی وغیرہ پیتے وقت مونچھیں اس پانی وغیرہ کے ساتھ لگ جاتی ہیں، تو ایسی مونچھوں اور اس پانی وغیرہ کا کیا حکم ہے؟

ج… اتنی بڑی مونچھیں رکھنا شرعاً گناہ ہے، حدیث میں آتا ہے:

“عن زید بن أرقم رضی الله عنہ أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: من لم یأخذ من شاربہ فلیس منّا۔” (مشکوٰة ص:۳۸۱)

ترجمہ:… “آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جو شخص مونچھیں نہیں تراشتا وہ ہم میں سے نہیں۔

داڑھی تمام انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے اور فطرتِ صحیحہ کے عین مطابق ہے

س… کیا داڑھی رکھنا ضروری ہے؟ اور کیوں؟

ج… اسلام میں مردوں کو داڑھی رکھنے کا تاکیدی حکم ہے اور یہ کئی وجوہ سے ضروری ہے۔

اوّل:… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھنے کو ان اعمال میں سے شمار کیا ہے جو تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہیں، پس جس چیز کی پابندی حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت خاتم النبیّین صلی الله علیہ وسلم تک خدا کے سارے نبیوں نے کی ہو، ایک مسلمان کے لئے اس کی پیروی جس درجہ ضروری ہوسکتی ہے وہ آپ خود ہی اندازہ کرسکتے ہیں۔

دوم:… پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانے اور لبیں تراشنے کو فطرت فرمایا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی تراشنا خلافِ فطرت عمل ہے، ایک مسلمان کے لئے فطرتِ صحیحہ کے مطابق عمل کرنا اور خلافِ فطرت سے گریز کرنا جس قدر ضروری ہوسکتا ہے، وہ واضح ہے۔

سوم:… یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو اس کا تاکیدی حکم فرمایا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تاکیدی اَحکام کا ضروری ہونا سب کو معلوم ہے۔

چہارم:… یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم فرماتے ہوئے یہ تاکید فرمائی ہے کہ: “مشرکوں کی مخالفت کرو” اور ایک دُوسری حدیث میں فرمایا کہ: “مجوسیوں کی مخالفت کرو” جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی داڑھی تراشنا بددِین قوموں کا شعار تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو ان گمراہ قوموں کی خلافِ فطرت تقلید کرنے سے منع فرمایا۔ ایک حدیث میں ہے کہ: “جو شخص کسی قوم کی مشابہت کرے گا، وہ انہیں میں سے شمار ہوگا۔” سیرت کی کتابوں میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ شاہِ ایران کے سفیر بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے تو ان کی داڑھیاں منڈی ہوئی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مسخ شدہ شکل دیکھ کر اظہارِ نفرت کے طور پر فرمایا: “یہ کیا شکل بنارکھی ہے؟” انہوں نے عرض کیا کہ: “ہمیں ہمارے خدا (شاہِ ایران) نے اس کا حکم کیا ہے۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “لیکن میرے رَبّ نے مجھے داڑھی رکھنے کا حکم دیا ہے” اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے گفتگو کرنے سے انکار کردیا۔

پنجم:… چونکہ داڑھی رکھنا انبیاء علیہم السلام کی سنت اور صحیح فطرتِ انسانی ہے، اس لئے یہ مردانہ چہرے کی زینت ہے، اور داڑھی تراشنا گویا مردانہ حسن و جمال کو مٹی میں ملانا ہے، شاید اس پر یہ کہا جائے کہ آج کل تو رِیش تراشی (داڑھی منڈانے) کو موجبِ زینت سمجھا جاتا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی معاشرے میں بُری اور گندی رسم کا رواج ہوجائے تو عام لوگ محض تقلیداً اس پر عمل کئے جاتے ہیں اور اس کی قباحت کی طرف نظر نہیں جاتی، ورنہ اس کا تجربہ ہر شخص کرسکتا ہے کہ وہ رِیش تراشیدہ چہرے کو آئینے میں دیکھ لے اور پھر داڑھی رکھ کر بھی آئینہ دیکھ لے، خود اس کا وجدان فیصلہ کرے گا کہ داڑھی مونڈنے سے اس کی شکل مسخ ہوکر رہ جاتی ہے۔

ششم:… اہلِ تجربہ کا کہنا ہے کہ مردوں کے داڑھی کے بال اور عورتوں کے سر کے بال منہ کی فاضل رطوبتوں کو جذب کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جس کی داڑھی گھنی اور بھری ہوئی ہو، اس کے مسوڑھے اور دانت مضبوط ہوں گے، بہ نسبت اس شخص کے جس کی داڑھی ہلکی ہو، اور یہی وجہ ہے کہ مغرب میں چونکہ مرد داڑھی صاف رکھتے ہیں اور ان کی عورتیں سر کے بال کٹواتی ہیں اس لئے وہ مسوڑھوں اور دانتوں کی بیماریوں میں عام طور پر مبتلا ہیں، وہ اچھے سے اچھے ٹوتھ پیسٹ استعمال کرتے ہیں مگر گندہ دہنی کا مرض نہیں جاتا۔

صدرِ مملکت کو وفد نے داڑھی رکھنی کی دعوت کیوں دی؟

س… “اقرأ” کے اسلامی صفحے کے ایک مضمون میں پڑھا کہ علمائے کرام کا ایک وفد صدرِ پاکستان سے ملا اور اس وفد نے صدرِ پاکستان کو ایک اسلامی شعار داڑھی رکھنے کی تلقین کی۔ اس سلسلے میں درج ذیل اِشکالات ذہن میں آتے ہیں، براہِ کرم جواب مرحمت فرمائیں۔

س:۱… کیا داڑھی ایسا ہی اہم اسلامی شعار ہے کہ اس کے لئے اتنے مصارف اُٹھاکر صدر سے ملاقات کی جائے اور انہیں اس کی دعوت دی جائے؟

س:۲… میں نے تو سنا ہے کہ داڑھی رکھنا محض سنت ہے، اس کو رکھیں تو ثواب ہوگا، اور نہ رکھیں تو کوئی گناہ نہیں، کیا یہ دُرست ہے؟

س:۳… مندرجہ بالا معلومات کے مطابق اس کام کے لئے ہزاروں روپے کا خرچ اِسراف نہیں؟

س:۴… پھر یہ بھی ممکن ہے کہ داڑھی نہ رکھنے کی صورت میں وہ ہر ایک سے ہر ایک بات کرسکتا ہے، اور اس سے مخاطب پر اثر بھی ہوگا، مگر داڑھی رکھنے کی صورت میں تو وہ سکہ بند مذہبی گروہ کا فرد ہوگا جس سے یقینا اس کی بات کا وہ مقام نہیں رہے گا، کیا اس غرض سے اگر کوئی شخص داڑھی نہ رکھے تو آنجناب کے خیال میں اس کو اجازت ہونی چاہئے؟ از راہِ کرم میرے ان سوالات کا جواب دے کر مجھے اور میرے جیسے دُوسرے مسلمانوں کے خدشات دُور فرمائیں، اس لئے کہ اگر واقعی یہ ایسا ہی اہم اسلامی شعار ہے تو اس سے کسی مسلمان کو محروم نہیں ہونا چاہئے۔

ج:۱… داڑھی کے اہم ترین اسلامی شعار ہونے میں تو شبہ نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مسلمانوں کا امتیازی نشان قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: “اپنی وضع قطع میں مشرکوں کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاوٴ اور مونچھیں کتراوٴ” (بخاری) اگر فوج کا کمانڈر انچیف کسی خاص وردی کو اپنی فوج کا امتیازی نشان قرار دے تو فوج کے کسی سپاہی کے لئے اس کی مخالفت کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ اب سوچئے کہ جس چیز کو اُمت کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کا امتیازی نشان قرار دیا ہو، اس کی مخالفت کسی اُمتی کے لئے کب روا ہوسکتی ہے؟ اور جو اس بات کے جاننے کے باوجود اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتا ہے وہ “اُمتی” کہلانے کا کیا منہ رکھتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس فعلِ بد (داڑھی منڈانے) سے ایسی نفرت تھی کہ جب کسریٰ شاہِ ایران کے سفیر بارگاہِ عالی میں حاضر ہوئے تو ان کی داڑھیاں منڈی ہوئی اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شکل و وضع سے کراہت آئی اور نہایت ناگوار لہجے میں فرمایا: “تمہاری ہلاکت ہو! تمہیں ایسی بھونڈی اور مکروہ شکل بنانے کا کس نے کہا ہے؟” انہوں نے کہا کہ: “ہمیں ہمارے رَبّ یعنی کسریٰ نے اس کا حکم دیا ہے” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “لیکن میرے رَبّ نے تو مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کتروانے کا حکم فرمایا ہے۔”

(البدایہ والنہایہ ج:۴ ص:۲۶۹، حیاة الصحابہ ج:۱ ص:۱۱۵)

اس سے معلوم ہوا کہ داڑھی کٹانا مجوسیوں کے رَبّ کا حکم ہے، اور داڑھی بڑھانا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رَبّ کا حکم ہے۔ غور فرمائیے جہاں مجوسیوں کے رَبّ کا حکم ایک طرف ہو اور دُوسری طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رَبّ کا حکم ہو، ایک مسلمان کو کس کے حکم کی تعمیل کرنی چاہئے؟

ج:۲… یہ آپ کو کسی نے غلط بتایا ہے کہ داڑھی رکھنا محض سنت اور کارِ ثواب ہے اور نہ رکھنے کا کوئی گناہ نہیں، تمام فقہائے اُمت کے نزدیک ایک مشت داڑھی بڑھانا واجب ہے، جیسا کہ وتر کی نماز واجب ہے، اور داڑھی منڈانا اور ایک مشت سے کم کرنا بالاِجماع حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔

ج:۳… مسلمانوں کی کسی مقتدر اور لائقِ احترام شخصیت کو (جیسا کہ صدرِ محترم ہیں) کسی اَمرِ واجب کی دعوت دینا اور اس پر خرچ کرنا قطعاً اِسراف اور فضول خرچی نہیں۔ تبلیغی جماعت کے سابق اِمام حضرت مولانا محمد یوسف دہلوی کے بارے میں یہ بات سنی ہے کہ کسی شخص نے ان سے عرض کیا کہ آپ اتنے مصارف اُٹھاکر جماعتیں امریکہ بھیجتے ہیں، کیا یہ اِسراف نہیں؟ جواب میں انہوں نے فرمایا کہ: “اگر میں ساری دُنیا کے خزانے خرچ کرکے امریکہ والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت سکھانے میں کامیاب ہوجاوٴں تو میں سمجھوں گا کہ یہ سودا سستا ہے۔” اسی طرح اگر کوئی بندہٴ خدا یہ جذبہ رکھتا ہے کہ ہمارے اعلیٰ حکام کے چہرے پر اسلام اور سنت کا نور ہو، اور وہ اس کے لئے ہزاروں نہیں لاکھوں روپے خرچ کردیتا ہے تو اِن شاء اللہ اس کا یہ خرچ قیامت کے دن “اِنفاق فی سبیل اللہ” کی مد میں شمار ہوگا، اِن شاء اللہ! ثم اِن شاء اللہ!

ج:۴… آپ کا چوتھا سوال تو بالکل ہی مہمل اور احساسِ کمتری کا شکار ہے، کاش! آپ کو حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد یاد ہوتا: “نحن قوم أعزّنا الله بالاسلام” یعنی “ہم وہ قوم ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے عزّت دی۔”

مسلمانوں کی ذِلت و پسماندگی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ شیطان نے ان کے کان میں پھونک دیا ہے کہ اگر تم نے اسلام کے فلاں مسئلے پر عمل کیا تو فلاں مصلحت فوت ہوجائے گی، اس ترقی یافتہ دور میں لوگ تمہیں کیا کہیں گے؟ حالانکہ مسلمان کی عزّت اسلام کے اَحکام پر عمل کرنے میں ہے، اور اسلام کے اَحکام کو چھوڑنے میں ان کی ذِلت و رُسوائی کا راز مضمر ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے: “اور عزّت اللہ کے لئے ہے اور اس کے رسول کے لئے اور اہلِ ایمان کے لئے، لیکن منافق اس بات کو نہیں جانتے۔” مسلمانوں کا جو حاکم خدا اور رسول کے اَحکام کا پابند ہو، غیرمسلم بھی اسے عزّت و احترام سے دیکھتے ہیں، اور وہ پوری خود اعتمادی کے ساتھ گفتگو کرسکتا ہے، پھر تائیدِ غیبی اور نصرتِ خداوندی اس کی پشت پناہ ہوتی ہے۔ بعض بڑے بڑے عیسائی اور سکھ اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوتے ہوئے بھی داڑھی رکھتے ہیں، جس کا اچھا اثر ہوتا ہے۔

داڑھی منڈوانے کو حرام کہنا کیسا ہے؟

س… ایک حالیہ اشاعت میں “مسلمانوں کا امتیازی نشان” کے عنوان سے ایک سائل کے داڑھی سے متعلق سوالات کے جواب دئیے گئے تھے، اس سلسلے میں کچھ سوالات میرے ذہن میں ہیں، جن کے جوابات دے کر شکریہ کا موقع دیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ اس کا جواب اخبار میں دیں تاکہ جن لوگوں نے یہ مضمون پڑھا ہو وہ مزید مطمئن ہوسکیں۔

قرآن میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ حلال و حرام کرنے کا اختیار صرف خدا کو ہے، اس کے علاوہ جس نے بھی کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال کیا اس نے اللہ پر جھوٹ گھڑا (النحل:۱۱۶، المائدة:۸۷ وغیرہ)۔ اس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ہوتی ہے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں جس چیز کو حلال ٹھہرایا وہ حلال ہے اور جو حرام ٹھہرایا وہ حرام ہے، اور جن چیزوں کے بارے میں سکوت فرمایا وہ معاف ہیں، لہٰذا اللہ کی اس فیاضی کو قبول کرو کیونکہ اللہ سے بھول چوک کا صدور نہیں ہوتا، پھر آپ نے سورہٴ مریم کی آیت تلاوت فرمائی (ترجمہ: اور تمہارا رَبّ بھولنے والا نہیں ہے)۔ کسی چیز کو حرام و حلال قرار دینے میں فقہائے اُمت کا رویہ جو تھا اس کے متعلق اِمام شافعی “کتاب الاُم” میں قاضی ابویوسف سے روایت کرتے ہیں:

“میں نے بہت سے اہلِ علم مشائخ کو دیکھا ہے کہ وہ فتویٰ دینا پسند نہیں کرتے اور کسی چیز کو حلال و حرام کہنے کے بجائے کتاب اللہ میں جو کچھ ہے اس کو بلاتفسیر بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ابنِ سائب جو ممتاز تابعی ہیں، کہتے ہیں کہ: اس بات سے بچو کہ تمہارا حال اس شخص کا سا ہوجائے جو کہتا ہے کہ اللہ نے فلاں چیز حلال کی ہے، یا اسے پسند ہے، اور اللہ قیامت کے دن فرمائے گا: نہ میں نے اس کو حلال کیا تھا اور نہ مجھے پسند تھی۔ اسی طرح تمہارا حال اس شخص کا سا بھی نہ ہوجائے جو کہتا ہے کہ فلاں چیز اللہ نے حرام کردی ہے، لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹا ہے، میں نے نہ اسے حرام کیا تھا اور نہ اس سے روکا تھا۔ ابراہیم نخعی سے جو کہ کوفہ کے ممتاز فقہاء تابعین میں سے ہیں، منقول ہے کہ: جب ان کے اصحاب فتویٰ دیتے تو “یہ مکروہ ہے” یا “اس میں کوئی حرج نہیں” کے الفاظ استعمال کرتے، کیونکہ کسی چیز پر حلت و حرمت کا حکم لگانے سے زیادہ غیر ذمہ دارانہ بات اور کیا ہوسکتی ہے؟” (بحوالہ اسلام میں حلال و حرام، یوسف القرضاوی)

علامہ ابنِ تیمیہ سے منقول ہے کہ سلف صالحین حرام کا اطلاق اسی چیز پر کرتے تھے جس کی حرمت قطعی طور پر ثابت ہوتی۔ اِمام احمد بن حنبل سوالوں کے جواب میں فرماتے: “میں اسے مکروہ خیال کرتا ہوں، اچھا نہیں سمجھتا، یا یہ پسندیدہ نہیں ہے۔” (بحوالہ ایضاً)

مندرجہ بالا اللہ کے حکم، حدیث اور فقہاء کے طرزِ عمل سے واضح ہے کہ وہ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار نہیں دیتے تھے جب تک کہ وہ واضح نہ ہو، کیونکہ حلال و حرام کرنے کا اختیار صرف اور صرف خدا کو ہے، پھر کس طرح فقہاء کا قول کسی چیز کے حرام و حلال میں سند ہو؟ وہ کسی چیز کو مکروہ کہہ سکتے ہیں، کراہت کا اظہار کرسکتے ہیں، ناجائز کہہ سکتے ہیں، حلال و حرام کا فتویٰ تو نہیں لگاسکتے؟

ایک اور حدیث ہے حضرت جابر کہتے ہیں: رسول اللہ نے اُنگلیوں کو چاٹنے اور رکابی کو صاف کرنے کا حکم دیا ہے، اور فرمایا: تم نہیں جانتے کہ کس اُنگلی یا نوالے میں برکت ہے۔ تو کیا کھانے کے بعد اُنگلی کو نہ چاٹنے والا اور رکابی کو نہ صاف کرنے والا حرام کا مرتکب ہے؟ کیونکہ یہاں تو صریحاً حکم ہے۔ اسی طرح کی اور حدیث پیش کی جاسکتی ہیں، لیکن ان میں سے کسی کے متعلق حرام کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا، جس طرح شدّت سے داڑھی کے ایک مشت سے کم ہونے پر لگایا جاتا ہے (حالانکہ نہ ہی خدا نے اور نہ ہی خدا کے رسول نے یہ مقدار مقرّر کی ہے)۔

ج… فقہائے اُمت کے نزدیک ایک مشت کی مقدار داڑھی رکھنا واجب ہے اور منڈوانا یا ایک مشت سے کم کٹانا حرام ہے۔ شیخ ابنِ ہمام رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:

“․․․․ وأما الأخذ منھا وھی دون ذٰلک کما یفعلہ بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم یبحہ أحدٌ۔”

اس سے دو سطر قبل ہے:

“․․․․ یحمل الاعفا علٰی اعفائھا من أن یأخذ غالبھا أو کلھا کما ھو فعل المجوس الأعاجم من حلق لحاھم کما یشاھد فی الھنود ․․․․۔” (فتح القدیر ج:۲ ص:۷۷)

ترجمہ:… “اور داڑھی کا کترانا جبکہ وہ ایک مشت سے ہو، جیسا کہ بعض مغربی لوگ اور ہیجڑے قسم کے مرد کرتے ہیں، سو اس کو کسی نے بھی حلال اور مباح نہیں لکھا ․․․․ اور پوری داڑھی صاف کردینا ہندوستان کے یہودیوں اور عجم کے مجوسیوں کا کام ہے۔”

یہی مضمون شامی طبعِ جدید ج:۲ ص:۴۱۸، البحر الرائق ج:۲ ص:۳۰۲ اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی فارسی شرح مشکوٰة ج:۱ ص:۲۲۸ میں بھی ہے۔ فقہائے اُمت کے اس اِجماع اور متفقہ فیصلے کے بعد یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ داڑھی رکھنے کا حکم کس درجے کا ہے؟ اور اس کے کٹانے یا منڈانے کی ممانعت کس درجے کی ہے؟ بلاشبہ کسی چیز کو حرام کہنے میں بڑی احتیاط سے کام لینا چاہئے، لیکن جو چیزیں بالاجماع حرام ہوں ان کو جائز کہنے میں بھی کچھ کم احتیاط کی ضرورت نہیں۔ کسی حلال کو حرام کہنا بُری بات ہے تو اِجماعی حرام کو حلال کرنے کی کوشش بھی کچھ اچھی بات نہیں۔

یہ تو آپ نے بالکل صحیح فرمایا کہ حلال و حرام کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام کرنے اور حرام کو حلال کرنے کا حق کسی کو حاصل نہیں۔ آپ کا یہ ارشاد بھی بجا ہے کہ سلف صالحین فتویٰ دینے میں بڑی احتیاط فرماتے تھے، اور کرنی بھی چاہئے، اور آپ کا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ ہر حکم ایک درجے کا نہیں ہوتا، حکم کبھی استحباب کے درجے میں بھی ہوتا ہے، بلکہ کبھی جواز کے درجے میں بھی، جیسا کہ فرمایا ہے: “وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا” اس آیتِ کریمہ میں شکار کرنے کا حکم محض جواز کے درجے میں ہے۔ اسی طرح کسی چیز کی ممانعت کبھی تحریم کے لئے ہوتی ہے، کبھی کراہتِ تحریمی کے طور پر، کبھی کراہتِ تنزیہی کے طور پر اور کبھی محض ارشادی ہوتی ہے۔

اس اَمر کا تعین کرنا کہ کون سا حکم کس درجے کا ہے؟ اور کون سی ممانعت کس درجے کی ہے؟ یہ حضراتِ فقہائے اُمت کا کام ہے، میرا اور آپ کا کام نہیں، اور یہ چیز چونکہ اِجتہاد سے تعلق رکھتی ہے اس لئے بعض اُمور میں حضراتِ فقہائے اُمت کے درمیان اختلاف بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ ایک اِمام ایک چیز کو جائز کہتا ہے تو دُوسرا ناجائز، ایک واجب کہتا ہے تو دُوسرا سنت، لیکن داڑھی کے مسئلے میں فقہائے اُمت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔

مونچھیں قینچی سے کاٹنا سنت اور اُسترے سے صاف کرنا جائز ہے

س… داڑھی کے متعلق شرعی اَحکامات کیا ہیں؟ غالباً یہ سنت ہے، اصل مسئلہ داڑھی کی نوعیت اور وضع قطع کا ہے۔ عام مشاہدے میں تو طرز طرز، وضع وضع کی داڑھیاں دیکھنے میں آتی ہیں، بعض حضرات بہت گھنی سرسیّد نما رکھتے ہیں، بعض صرف ٹھوڑی پر رکھتے ہیں، اور دائیں بائیں رُخساروں کے بال ترشوادیتے ہیں، عرب ممالک میں اس کا عام رواج ہے۔ بعض داڑھی کے ساتھ ساتھ مونچھیں بھی رکھتے ہیں، بعض اُسترے سے مونچھیں منڈوادیتے ہیں، مہربانی فرماکر وضاحت کریں کہ حنفی عقیدے کے مطابق اصل اَحکامات کیا ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس بارے میں کچھ حدود اور قیود ہوں گی، اور باقی انفرادی اختیار کو دخل ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو وہ کیا حدود ہیں جن کی پابندی لازمی ہے؟ ٹھوڑی پر اور دائیں بائیں رُخساروں پر کتنے بال ہونے چاہئیں؟ سائز میں کتنی لمبی ہوں؟ مونچھیں رکھنا، ترشوانا یا اُسترے سے منڈوانا کون سا صحیح طریقہ ہے؟ کیا گردن کی نچلی طرف نرخرے کے نیچے سے بال صاف کراسکتے ہیں، وضاحت فرمائیں۔

ج… حدیثِ پاک میں داڑھی بڑھانے اور مونچھوں کو صاف کرانے کا حکم ہے۔ حنفی مذہب میں داڑھی بڑھانے کی کم از کم حد یہ ہے کہ داڑھی مٹھی میں پکڑ کر جو زائد ہو اس کو کاٹ سکتے ہیں، اس سے زیادہ کاٹنا جائز نہیں، گویا داڑھی کم از کم ایک مٹھی ہونی چاہئے۔

مونچھوں کا حکم یہ ہے کہ قینچی سے باریک کترانا تو سنت ہے، اور اُسترے سے صاف کرانا بعض کے نزدیک دُرست ہے، اور بعض کے نزدیک مکروہ ہے، اور لبوں کے برابر سے مونچھیں کاٹ دی جائیں تب بھی جائز ہے۔

مونچھوں کا سکھوں کی طرح بڑھانا حرام ہے، اور تراشنا ضروری ہے، تراشنے کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ پوری مونچھوں کو صاف کردیا جائے، اور دُوسری بات یہ ہے کہ لب کے پاس سے اتنا تراش دیا جائے کہ لب کی سرخی ظاہر ہوجائے۔

داڑھی منڈانے کا گناہ ایسا ہے کہ ہر حال میں آدمی کے ساتھ رہتا ہے

س… کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بغیر داڑھی کے کوئی شخص مسجد میں اَذان نہیں دے سکتا اور نہ ہی وہ اِمامت کرسکتا ہے، اور کچھ لوگ اس بات کے حق میں نہیں۔ زیادہ تر کوشش کرکے نماز باجماعت پڑھتا ہوں، اس لئے میں نے رمضان میں جب موقع ملا اَذانیں بھی دِیں، لیکن چار روز پہلے میں مغرب کی اَذان دینے والا تھا کہ کچھ لوگوں نے مجھے اس وجہ سے اَذان نہیں دینے دی کہ میری داڑھی نہیں ہے۔ اب اہم مسئلہ یہ ہے کہ کیا کوئی بغیر داڑھی کے اَذان دے سکتا ہے یا کہ نہیں؟ اور ہمارے مذہب اسلام میں جو کہ ایک مکمل دِین ہے اس بارے میں کیا کہا گیا ہے؟ اور داڑھی کی ہمارے مذہب میں کیا اہمیت ہے؟ کیا داڑھی ہر مسلمان پر فرض ہے؟ کیا داڑھی کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی؟ اور داڑھی کتنی بڑی ہونی چاہئے؟

ج… داڑھی رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور اس کا منڈانا اور کترانا (جب ایک مشت سے کم ہو) حرام ہے، اور ایسا کرنے والا فاسق اور گنہگار ہے۔ فاسق کی اَذان و اِمامت مکروہِ تحریمی ہے۔ داڑھی کی شرعی مقدار واجب ایک مشت ہے۔ رہا یہ کہ اس کی عبادت قبول ہوتی ہے یا نہیں؟ اس کا علم تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، مگر اتنی بات تو بالکل ظاہر ہے کہ جو شخص عین عبادت کی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر رہا ہو، اس کا قبولیت کی توقع رکھنا کیسا ہے؟ داڑھی منڈانے کا گناہ ایسا ہے کہ سوتے جاگتے ہر حال میں آدمی کے ساتھ رہتا ہے۔

شادی کرنا زیادہ اہم ہے یا داڑھی رکھنا

س… میں ایک غیرشادی شدہ نوجوان ہوں، اب میری شادی کا پروگرام طے ہو رہا ہے، دو جگہوں پر صرف داڑھی کی وجہ سے انکار کیا گیا اور تیسری جگہ بھی یہی شرط رکھی گئی ہے۔ اس طرح میرے لئے ایک پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے، کیونکہ مجرّد کی حیثیت سے میں ہمیشہ زندگی بسر نہیں کرسکتا اور گناہ کا ارتکاب ممکن ہے۔ عالی جناب سے گزارش ہے تحریر فرمائیں کہ داڑھی اور شادی کرنے کی دِینِ اسلام میں کیا فضیلت ہے؟ دونوں میں کون سا عمل زیادہ اہم سمجھا جائے گا؟ از راہِ کرم اس سلسلے میں میری حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے مجھے مفید مشورہ دے دیا جائے۔ نیز میرے والدین کا مشورہ یہ ہے کہ شادی کرنے کے بعد آپ داڑھی پھر رکھ سکتے ہیں، مگر شادی آج کے دور میں ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہے، کیونکہ شادی کا تعلق عمر سے ہے۔

ج… داڑھی اور شادی دونوں کی اہمیت اپنی جگہ ہے، داڑھی تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی متفقہ سنت، مردانہ فطرت اور شعارِ اسلام ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھنے کا بار بار حکم فرمایا ہے اور اسے صاف کرانے پر غیظ و غضب کا اظہار فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داڑھی رکھنا بالاتفاق واجب ہے، اور منڈانا یا ایک مشت سے کم ہونے کی صورت میں کترانا بالاتفاق حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔ جو لوگ داڑھی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے شادی کے لئے داڑھی صاف کرانے کی شرط لگاتے ہیں، وہ ایک سنتِ نبوی اور شعارِ اسلام کی توہین کرنے کی وجہ سے ایمان سے خارج ہیں۔ آپ کو شادی کے لئے داڑھی صاف کرانے کی فکر نہیں کرنی چاہئے بلکہ ان لوگوں کو تجدیدِ ایمان کی فکر کرنی چاہئے۔

حجام کے لئے شیو بنانا اور غیر شرعی بال بنانا

س… میں پانچوں وقت نماز پڑھتا ہوں، ایک دن ظہر کی نماز پڑھ کر وضو کرکے سو گیا، خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ کوئی مجھے کہہ رہا ہے کہ: “ظالم! تم قیامت کے دن خدا کو کیا جواب دوگے؟ کہ تم پیارے نبی علیہ الصلوٰة والسلام کی سنت کاٹتے ہو (یعنی شیو بنانا)۔” میں حجام کا کام کرتا ہوں، آپ مہربانی فرماکر جواب دیں کہ میں کیا کروں؟ کیا اس کام کو چھوڑ دُوں؟

ج… آپ کا خواب بہت مبارک ہے، داڑھی مونڈنا حرام ہے اور حرام پیشے کو اختیار کرنا کسی مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔ آپ بال اُتارنے کا کام ضرور کرتے رہیں، مگر داڑھی مونڈنے اور غیرشرعی بال بنانے سے انکار کردیا کریں۔

کیا داڑھی کا مذاق اُڑانے والا مرتد ہوجاتا ہے جبکہ داڑھی سنت ہے؟

س… موٴرخہ ۱۹/دسمبر ۱۹۸۶ء کے روزنامہ “جنگ” (بروز جمعہ) میں آپ نے اپنے کالم “آپ کے مسائل” میں محترم سیّد امتیاز علی شاہ صاحب کے ایک سوال کا جواب دیا ہے جو انہوں نے داڑھی کا مذاق اُڑانے والے کے بارے میں کیا تھا۔ آپ کے جواب سے ایسا مترشح ہوتا ہے کہ داڑھی کا مذاق اُڑانے والا مرتد ہوجاتا ہے اور اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، جبکہ داڑھی رکھنا سنت ہے اور سنت کا مذاق اُڑانے یا انکار کرنے والا اسلام سے خارج یا مرتد نہیں ہوتا، مگر گناہگار ہوجاتا ہے۔ جبکہ فرض کا انکار کرنے والا مرتد اور خارج از اسلام ہوجاتا ہے۔ اس سے میرا منشا یہ ہرگز نہیں کہ داڑھی کا انکار یا مذاق کیا جائے (نعوذ باللہ) یہ سخت گناہ کا کام ہے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ شریعت کی روشنی میں صحیح فتویٰ جاری کیا جائے۔

ج… داڑھی رکھنا صرف سنت نہیں بلکہ واجب ہے، اور اس کا منڈانا یا تراشنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دِین کی کسی بات پر عمل نہ کرنا تو گناہ ہے، لیکن دِین کی کسی بات کا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سنت کا مذاق اُڑانا صرف گناہ نہیں بلکہ کفر و اِرتداد ہے، اور اس سے آدمی واقعتا دائرہٴ اسلام سے نکل جاتا ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سنت کا مذاق اُڑانا یا اس کو بُرا سمجھنا اور نفرت کی نگاہ سے دیکھنا دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تنقیص اور آپ کا مذاق اُڑانا ہے۔ کیا کوئی ․․․نعوذ باللہ․․․ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تنقیص کرنے اور آپ کا مذاق اُڑانے کے بعد بھی مسلمان رہ سکتا ہے؟ کیا جس شخص کے دِل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی مبارک سنت کا مذاق اُڑانے کی جرأت کرسکتا ہے؟ اور کوئی بدبخت اس کی جرأت کرہی بیٹھے تو اس کا ایمان باقی رہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! کبھی نہیں․․․! ایمان تو ماننے اور تسلیم کرنے کا نام ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی چھوٹی سے چھوٹی سنت کا بھی مذاق اُڑائے یا اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھے، کیا اس نے ایمان و تسلیم کا مظاہرہ کیا یا شیطان کی طرح کبر و نخوت اور کفر و عناد کا․․․؟ یہ نکتہ قرآنِ کریم، احادیث شریف اور اکابرِ اُمت کے ارشادات سے بالکل واضح ہے کہ کسی سنت کا مذاق اُڑانے والا مسلمان نہیں، کافر و مرتد ہے۔ آنجناب نے جو فرمایا کہ سنت کا مذاق اُڑانے سے آدمی صرف گنہگار ہوتا ہے اور فرض کا مذاق اُڑانے سے کافر و مرتد ہوجاتا ہے، یہ اُصول صحیح نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ دِین کی کسی بات کا مذاق اُڑانا کفر و ارتداد ہے۔

داڑھی: مسلمانوں کے تشخص کا اظہار

س… جمعہ کی اشاعت میں ایک مضمون نظر سے گزرا، مضمون نگار اپنے اس مضمون میں نہ صرف بہت زیادہ انتہاپسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ وہ ایک ایسی الزام تراشی کے مرتکب ہوئے ہیں جس کا تصوّر بھی کوئی مسلمان نہیں کرسکتا۔ صاحبِ مضمون نے اپنے مضمون میں یہ لکھا ہے کہ: “اللہ تعالیٰ نے انسان کو مرد اور عورت کے جوڑے سے پیدا کیا ہے، دونوں کی نفسیات، جذبات اور چہروں میں نمایاں فرق رکھا ہے، مرد کے چہرے پر عورت کے چہرے کے برعکس مردانہ وجاہت کے لئے داڑھی تخلیق فرمائی ہے، بلکہ سجائی ہے، مگر افسوس کہ آج ایمان کے دعوے داروں نے اللہ تعالیٰ کی اس بہترین تخلیق کا انکار کیا، بلکہ دُشمنی کی، فطرتِ انسانی کو رَدّ کردیا، اسے اپنے چہروں سے کاٹ کر پھینک دیا، اس بات کی پہچان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے کار پیدا نہیں کی ہے، مگر بس ایک چیز بے کار پیدا کی ہے اور وہ مرد کے چہرے پر داڑھی (معاذ اللہ)۔” میں سمجھتا ہوں کہ دُنیا کا کوئی بھی مسلمان اس بات پر ایمان نہیں رکھتا کہ اللہ تعالیٰ نے داڑھی بے کار پیدا کی ہے، یہ ڈاکٹر صاحب کی الزام تراشی ہے جو وہ تمام مسلمانوں پر کر رہے ہیں۔ اس سے آگے چل کر موصوف نے صحیح مسلم اور مشکوٰة کی احادیث بیان کرنے کے بعد حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت بھی بیان کی ہے کہ: “اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ان مردوں پر لعنت ہو جو عورتوں کی مشابہت کریں، اور ان عورتوں پر لعنت ہو جو مردوں کی مشابہت کریں۔” اس کے بعد انہوں نے لکھا ہے کہ: “داڑھی نہ رکھنے والوں کو عیسائیوں کے چہرے سے محبت، ہندووٴں کے چہروں سے محبت، مرد ہوکر زَنانے چہروں سے محبت اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہٴ انور سے نفرت (معاذ اللہ)، تمام انبیاء کے چہروں سے نفرت، صحابہ رضی اللہ عنہم کے چہروں سے نفرت (معاذ اللہ) یہ ہے ایمان، یہ ہے اطاعت و فرماں برداریٴ رسول۔” مندرجہ بالا تحریر میں تو مضمون نگار نے ایک ایسی بات کی ہے، ایک ایسا الزام لگایا ہے جس کا تصوّر کسی ایسے مسلمان سے بھی نہیں کیا جاسکتا جو صرف اپنے نام کا مسلمان ہو، اور اس نے آج تک کوئی عمل بھی مسلمانوں جیسا نہ کیا ہو، لیکن پھر بھی اس کے دِل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہٴ سے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے چہرہٴ مبارک سے اتنی شدید گہری محبت ہوتی ہے کہ جس کا تصوّر بھی شاید نہیں کرسکتے۔ ایک مسلمان اپنے دِل میں انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نفرت کا تصوّر تو ذہن میں لاہی نہیں سکتا۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ ناموسِ رسالت پر جان دینے والے، صحابہ کرام کی محبت میں اپنا سر تک کٹادینے والے عامی مسلمان تھے۔ آخر میں، میں صاحبِ مضمون سے درخواست کروں گا کہ خدارا! آخرت کی جوابدہی کو پیشِ نظر رکھیں اور عام مسلمانوں پر ان باتوں کا الزام نہ لگائیں جس کا تصوّر بھی وہ نہیں کرسکتے۔ ہمارے معاشرے میں جو میں کہوں گا کہ نوّے فیصد غیراسلامی معاشرہ ہے، بے انتہا سنتوں کو چھوڑ دیا گیا ہے، لیکن ان سنتوں پر عمل نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ معاذ اللہ عام مسلمان یہ گناہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے نفرت کی بنیاد پر کر رہا ہے، بلکہ یہ گناہ وہ یقینا گناہ کا احساس رکھتے ہوئے معاشرے کی خرابی کی بنا پر کر رہا ہے، بلکہ میں تو یہ کہوں گے کہ یہ گناہ اس سے غیرشعوری طور پر سرزد ہو رہا ہے۔ جب دُوسرے گناہوں میں ملوّث ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نفرت کر رہا ہے تو داڑھی نہ رکھنے کا یہ مطلب کہاں سے ہے کہ اسے معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نفرت ہے؟ خدا کے واسطے! ایسی تحریروں سے اجتناب کریں جس میں الزام تراشی کے سوا کچھ نہ ہو، ایسے الفاظ کے استعمال سے پرہیز کریں جس سے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کا مطلب نکالیں، ایسی ہی تحریروں سے لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں اور الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

ج… آپ کا یہ کہنا صحیح ہے کہ گناہگار سے گناہگار مسلمان بھی اللہ تعالیٰ سے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت رکھتا ہے، لیکن محبت دِل میں چھپی ہوئی چیز ہے، اور اس کا اظہار آدمی کی حرکات سے ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو معلوم ہے کہ داڑھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بڑھانے کا حکم فرمایا ہے اور اس کے تراشنے پر یہاں تک غیظ و غضب کا اظہار فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنی مجلس سے اُٹھ جانے کا حکم فرمایا، اور یہ کہ میں تم سے بات نہیں کروں گا۔ (تاریخ ابنِ کثیر ج:۴ ص:۲۶۹) اس بنا پر تمام فقہائے اُمت نے داڑھی منڈوانے کو حرام اور گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے۔ جو مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تاکیدی حکم کے خلاف نصاریٰ اور مجوسیوں کی مشابہت کرتا ہے، اس کے بارے میں کیا رائے قائم کی جائے؟ داڑھی منڈوانا عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے، اور عورتوں کی مشابہت کرنے والوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے، کیا کوئی مسلمان جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت ہو، وہ اس ملعون کام کو کرے گا؟ یہ تو آپ نے صحیح فرمایا کہ بعض مسلمان غیرشعوری طور پر معاشرے کی خرابی کی وجہ سے اس گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں، لیکن بہت سے لوگ ایسے ہیں جو داڑھی سے نفرت کرتے ہیں، اس کا مذاق اُڑاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ: “داڑھی منڈواوٴ، ورنہ لڑکی نہیں دیں گے” اور بہت سے والدین اپنے نوجوان لڑکوں کو اس گناہ پر مجبور کرتے ہیں، کیا ان کے بارے میں یہی کہا جائے کہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے؟ میں ان کے دِل میں چھپی ہوئی محبت کا انکار نہیں کرتا، لیکن ان کا طرزِ عمل محبت کی نفی کرتا ہے، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ضد اور عناد کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت نصیب فرمائے۔

کیا داڑھی نہ رکھنے اور کٹوانے والوں کی عبادت قبول ہوگی؟

س… جو لوگ داڑھی نہیں رکھتے یا خلافِ سنت داڑھی رکھتے ہیں، کیا ان کے اعمال قبول ہوں گے یا نہیں؟

ج… یہ تو قبول کرنے والا ہی جانتا ہے، لیکن جو شخص عین عبادت میں بھی خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی علامت منہ پر لئے ہوئے ہو، اسے نہ اس پر ندامت ہو، نہ وہ اس سے توبہ کرے، اس کی عبادت قبول ہونی چاہئے یا نہیں؟ اس کا فتویٰ اپنی عقلِ خداداد سے پوچھئے․․․! مثلاً جو شخص حج کے دوران بھی اس گناہ سے توبہ نہ کرے اور نہ حج کے بعد اس سے باز آئے، کیا خیال ہے کہ اس کا حج، حجِ مبرور ہوگا․․․؟ جبکہ حجِ مبرور نام ہی اس حج کا ہے جو خدا تعالیٰ کی نافرمانی سے پاک ہو۔