عشرہ ذی الحجہ فضائل وخصوصیات 

اسلامی مہینوں میں آخری مہینہ ذو الحجہ کا ہے، اسلام کے سارے ہی مہینے محترم اور قابل عظمت ہیں لیکن اللہ تعالی نے بعض مہینوں کو خاص فضیلت اور عظمت سے نوازا، ان میں سے ایک ذوالحجہ کا مہینہ بھی ہے، جس کا احترام شروع زمانہ سے چلتا آرہاہے، اللہ تعالی نے اس مہینہ میں کچھ عبادتوں کو رکھا ہے جس کی وجہ سے اس کی عظمت میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔
ماہِ ذی الحجہ کی اہمیت:
ماہِ ذی الحجہ کو مختلف عبادات کی وجہ سے خصوصی مقام اور امتیاز حاصل ہے، حج جیسی عظیم عبادت انجام دی جاتی ہے اسی مناسبت سے اس کا نام ذوالحجہ ہے یعنی حج والامہینہ۔ ذوالحجہ کا مہینہ زمانہ جاہلیت میں بھی محترم و متبرک سمجھا جاتا ہے اوردور ِ جاہلیت میں اس مہینہ کی عظمت کا پورا پورا کیا خیال کیا جاتا۔ قرآن کریم نے جن چار مہینوں کو اشہر حرم قرار دیا ان میں سے ایک ذوالحجہ ہے۔ اشہر حرم کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہاگیا، ایک تو اس لئے کہ ان میں قتل و قتال حرام ہے، دوسرے اس لئے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں، ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے، ان میں سے پہلا حکم تو شریعت اسلام میں منسوخ ہوگیا، مگر دوسرا حکم احترام و ادب اور ا ن میں عبادت گذاری کا اہتمام اسلام میں باقی ہے۔ (معارف القرآن :4/372)
زمانہ جاہلیت میں چوں کہ اشہر حرم میں جنگ و جدال اور قتل و قتال سے لوگ باز آتے یہاں تک کہ ان کے سامنے سے اگر باپ کا قاتل بھی گذرتا تو وہ ان مہینوں کی تعظیم میں اس کو چھوڑدیتے۔ چناں چہ انہی حرمت والے مہینوں میں سے ذوالحجہ بھی ہے۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے :
سَیِّدُ الشُّھُوْرِ شَھْرُ رَ مَضَا نَ وَاَعْظَمُھَا حُرْمَۃً ذُوْالْحِجَّۃِ۔ ( فضائل الاوقات للبیہقی:89)
 ذوالحجہ کا پورا مہینہ ہی قابل ِ احترام ہے لیکن اس کے ابتدائی دس تو بہت ہی فضیلت اور عظمت والے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اس کی عظمت و اہمیت کو بیان فرمایا اور نبی کریمﷺ نے امت کو عشرہ  ذی الحجہ کی قدردانی سے آگاہ فرمایا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ۔ ( الفجر:1، 2، 3)
قسم ہے فجر کے وقت کی، اور دس راتوں کی، اور جفت کی اور طاق کی۔
اس میں اللہ تعالی نے تین چیزوں کی قسم کھائی، پہلی قسم فجر کے وقت کی ہے، بعض مفسرین نے اس آیت میں خاص دس ذو الحجہ کی صبح مراد لی ہے۔ (توضیح القرآن:3/1922)
دوسری قسم دس راتوں کی کھائی ہے، بیشتر مفسرین نے ان دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کے شروع کے دس دن لئے ہیں۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے :
ان العشرۃ عشرۃ الاضحی ، والوتر یوم عرفۃ، والشفع یوم النحر۔ (الدرالمنثور:15/399)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :کہ دس سے مراد ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہے اور طاق سے مراد یوم عرفہ ہے اور جفت سے مراد عید الاضحی کا دن ہے۔
ایک حدیث میں ارشاد ہے :
عَشْرُ الْاَضْحٰی ھِیَ اَفْضَلُ اَیَّام السَّنَۃِ۔ (الدرالمنثور:15/399)
کہ عشرہ ذی الحجہ یہ تما م سال کے دنوں میں سب سے افضل ہے۔
ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے عشرہ  ذی الحجہ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:کہ کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالی کے یہاں ان ( ذی الحجہ کے) دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو، صحابہ کرام ؓ نے عر ض کیا کہ اے اللہ کے رسول !کیا یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے ؟تو رسول اللہ ?نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے، مگر وہ شخص جو جان اور مال لے کر اللہ کے راستے میں نکلے، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آئے ( سب اللہ کے راستے میں قربان کردے، اور شہید ہوجائے یہ ان دنوں کے نیک عمل سے بھی بڑھ کر ہے )( ترمذی :حدیث نمبر؛687)
ایک اور حدیث میں اسی طرح کا ایک ارشاد ہے :کہ اللہ عزوجل کے نزدیک کوئی عمل زیادہ پاکیزہ اور اجر و ثواب کے اعتبار سے زیادہ عظیم نہیں ہے، اس نیک عمل کے مقابلہ میں جس کو انسان ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں کرتا ہے، عرض کیا گیا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی افضل نہیں ہے ؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنا بھی ( اس سے ) افضل نہیں ہے، سوائے اس آدمی کے کہ جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلا، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی لوٹ کر نہیں لایا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر ؓ ( جو اس حدیث کے راوی ہیں ) جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ داخل ہوجاتا تھا تو انتہائی جد و جہد کرتے تھے یہاں تک کہ بعض اوقات اس کی قدرت بھی نہیں ہوتی تھی۔ ( سنن دارمی :حدیث نمبر؛1727)
ایک حدیث میں فرمایا :کہ دنیا کے دنو ں میں سب سے افضل دن ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کے دن ہیں۔ ( کشف الاستار:حدیث نمبر؛1050) 
عشرہ  ذی الحجہ اور کثرت ِ ذکر:
عشرہ  ذی الحجہ میں تسبیح و تہلیل اور ذکر کی کثرت کی تلقین بھی نبی کریم ﷺنے فرمائی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا:ویذکر و ااسم اللہ فی ایام معلومات۔ ( الحج:28)
اور چند مقررہ دنوں میں اللہ کا نام لیں۔ ان مقررہ دنوں سے بعض حضرات نے ذوالحجہ کا عشرہ مراد لیا ہے۔ (روح المعانی :17/145)
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
مامن ایام اعظم عند اللہ، ولا احب الیہ من العمل فیھنمن ھذہ الایام العشر، فاکثروا فیھن من التھلیل، والتکبیر، والتحمید۔ ( مسند احمد:حدیث نمبر؛5294)
ترجمہ:کوئی دن بھی اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عظیم اور پسندیدہ نہیں ہے جن میں کوئی عمل کیاجائے، ذی الحجہ کے ان دس دنوں کے مقابلے میں، تم ان دس دنوں مین تہلیل، تکبیر اور تحمید کی کثرت کیا کرو۔
 ایک روایت میں فرمایا :فاکثروا فیھن التسبیح، والتکبیر، و التھلیل۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی:10960)
کہ تم ان دس دنوں میں تسبیح، تکبیر اور تہلیل کی کثرت کیا کرو۔
خصوصیاتِ عشرہ  ذی الحجہ:
اللہ تعالی نے عشرہ  ذی الحجہ کو مختلف عبادتوں کے ذریعہ خصوصیت بخشی ہے، اس پورے عشرہ میں اسلام کے اہم ترین اعمال انجام دئیے جاتے ہیں اور عبادتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، عشرہ  ذی الحجہ میں روزے رکھنے کی فضیلت آئی ہے، قربانی دینے والوں کو بال و ناخن کاٹنے سے روکا گیا، تکبیرات ِ تشریق کہنے کا حکم دیا گیا، حج جیسی عظیم عبادت انجام دی جاتی ہے اور قربانی کا اہم ترین عمل بھی اسی میں کیا جاتا ہے اسی دن مسلمانوں کی دوسری بڑی اور اہم عید عید الاضحی منائی جاتی ہے۔عشرہ ذی الحجہ بڑی ہی اہمیت اور عظمت والا عشرہ ہے، اس کی خصوصیت اور فضیلت احادیث میں بکثرت آئی ہیں، اور اسلام کے اہم ترین عبادات اس میں انجام دئیے جاتے ہیں، اس کی تعظیم اور احترام کرنا چاہیے اور عبادات وغیرہ کا اہتمام کرنا چاہیے، بالخصو ص معاصی اور گناہوں کے کاموں اور نافرمانی والے اعمال سے بچنا ضروری ہے، کیوں کہ جب اللہ تعالی نے ان دنوں کی عظمت کو بڑھا دیا اور اس میں عبادت انجام دینے پر اجر وثواب میں زیادتی ہوگی، اسی طرح اس دنوں کو بے حرمتی کرتے ہوئے گناہوں کا ارتکاب کرنے پر سز ااور عتاب میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ (روح المعانی :10/92)اس لئے اس دنوں کا بطور ِ خاص اہتما م کرنا چاہیے۔اللہ رب العزت ہمیں ان ایام کی قدر نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
٭…٭…٭