’’یا رسول اللہ‘‘ کہنا کب بدعت ہے؟

میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ ایک شخص کے سامنے کسی مجلس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کا نام گرامی آیا اور اس کو بے اختیار یہ تصور آیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سامنے موجود ہیں اور اس نے یہ تصور کرکے کہہ دیا کہ
’’اَلصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہ‘‘
اور حاضر و ناظر کا عقیدہ اس کے دل میں نہیں تھا بلکہ جس طرح ایک آدمی غائب چیز کا تصور کرلیتا ہے کہ یہ چیز میرے سامنے موجود ہے، تو اس تصور کرنے میں اوریہ الفاظ کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ الفاظ اس عقیدے کے ساتھ کہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم یہاں پر اس طرح حاضر و ناظر ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ حاضر و ناظر ہیں تو یہ شرک ہوجائے گا۔ معاذ اللہ اور اگر اس عقیدے کے ساتھ تو نہیں کہے لیکن یہ سوچا کہ
’’اَلصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہ‘‘
کہنا سنت ہے اور اس طرح درود پڑھنا ضروری ہے، اور جو شخص اس طرح یہ الفاظ نہ کہے گویا اسکے دل میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت نہیں ہے۔ توپھر یہی عمل بدعت، ضلالت اور گمراہی ہے۔
لہٰذا عقیدے اور عمل کے ذرا سے فرق سے ایک جائز چیز ناجائز اور بدعت بن جاتی ہے۔ آپ جتنی بدعتیں دیکھیں گے، ان میں سے اکثر ایسی ہیں جو بذاتِ خود مباح تھیں اور جائز تھیں لیکن جب اسے فرض کی طرح لازم کرلیا گیا تو اس سے وہ بدعت بن گئیں۔
[اصلاحی خطبات جلد نمبر ۱، صفحہ نمبر: ۲۳۲]
سوال: کیا محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) ہر جگہ حاضر و ناضر ہیں؟
کیا ہر وقت یا رسول اللہ کہنا جائز ھے؟
عبدالرقیب
جواب: آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر جگہ حاضر ناظر نہیں ہے
اور نہ ہی ہر جگہ یا رسول اللہ کہنا صحیح
……
مسلم گجرات فتاویٰ سنگرہ میں حضرت مفتی اسمعیل بسم اللہ صاحب ایسے ہی ایک سوا ل کے جواب میں لکھتے ہیں کہ ــ’’یا‘‘ عربی زبان میں ندا کے لئے آتا ہے۔ جو قریب یا دور کے کسی انسان کو بلانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کوئی دور ہو یا نزدیک ہو اسے بلانا ہو یا خطاب کرنا ہو تو اس کے نام یالقب کے آگے حرف ندا ’’یا‘‘ بڑھا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس طرح بلانے یا آواز دینے کا مقصد اپنا کوئی کام نکلوانا یا مقصد پورا کروانا یا مدد مانگنا وغیرہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالی تو ہر جگہ حاضروناظر ہے۔ اسی طرح وہ نزدیک کی یا دور کی سب پکاریں سنتا ہے۔ اس لئے ہم جب اللہ کے نام کے ساتھ ’’یا‘‘ لگاتے ہیں اوریا اللہ بولتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے اللہ تو میری مدد فرما۔
اسی طرح یا رسول اللہ بولنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اللہ کے رسول سے مدد مانگتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی طرح اللہ کے رسول بھی ہر جگہ حاضروناظر ہے۔ اور وہ بھی دور یا نزدیک کی ہر پکار سن سکتے ہیں ۔ تو ظاہری بات ہے کہ یہ عقیدہ اسلامی نہیں ہے۔ اور غیر شرعی عقیدہ ہونے کے ساتھ اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ اس لئے کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی حاضرو ناظر ، ایک ہی وقت میں ہر جگہ موجود نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ کے علاوہ کوئی بھی ذات دور اور نزدیک کی پکار سننے کی طاقت نہیں رکھتی۔ یہ صفت صرف اور صرف اللہ ہی کے ساتھ خاص ہے۔ اس لئے یا رسول اللہ کہنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ ایسے عقیدہ کی وجہ سے اور اس کے مذکورہ مطلب کی روشنی میں یہ شرکیہ کلمہ ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مدد کے لئے صرف یا اللہ کا لفظ ہی استعمال کریں ۔ فقط و اللہ تعالی اعلم
فتاوی دینیہ یا رسول اﷲ کہنا کیسا ہے؟:
(سوال۳۷ ) یا رسول اﷲ کہنا جائز ہے یا نہیں؟
(الجواب)یارسول اﷲ کہنے میں بڑی تفصیل ہے بعض طریقے سے جائز اور بعض طریقے سے ناجائز ہے ۔ بے شک رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم حیات ہیں ۔ قبر شریف کے پاس درود وسلام پڑھا جاتا ہے تو آپ خود سنتے ہیں ۔ اور کسی دور دراز مقام سے صلوٰۃ و سلام بھیجا جائے تو فرشتے آپ کی خدمت اقدس میں بالا سماء (بھیجنے والے کے نام کے ساتھ) پیش کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کا جواب دیتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے۔ من صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی نا ئیاً ابلغتہ۔ یعنی جو کوئی میری قبر کے پاس سے درود بھیجتا ہے وہ میں خود سنتا ہوں اور جو کوئی دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے۔ (مشکوٰۃ شریف مشکوٰۃ ۔باب الصلوٰۃ علی النبی ﷺ وفضلھا۔ ص: ۸۶)
دوسری حدیث میں ہے:۔
ان ﷲ ملئکۃ سیا حین فی الارض یبلغونی من امتی السلام ٖمشکوٰۃ باب الصلٰوۃ علی النبی ﷺ وفضلھا ص ۸۷۔
خدا تعالیٰ نے فرشتوں کی ایک جماعت مقرر کر دی ہے جو زمین میں گشت کرتے رہتے ہیں اور میری امت کا صلوٰۃ وسلام مجھے پہنچاتے ہیں ۔
مطلب یہ کہ نزدیک ہو یا دور صحیح عقیدہ کے ساتھ صلوٰۃ و سلام پڑھتے وقت یا رسول اﷲ کہا جائے تو وہ جائزہے۔ مگر یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ دور سے پڑھے ہوئے درود و سلام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بذریعۂ فرشتہ پہنچائے جاتے ہیں خدا کی طرح بہ نفس نفیس سن لینے کا عقیدہ نہ رکھے۔
اسی طرح ’’التحیات‘‘ میں ’’السلام علیک ایھا النبی‘‘ کہہ کر سلام پہنچایا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ نیز قرآن پاک پڑھتے ہوقت ’’یا ایھا المزمل‘‘ عبارت کے طور پر پڑھ جاتا ہے اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کو حاضر و ناظر کی دلیل بنا لینا جہالت ہے ۔ نیز حاضر و ناطر کے عقیدے کے بغیر فقط جو ش محبت میں یار سول اﷲ کہاجائے یہ بھی جائز ہے ۔ کبھی غایۃ محبت اور شدید غم کی حالت میں حاضر ناظر کے تصور کے بغیر غائب کے لئے لفظ ندا بولتے ہیں یہ بھی جائز ہے ۔ کبھی صرف تخیل کے طریقہ کے ساتھ شاعرانہ و عاشاقنہ خطاب کیا جاتا ہے اس میں بھی کوئی حرج نہیں (شعراء تو دیواروں اور کھنڈرات کو مخاطب بناتے ہیں ۔ یہ ایک محاورہ ہے ۔ حاضر و ناظر وغیرہ کا کوئی عقیدہ یہاں نہیں ہوتا۔ البتہ بدوں صلوٰۃ و سلام حاضر ناظر جان کر حاجت روائی کے لئے اٹھتے بیٹھتے یارسول اﷲ یا علی یاغوث وغیرہ کہنا بے شک ناجائز اور ممنوع ہے ۔
حق تعالیٰ کا ارشاد:
ادعونی استجب لکم (سورۂ مومن)
تم مجھے پکارو، میری عبادت کرو، میں تم سے غائب نہیں ہوں۔ میں تمہارا کہنا اور پکارنا سنتا ہوں اور تمہاری درخواست و عبادت قبول کرتا ہوں۔ (تفسیر حقانی ج۶ ص ۱۹۱)
نیز حدیث شریف میں ہے:
قال رجل یا رسول اﷲ ای الذنب اکبر عند اﷲ قال ان تدعواﷲ نداً وھو خلقک۔
یعنی ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کون ساگناہ عند اﷲ سب سے بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اﷲ کو پکارنے میں اور اس کی عبادت میں تو کسی کو شریک بنا دے۔ یعنی خدا کی طرح اور کو پکارے حالانکہ تجھ کو پیدا اﷲ تعالیٰ نے کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح حاجت روائی کے لئے یا اﷲ کہہ کر پکارتے ہیں اسی طرح دوسرے کو پکارے یہ بڑا گناہ ہے۔ (مشکوٰۃ شریف ۔ مظاہر حق ج۱ ص ۴۱)
لہذا نشست و بر خاست اور بو قت مصیبت یا اﷲ کہہ کر اپنے خالق و مالک اور رزاق کو (جس کی شان ’’علیٰ کل شیئی قدیراً‘‘ اور ’’بکل شیئی علیم‘‘ ہے) پکار کر مدد مانگنی چاہئے۔ اور تمام حوائج اسی کی بارگاہ میں پیش کرنے چاہئیں ۔ نہ یہ کہ یارسول اﷲ ، یا علی ، یا غوث کہہ کر بالا ستقلال حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر ان کو پکارے اور ان کی خدمت میں حوائج کو پیش کرے ۔ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے حضرت محبوب سبحانی غوث اعظم عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:۔
اے مخاطب! میں تجھ کو مخلوق کے پاس دیکھ رہا ہوں نہ کہ خالق کے پاس! تو نفس اور مخلوق دونوں کا حق ادا کرتا ہے اور حق تعالیٰ کا حق ساقط کرتا ہے۔ یہ نعمتیں جن میں تو غرق ہے ۔ تجھ کو کس نے دی ہیں ؟ کیا خدا کے سوا کسی دوسرے نے دی ہیں؟ (الفتح الربانی م ۴۳ ص ۲۸۵)
نیز وہ فرماتے ہیں: ۔
فلا تذ ھبن بھمتک الیٰ احد من خلقہ فی معافا تک فذالک اشراک منک بہ لا یملک معہ فی ملکہ احد شیئاً ۔ لا ضارولا نافع ولاجالب ولا مسقم ولا مبلی ولا معافی ولا مبری غیرہ!
(ترجمہ) بلا دفع کران ے کے لئے اپنی ہمت اور اپنی توجہ کسی مخلوق کے پاس مت لے جائو کہ یہ خدا وند تعالیٰ کا شریک بنانا ہے۔ کوئی شخص اس کے ساتھ اس کی ملک میں سے کسی چیز کا مالک نہیں ہے، نہ نقصان و نفع پہنچانے والا، نہ ہٹانے والا ، نہ بیمارو مبتلا کرنے والا ۔ نہ صحت و نجات دینے والا اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ (فتوح الغیب مقالہ نمبر ۵۹ ،ص۱۵۰)
اور فرماتے ہیں:
۔فلیکن لک مسئول واحد و معطی واحدوھمۃ وحدۃ وھوربک عزو جل الذی نوا صی الملوک بیدہ وقلوب الخلق بیدہ التی ھی امراء الا جساد۔
پس چاہئے کہ تمہارا مسئول (جس سے تم مانگو) وہ واحد ہو۔ عطا کرنے والا واحد ہو ۔ ہمت اور توجہ واحد ہو (پراگندہ نہ ہو ) اور وہ تیرا رب ہے (عزوجل) وہ رب کہ تمام بادشاہوں کے پیشانی کے بال اس کے دست قدرت میں ہیں ۔ تمام مخلوق کے دل جو جسموں کے حاکم ہوتے ہیں اس کے قبضہ میں ہیں ۔فتوح الغیب مقالہ ص ۵۸۔
خلاصہ یہ کہ خد اکے سو ا کسی اور کے لئے چاہے نبی ہو یا ولی ، حاظر و ناظر اور حاجت روا ہونے کا عقیدہ بالکل غلط اور باطل ہے اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہے ۔ حاظر و ناظر صرف خدا کی ذات ہے۔ مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:۔
’’حق سبحانہ و تعالیٰ برا حوال جزوی وکلی او مطلع ست و حاضر و ناظر ! شرم با ید کرو!
یعنی خدا وند قدوس بندوں کے تمام جزوی وکلی امور پر خبر دار اور مطلع اور حاضر و ناظر ہیں! اس کے علاوہ کئی اور کے تصور سے ہمیں شرم کرنی چاہئے۔‘‘ (مکتوب نمبر ۷۸ ج ۱ ص ۱۰۰)
’’علی کل شیئی قدیر‘‘ اور ’’بکل شیئی محیط‘‘ ’’حاضر و ناظر‘‘ وغیرہ صرف اﷲ پاک کے اوصاف ہیں ان میں کوئی شریک نہیں۔ حضرت شاہ ہدایت اﷲ نقشبندی جے پوری ؒ فرماتے ہیں، خدا تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے کوئی اس کی ذات و صفات اور ا س کے افعال میں کسی قسم کی شرکت نہیں رکھتا(معیار السلوک ص ۷) اسی لئے حضرت خواجہ بختیار کا کی ؒ کے استاد سلطان العارفین حضرت قاضی حمید الدین ناگوری’’تو شیح‘‘ میں تحریرفرماتے ہیں کہ بعض اشخاص وہ ہیں جو اپنے حوائج اور مصیبت کے وقت اولیاء وانبیاء کو پکارتے ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ ان کی ارواح موجود ہیں ہماری پکار سنتی ہیں اور ہماری ضروریات کو خوب جانتی ہیں یہ بڑا شرک اور کھلی جہالت ہے۔ اور ملاحسین خباح ’’مفتاح القلوب‘‘ میں فرماتے ہیں: ۔
واز کلمات کفر ست نداء کردن اموت غائبانہ بگمان آں کہ حاضر اند مثل یارسول اﷲ دیا عبدالقادر وما نندآں!
یعنی جو بزرگ وفات پا چکے ہیں ان کو ہر جگہ حاضر و ناظر گمان کر کے غائبانہ نداء کرنا جیسے یارسول اﷲ، یا عبدالقادر وغیرہ، یہ کلمات کفر یہ ہیں ۔
اورفتا ویٰ بزازیہ میں ہے:۔
من قال ارواح المشائخ حاضرۃ یکفر۔
یعنی جو کوئی کہے کہ بزرگوں کی روحیں ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں وہ کافر ہے۔ (ج۳ ص ۳۲۶ مع فتاویٰ عالمگیری )
اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ عقائد باطلہ کے بارے میں یہ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’انبیاء مرسلین رالوازم الو ہیت از علم غیب و شنیدن فریاد ہر کس و ہر جا قدرت بر جمع مقدورات ثابت کنند۔‘‘
انبیاء اور رسولوں کے لئے لوازم الوہیت جیسے کہ عالم الغیب ہونا اور ہر جگہ سے ہر ایک کی فریا د سننا اور تمام مقدررات پر قدرت ثابت کرنا الخ (یہ عیقدہ باطل ہے ) (تفسیر فتح العزیز سورۂ بقرہ ص ۵۲)
بریلوی خیالات کے ایک بڑے عالم بھی مذکورہ بالا عقیدہ کے بارے میں واضح الفاظ میں فرماتے ہیں:۔
ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سب جا (ہر جگہ) حاضر و ناظر بجز خدائے عزاسمہ‘ کے کوئی نہیں۔
(انور البہیہ فی الا ستعاغۃ من خیر البریہ ص ۱۲۴)
غرض یہ کہ یارسول اﷲ ، یا غوث، وغیرہ اس عقیدہ سے کہنا کہ اﷲ کی طرح یہ حضرات بھی ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں یا ہماری ہر پکار اور فریاد کو سنتے ہیں اور حاجت روا ہیں ، جائز نہیں ہے ! اگر اپنا یہ عقیدہ نہ ہو لیکن اوروں کا عقیدہ بگڑنے کا اندیشہ ہو تب بھی جائز نہیں ہے کہ ان کے سامنے ایسے کلمات کہیں ۔ واﷲ اعلم بالصواب۔ وعلمہ اتم واحکم!
اللھم ان ھذا الکتاب وسیلتی الیک وفی مغفرتک الو سعۃ حیلتی لدیک لا الہ الا انت سبحانک لبیک وسعدیک فاغفر اللھم ارحم امۃ محمد ﷺرحمۃ عامۃ ایاک نعبد و ایاک نستعین ونتوکل علیک ربنا علیک تو کلناوالیک انبنا والیک المصیر وما علینا الا البلاغ المبین بلاغ فھل یھلک الا القوم الفاسقون ۔حم الامر وجاء النصر فعلینا لا ینصرون وصلی اﷲ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین۔
اے اﷲ میں اس کتاب کو تجھ تک رسائی کا وسیلہ بناتا ہوں اور تیری وسیع مغفرت اور بخشش کے لئے بہانہ۔ تو ہی ہے میرا معبود، تیری ذات پاک ہے ، میں تیری عبادت کے لئے ہر وقت حاضر ہوں ۔ اے اﷲ تو امت محمدیہ ﷺ پر مہربانی فرمایا۔ پوری امت پر اپنی عام رحمت نازل کر۔ ہم تیری عبادت کرتے ہیں تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں ، اے ہمارے رب ہم تجھ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں اور تیری ہی طرف رجوع ہوتے ہیں ۔ ہمارے ذمہ یہ ہے کہ واضح طور پر تیرا پیغام پہنچا دیں ۔ پیغام پہنچنے کے بعد وہی برباد ہوتے ہیں جو فاسق اور بد کردار ہوں پیغام کی طرف توجہ نہ کریں۔
حم الا مر وجاء النصر فعلینا لا ینصرون۔
اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں حضرت محمد ا پر جو تمام مخلوق میں سب سے افضل ہیں اور آپ کے تمام آل و اصحاب پر۔
فتاوی رحیمیہ
………
یارسول اﷲ کہنا کیسا ہے؟
(سوال۳۷ ) یا رسول اﷲ کہنا جائز ہے یا نہیں ؟
(الجواب)یارسول اﷲ کہنے میں بڑی تفصیل ہے بعض طریقے سے جائز اور بعض طریقے سے ناجائز ہے ۔ بے شک رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم حیات ہیں ۔ قبر شریف کے پاس درود وسلام پڑھا جاتا ہے تو آپ خود سنتے ہیں ۔ اور کسی دور دراز مقام سے صلوٰۃ و سلام بھیجا جائے تو فرشتے آپ کی خدمت اقدس میں بالا سماء (بھیجنے والے کے نام کے ساتھ) پیش کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کا جواب دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے۔ من صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی نا ئیاً ابلغتہ۔ یعنی جو کوئی میری قبر کے پاس سے درود بھیجتا ہے وہ میں خود سنتا ہوں اور جو کوئی دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے۔
(مشکوٰۃ شریف مشکوٰۃ ۔باب الصلوٰۃ علی النبی ﷺوفضلھا۔ ص: ۸۶)
دوسری حدیث میں ہے:۔
ان ﷲ ملئکۃ سیا حین فی الارض یبلغونی من امتی السلام ٖمشکوٰۃ باب الصلٰوۃ علی النبی ﷺ وفضلھا ص ۸۷۔
خدا تعالیٰ نے فرشتوں کی ایک جماعت مقرر کر دی ہے جو زمین میں گشت کرتے رہتے ہیں اور میری امت کا صلوٰۃ وسلام مجھے پہنچاتے ہیں ۔
مطلب یہ کہ نزدیک ہو یا دور صحیح عقیدہ کے ساتھ صلوٰۃ و سلام پڑھتے وقتیا رسول اﷲ کہا جائے تو وہ جائزہے ۔ مگر یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ دور سے پڑھے ہوئے درود و سلام آپ ﷺ کو بذریعۂ فرشتہ پہنچائے جاتے ہیں خدا کی طرح بہ نفس نفیس سن لینے کا عقیدہ نہ رکھے ۔
اسی طرح ’’ التحیات‘‘ میں ’’ السلام علیک ایھا النبی ‘‘کہہ کر سلام پہنچایا جاتا ہے ۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ نیز قرآن پاک پڑھتے ہوقت ’’ یا ایھا المزمل‘‘ عبارت کے طور پر پڑھ جاتا ہے اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ اس کو حاضر و ناظر کی دلیل بنا لینا جہالت ہے ۔ نیز حاضر و ناطر کے عقیدے کے بغیر فقط جو ش محبت میں یار سول اﷲ کہاجائے یہ بھی جائز ہے ۔ کبھی غایۃ محبت اور شدید غم کی حالت میں حاضر ناظر کے تصور کے بغیر غائب کے لئے لفظ ندا بولتے ہیں یہ بھی جائز ہے ۔ کبھی صرف تخیل کے طریقہ کے ساتھ شاعرانہ و عاشاقنہ خطاب کیا جاتا ہے اس میں بھی کوئی حرج نہیں (شعراء تو دیواروں اور کھنڈرات کو مخاطب بناتے ہیں۔ یہ ایک محاورہ ہے۔ حاضر و ناظر وغیرہ کا کوئی عقیدہ یہاں نہیں ہوتا۔ البتہ بدوں صلوٰۃ و سلام حاضر ناظر جان کر حاجت روائی کے لئے اٹھتے بیٹھتے یارسول اﷲ یا علی یاغوث وغیرہ کہنا بے شک ناجائز اور ممنوع ہے ۔
حق تعالیٰ کا ارشاد ۔ ادعونی استجب لکم (سورۂ مومن) تم مجھے پکار و ، میری عبادت کرو ، میں تم سے غائب نہیں ہوں۔ میں تمہارا کہنا اور پکارنا سنتا ہوں اور تمہاری درخواست و عبادت قبول کرتا ہوں۔ (تفسیر حقانی ج۶ ص ۱۹۱)
نیز حدیث شریف میں ہے ۔ قال رجل یا رسول اﷲ ای الذنب اکبر عند اﷲ قال ان تدعواﷲ نداً وھو خلقک۔ یعنی ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کون ساگناہ عند اﷲ سب سے بڑا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ اﷲ کو پکارنے میں اور ا س کی عبادت میں تو کسی کو شریک بنا دے ۔ یعنی خدا کی طرح اور کو پکارے حالانکہ تجھ کو پیدا اﷲ تعالیٰ نے کیا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح حاجت روائی کے لئے یا اﷲ کہہ کر پکارتے ہیں اسی طرح دوسرے کو پکارے یہ بڑا گناہ ہے ۔(مشکوٰۃ شریف ۔ مظاہر حق ج۱ ص ۴۱)
لہذا نشست و بر خاست اور بو قت مصیبت یا اﷲ کہہ کر اپنے خالق و مالک اور رزاق کو (جس کی شان ’’علیٰ کل شیئی قدیراً‘‘ اور ’’ بکل شیئی علیم‘‘ ہے ) پکار کر مدد مانگنی چاہئے ۔ اور تمام حوائج اسی کی بارگاہ میں پیش کرنے چاہئیں ۔ نہ یہ کہ یارسول اﷲ ، یا علی ، یا غوث کہہ کر بالا ستقلال حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر ان کو پکارے اور ان کی خدمت میں حوائج کو پیش کرے ۔ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے حضرت محبوب سبحانی غوث اعظم عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :۔
اے مخاطب! میں تجھ کو مخلوق کے پاس دیکھ رہا ہوں نہ کہ خالق کے پاس ! تو نفس اور مخلوق دونوں کا حق ادا کرتا ہے اور حق تعالیٰ کا حق ساقط کرتا ہے ۔ یہ نعمتیں جن میں تو غرق ہے ۔ تجھ کو کس نے دی ہیں ؟ کیا خدا کے سوا کسی دوسرے نے دی ہیں ؟ (الفتح الربانی م ۴۳ ص ۲۸۵)
نیز وہ فرماتے ہیں : ۔ فلا تذ ھبن بھمتک الیٰ احد من خلقہ فی معافا تک فذالک اشراک منک بہ لا یملک معہ فی ملکہ احد شیئاً ۔ لا ضارولا نافع ولاجالب ولا مسقم ولا مبلی ولا معافی ولا مبری غیرہ!(ترجمہ)بلا دفع کران ے کے لئے اپنی ہمت اور اپنی توجہ کسی مخلوق کے پاس مت لے جائو کہ یہ خدا وند تعالیٰ کا شریک بنانا ہے ۔ کوئی شخص اس کے ساتھ اس کی ملک میں سے کسی چیز کا مالک نہیں ہے ، نہ نقصان و نفع پہنچانے والا، نہ ہٹانے والا، نہ بیمارو مبتلا کرنے والا۔ نہ صحت و نجات دینے والا اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ (فتوح الغیب مقالہ نمبر ۵۹ ،ص۱۵۰)
اور فرماتے ہیں:۔
فلیکن لک مسئول واحد و معطی واحدوھمۃ وحدۃ وھوربک عزو جل الذی نوا صی الملوک بیدہ وقلوب الخلق بیدہ التی ھی امراء الا جساد۔
پس چاہئے کہ تمہارا مسئول(جس سے تم مانگو) وہ واحد ہو۔ عطا کرنے والا واحد ہو ۔ ہمت اور توجہ واحد ہو (پراگندہ نہ ہو ) اور وہ تیرا رب ہے (عزوجل) وہ رب کہ تمام بادشاہوں کے پیشانی کے بال اس کے دست قدرت میں ہیں۔ تمام مخلوق کے دل جو جسموں کے حاکم ہوتے ہیں اس کے قبضہ میں ہیں ۔فتوح الغیب مقالہ ص ۵۸۔
خلاصہ یہ کہ خد اکے سو ا کسی اور کے لئے چاہے نبی ہو یا ولی، حاظر و ناظر اور حاجت روا ہونے کا عقیدہ بالکل غلط اور باطل ہے اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ حاظر و ناظر صرف خدا کی ذات ہے ۔ مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:۔
’’حق سبحانہ و تعالیٰ برا حوال جزوی وکلی او مطلع ست و حاضر و ناظر! شرم با ید کرو!
یعنی خدا وند قدوس بندوں کے تمام جزوی وکلی امور پر خبر دار اور مطلع اور حاضر و ناظر ہیں ! اس کے علاوہ کئی اور کے تصور سے ہمیں شرم کرنی چاہئے۔‘‘ (مکتوب نمبر ۷۸ ج ۱ ص ۱۰۰)
’’علی کل شیئی قدیر‘‘ اور ’’بکل شیئی محیط‘‘ ’’حاضر و ناظر‘‘ وغیرہ صرف اﷲ پاک کے اوصاف ہیں ان میں کوئی شریک نہیں ۔ حضرت شاہ ہدایت اﷲ نقشبندی جے پوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں، خدا تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے کوئی اس کی ذات و صفات اور ا س کے افعال میں کسی قسم کی شرکت نہیں رکھتا(معیار السلوک ص ۷) اسی لئے حضرت خواجہ بختیار کا کی رحمۃ اﷲ علیہ کے استاد سلطان العارفین حضرت قاضی حمید الدین ناگوری’’تو شیح‘‘ میں تحریرفرماتے ہیں کہ بعض اشخاص وہ ہیں جو اپنے حوائج اور مصیبت کے وقت اولیاء وانبیاء کو پکارتے ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ ان کی ارواح موجود ہیں ہماری پکار سنتی ہیں اور ہماری ضروریات کو خوب جانتی ہیں یہ بڑا شرک اور کھلی جہالت ہے ۔ اور ملاحسین خباح ’’مفتاح القلوب‘‘ میں فرماتے ہیں: ۔
واز کلمات کفر ست نداء کردن اموت غائبانہ بگمان آں کہ حاضر اند مثل یارسول اﷲ دیا عبدالقادر وما نندآں!
یعنی جو بزرگ وفات پا چکے ہیں ان کو ہر جگہ حاضر و ناظر گمان کر کے غائبانہ نداء کرنا جیسے یا رسول اﷲ ، یا عبدالقادر وغیرہ ، یہ کلمات کفر یہ ہیں۔
اورفتا ویٰ بزازیہ میں ہے:
۔من قال ارواح المشائخ حاضرۃ یکفر۔
یعنی جو کوئی کہے کہ بزرگوں کی روحیں ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں وہ کافر ہے ۔(ج۳ ص ۳۲۶ مع فتاویٰ عالمگیری )
اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ عقائد باطلہ کے بارے میں یہ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’انبیاء مرسلین رالوازم الو ہیت از علم غیب و شنیدن فریاد ہر کس و ہر جا قدرت بر جمع مقدورات ثابت کنند۔‘‘
انبیاء اور رسولوں کے لئے لوازم الوہیت جیسے کہ عالم الغیب ہونا اور ہر جگہ سے ہر ایک کی فریا د سننا اور تمام مقدررات پر قدرت ثابت کرنا الخ (یہ عیقدہ باطل ہے ) (تفسیر فتح العزیز سورۂ بقرہ ص ۵۲)
بریلوی خیالات کے ایک بڑے عالم بھی مذکورہ بالا عقیدہ کے بارے میں واضح الفاظ میں فرماتے ہیں :۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سب جا (ہر جگہ) حاضر و ناظر بجز خدائے عزاسمہ‘ کے کوئی نہیں ۔
(انور البہیہ فی الا ستعاغۃ من خیر البریہ ص ۱۲۴)
غرض یہ کہ یارسول اﷲ ، یا غوث، وغیرہ اس عقیدہ سے کہنا کہ اﷲ کی طرح یہ حضرات بھی ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں یا ہماری ہر پکار اور فریاد کو سنتے ہیں اور حاجت روا ہیں ، جائز نہیں ہے ! اگر اپنا یہ عقیدہ نہ ہو لیکن اوروں کا عقیدہ بگڑنے کا اندیشہ ہو تب بھی جائز نہیں ہے کہ ان کے سامنے ایسے کلمات کہیں ۔ واﷲ اعلم بالصواب۔ وعلمہ اتم واحکم !
اللھم ان ھذا الکتاب وسیلتی الیک وفی مغفرتک الو سعۃ حیلتی لدیک لا الہ الا انت سبحانک لبیک وسعدیک فاغفر اللھم ارحم امۃ محمد ﷺرحمۃ عامۃ ایاک نعبد و ایاک نستعین ونتوکل علیک ربنا علیک تو کلناوالیک انبنا والیک المصیر وما علینا الا البلاغ المبین بلاغ فھل یھلک الا القوم الفاسقون ۔حم الامر وجاء النصر فعلینا لا ینصرون وصلی اﷲ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین۔
اے اﷲ میں اس کتاب کو تجھ تک رسائی کا وسیلہ بناتا ہوں اور تیری وسیع مغفرت اور بخشش کے لئے بہانہ۔ تو ہی ہے میرا معبود، تیری ذات پاک ہے ، میں تیری عبادت کے لئے ہر وقت حاضر ہوں ۔ اے اﷲ تو امت محمدیہ ﷺ پر مہربانی فرمایا ۔ پوری امت پر اپنی عام رحمت نازل کر ۔ ہم تیری عبادت کرتے ہیں تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں ، اے ہمارے رب ہم تجھ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں اور تیری ہی طرف رجوع ہوتے ہیں ۔ ہمارے ذمہ یہ ہے کہ واضح طور پر تیرا پیغام پہنچا دیں ۔ پیغام پہنچنے کے بعد وہی برباد ہوتے ہیں جو فاسق اور بد کردار ہوں پیغام کی طرف توجہ نہ کریں ۔حم الا مر وجاء النصر فعلینا لا ینصرون ۔
اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں حضرت محمد ا پر جو تمام مخلوق میں سب سے افضل ہیں اور آپ کے تمام آل و اصحاب پر۔
فتاوی رحیمیہ
……
حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق حاضر وناظر کا عقیدہ رکھنا
سوال ]۳۳[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ ’’یا محمد‘‘ کہنا یا پکارنا یا یہ عقیدہ رکھنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم حاضر وناظر ہیں، قرآن وحدیث کی روشنی میں کیسا ہے؟
المستفتی: حنیف محلہ پیٹھ اتوار سرائے ترین سنبھل
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حضرت سید الکونین علیہ الصلاۃ والسلام کو ہر جگہ حاضروناظر ماننا انتہائی درجہ کی جہالت ہے، اس طرح کی باتوں سے مسلمانوں کے عقیدے کو خراب کرنا ہے اور حضرت سید الکونین علیہ السلام کے ارشاد اور فرمان کی سراسر مخالفت ہے؛ اس لئے کہ حاضر وناظر کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہر جگہ بنفس نفیس موجود ہیں، مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہندوستان میں موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قبر اطہر چھوڑ کر آپ ہندوستان تشریف لے آئے ہیں اور قبر اطہر میں موجود نہیں ہیں اور اگر یہ عقیدہ ہے کہ آپ ہزاروں جگہ بیک وقت حاضر ہوتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ذات متعدد ہوچکی ہے؛ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ایک ہے اور
متعدد ہونے کی صورت میں آپ کی ذات کا متعدد ہونا اور رسول بھی متعدد ہونا لازم آجائے گا، جو ایک غلط اور فاسد عقیدہ ہے؛ حالانکہ رسول ایک ہی ہے اور اگر ہر جگہ ناظر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر اطہر میں رہ کر ہر چیز کو دیکھ رہے ہیں، تو یہ آپ کے ارشاد کے سراسر خلاف ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا ہے: کہ جب کوئی آپ کی قبر اطہر کے پاس آکر درود بھیجتا ہے تو اس کو آپ براہ راست سنتے ہیں اور جب کوئی دور رہ کر آپ پر درود بھیجتا ہے، تو فرشتے کے ذریعہ سے آپ کی خدمت میں پہنچایا جاتا ہے، اگر آپ ہر جگہ حاضر وناظر ہیں تو پھر فرشتے کے ذریعہ سے آپ کی خدمت میں درود پہنچانے کا کیا مطلب؟ اور کیا ضرورت ہے، آپ خود فرما رہے ہیں کہ فرشتے کے ذریعہ سے ہی میری خدمت میں پہنچایا جاتا ہے، تو اس حدیث شریف سے صاف واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر وناظر نہیں ہیں جو اس طرح کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ساتھ بغاوت کرتے ہیں، ان کو خود اپنا عقیدہ صحیح کرنے کی ضرورت ہے اور اس طرح کے عقائد سے توبہ کرنا لازم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یا محمد کہہ کرپکارنا ایک طرح کی بے ادبی ہے؛ بلکہ یا رسول اللہ، یا حبیب اللہ وغیرہ کہنا چاہئے اور مخاطب کرکے قبر اطہر کے پاس پکارنا جائز ہے؛ اس لئے کہ قبر اطہر سے آپ خود سنتے ہیں اور غائب اور دور رہ کر اس عقیدہ سے پکارنے کی گنجائش ہے کہ میں یارسول اللہ جو کہہ رہا ہوں ، میری یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک فرشتے پہنچا دیںگے اور اس عقیدہ سے پکارنا کہ میری بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود سن رہے ہیں جائز نہیں ہے؛ اس لئے کہ درود شریف وغیرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود نہیں سنتے ہیں بلکہ فرشتے آپ تک پہنچا دیتے ہیں۔
عن عمار بن یاسرؓ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ وکل بقبري ملکا أعطاہ اللہ أسماء والخلائق فلا یصلی علي أحد إلی یوم القیامۃ إلا أبلغني باسمہ واسم أبیہ ہذا فلان بن فلان قد صلی علیک۔ (مسند البزار، مکتبۃ العلوم والحکم بیروت ۴/ ۲۵۵، رقم: ۱۴۲۵)(وقولہ): إذا مت فلیس أحد یصلي علي صلوۃ إلا قال: یا محمد! صلی علیک فلان بن فلان، قال: فیصلي الرب تبارک وتعالیٰ علی ذلک الرجل بکل واحدۃ عشرا۔ (الترغیب والترہیب، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲/ ۳۲۶)
عن عبداللہ بن مسعودؓ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن ﷲ ملائکۃ سیاحین في الأرض یبلغوني عن أمتي السلام۔ (المعجم الکبیر، دار احیاء التراث العربي ۱۰/ ۲۲۰، نسائي، الصلاۃ، باب السلام علی النبي، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۴۳، دارالسلام، رقم: ۱۲۸۳، مسند الدارمي، دار المغني بیروت ۳/ ۱۸۲۶، رقم: ۲۸۱۶)
عن أبي ہریرۃؓ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صلی علي عند قبري سمعتہ، ومن صلی علي نائیًا أبلغتہ۔ (شعب الإیمان، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲/ ۲۱۸، رقم: ۱۵۸۳، مشکوۃ شریف ۱/ ۸۷)
قال القرطبي قولہ تعالیٰ: ولا تجہروا لہ بالقول، أي لا تخاطبوہ: یا محمد! و یا أحمد! ولکن یا نبی اللہ! ویارسول اللہ! توقیرًا لہ۔ (تفسیر القرطبي، سورۃ الحجرات: ۲، بیروت ۱۶/ ۲۰۱-۲۰۲) فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۷؍ محرم الحرام ۱۴۳۴ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۱۰/ ۱۰۹۳۱)
الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۷؍ ۱؍ ۱۴۳۴ھ