کیا اللہ کے یہاں دیر ہے؟

اللہ کے یہاں دیر ہے؟
ہم اکثر لوگوں سے یہ جملہ سنتے آئے ہیں کہ
“اللہ کے گھر دیر ہے، اندھیر نہیں ہے”…
یہ جملہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی انہونی ہوجاتی ہے یا ایک موٹی مثال یہ سمجھ لیں کہ جب کوئی ظالم ایک لمبی مدت تک ظلم کرنے کے بعد اللہ کی جانب سے کسی عذاب میں گرفتار ہوجاتا ہے تو انسان یہ کہتا ہے کہ
“بے شک اللہ کے گھر دیر ہے، اندھیر نہیں ہے”…
اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ کیا عالم کیا عامی سب ہی اس جملے کو ادا کرتے ہیں بلکہ منبر و محراب سے چیخ چیخ کر یہی کہتے ہیں کہ لوگو! اللہ کے گھر دیر ہے، اندھیر نہیں…
أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اللہ کے گھر دیر ہے؟
جواب یہ ہے کہ بالکل نہیں… اللہ کے گھر دیر ہے ہی نہیں، وہ ہر کام اپنی مرضی کے مطابق اس کے وقت پر کرتا ہے، اس کے یہاں ہر چیز کا تو ایک وقت مقرر ہے… زندگی اور موت کا، غم اور خوشی کا، سزا وجزا کا… ہر ہر چیز کا وقت اس نے متعین کررکھا ہے… اس کا تو یہ کہنا ہے کہ ہر چیز کا وقت اس نے زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے ہی لکھ دیا تھا، اس کے مطابق تو کوئی بھی چیز اپنے وقت مقررہ سے نہ ایک لمحہ آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ ہی ایک لمحہ پیچھے آسکتی ہے… پھر آپ ہی بتائیں کہ بھلا وہ اللہ کسی معاملے میں دیر کس لیے اور کیونکر کرے گا؟  … اس سے بھی بڑی چیز یہ ہے کہ وہ خود اپنے کلام میں کئی بار یہ اعلان کرتا ہے:
“والله سريع الحساب”
کہ اللہ جلد حساب لینے والا ہے تو اللہ کے گھر دیر ہے کا کیا مطلب ہوا؟… ہاں یہ بات کہنا اپنی جگہ بالکل جائز ہے کہ اللہ کے یہاں اندھیر نہیں ہے اور یہ بات صد فی صد درست بھی ہے کیونکہ اللہ ظالم نہیں ہے، وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ اس نے ظلم کو اپنے اوپر اور اپنے بندوں پر حرام کردیا ہے، وہ انسان کے گناہوں کی سزا یہاں بھی چھوٹے پیمانے پر دیتا رہتا ہے اور میدان محشر کی بڑی عدالت میں بڑے پیمانے پر ہر ایک کے عمل کا فیصلہ ہوگا…
لہذا یہ بات کہنا یا یہ جملہ استعمال کرنا بالکل غلط ہے کہ “اللہ کے یہاں دیر ہے، اندھیر نہیں”… اللہ کے یہاں دیر ہے ہی نہیں، اگر کسی ظالم و جابر، کافر، عاصی، بدمعاش اور گناہوں میں لت پت انسان کو اس کے کیے کی بروقت سزا نہیں ملتی ہے تو یہ اللہ کی جانب سے ڈھیل ہے کہ ممکن ہے بندہ ابھی مان جائے اور ظلم و گناہ اور غلط چیزوں سے توبہ کر لے، مگر جب یہ ڈھیل دینے کا لمحہ دراز ہوتا ہوا اپنے وقت مقررہ پر پہنچتا ہے تو اللہ اس رسی کو کھینچ کر اسے نشان عبرت بنا دیتا ہے… اسے دیر نہیں کہتے، اس کا نام مہلت ہے جو ہم میں سے ہر کسی کو اللہ دیتا رہتا ہے… اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اس جملے کو استعمال نہ کریں کیونکہ یہ جملہ محل نظر ہے اور سیاق و سباق یہ بتاتا ہے کہ اللہ کے تعلق سے اس جملے کا استعمال جائز اور درست نہیں ہے..
حافظ خلیل سنابلی، گلبرگہ
21 جنوری 2018، اتوار
اللہ جل شانہ کی ذات تمام قسم کے عیوب ونقائص سے بالکلیہ پاک ہے
تسبیح کے معنے ہیں اﷲ تعالٰی کو تمام نقصان و عیوب سے پاک جاننا یا پاک بیان کرنا.
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ
ان کلمات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی ذات تمام قسم کے عیوب ونقائص سے بالکلیہ پاک ہے (اور جیسے اس کی ذات پاک ہے اس کے احکامات بھی ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہیں ) اور ہر قسم کی تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ، پاک ہے اللہ اور بڑی شان والا ہے۔

2294 -[1]
عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَفْضَلُ الْكَلَامِ أَرْبَعٌ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ “وَفِي رِوَايَةٍ: ” أَحَبُّ الْكَلَامِ إِلَى اللَّهِ أَرْبَعٌ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ لَا يَضُرُّكَ بِأَيِّهِنَّ بَدَأْتَ “. رَوَاهُ مُسلم
روایت ہے حضرت سمرہ بن جندب سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے افضل کلمات چار ہیں ۱؎سبحان اﷲ، الحمدﷲ، لا الہ الا اﷲ اور اﷲ اکبر ۲؎  اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اﷲ کو پیارے کلمات چار ہیں سبحان اﷲ ،الحمد ﷲ،لا الہ الا اﷲ اور اﷲ اکبر جس کلمہ سے ابتداءکرو مضر نہیں ۳؎ (مسلم)
۱؎  یعنی انسانی کلمات یا دوسرے وِردوظیفوں سے یہ چار کلمے بہت ثواب کا باعث ہیں کیونکہ ان کلمات میں رب تعالٰی کی بے شمار حمدیں مذکور ہیں۔سبحان اﷲ کے معنے ہیں میں اللہ تعالٰی کو سارے عیوب سے پاک مانتا ہوں۔الحمدﷲ کے معنے ہوئے تمام ہی تعریفیں رب تعالٰی کی ہیں کہ وہ تمام صفات کمالیہ کا جامع ہے۔لا الہ الخ وہ کلمہ ہے جسے پڑھ کر بندہ مسلمان بنتا ہے اور اﷲ اکبر میں اس کی کبریائی اور تمام مخلوق سے بڑے ہونے کا اعتراف ہے لہذا یہ کلمات رب تعالٰی کی جامع صفات ہیں،اب حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ سب سے افضل تو قرآن شریف ہے پھر یہ کلمات کیسے افضل ہوگئے۔خیال رہے کہ یہ چاروں کلمات قرآن شریف میں موجود ہیں اگلے تین تو صراحۃً چوتھا کلمہ اشارۃً و معنًی، دوسری روایت میں ہے کہ یہ کلمات باقیات صالحات سے ہیں۔یہ بھی خیال رہے کہ ان کلمات کو کلام فرمانا لغۃً ہے نہ کہ اصطلاحًا لہذا اگر کوئی شخص کلام نہ کرنے کی قسم کھائے وہ ان کلمات کے پڑھنے سے حانث نہ ہوگا کہ قسم میں کلام سے مراد انسان کا کلام ہے جسے اصطلاح میں کلام کہا جاتا ہے۔

۲؎ اﷲ اکبر کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اﷲ تعالٰی ہماری حمدوثنا بلکہ ہمارے خیال و وہم سے بڑا ہے، حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے”لَا اُحْصِیْ ثَنَاءَ عَلَیْكَ” میں تیری ثناء کما حقہ نہیں کرسکتا۔

۳؎  مرقات میں فرمایا کہ یہ ترتیب عزیمت ہے، اس کے خلاف رخصت یعنی بہتر یہ ہے کہ اس ترتیب سے ان کا ورد کرے اگر اس کے خلاف بھی کیا تو حرج نہیں۔