چکی سے آٹا اور تندور سے روٹی کی غیبی مدد


سوال: بعض احباب اکثر بیان کرتے ہیں کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دورکعت نماز کے ذریعہ اپنا مسئلہ حل کرلیا کرتے تھے انھیں کوئی بھی ضرورت پیش آتی تو فورا نماز کیطرف متوجہ ہوجاتے تھے اور ہم سب اسباب کے جانب متوجہ ہوتے ہیں ایسے میں اللہ کی مدد کیسے آسکتی ہے؟
ایک صحابی کے گھر آٹا نہیں تھا بیوی نے فرمائش کی تو فورا مسجد گئے اور دو رکعت نماز پڑھ کر گھر آئے اور پوچھا کہ چکی سے کچھ نکلا؟ بیوی نے نفی میں سر ہلایا تو کہا کہ نماز میں کچھ کمی رہ گئی پھر مسجد گئے آکر پھر پوچھا اور نمازمیں کمی بتاکر مسجد جاتے رہے اور آتے رہےیہ سلسلہ چلتا رہا بالاخر چکی اپنے آپ چلنے لگی اور آٹا نکلنے لگا جب سارے برتن بھرلئے تو سوچاکہ چکی کا پاٹ اٹھاکر دیکھوں آٹا کہاں سے آرہا ہے جب دیکھا تو آٹا نکلنا بند ہوگیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جاکر انھوں نے پورا واقعہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تم چکی کا پاٹ نہ اٹھاتے تو قیامت تک چکی چلتی رہتی اور یونہی آٹا نکلتا رہتا۔
اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے

جواب: مشکوۃ شریف میں بحوالہ مسند احمد یہ واقعہ مذکور ہے.
دخل رجل على أهله فلما رأى ما بهم من الحاجة خرج إلى البرية فلما رأت امرأته قامت إلى الرحى فوضعتها وإلى التنور فسجرته ثم قالت اللهم ارزقنا فنظرت فإذا الجفنة قد امتلأت . قال وذهبت إلى التنور فوجدته ممتلئا . قال فرجع الزوج قال أصبتم بعدي شيئا ؟ قالت امرأته نعم من ربنا وقام إلى الرحى فذكر ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال أما إنه لو لم يرفعها لم تزل تدور إلى يوم القيامة . رواه أحمد .
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص کا واقعہ کہ وہ ایک دن اپنے گھر والوں کے پاس آیا یعنی کہیں باہر سے آکر گھر میں داخل ہوا تو اس نے گھر والوں پر محتاجگی اور فاقہ وفقر کے آثار دیکھے ، وہ یہ دیکھ کر اپنے اللہ کے حضور اپنی حاجات پیش کرنے اور یکسوئی کے ساتھ اس کی بارگاہ میں عرض ومناجات کرنے کے لئے جنگل کی طرف چلا گیا ، ادھر جب اس کی بیوی نے یہ دیکھا کہ شوہر کے پاس کچھ نہیں ہے اور وہ شرم کی وجہ سے گھر سے باہر چلا گیا ہے تو وہ اٹھی اور چکی کے پاس گئی ، چکی کو اس نے اپنے آگے رکھا یا اس نے چکی کے اوپر کا پاٹ نیچے کے پاٹ پر رکھا اور یا یہ معنی ہیں کہ اس نے اس امید میں چکی کو صاف کیا اور تیار کر کے رکھ دیا کہ شوہر باہر سے آئے گا تو کچھ لے کر آئے گا اس کو پیس کر روٹی پکا لوں گی پھر وہ تنور کے پاس گئی اور اس کو گرم کیا، اس کے بعد اللہ سے یہ دعا کی۔ الٰہی! ہم تیرے محتاج ہیں، تیرے غیر سے ہم نے اپنی امید منقطع کر لی ہے، تو خیرالرازقین ہے اپنے پاس سے ہمیں رزق عطا فرما۔ پھر جو اس نے نظر اٹھائی تو کیا دیکھتی ہے کہ چکی کا گرانڈ آٹے سے بھرا ہوا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب وہ آٹا گوندھ کر تنور کے پاس گئی تاکہ اس میں روٹیا لگائے تو تنور کو روٹیوں سے بھرا ہوا پایا یعنی اللہ کی قدرت نے یہ کرشمہ دکھایا کہ خود بخود اس آٹے کی روٹیاں بن کر تنور میں جالگیں یا یہ کہ آٹا تو اپنی جگہ چکی کے گرانڈ میں پڑا رہا اور تنور میں غیب سے روٹیاں نمودار ہوگئیں. راوی کہتے ہیں کہ کچھ دیر بعد جب خاوند بارگارہ رب العزت میں عرض ومناجات اور دعا سے فارغ ہوکر گھر آیا تو بیوی سے پوچھا کہ کیا میرے جانے کے بعد تمہیں کہیں سے کچھ غلہ وغیرہ مل گیا تھا کہ تم نے یہ روٹیاں تیار کر رکھی ہیں؟ بیوی نے کہا: ہاں یہ ہمیں اللہ کی طرف سے ملا ہے (یعنی یہ عام طریقہ کے مطابق کسی انسان نے ہمیں نہیں دیا ہے بلکہ یہ رزق محض غیب سے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے) خاوند نے یہ سنا تو اس کو بہت تعجب ہوا اور وہ اٹھ کر چکی کے پاس گیا اور چکی کو اٹھایا تاکہ اس کا کرشمہ دیکھے) پھر جب اس واقعہ کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پورا قصہ سن کر فرمایا: “جان لو” اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر وہ شخص اس چکی کو اٹھا نہ لیتا تو وہ چکی مسلسل قیامت کے دن تک گردش میں رہتی اور اس سے آٹا نکلتا رہتا۔ (احمد)

تشریح
مذکورہ واقعہ کی صورت میں اللہ کی قدرت کا جو کرشمہ ظاہر ہوا وہ درحقیقت ، فقر وفاقہ پر صبر اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل اعتماد وتوکل کرنے کا نتیجہ تھا۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ کسی پچھلی امت کے کسی شخص کا نہیں ہے بلکہ امت محمدی کے ایک فرد کا ہی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں پیش آیا تھا۔
…………

9168 حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ يَعْنِي ابْنَ بَهْرَامَ قَالَ حَدَّثَنَا شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ بَيْنَمَا رَجُلٌ وَامْرَأَةٌ لَهُ فِي السَّلَفِ الْخَالِي لَا يَقْدِرَانِ عَلَى شَيْءٍ فَجَاءَ الرَّجُلُ مِنْ سَفَرِهِ فَدَخَلَ عَلَى امْرَأَتِهِ جَائِعًا قَدْ أَصَابَتْهُ مَسْغَبَةٌ شَدِيدَةٌ فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ أَعِنْدَكِ شَيْءٌ قَالَتْ نَعَمْ أَبْشِرْ أَتَاكَ رِزْقُ اللَّهِ فَاسْتَحَثَّهَا فَقَالَ وَيْحَكِ ابْتَغِي إِنْ كَانَ عِنْدَكِ شَيْءٌ قَالَتْ نَعَمْ هُنَيَّةً نَرْجُو رَحْمَةَ اللَّهِ حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَيْهِ الطَّوَى قَالَ وَيْحَكِ قُومِي فَابْتَغِي إِنْ كَانَ عِنْدَكِ خُبْزٌ فَأْتِينِي بِهِ فَإِنِّي قَدْ بَلَغْتُ وَجَهِدْتُ فَقَالَتْ نَعَمْ الْآنَ يَنْضَجُ التَّنُّورُ فَلَا تَعْجَلْ فَلَمَّا أَنْ سَكَتَ عَنْهَا سَاعَةً وَتَحَيَّنَتْ أَيْضًا أَنْ يَقُولَ لَهَا قَالَتْ هِيَ مِنْ عِنْدِ نَفْسِهَا لَوْ قُمْتُ فَنَظَرْتُ إِلَى تَنُّورِي فَقَامَتْ فَوَجَدَتْ تَنُّورَهَا مَلْآنَ جُنُوبَ الْغَنَمِ وَرَحْيَيْهَا تَطْحَنَانِ فَقَامَتْ إِلَى الرَّحَى فَنَفَضَتْهَا وَأَخْرَجَتْ مَا فِي تَنُّورِهَا مِنْ جُنُوبِ الْغَنَمِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَوَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ عَنْ قَوْلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ أَخَذَتْ مَا فِي رَحْيَيْهَا وَلَمْ تَنْفُضْهَا لَطَحَنَتْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
مسند أحمد بن حنبل
…….
من موسوعة الحديث الشريف
……
10280 حَدَّثَنَا ابْنُ عَامِرٍ أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى أَهْلِهِ فَلَمَّا رَأَى مَا بِهِمْ مِنْ الْحَاجَةِ خَرَجَ إِلَى الْبَرِيَّةِ فَلَمَّا رَأَتْ امْرَأَتُهُ قَامَتْ إِلَى الرَّحَى فَوَضَعَتْهَا وَإِلَى التَّنُّورِ فَسَجَرَتْهُ ثُمَّ قَالَتْ اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا فَنَظَرَتْ فَإِذَا الْجَفْنَةُ قَدْ امْتَلَأَتْ قَالَ وَذَهَبَتْ إِلَى التَّنُّورِ فَوَجَدَتْهُ مُمْتَلِئًا قَالَ فَرَجَعَ الزَّوْجُ قَالَ أَصَبْتُمْ بَعْدِي شَيْئًا قَالَتْ امْرَأَتُهُ نَعَمْ مِنْ رَبِّنَا قَامَ إِلَى الرَّحَى فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَمَا إِنَّهُ لَوْ لَمْ يَرْفَعْهَا لَمْ تَزَلْ تَدُورُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ وَاللَّهِ لَأَنْ يَأْتِيَ أَحَدُكُمْ صَبِيرًا ثُمَّ يَحْمِلَهُ يَبِيعَهُ فَيَسْتَعِفَّ مِنْهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْتِيَ رَجُلًا يَسْأَلُهُ
مسند أحمد بن حنبل
مشكوة المصابيح رقم الحديث 5311.كتاب الرقاق 26.باب التوكل والصبر .ص 1460.
والله أعلم بالصواب
شكيل منصور القاسمي