ٹوپی پہننا سنت نبوی وسنت صحابہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹوپی پہننا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت عادیہ عملیہ ہے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے اجلاء صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین ٹوپیاں استعمال فرماتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے آج تک اکابر علماء وصلحاء رحمہم اللہ کا بھی یہ لباس رہا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹوپی استعمال کی روایت صیغہ استمرار “کان یلبس” کے ساتھ مروی ہے۔ جو عموم حال پہ صریح دلالت کرتی ہے۔
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اپنے لئے تین ٹوپیاں بنارکھی تھیں:
(1) سفید مصری ٹوپی۔
(2) منقش دھاری دار یا بوٹی دار سبز ٹوپی۔
(3) باڑ دار اونچی ٹوپی، جسے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سفر میں پہنا کرتے تھے اور بسا اوقات اسے سترہ بھی بنالیتے تھے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ لِرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثُ قَلَانِسَ: قَلَنْسُوَةٌ بَيْضَاءُ مُضَرَّبَةٌ، وَقَلْنَسُوَةُ بُرْدٍ حِبَرَةٌ، وَقَلْنَسُوَةٌ ذَاتُ آذَانٍ، يَلْبَسُهَا فِي السَّفَرِ، وَرُبَّمَا وَضَعَهَا بَيْنَ يَدَيْهِ إِذَا صَلَّى۔ (اخلاق النبی لابی الشیخ الاصبہانی: 2/211، 315)
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ ٹوپی پہنتے تھے:
عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ أَبَا مُوسَى خَرَجَ مِنَ الْخَلَاءِ، وَعَلَيْهِ قَلَنْسُوَةٌ، فَمَسَحَ عَلَيْهَا۔ (ابن ابی شیبہ :24859)
آپ کے خادم خاص حضرت انس بن مالک عمومی حال میں ٹوپی استعمال فرماتے:
۔عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ضِرَارٍ قَالَ: رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أَتَى الْخَلَاءَ، ثُمَّ خَرَجَ وَعَلَيْهِ قَلَنْسُوَةٌ بَيْضَاءُ مَزْرُورَةٌ فَمَسَحَ عَلَى الْقَلَنْسُوَةِ۔(مصنف عبد الرزاق:745)
۔عَنْ عَاصِمٍ قَالَ: «حَجَجْتُ مَعَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَأَنْزَلْتُهُ مِنَ الْمَحْمَلِ فَبَالَ، فَأَتَيْتُهُ بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ وَغَسَلَ أَثَرَ الْبَوْلِ، وَاسْتَنْشَقَ وَمَضْمَضَ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا وَمَسَحَ عَلَى قَلَنْسُوَتِهِ وَخُفَّيْهِ وَأَمَّنَا إِلَى رَاحِلَتِهِ»۔(مسند ابن الجعد :2158)
حضرت خالد بن ولید بھی استعمال فرماتے :
۔عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ فَقَدَ قَلَنْسُوَةً لَهُ يَوْمَ الْيَرْمُوكِ، فَقَالَ: اطْلُبُوهَا فَلَمْ يَجِدُوها، فَقَالَ: اطْلُبُوهَا، فَوَجَدُوهَا فَإِذَا هِي قَلَنْسُوَةٌ خَلَقَةٌ، فَقَالَ خَالِدٌ: «اعْتَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَلَقَ رَأْسَهُ، فَابْتَدَرَ النَّاسُ جَوَانِبَ شَعْرِهِ، فَسَبَقْتُهُمْ إِلَى نَاصِيَتِهِ فَجَعَلْتُهَا فِي هَذِهِ الْقَلَنْسُوَةِ، فَلَمْ أَشْهَدْ قِتَالًا وَهِيَ مَعِي إِلَّا رُزِقْتُ النَّصْرَ»۔ (طبرانی کبیر:3804)
حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی اس کا استعمال ثابت ہے۔
۔أَبُو إِبْرَاهِيمَ التَّرْجُمَانِيُّ، قَالَ: رَأَيْتُ شَيْخًا بِدِمَشْقَ يُقَالُ لَهُ: أَبُو إِسْحَاقَ الْأَجْرَبُ مَوْلًى لِبَنِي هَبَّارٍ الْقُرَشِيِّ، قَالَ: «رَأَيْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ عُوَيْمِرَ بْنَ قَيْسِ بْنِ خُنَاسَةَ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْهَلَ، أَقْنَى، يَخْضِبُ بِالصُّفْرَةِ، وَرَأَيْتُ عَلَيْهِ قَلَنْسُوَةً مُضَرَّبَةً صَغِيرَةً، وَرَأَيْتُ عَلَيْهِ عِمَامَةً قَدْ أَلْقَاهَا عَلَى كَتِفَيْهِ»۔ (مستدرکِ حاکم:5450)
حضرت علی بن حسین بھی استعمال فرماتے:
۔عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ:رَأَيْتُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ قَلَنْسُوَةً بَيْضَاءَ مِصْرِيَّةً۔(ابن ابی شیبہ :24855)
علامہ ابن قیم جوزیہ رحمہم اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹوپی پہننے کی تین حالتیں ذکر فرمائی ہیں، جن میں ایک یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بغیر عمامہ کے بھی ٹوپی استعمال فرماتے تھے:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم عمامے کے نیچے ٹوپیاں پہنا کرتے تھے اور بغیر عمامے کے بھی ٹوپیاں پہنتے تھے، اور کبھی بغیر ٹوپی کے بھی عِمامہ پہن لیا کرتے تھے۔
عن بن عَبَّاسٍ كَانَ يَلْبَسُ الْقَلَانِسَ تَحْتَ الْعَمَائِمِ وَبِغَيْرِ الْعَمَائِمِ وَيَلْبَسُ الْعَمَائِمَ بِغَيْرِ الْقَلَانِسِ وَكَانَ يَلْبَسُ الْقَلَانِسَ الْيَمَانِيَّةَ وَهُنَّ الْبِيضُ الْمُضَرَّبَةُ وَيَلْبَسُ الْقَلَانِسَ ذَوَاتَ الْآذَانِ فِي الْحَرْبِ وَكَانَ رُبَّمَا نَزَعَ قَلَنْسُوَةً فَجَعَلَهَا سُتْرَةً بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي۔(عون المعبود :11/88)(کنز العمّال :18286)
۔وَكَانَ يَلْبَسُ الْقَلَنْسُوَةَ بِغَيْرِ عِمَامَةٍ، وَيَلْبَسُ الْعِمَامَةَ بِغَيْرِ قَلَنْسُوَةٍ.(زاد المعاد :1/130)
بے خیالی میں یا خلوت میں ٹوپی نہ پہنے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن عمومی مجالس میں یا بازاروں میں بغیر ٹوپی گھومنا خلاف مروت ہے۔
، اور فقہاء تو ایسے لوگوں کی شہادت قبول بھی نہیں فرماتے۔ آج کل جو مردوں کے ننگے سر بازاروں اور دفتروں میں جانے کا رواج چل نکلا ہے، یہ سب فرنگی تقلید ہے، اچھے اچھے دِین دار لوگ بھی ننگے سر رہنے کے عادی ہوگئے ہیں،
اِنَّا ِللهِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ“۔
(آپ کے مسائل اور اُن کا حل، جدید: 8/355)
وَالْمَشْيِ بِسَرَاوِيلَ فَقَطْ، وَمَدِّ رِجْلِهِ عِنْدَ النَّاسِ، وَكَشْفِ رَأْسِهِ فِي مَوْضِعٍ يُعَدُّ فِعْلُهُ خِفَّةً وَسُوءَ أَدَبٍ وَقِلَّةَ مُرُوءَةٍ وَحَيَاءٍ، لِأَنَّ مَنْ يَكُونُ كَذَلِكَ لَا يَبْعُدُ مِنْهُ أَنْ يَشْهَدَ بِالزُّورِ. (فتح القدیر:7/414)
ویکرہ کشف الرأس بین الناس۔ (غنیۃ الطالبین مترجم۴۳)
واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے /سیدپور