نظر کا لگنا حق ہے؟


سوال # 18942
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
(۱) بچوں کو نظر کی خاطر ہاتھ اور پیر میں کالے منکے پہنانا اور گلے میں تعویذ پہنانا؟
(۲) نظر کے کالے ٹیکے کنپٹی، ہتھیلیوں، سینے، گالوں، پیٹھ، تلوؤں پر لگانا۔
(۳) ماں کے پلو، ماں کے بال، جھاڑو، بھیلاویں، مرچیوں اور مرغی وغیرہ سے نظر اتارنا۔ مندرجہ بالا چیزوں کی شرعی
حیثیت کیا ہے؟
دلائل کے ساتھ بالتفصیل جواب عنایت فرماکر ممنون و مشکور ہونے کا
موقع عطا فرمائیں۔
(۴) اسلام میں نظر کی حقیقت کیا ہے؟ اور اس کے علاج کا مسنون طریقہ کیا ہے؟
Published on: Feb 13, 2010
جواب # 18942
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل):
159=139-2/1431
حدیث میں ہے نظر لگنا حق ہے، اور اس کا علاج یہ مذکور ہے کہ جس کی نظر لگی ہے اس کو وضو کرنے کا حکم دیا جائے اور پھر جس کو نظر لگی ہے وہ اس پانی سے غسل کرے ، اس سے نظر کا اثر ختم ہوجاتا ہے: [روی أبو داوٴد من حدیث عائشة أنہا قالت: کان یوٴمر العائن
فیوٴضأ ثم یغتسل منہ المعین] (شامي: ۹/۵۲۴، ط زکریا دیوبند) اس کے علاوہ بھی اور
جائز طریقوں سے نظر اتاری جاسکتی ہے، البتہ ایسی چیزوں سے نظر اتارنا جن میں
شیطان، دیوی، دیوتاوٴں وغیرہ سے مدد لی گئی ہو یا جن میں شرکیہ کلمات استعمال کیے گئے ہوں جائز نہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں دیگر سوالوں کے جوابات بھی سمجھے جاسکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Dua-Supplications/18942
…………..
سوال: کیا لال مرچوں سے نظر اتارنا شرک ہے؟
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
الْجَواب حامِداوّمُصلّیاً
ایسا عمل جس میں کفروشرک کے قبیل سے کوئی چیز نہ ہو اور نہ ہی وہ عمل خلاف شرع ہو تو اس کو اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ نظر اتارنے کا مذکورہ عمل شرک کی قبیل سے نہیں ہے لہذا اسے اختیار کرنے کی اجازت ہے۔
وَاللہ اَعْلَمُ
…………
شریعت کے مطابق نظر اتارنے کا طریقہ
سوال : شریعت کے مطابق نظر اتارنے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب:جس کو نظرِبد لگ جائے تواس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول مبارک سے دم کیا جائے: بسم االلہ اللہم اذھب حرھا وبردھا ووصبھا
ترجمہ :اللہ کے نام پر،اے اللہ تواس (نظربد)کے گرم وسرد کو اوردکھ درد کو دورکردے ۔ اس کے بعد یہ کلما ت کہے : قم باذن اللہ ترجمہ : اللہ کے حکم سے کھڑا ہو جا ۔(حصن حصین )
ابن عساکر میں ہے کہ جبرئیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ اس وقت غمزدہ تھے جب پوچھا تو فرمایا حسن اور حسین کو نظر لگ گئی ہے ، فرمایا یہ سچائی کے قابل چیز ہے نظر واقعی لگتی ہے، آپ نے یہ کلمات پڑھ کر انہیں پناہ میں کیوں نہ دیا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں؟ فرمایا یوں کہو اللھم ذا السلطان العظیم ذاالمن القدیم ذاالوجہ الکریم ولی اکلمات التامات والدعوت المستجابات عاف الحسن والحسین من انفس الجن واعین الانس یعنی اے اللہ اے بہت بڑی بادشاہی والے اے زبردست قدیم احسانوں والے، اے بزرگ تر چہرے والے اے پورے کلموں والے اور اے دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دینے والے تو حسن اور حسین کو تمام جنات کی ہواؤں سے اور تمام انسان کی آنکھوں سے اپنی پناہ دے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی وہیں دونوں بچے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے سامنے کھیلنے کودنے لگے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا لوگو اپنی جانوں کو اپنی بیویوں کو اور اپنی اولاد کو اسی پناہ کے ساتھ پناہ دیا کرو، اس جیسی اور کوئی پناہ کی دعا نہیں۔
نوٹ: اول آخر درود شریف پڑھ لیں اور ججہاں حسن اور حسین کا نام ہے وہاں اس کا نام لے جسے نظر ہے۔

شریعت کے مطابق نظر اتارنے کا طریقہ


……………..
نظر اتارنے کا مسنون طریقہ
س: ایک آدمی اگر اپنی نظر اتارنا چاہے تو شرعی لحاظ سے اس کا مستند اور مسنون طریقہ کیا ہے؟
ج: جس کو نظرِبد لگ جائے تواس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول مبارک سے دم کیا جائے:
بسم االلہ اللہم اذھب حرھا وبردھا ووصبھا
ترجمہ :اللہ کے نام پر، اے اللہ تواس (نظربد) کے گرم وسرد کو اوردکھ درد کو دورکردے۔ اس کے بعد یہ کلما ت کہے:
قم باذن اللہ
ترجمہ: اللہ کے حکم سے کھڑا ہو جا۔ (حصن حصین) فقط واللہ اعلم
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/nazar-utarne-ka-masnon-tareeka/-0001-11-30
………………

سنت کے مطابق نظر اتارنے کا طریقہ
ہمارے ہاں پائے جانے والے عقائد میں سے متعدد عقائد افراط وتفریط کا  شکار،اور بہت سی غلط فہمیوں کی نذر ہوچکے ہیں۔ انہی میں سے ایک عقیدہ ”  نظر بد کا لگنا ” بھی ہے۔ نظر بد ایک ایسا موضوع ہے،جس کے بارے میں ہمارے  معاشرے میں دو متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نظر بد کی  دراصل کوئی حقیقت نہیں ہوتی اور یہ محض وہم ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے  ۔دوسری طرف کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس پر یقین تو رکھتے ہیں،لیکن اس کے  علاج میں کسی حد کی پرواہ نہیں کرتے ہیں،اور شرک کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔نظر  بد کا لگنا حق ہے اور اس کا غیر شرکیہ علاج جائز ہے۔
اکثر  لوگ جو کسی کام میں مہارت رکھتے ہیں یا خوب رو ہوتے ہیں، انہیں کسی کی نظر  لگ جاتی ہے ، اور مشاہدے میں آیا ہے بڑوں کی نسبت کو بچوں کو نظر جلدی اور  اکثر لگ جاتی ہے ۔ نظر کا انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ حسی اور شرعی  دونوں طریقے سے ثابت ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِن يَكَادُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَيُزۡلِقُونَكَ بِأَبۡصَٰرِهِمۡ (القلم:51)
ترجمہ : اور کافر (جب یہ نصیحت کی کتاب سنتے ہیں تو) یوں لگتا ہے کہ تم کو اپنی (بری) نگاہوں سے پھسلا دیں گے۔
٭حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ آپ کو نظر لگا دیں گے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الْعَيْنُ حَقٌّ وَلَوْ كَانَ شَىْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْهُ  الْعَيْنُ وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا۔(صحیح مُسلم حدیث :5831)
ترجمہ :نظر  بد لگنا حق ہے اور اگر تقدیر پر کوئی حاوی ہو سکتا  ہوتا تو  یقیناً نظربد حاوی ہو جاتی ،اور اگر تُم لوگوں کو (خُود کو)غسل دینے کا کہا  جائے تو غُسل دو۔
نظر  بد لگنے کے بعد لوگوں میں اس کے علاج کے متعلق بڑی بدعقیدگی اور رسومات  ہیں جنہیں عام مسلمان شرعی علاج سمجھتے ہیں ۔ لوگوں میں جادو ٹونہ یا نظر  بد کے علاج کے لئے کالی چیز کو ڈھال بنایا جاتا ہے جیسے کوئی گاڑی کو نظر  بد بچانے کی خاطر کالا کپڑا باندھ دیتے ہیں، نیا گھر بناتے ہیں تو اس کے  اوپر کالی ہانڈی رکھ دیتے ہیں ، یا خود کو نظر سے بچانے کے لئے بدن پہ کالا  دھاگہ باندھتے ہیں ۔ اسی طرح نظر بد کے علاج میں کالی مرچ جلا کر اس کی  دھونی دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بہت سے عمل ہیں جو نظر اتارنے کے لئے کئے  جاتے ہیں جبکہ ہمیں اسلام نے نظر بد کا شرعی طریقہ بتایا ہے ۔ اس لئے رسم و  رواج سے پرہیز کریں اور اپنے اندر سے ضعیف الاعتقادی ختم کریں ۔
نظر بد کا شرعی علاج:
نظر  بد سے پیشگی حفاظت تدبیر اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ایسا کرناتوکل کے  منافی بھی نہیں بلکہ یہی عین توکل ہے، کیونکہ یہ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر  اعتماد کرنا اور ان اسباب کو اختیار کرنا ہے جن کو اس نے مباح قرار دیا یا  جن کے استعمال کا اس نے حکم دیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہ کو ان کلمات کے ساتھ دم کیا کرتے تھے:
«أَعِيْذُکَمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّةِ مِنْ کُلِّ شَيْطَانٍ  وَّهَامَّةٍ وَمِنْ کُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ»(جامع الترمذی، الطب، باب کیف  یعوذ الصبیان، ح:۲۰۶۰۔
’’میں تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کی  پناہ میں دیتا ہوں، ہر شیطان اور زہریلی بلا کے ڈر سے اور ہر لگنے والی  نظر بد کے شر سے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اسماعیل واسحاق علیہما السلام کو اسی طرح دم کیا کرتے تھے۔
اگر عائن یعنی نظر لگانے والے ، یا جس کی نظر لگی ہو اُس کا پتہ ہو تو  اُسے وضوء کرنے اور اپنی کمر سے نیچے والے حصوں کو دھونے کا حکم دِیا جائے ،  اور جو پانی اُس کے جِسم کو چُھو کر گرے ، اُس پانی کو ایک برتن میں جمع  کر کے ، معین ، یعنی جسے نظر لگی ہو ، اُس کے سر پر پچھلی طرف سے سارے جسم  پر بہایا جائے ، اللہ تعالیٰ کے حکم سے نظر بد کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔ (اوپر  مسلم شریف کی غسل والی حدیث موجود ہے)
(٥٧٣٩)   ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر  میں ایک لڑکی دیکھی جس کے چہرے پر (نظر بد کی وجہ سے) کالی دھبے پڑ گئے  تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر دم کرادو کیونکہ اسے نظر  بد لگ گئی ہے۔صفحہ ٣٠٨،جلد ہفتم ،صحیح بخاری
”علماے کرام کااس بات پراجماع ہےکہ درج ذیل تین شرائط کے ساتھ دم کرناجائز ہے:
1.  دم کلام الٰہی ، اسمائےحسنیٰ، صفاتِ باری تعالیٰ کےذریعے یا مسنون دعاؤں سے ہونا چاہیے۔
2.  دم مسنون الفا ظ میں اور خالص عربی زبان میں ہو ،قرآنی آیات اور دعاؤں کا ترجمہ نہ ہو۔
3.  دم کرنے اور کروانے والے کا عقیدہ یہ ہو کہ دم بذاتِ خود مؤثر نہیں  بلکہ شفا دینے والی صرف اللّٰہ تعالیٰ کی ذات ہے۔دم وغیرہ تو اس کے حضور  محض التجا و درخواست ہے ۔”
نظر کادم یہ ہے:
اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّة مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْطَانٍ وَہَامَّة وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّة
’’ میں اللہ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر شیطان، زہریلے جانور اور ہر ضرر رساں نظر کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ 1
دوسرے کو دم کرنا ہو تو اَعُوْذُ کی جگہ اُعِیْذُك پڑھے۔
جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کرتے ہوئے یہ کلمات پڑھا کرتے تھے:
«بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ، مِنْ کُلَّ شَيْئٍ يُؤْذِيْکَ، مِنْ شَرِّ  کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ، اَللّٰهُ يَشْفِيْکَ، بِاسْمِ اللّٰهِ  اَرْقِيْکَ»صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۶۔
’’اللہ  کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے،  اور ہر انسان کے یا حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں  اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو دم کرتا ہوں۔‘‘
(٥٧٣٨) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم نے حکم دیا کے نظر بد لگ جانے پر معوذتین سے دم کرلیا جائے۔
(صفحہ ٣٠٨،جلد ہفتم ،صحیح بخاری)
معوذتین (سورہ فلق،سورہ الناس ) اور سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص پڑھنا بہترین مجرب دم ہیں
آپﷺ  کا ارشاد مبارک ہے ’’جو شخص صبح و شام تین تین مرتبہ سورہ اخلاص، سورہ  الفلق اور سورہ الناس پڑھے گا وہ ہر طرح کے مصائب اور رنج و غم سے محفوظ  رہے گا۔‘‘ (ابو دائود)
قرآن کریم کے ذریعہ علاج کرنا چاہیے کیونکہ قرآن شفا ہے ۔
عبداللہ بن مسعود سے موقوفا ایک روایت میں ذکر ہے :
“عليكم بالشِّفائين العسلِ والقرآنِ”(السنن الکبری للبیہقی)
ترجمہ : تم لوگ شفا دینے والی دو چیزوں کو اپنا لو قرآن کریم اور شہد۔
شفا کی نیت سے مریض پر قرآن پڑھ کر پھونکنا:قران اگر پہاڑ پر نازل ہوا  ہوتا تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے تو کیا وہ گوشت اور خون سے بنے جسم کو شفا  نہیں بخش سکتا؟ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: قرآن میں تمام دنیاوی اور  اخروی بیماریوں نیز تمام جسمانی اور قلبی امراض سے مکمل شفا ہے، چاہے اس  میں وقت لگے۔
اسمائے حسنی کے ذریعہ اللہ تعالی سے اس مرض کی شفا یابی کے لئے دعا کرنا ۔  اللہ تعالی دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور بندوں کی مصیبت ٹال دیتا ہے ۔
#نمبر6: نماز کی پابندی کرنا اور صبح وشام کی مسنون دعائیں پڑھنا،
اگر انسان صبح اور شام اور سونے وغیرہ کے اذکار میں پابندی کرے تو اس کا  انسان کو نظر بد کی حفاظت میں بہت بڑا اثر ہے اور یہ ان شاء اللہ اسکے لئے  ڈھال کا کام دے گا تو اس کی پابندی ضروری ہے۔
مذکورہ بالا جائز  طریقوں سے نظر بد کا علاج کیا جائے اور خودساختہ ذرائع سے پرہیز کیا جائے، اگر کسی کو خودساختہ طریقے سے شفا مل جائ ے تو دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ  حدیث پاک میں ارشاد ہے :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ”دم جھاڑ‘ گنڈے منکے اور جادو کی چیزیں  یا تحریریں شرک ہیں۔“ ان کی اہلیہ نے کہا: آپ یہ کیوں کر کہتے ہیں؟ اللہ کی  قسم! میری آنکھ درد کی وجہ سے گویا نکلی جاتی تھی تو میں فلاں یہودی کے  پاس جاتی اور وہ مجھے دم کرتا تھا۔ جب وہ دم کرتا ہو میرا درد رک جاتا تھا۔  سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ شیطان کی کارستانی ہوتی تھی۔ وہ  تیری آنکھ میں اپنی انگلی مارتا تھا‘ تو جب وہ (یہودی) دم کرتا تو (شیطان)  باز آ جاتا تھا۔ حالانکہ تجھے یہی کچھ کہنا کافی تھا جیسے کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے «أذهب الباس رب الناس، اشف أنت الشافي، لا  شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما» ”اے لوگوں کے رب! دکھ دور کر دے‘ شفاء  عنایت فرما‘ تو ہی شفاء دینے والا ہے‘ تیری شفاء کے سوا کہیں کوئی شفاء  نہیں‘ ایسی شفاء عنایت فرما جو کوئی دکھ باقی نہ رہنے دے۔“
Reference:  Sunan Abu Dawood Urdu,۳۶۔
علاج کے احکام و مسائل,٠١٧۔ تعویذ گنڈے لٹکانا۔,حدیث نمبر: 3883:-
نظر بد کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے بے ہودہ  کاموں و غیر شرعی طریقوں کی پناہ لینی چاہیے اور نہ ہی اس سلسلے میں پیروں  اور جعل ساز تعویذ فروشوں کے جال میں پھنس کر اپنا مال و اسباب اور ذہنی  سکون برباد کرنا چاہیے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے گھروں میں قرآن پاک  کی صورت میں منبع شفا موجود ہے اس کے علاوہ احادیث میں دعائیں اور وظائف  بھی وارد ہوئے ہیں جنہیں پڑھنے کے لئے کسی کی اجازت کی قطعاً ضرورت نہیں ہر  مشکل کے حل کے لئے اللہ کے کلام، مسنون دعاؤں اور وظائف کی طرف رجوع کرنا  چاہیے۔
نوٹ: تفاقی ناکامی یا کاروباری نقصان یا شادی میں رکاوٹ کو نظر بد کا نتیجہ  قرار دینا غلط ہے۔ ایسی صورت میں نماز کی اور مسنون دعاؤں کی پابندی کریں۔
بعض عورتوں کا اپنے شوہروں کی علمی، ادبی اور کاروباری مصروفیات کو عدم  توجہی  کا نام دے کرنظر بد کا نتیجہ قرار دینا بھی غلط ہیں،
نفسیاتی مرض: بعض لوگ حقیقت میں  نفسیاتی مریض ہوتے ہیں ،لیکن وہ اپنے  نفسیاتی مریض ہونے کا اعتراف کرنے سے گریز کرتے ہیں۔اس لئے وہ نفسیاتی  ہسپتالوں میں جانے اور وہاں علاج کرانے میں اپنی ہتک سمجھتے ہیں ۔۔ سب سے  پہلے طبی اور نفسیاتی معائنے کے ذریعہ یہ جان لینا از حد ضروری ہے کہ نظر  لگی ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بیماری کچھ نہیں ہوتی محض وہم و گمان ہوتا  ہے اور وھم ایسی خوفناک بیماری ہے جو بہت سے بیماریوں کا سبب بن جاتی ہے  اور بسا اوقات انسان کو موت تک لے جاتی ہے۔ اس لئے مسنون دعاؤں کے ساتھ  ساتھ علاج بھی ضروری ہے:
صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت رسول کریمﷺ نے فرمایا :
«لكل داء دواء فإذا أصيب دواء الداء برأ بـإذن الله عزّوجلّ»1
”ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کو اس کی اصل دوامیسر ہوجائے تو انسان عزوجل کے حکم سےشفایاب ہوجاتا ہے۔”
صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:
«ما أنزل الله دآء إلا أنزل له شفاء»2
”اللّٰہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کی شفا نازل نہ کی ہو۔”
جامع ترمذی کی ایک اور حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے علاج معالجے کے متعلق صحابہ کرام کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا:
«نعم يا عباد الله تداووا. فان الله عَزّ وجل لم يضع داء إلا وضع له شفاء  أو دواء إلا داء واحدا فقالوا:یا رسول الله وما هو؟ قال: الهرم»3
”ہاں، اے اللّٰہ کے بندو! علاج معالجہ کروا لیا کرو، اللّٰہ تعالیٰ نے  کوئی ایسی بیماری نہیں رکھی جس کی شفا نہ رکھی ہو، سوائے ایک بیماری کے۔  صحابہ کرام نے پوچھا: و ہ کون سی بیماری ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: وہ ہے  بڑھاپا۔”
واللہ اعلم
اللھم انی اعوذبک ان اشرک بک و انا اعلم واستغفرک لما لا اعلم۔ آمین