مسجد کی زمین بینک کو کرایہ پر دینا؟
اور
اس میں شادی ہال بنانا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
جناب حضرت مولانا مفتی شکیل منصورالقاسمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ
امید کہ آنجناب بخیروعافیت ھونگے
درج ذیل مسائل کا مدلل جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں
کیا مسجد کی خالی پراپرٹی میں بینک کھولا جاسکتا ھے. یعنی بینک کے لئے زمین کرایہ پہ دیا جاسکتا ہے؟
کیا مسجد کی خالی پراپرٹی میں میرج ھال بنایا جاسکتا ھے؟
کیا مسجد کے دکانداروں سے اڈوانس لیا جاسکتا ہے ؟؟؟
محمد احتشام ۔
نوادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
مسجد کی زمین یا مکان بینک کو یا کسی بھی سودی کاروبار کرنے والے ادارے کو یا خلاف شرع کام کرنے والے افراد کو کرایہ پر دینا امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جائز ہے۔ اور صاحبین کے نزدیک معصیت پر اعانت ہونے کی وجہ سے مکروہ لغیرہ ہے۔صاحب ہدایہ وغیرہ کے یہاں ترجیح امام صاحب کے قول کی ہے۔ کیونکہ زمین کرایہ پہ دینے میں کوئی خرابی نہیں ہے۔اس میں خلاف شرع کام کرنے والے پہ غلط کام کرنے کا وبال ہوگا۔ جب کرایہ پہ دینا جائز ہے تو اس سے حاصل شدہ آمدنی بھی حلال ہوگی۔
ہاں حتی الوسع سودی لین دین کرنے والے اداروں کو مسلمان اپنے مکانات وزمین کرایہ پر دینے سے اجتناب کریں۔
وجاز إجارۃ بیت بسواد الکوفۃ؛ لیتخذ بیت نار أو کنیسۃ أو بیعۃ أو یباع فیہ الخمر (الدر المختار) وتحتہ في الشامیۃ: ہٰذا عندہ أیضًا؛ لأن الإجارۃ علی منفعۃ البیت؛ ولہٰذا یجب الأجر بمجرد التسلیم ولا معصیۃ فیہ، وإنما المعصیۃ بفعل المستأجر، وہو مختار فینقطع نسبتہ عنہ۔ (شامي، الحظر والإباحۃ / فصل في الاستبراء ۹؍۵۶۲ زکریا)
وإذا استأجر الذمي من المسلم دارًا لیسکنہا فلا بأس بذٰلک، وإن شرب الخمر فیہا، أو عبد فیہا الصلیب، أو دخل فیہا الخنازیر لم یلحق المسلم في ذٰلک شيء، وکان بمنزلۃ ما لو آجر دارًا من فاسق۔ وفي الخانیۃ: کمن باع غلامًا ممن یقصد بہ الفاحشۃ، أو باع جاریۃ ممن یأتیہا في غیر المأتي۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ، کتاب الإجارۃ / الاستیجار علی المعاصي ۱۵؍۱۳۳ رقم: ۲۲۴۴۵ زکریا۔۔۔۔نظام الفتاوی جلد 4 صفحہ 122۔جواہر الفقہ ۲؍۴۵۶، احسن الفتاویٰ ۶؍۵۴۶)
اگر مسجد کی خالی زمین مصالح مسجد کے لئے وقف ہو اوراسے مسجد کی حدود میں شامل نہ کیا گیا ہو بلکہ اس سے علیحدہ ہو تو ایسی خالی زمین پر شادی ہال کی تعمیر یا اس کے لئے کرایہ پر دینا جائز ہے بشرطیکہ اس ہال میں فحاشی تصویر سازی اور دیگر تمام معاصی ومنکرات سے اجتناب کی حتی الامکان تاکید کردی جائے۔
ودخل ما لو کان الوقف مسجدًا أو مدرسۃً سکن فیہ فتجب فیہ أجرۃ المثل۔ (شامي، کتاب الوقف / مطلب سکن المشتري دار الوقف ۴؍۴۰۸ بیروت، ۶؍۶۱۵ زکریا)
ویؤجر بأجر المثل فلا یجوز بالأقل – إلی قولہ – ولو زاد أجرہ علی أجر مثلہ، قیل: یعقد ثانیًا بہ علی الأصح، والمستأجر الأول أولیٰ من غیرہ؛ فإن قبلہا فہو الأحق وإلا أجرہا من الثاني۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب الوقف / مطلب فیما زاد أجر المثل بعد العقد ۴؍۴۰۴ کراچی، ۶؍۶۰۸-۶۱۰ زکریا، البحر الرائق / کتاب الوقف ۵؍۲۳۵-۲۳۶ کوئٹہ)
ہل یجوز أن یتخذ حصنًا بجنب حائط المسجد یمنع الضرر عن المسجد من مال الوقف فہٰذا علی وجہین: إن کان الوقف علی مصالح المسجد جاز؛ لأن ہٰذا مصلحۃ المسجد۔ (الفتاویٰ الولوالجیۃ / الفصل الأول من کتاب الوقف ۳؍۹۰ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۱۴؍۱۵۴ زکریا)
مسجد کی دکانوں کے کرایہ دار سے پیشگی رقم advance payment کے نام سے اس شرط کے ساتھ رقم وصولنا جائز ہے کہ کرایہ دار کے دکان واپس کرتے وقت یہ رقم بھی واپس کردی جائے گی ۔اور یہ رقم بطور امانت مسجد انتظامیہ کے پاس جمع رہے گی ۔منتظمہ کے لئے اس کا استعمال بغیر اجازت کے جائز نہ ہوگا۔
فی ’’ درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ : یعتبر ویراعی کل ما اشترط العاقدان في تعجیل الأجرۃ وتأجیلھا ۔ (۱/۵۴۱ ، المادۃ : ۴۷۳)
وأیضاً: تلزم الأجرۃ بشرط التعجیل، یعني لو شرط کون الأجرۃ معجلۃ یلزم المستأجر تسلیمہا، أي إذا شرط إعطاء الأجرۃ معجلۃ سواء أکان ذلک في اثناء عقد الأجرۃ أو بعدہ ۔
(۱/۵۳۱ ، المادۃ : ۴۶۸ ، وکذا فی البحرالرائق : ۸/۷ ، کتاب الإجارۃ)
و فی ’’ الہدایۃ ‘‘: إن العین المستأجر أمانۃ في ید المستأجر ۔
(۳/۳۰۸، باب إجارۃ الفاسدۃ)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے /سیدپور