عورتوں کی زیب وزینت؛ اسلامی ضوابط

عورتوں کی جائز زیب وزینت کے اسلامی اصول وضوابط
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالٰی
حضرت مفتی صاحب امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہونگے.
مسئلہ معلوم یہ کر نا ہے کہ عورتوں کے ‘میک اپ’ کے بارے میں مکمل طور پر وضاحت فرمادیں. خاص کر سرخی کے بارے میں. کیا میک اپ کی کچھ قسمیں ناجائز؟ کیا کسی خاص جگہ، وقت اور موقع محل کی بھی کوئی رعایت کرنی چاہیے. وضاحت فرمائیں
ابرار الحق قاسمی۔
پمورا۔ دیوبند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
اسلام نے عورتوں کو حد شرعی وحد اعتدال میں رہتے ہوئے جائز وپاک چیزوں کے ذریعہ ہر قسم کی  زیب زینت اور آرائش و زیبائش کی اجازت دی ہے۔ لیکن ساتھ میں اس کے لئے کچھ اصول وضوابط وضع کردیئے گئے ہیں۔
مثلا یہ کہ زینت اپنے اندرون خانہ ہو۔ اپنے شوہر کے لئے ہو نہ کہ اجانب وغیر محرم کے لئے۔ زیب وزینت اختیار کرتے ہوئے اللہ کی فطری خلقت کا تغیر وتبدل لازم نہ آتا ہو مثلا بھوؤں کو بالکل صاف کرکے نکال دیا جائے۔ یا اپنے بالوں کو لمبا دکھانے کے لئے کسی دوسری عورت کا بال جودیا جائے۔

ان بنیادی وخصوصی اصول کی رعایت کے ساتھ عورت کے لئے سرخی سمیت ہر قسم کی زیب وزینت کی اجازت ہے۔۔
لہذا :عورت اپنے شوہر کی اجازت سے شوہر کے لئے زیب وزینت کی اُن تمام اَشیاء کو استعمال کرسکتی ہے جن میں کوئی ناپاک چیز شامل نہ ہو ۔
میک اپ (Makeup)غیر ملکی سامان، پاوڈر (Powder)لپ اسٹک (Lip stick) اور سامان زینت   کے بارے میں اگریہ بات یقینی طور پر معلو م ہو ،کہ ان میں سور کی چربی یا مردار جانوروں کی چربی مخلوط نہیں ہے ،  اور اگر ہو بھی لیکن ملانے کے بعد اس کی حقیقت وماہیت کو کسی کیمیاوی عمل کے ذریعہ بدل دیا گیا ہو  تو شرعا ان اشیاء کے استعمال کی اجازت ہے۔(مستفاد  المسائل المھمہ )
اب تک کی تحقیق و معلومات کے مطابق لپ اِسٹک  میں ناپاک چیز کی ملاوٹ کا یقین نہیں ہے، اِس لئے اِس کے استعمال کی بھی گنجائش ہے۔
وأما التحمیر ونحوہ فیجوز بإذن الزوج وفي داخل البیت، ویحرم بغیر إذن الزوج وخارج المنزل۔ (الفقہ الإسلامي وأدلتہ / کتاب الحظر والإباحۃ، تلسعًا: الترجل والتخنث ۴؍۲۶۸۳ رشیدیۃ)
وطیب النساء لون لا ریح لہ کالزعفران، والخلوق۔ (مرقاۃ، کتاب اللباس، امدادیہ ملتان ۸/۲۵۸)
وفی ’’ أحکام تجمیل النساء ‘‘ : تجمل المرأۃ لزوجہا في الحدود المشروعۃ من الأمور التي ینبغي لہا أن تقوم بہا فإن المرأۃ کلما تجملت لزوجہا کان ذلک أدعی إلی محبتہ لہا وإلی الائتلاف بینہما ، وہذا مقصود الشارع ، فالمکیاج إذا کان یجملہا ولایضرہا فإنہ لا بأس بہ ولا حرج ۔ (ص : ۲۰۱)
لیکن ہاں لپ اسٹک اور نیل پالش کے استعمال کے بارے میں یہ خیال رہے کہ ان دونوں کے ہوتے ہوئے پانی جسم تک نہیں پہنچ پاتا ہے ، اور وضوء اس کے ساتھ درست نہیں ہوتا،  اس لیے جن عورتوں پر نماز فرض ہے ان کے لیے اس سے بچنا واجب ہے ، جن پر ابھی نماز فرض نہیں ، عذر کی حالت ہے اور عذر ختم ہونے تک یقین ہے کہ لپ اسٹک اور پالش صاف ہوجائے گا، ان کے لیے اس کے استعمال کی گنجائش ہے، بہ شرطیکہ ان چیزوں میں کوئی ناپاک جزء استعمال نہ ہوتا ہو ۔فتاوی ہندیہ میں ہے  :
أو لزق بأصل ظفره طين يابس أو رطب لم يجز .(الهندية 2/1 )
بالوں کے ساتھ بال جڑنے کے متعلق ذہن میں یہ رکھنا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے نہ صرف دوسری عورتوں کے بال جوڑنے سے منع فرمایا ہے ، بلکہ آپ  نے بال لگانے والی اور اپنے بال کے ساتھ بال لگوانے والی دونوں خواتین پر اللہ کی لعنت بھیجی ہے ۔
“لعن الله الواصلة والمستوصلة ”
(صحیح مسلم ، حدیث نمبر : ۵۵۶۵ ۔ محشی ۔)
اسی لیے اس بات پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ ایک انسان کا اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے انسان کا بال جوڑنا قطعا حرام ہے ۔ البتہ کسی اور جانور کا بال اپنے جوڑے میں رکھنا ، یا مصنوعی نائیلون وغیرہ کے بال جوڑے میں لگانا اور خواتین کا اپنے بالوں کے ساتھ جوڑ دینا جائز ہے، فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’’ و لا بأس للمرأۃ أن تجعل في قرونھا و ذوائبھا شیئا من الوبر‘‘ (الفتاوی الھندیۃ : ۵/۳۵۸ ۔ بحوالہ کتاب الفتاوی)
زیب وزینت کر کے گھروں سے باہر نکلنا اور اپنی خوبصورتی کی نمائش کرنا ناجائز وحرام ہے ۔ایسی خواتین کو حدیث پاک میں زانیہ کہا گیا ہے:
عن أبي موسیٰ الأشعري رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیما امرأۃ استعطرت فمرت علی قوم لیجدوا من ریحہا فہي زانیۃ۔ (سنن النسائي ۲؍۲۴۰ رقم: ۵۱۲۶، سنن أبي داؤد ۲؍۵۷۵ رقم: ۴۱۷۳، سنن الترمذي ۲؍۱۰۷ رقم: ۲۷۸۶، مسند البزار البحر الزخار ۸؍۴۷ رقم: ۳۰۳۳، السنن الکبریٰ للنسائي ۵؍۴۳۰ رقم: ۹۴۲۲، صحیح ابن حبان ۱۰؍۲۷۰ رقم: ۴۴۲۴، السنن الکبریٰ للبیہقي ۳؍۶۴۹ رقم: ۵۹۷۵، شعب الإیمان للبیہقي ۱۰؍۲۳۵ رقم: ۷۴۳۰، شرح السنۃ للبغوي ۱۲؍۸۱ المکتبۃ الشاملۃ)
گھنے بھئوں والی خاتون کو بھوؤں کو باریک کرنا تو جائز ہے لیکن اسے بالکل صاف کرڈالنا تغییر خلق اللہ کی وجہ سے ناجائز یے۔
لا بأس بأخذ الحاجبین وشعر وجہہ۔ (شامي ۹؍۵۳۶ زکریا، طحطاوي علی الدر ۴؍۱۸۶)
ولا بأس بأن یأخذ شعر الحاجبین وشعر وجہہ، والمراد ما یکون مشوہا لخبر لعن اللّٰہ النامصۃ والمتنمصۃ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح ص: ۵۲۶، احسن الفتاویٰ ۸؍۷۶)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
مركز البحوث والدراسات الإسلامية العالمي .
سیدپور /بیگوسرائے