طلباء عزیز کی خدمت میں

الحمد للّٰہ الذي أنزل القرآن، والصلاۃ والسلام علیٰ عبدہ الذي علّمہ البیان، وعلیٰ اٰلہ وأصحابہ الذین فازوا بالقرآن، وعلیٰ من جاھدوا في تعلیم الصبیان
وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ:
عزیزو! قرآن میں زمانہ اوررات دن کی قََسم کے ساتھ ساتھ مختلف اوقات کی قسمیں ملتی ہیں، کہیں صبح، کہیں ضحی اور کہیں وقت عصرکی،
اِن قَسموں کاایک بڑا مقصد انسان کو اپنے وقت اور عمرِعزیز کی گزرتی لہروں سے نفع اُٹھانے اور پل پل لمحہ کو تول تول کرخرچ کرنے کی طرف توجُّہ دلانا ہے۔
صوفیائے کرام فرماتے ہیں:
’’الوقت سیف قاطع‘‘
وقت کی مثال کاٹنے والی تلوارکی سی ہے۔ انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام بھی نصیحت کرتے تھے کہ: وقت کے بارے میں ہوشیار رہو، وقت برباد نہ کرو، وقت کو غیر مفید باتوں میں صَرف نہ کرو، روزِ قِیامت ربِ جلیل کے رُوبہ رو گھڑی گھڑی، لحظہ لحظہ کاتمھیں حساب دیناپڑے گا!!!۔
سچ ہے کہ وقت ضائع کرنا ایک طرح کی خود کُشی ہے، تاریخ اور صدیوں کا تجرَبہ بھی ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ، دنیا میں جس قدر کامیاب وکامران ہستیاں گزری ہیں، اُن کی کامیابی ونام وری کا راز صرف وقت کی قدر اور اُس کا صحیح استعمال رہا ہے۔
یہی منٹ، گھنٹے اور دن جو غفلت اور بے کاری میں گزر جاتے ہیں، اگر انسان حساب کرلے تو اُن کی مجموعی تعداد مہینوں؛ بلکہ برسوں تک پہنچتی ہیں۔ ارے! فضول کاموں سے روزانہ ایک گھنٹہ بچاکر جاہل سے جاہل انسان بھی دس سال میں ایک درجے کا باخبر عالم بن سکتا ہے۔ اِسی ایک گھنٹے میں معمولی صلاحیت کا ایک بچہ خوب اچھی طرح سمجھ کر ایک کتاب کے بڑے بیس صفحے اور اِس حساب سے سال بھر میں سات ہزار صفحے پڑھ سکتا ہے۔
لیکن افسوس! لفظ ’’کَل آئندہ‘‘ پر، جو انسان کو آج وقت ضائع کرنے پر ندامت اور
افسوس سے بچاتا رہتا ہے، سچ ہے یہ فرمان نبوی:
نِعمتَانِ مَغبونٌ فیھمَا کثیرٌمن النّاسِ: الصِّحۃُ والفراغُ۔
(مشکاۃ شریف)،
دو نعمتیں ایسی ہیں جس میں اکثر لوگ دھوکہ میں ہیں:
1. صحت اور
2. فراغت؛
لہٰذا اگر ہم کچھ بننا چاہتے ہیں تو یاد رہے! وقت خام مسالے کے مانند ہے، جس سے آپ جو کچھ چاہیں بناسکتے ہیں ، گذشتہ زمانے کے متعلِّق افسوس اور حسرت نہیں کرنی چاہیے، کہ بے سود ہے؛ آئندہ زمانے کے خواب نہیں دیکھنا چاہئے، کہ یہ موہوم ہے؛ بلکہ حال کی اُس کے آنے سے پہلے قدر کرنا چاہئے، اور حال کو قابو میں کرنے کے دو بڑے اصول ہیں؛
1. نظام الاوقات اور
2. اِحتساب
۱/ نظام الاوقات
شب و روز کے اوقات کے لئے ایک نظام متعیَّن کرنا،
آنے والے وقت کے لئے ایک مخصوص پروگرام بنانا اور زندگی کے تمام اوقات کے لئے کاموں کی ترتیب اور تشکیل کے عمل کو نظام الاوقات کہا جاتا ہے۔
تاریخ میں جتنی علمی شخصیات گزری ہیں ، جنھوں نے عظیم تصنیفی کارنامے انجام دیے ہیں، اُن کی پابندیٔ نظام الاوقات ضرب المثل ہے، اور یہی اُن کے کارناموں کا بنیادی راز ہے، مشہور امام خلیل نحوی رحمہ اللہ کا قول ہے:
اَثقلُ الساعاتِ عَلیّ ساعۃٌٌ آکلُ فیھَا۔
ماہرینِ تربیت کا کہنا ہے:
اِجعلْ لکلِّ لَحظۃٍ منْ یومکَ عَملا مُعیَّناً، وَلکلِّ عملٍ منْ اَعمالِکَ وَقتاً خَاصّاً۔
وقت کے صحیح استعمال سے ایک وحشی مہذَّب اور ایک مہذَّب، فرشتہ سیرت بن سکتا ہے۔
اِس کی برکت سے جاہل، عالم؛ مفلس، تونگر؛ نادان، دانا بنتے ہیں۔
وقت ایک ایسی دولت ہے جو شاہ وگدا، امیروغریب، طاقت ور اور کمزور؛ سب کو یکساں ملتی ہے.
۲/ احتساب:
احتساب: شب کو بستر پر لیٹنے سے پہلے محاسبہ کرے کہ کیا کھویا اور کیا پایا؟
کتنا فائدہ ہوا اور کتنا نقصان؟ اس کو پرکھنے کی کسوٹی احتساب کا عمل ہے، چاہے وہ انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی اسٹیج پر۔ یہ احتساب ہمارے دل میں آئندہ وقت کو ضیاع سے بچا نے کے لیے ایک عملی جذبہ پیدا کرے گا؛
لیکن ارشاد نبوی:
إِنَّ لِنفسکَ عَلیکَ حَقاً:
تیرے نفس کا بھی تجھ پرحق ہے، اور فرمان نبوی:
نفسُکَ مَطیُّک،فارْفُقْ بہا
“تمھارا نفس تمھاری سواری ہے، اُس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرو” کے پیش نظر صحت و اعتدال کا؛ اور فرمان نبوی
أَحبُّ الأَعمالِ إِلَی اللّٰہِ أَدوَمُھا وإِنْ قَلَّ
“اللہ کو وہ عمل زیادہ محبوب ہے جو دائمی ہو، اگرچہ مقدار میں کم ہو” کے پیش نظر مداوَمت کا لحاظ ضرور رہے۔
عزیزو! کتب بینی کے اِنہماک کے ساتھ ہی ساتھ اپنے آپ کو ایامِ طالب علمی میں پیرویٔ سنن ونوافل کا خوب عادی بنائیں، نیز خالی اوقات میں بہ جائے سیر وتفریح کے ذکر وتلاوت کی پابندی کریں ۔ تعطیل (جمعرات، جمعہ، عید الاضحی اور رمضان المبارک) کے موقع پر اپنے گھر جاکر لایعنی کاموں میں اوقات گزارنے کی بہ جائے تبلیغی مصروفیات میں اور خصوصاً شب بیداری میں حصہ لیجئے۔ (ملخص متاعِ وقت اور کاروانِ علم، مآرب الطلبہ)
بہ قول حضرت تھانوی رحمہ اللہ: جب پڑھنے کے زمانے میں تم احادیث وقرآن کی ورق گَردانی کرتے چلے گئے، اور ترغیب وترہیب کا اِس وقت تمھارے دل پر اثر نہ ہوا، تو آئندہ کیا امید کی جاسکتی ہے کہ تم اِس سے متأثرہوں گے۔
ایک جگہ فرمایا: اصل چیز عمل ہے، بغیر عمل کے سب بے کار ہے، خواہ علمِ ظاہر ہو یا علمِ باطن؛ اصل فضیلت تو عمل ہی کو ہے، عمل ہی سے دین کی تکمیل ہوتی ہے۔
دیکھئے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کتابی علم کہاں تھا؟ مگر قبولیت اظہر من الشمس ہے، اِس کی وجہ یہی ہے کہ علم سے زیادہ ان کے پاس عمل تھا.
کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں؟
مطالعہ ایک فن ہے جوطالب علم کو یہ سکھاتاہے کہ، وہ کیسے غور وفکر کرے اور کیسے ملاحظہ کرے؟ اور کیسے تحلیل وتجزیہ کرے؟ نسق وترتیب کاکیا طریقہ ہواور نقطۂ نظر اور توجہ کیا ہو؟ وہ کیسے پھیلے ہوئے مباحث کو سمیٹے؟ علوم وفنون کا اسٹاک اور ذخیرہ کیوں کر کرے اور واقعات کو ترتیب کیسے دے؟
بہت سے طلبا کی یہ شکایت رہتی ہے کہ ہم مطالعہ کرتے ہیں لیکن بعض عبارتیں اور مشکل مضامین حل نہیں ہوتے۔
عزیزو! عاشقِ علم ابنِ سینا سے کون ناواقف ہوگا! جب کوئی کتاب ان کے ہاتھ لگ جاتی صرف پڑھنے کی نہیں، پڑھ کر سمجھنے کی عادت تھی، مابعد الطبیعیات پر ایک کتاب چالیس بار پڑھی، پوری کتاب حفظ ہوگئی، پر سمجھ میں نہ آئی لیکن ہمت تھی کہ ہارتی کہاں! کسی نے اِس موضوع پر فارابی کی کتاب خرید نے کا مشورہ دیا، خریدی پڑھی، موضوع سمجھ میں آگیا تو علم کے اس عاشق نے مسرت میں سجدۂ شکر ادا کیا، اور صدقہ خیرات کیا۔
کہتے تھے: جب کسی مسئلہ میں مجھے تردد ہوتا تو جامع مسجد جاکر صلاۃ الحاجۃ پڑھتا، رب کے حضور گڑگڑا کر دعا کرتا، تب کہیں جاکر عقدہ کشائی ہوتی۔
بعضے طلبہ کی یہ شکایت ہوتی ہے کہ: حل شدہ مضامین مستحضر نہیں رہتے؟ چوں کہ مثل بھی ہے:
آفۃ العلمِ النسیان،
علم کی آفت ومصیبت بھولنا ہے۔
یاد رکھیں! درسیات کا مطالعہ اِس طور پر کریں کہ، دو یا تین مرتبہ معانی کے استحضار کے ساتھ زبان سے عبارت پڑھیں، اگر چہ یہ کام بہ ظاہر آسان نظر آتا ہے؛ لیکن تھوڑا سا مشکل بہ ایں معنیٰ ہے کہ، اس میں ذہن سے بہ یک وقت دو کام لئے جاتے ہیں:
1. اول معانی کا استحضار،
2. ثانی: ہمارے سمجھے ہوئے معانی کے مطابق عبارت پر اعراب ڈالنا۔
اِس طرح مطالعہ کرتے جائیں، اور وقتی طور پر حاصلِ مطالعہ کے مستحضر نہ رہنے پر اِس عمل کو ترک نہ کریں ؛ کیوں کہ مطالعہ کے دوران آنے والی چیزیں موقع بہ موقع یاد آتی رہیں گی (ان شآء اللہ)۔ اور خارجیات کے مطالعہ میں یہ عادت ڈالیں کہ زبان بند ہو، اور دماغ چلتا رہے۔ اس سے مطالعہ کی مقدار میں کافی اضافہ ہوگا۔
ہاں! دورانِ مطالعہ حاصلِ مطالعہ کو ذہن نشین کرنے کی تدبیر بھی ضروری ہے، جس کے دو طریقے ہیں:
ایک طریقہ:
بہ قول حضرت امام شافعیؒ:
العلمُ صَیدٌ، والکِتابۃُ قیدٌ،
کہ “علم کی مثال ایک شکار کی سی ہے، اُسے لکھ کر قید کیا جاسکتا ہے۔”
یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا فرمان ہے: “جو شخص حدیث طلب کر رہا ہو اُس کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے مُحدِّث اور قلم سے دُوری اختیار نہ کرے۔” (مطالعہ کیوں :۴۴)
لہٰذا دورانِ مطالعہ مفید باتوں کو محفوظ کرتے رہنا چاہئے۔
دوسرا طریقہ:
چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، حاصلِ مطالعہ کے استحضار کی عادت ڈالیں۔
مطالعہ کے دوران حل شدہ عبارت وحواشی پر خط کھینچ لیں بہ شرطیکہ کتاب ذاتی ہو، اور حل نہ ہو نے والے الفاظ پر بقدر ضرورت لکیر کھینچ لیں۔ خط کشید کا فائدہ یہ ہوگا کہ، جب طالب علم دوبارہ اس کو پڑھے گا تو ان عبارتوں اور سطروں سے بنیادی افکار، اہم تفصیلات، فنی کلمات اور علمی اصطلاحات سمجھے گا۔ اور حل نہ ہونے وا لے الفاظ پر خط کشید سے اپنی کمزوری کی بنیاد معلوم ہوگی۔
فائدہ:
کتابوں کے اسباق و مطالعہ کے بعد اُسی دن مراجَعت کرنے میں نہ تو وقت زیادہ صَرف ہوگا، نہ ہی زیادہ محنت لگے گی؛ کیوں کہ ابھی تازہ سبق یا مطالعہ ہوا ہے، آفتِ نسیان اس پر طاری نہیں ہوئی۔ اور اس کی آسان صورت یہ ہے کہ، اس عربی عبارت کو معانی کے استحضار کے ساتھ پڑھ لیں، اور فنی کتابوں میں کم ازکم تین دن کے اسباق کو پڑھیں۔ اس طرح مراجعت سے فائدہ یہ ہو گا کہ، اسباق میں ہونے والے مختلف فنی اجزاء کو مربوط کرنے کی قدرت حاصل ہوگی، جس سے فنی استحضار حاصل ہوگا، جس کو ’’فن دانی‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
مطالعہ کا ذوق بڑھانے کے لیے کم ازکم دو ساتھیوں کی جوڑی ہو، دونوں ایک متعین مقدار مطالعے کا عہد کریں، اور بہ وقت فرصت مذاکرہ ومباحثہ کریں.
ضیوفِ اہل اسلام، طلبۂ علومِ دینیہ کے حوصلے کیا ہونے چاہئے؟
ان کا کردار کیسا ہو؟ اور وہ کن صفاتِ حمیدہ سے متصف ہونے چاہئے؟
اس بابت لب کشائی کرنا یا کچھ لکھنا مجھ حقیر کے بِساط سے باہر ہے؛ لیکن اسلاف وبزرگانِ دین کی کچھ امانتیں ایسی ہیں جن کو ادا کرنا امانت کا مقتضیٰ ہے، جو حسبِ ذیل ہیں:
عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت:
قالَ النبي ا: أُغدُ عالِماً، أو مُتعلِّماً، أو مُستمِعاً، أو مُحبّاً، ولا تکنْ الخَامسۃَ(عُلما سے دشمنی رکھنا)، فتُھلکَ۔ (الاعتدال في مراتب الرجال)
وقالَا: حَمَلَۃُ القرآنِ عُرَفائُ (چودھری) أھلِ الجنّۃِ یومَ القِیامۃِ۔ (رواہ الطبراني)
علم کی تعریف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی زبانی:
قالَ أبو حَنیفۃَ: الفِقہُ معرفۃُ النفسِ، ما لَہا ومَا عَلیہَا۔
وقالَ: مَا العلمُ إلاّ للعملِ بہِ، والعَملُ بہ: ترکُ العاجلِ للآجلِ۔ (تعلیم المتعلم:۳۰)
حضرت امامِ ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ارشاد ہے: “نفس کا اپنے لیے نفع بخش اور ضرر رساں چیزوں کے جاننے کا نام فقہ ہے۔”
نیز فرمایا کہ: “علم تو عمل ہی کے لیے ہے، اور علم پر عمل: آخرت کے لئے دنیا کو ترک کرنا ہے۔”
خلوص:
کمْ من عَملٍ یُتصوَّرُ منْ أَعمالِ الدنیَا، ویَصیرُ بحُسنِ النِّیۃِ منْ اَعمالِ الآخرۃِ۔ وکمْ منْ عملٍ یُتصوّرُ بصورۃِ أَعمالِ الآخرۃِ، ثُمَّ یَصیرُ منْ أَعمالِ الدنیَا بسوئِ النیَّۃِ۔ (تعلیم المتعلم:۳۲)
بہت سے اعمال، دنیوی اعمال سمجھے جاتے ہیں ؛ لیکن وہ عامل کی حسنِ نیت سے اعمالِ آخرت میں شمار ہوتے ہیں۔ اور بہت سے اعمال ظاہراً آخرت کے اعمال تصور کئے جاتے ہیں؛ مگر بد نیتی کی وجہ سے دنیاوی اعمال میں شمار ہوتے ہیں۔
تواضع:
إنَّ التَّواضعَ مِنْ خِصالِ المُتّقيْئ وَبہِ التَّقيُّ إلَی المَعالِيْ یَرتقِيْ
وَالکِبرِیائُ، لرَبِّنَا صِفۃٌ بہِ مَخصوْصۃٌ فَتَجنَّبْہَا وَاتَّقيْ
بلا شبہ تواضع متقی اور پرہیز گار کے اوصافِ حمیدہ میں سے ہے، اِسی کے ذریعہ متقی بلندیوں پر پہنچتا ہے۔
تکبر تو ہمارے پرور دگار کی مخصوص صفت ہے، اس سے دور رہو، اور احتیاط برتو۔ (تعلیم المتعلم:۳۵)
مشورہ کی اہمیت:
قالَ عليٌّص: مَا ہَلکَ امرُؤٌ مِنْ مَشورۃٍ۔ (تعلیم المتعلم۳۸)
حضرت علی رضى الله عنهم نے فرمایا کہ: “کوئی انسان مشورہ کی وجہ سے ہلاک وبرباد نہیں ہوا۔”
ادب واحترام:
قِیلَ: مَا وصَلَ منْ وصلَ إلاّ بالحُرمۃِ، ومَا سقطَ مَنْ سَقطَ إلاَّ بترکِ الحُرمۃِ۔
جو بھی آدمی منزلِ مقصود پر پہنچا ہے، وہ احترام ہی کے نتیجے میں پہنچا ہے، اور جو بھی پیچھے رہا وہ عزت واحترام کے نہ کرنے کی وجہ سے رہا۔
وقیلَ:الحُرمۃُ خیرٌمن الطاعۃِ۔أَلا یُرَی أنَّ الإنسانَ لایَکفُرُبالمَعصیۃِ، وإنما یَکفرُ بِترکِ الحُرمۃِ۔ (تعلیم المتعلم:۴۳)
ادب واحترام، اطاعت وفرمابرداری سے بھی بہتر ہے، کیا نہیں دیکھا جاتا کہ انسان معصیت کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا؛ لیکن بے حرمتی کی وجہ سے کافر سمجھا جاتا ہے۔
علماء اور اساتذہ کی تعظیم:
قالَ مَشائخُنا: منْ اَرادَ أنْ یَکونَ اِبنہٗ عالماً یَنبغِيْ أنْ یُراعِيَ الغُربائَ من الفُقہائِ، ویُکرمَہمْ، ویُعظِّمَہمْ، ویُعطیَہمْ شیئاً؛ فإنْ لمْ یکنْ اِبنُہ عالماً یَکونُ حافدُہ عالماً۔ (تعلیم المتعلم:۴۳)
ہمارے مشائخ نے فرمایا:
“جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اُس کا بیٹا عالم بن جائے تو اس کے لئے مناسب ہے کہ غریب فقہاء کا (مالی) خَیال رکھے، اُن کی عزت اور اُن کی تعظیم کرے، اور اُن کو کچھ نہ کچھ دیتا رہے۔ پس اگر اُس کا بیٹا عالم نہ ہوا تو اُس کا پوتا عالم ہوگا۔”
ومِنْ تَوقیرِ المُعلِّمِ: أنْ لا یَمشيَ أَمامَہ، وَلایَجلسَ مَکانَہٗ، ولا یَبتدأَ الکلامَ عندَہ إلا بإذنِہ، ولایَکثُرَ الکلامَ عندَہ، ولا یَسألَ شیئاً عندَ مَلامتِہ۔ (تعلیم المتعلم)
ومن توقیرِہ: توقیرُ أَولادِہ ومنْ یَتعلّقُ بہِ۔ (تعلیم المتعلم)
استاذ کی تعظیم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ، اُن کے آگے نہ چلے، اُن کے بیٹھنے کی جگہ نہ بیٹھے، اُن کے سامنے بغیر اُن کی اجازت کے گفتگو شروع نہ کرے، اُن کی موجودگی میں زیادہ نہ بولے، اُن کی رنجیدگی کے وقت کچھ نہ پوچھے۔ استاذ کی اولاد اور ان کے متعلقین کی تعظیم بھی استاذ ہی کی تعظیم ہے.
کتاب کی عظمت:
ومنْ تعظیمِ العِلمِ تَعظیمُ الکتابِ۔ فَینبغيْ لطالبِ العلمِ أَلاّ یأخذَ الکتابَ إلاّ بِطہارۃٍ۔
قالَ شمسُ الأئمۃِ الحلوانيْ: إنَّما نِلتُ ہٰذا العِلمَ بالتَّعظیمِ، فإنيْ ما أَخذتُ الکاغِذَ إلا بطَہارۃٍ۔ وہٰذا لأنَّ العلمَ نورٌ والوضوئُ نورٌ، فیَزدادُ نورُ العلمِ بہِ۔ (تعلیم المتعلم:۴۷)
کتاب کی تعظیم بھی علم ہی کی تعظیم ہے؛ لہٰذا طالبِ علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ بغیر پاکی کے کتاب نہ لے۔
امام شمس الائمہ حلوانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “میں نے اس علم کو تعظیم ہی سے حاصل کیا؛ اِس لیے کہ مَیں نے بغیر پاکی کے کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا، اور وجہ اِس کی یہ ہے کہ، علم نور ہے اور وُضو بھی نور ہے، لہٰذا وُضوکے نور سے علم کے نور میں اضافہ ہوتا ہے۔”
ساتھیوں کی تعظیم:
ومنْ تَعظیمِ العِلمِ تَعظیمُ الشرکائِ۔
شرکائے درس کا ادب واحترام کرنا بھی علم کی تعظیم کا ایک جُزء ہے۔
علم کے خاطر خوشامد کرنا:
التَّملُّقُ مَذموْمٌ إلاَّفيْ طلبِ العِلمِ، فإنَّہٗ لابدَّ مِن التَّملُّقِ للأستاذِ والشُّرکائِ وغَیرِہمْ للاِستِفادۃِ منْہُمْ۔ (تعلیم المتعلم:۸۸)
حصولِ علم کے خاطر خوشامدی قابلِ مذمت نہیں کہ استاذ اور شرکائے درس سے استفادے کے لیے اُن کی خوشامد کرنا ضروری ہے۔
استاذ اور ساتھیوں کی خوشامد:
ویَنبغيْ أنْ یَتملَّقَ لأستاذہِ وَشُرکائہِ لیَستفیدَ مِنہمْ۔
طالب علم کے لیے استاذ اور رفقائے درس کی خوشامد کرنامناسب ہے؛ تاکہ ان سے استفادہ کر سکے۔ (تعلیم المتعلم:۴۹)
علمی معاملہ استاذ کے حوالے کرنا:
وَینبغيْ لطالبِ العلمِ ألاّ یَختارَ نوعَ العلمِ بنفسِہِ؛ بلْ یُفوِّضُ أَمرَہ إلَی الاُستاذِ، فإنَّ الأستاذَ قدْ حصلَ لہٗ التَّجاربُ فيْ ذلکَ۔ (تعلیم المتعلم:۴۹)
طالبِ علم کے لیے مناسب ہے کہ، کسی خاص علم کا از خود انتخاب نہ کرے؛ بلکہ یہ معاملہ استاذ کے حوالے کردے؛ اِس لیے کہ استاذ کو اس سلسلے میں تجرَبات حاصل ہیں ۔
اخلاقِ ذمیمہ سے احتراز:
ویَنبغيْ لطالبِ العلمِ أنْ یَحترزَ عنْ الأَخلاقِ الذَّمیمۃِِ، فإنَّہا کِلابٌ مَعنویَّۃٌ۔ (تعلیم المتعلم:۵۱)
طالبِ علم کو اخلاقِ ذمیمہ (بُرے اخلاق) سے احتراز کرنا چاہیے؛ کیوں کہ برے اخلاق معنوی کُتّے ہیں، (جہاں فرشتے نہیں آتے)۔
اسباق وتکرار کی پابندی:
لابدَّ لطالبِ العلمِ منْ المُواظبَۃِ عَلَی الدَّرسِ وَالتَّکرارِ فيْ أوَّلِ اللیلِ وَآخرِہِ، فإنَّ مَا بَینَ العِشائَینِ ووَقتُ السَحَرِ وقتٌ مُبارکٌ۔ وقیلَ: منْ أَسھرَ نفسَہ باللیْلِ فقدْ فرَّح نفسَہٗ بالنَّہارِ۔ (تعلیم المتعلم:۵۴)
طالبِ علم کے لیے ضروری ہے کہ، اولِ لیل اور آخرِ لیل میں سبق اور تکرار کی پابندی کرے؛ کیوں کہ مغرب اور عشاء کے درمیان کا وقت اور اخیری رات کا وقت بڑا مبارک وقت ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ “جس نے اپنے آپ کو راتوں میں بیدار رکھا، اس نے دن میں اپنے دل کو راحت بخشی۔”
جوانی کی حفاظت:
وَیَنبغيْ لِطالبِ العِلمِ أنْ یَغتنمَ اَیَّامَ الحَداثۃِ وَعُنفوانَِ الشبابِ۔
بقدرِ الکدِّ تُعطَی ما تَرومُ فَمنْ رامَ المُنَی لَیلاً یَقومُ وأَیامَ الحَداثۃِ فاغتَنِمْہَا أَ لاَ إنّ الحَداثَۃَ لا تَدومُ
طالبِ علم کو چاہئے کہ، ایامِ طفولیت اور چڑھتی جوانی کے دنوں کو غنیمت جانے؛ کیوں کہ بہ قول شاعر: محنت کے بہ قدر ہی مقصد حاصل ہوگا، جو شخص آرزؤں کو چاہتا ہے وہ رات کو جاگتا ہے۔ (تعلیم المتعلم:۵۵)
عزائم کی بلندی:
ولابدّ لطالبِ العِلمِ منْ الھمَّۃِ العالیۃِ فيْ ہٰذا العلمِ، فإنَّ المَرئَ یَطیرُ بھِمّتہِ، کالطیرِ یَطیرُ بجَناحَیہِ۔ (تعلیم المتعلم:۵۶)
حصولِ علم میں طالبِ علم کے لیے بلند ہمتی ضروری ہے؛ کیوں کہ انسان اپنی ہمت ہی کے ذریعے اس پرندے کی طرح پرواز کرتا ہے جو اپنے پروں سے اُڑتا ہے۔
روحانی سستی کی بنیاد:
یَحصلُ الکسَلُ من قِلۃِ التأمُّلِ فيْ مناقبِ العِلمِ وفَضائلہِ، فیَنبغيْ للمتعلِّمِ أنْ یُتعبَ نفسَہٗ عَلَی التَّحصیلِ، والجِدّ، والمُواظبۃِ بالتأملِ فيْ فَضائلِ العِلمِ۔ (تعلیم المتعلم:۵۹)
تحصیلِ علم میں سستی فضائل ومناقب میں کم غور وفکر سے پیدا ہوتی ہے؛ لہٰذا طالبِ علم کے لئے مناسب ہے کہ فضائلِ علم میں غور وفکر کرکے تحصیلِ علم، محنت اور پابندیٔ اوقات پر اپنے آپ کو آمادہ کرے.
جسمانی سستی کی بنیاد:
قدْ یَتولَّدُ الکَسَلُ منْ کثرۃِ البَلغمِ والرُّطوباتِ، وطَریقُ تقلیلِہِ تَقلیلُ الطعامِ۔
قیل: اِتفقَ سَبعونَ نبیاً -علیہمُ السلام- عَلَی أنَّ کثرۃَ النِّسیانِ منْ کثرۃِ البلغمِ، وکثرۃُ البَلغمِ منْ کثرۃِ شُربِ المائِ، وکثرۃُ شربِ المائِ من کثرۃِ الأکلِ۔ والخُبزُ الیابسُ یَقطعُ البَلغمَ، وَکذلکَ أکلُ الزَّبیبِ عَلَی الرِّیقِ، والسِّواکُ یُقلِّلُ البَلغمَ، وَیَزیدُ فيْ الحِفظِ وَالفَصاحۃِ، فإنہٗ سُنّۃ سَنیَّۃٌ۔ (تعلیم المتعلم:۶۲)
بسا اوقات کاہلی، بلغم اور رطوبت کی کثرت سے پیدا ہوتی ہے۔ اِس کو کم کرنے کا طریقہ: کم کھانا ہے۔
کہا گیا ہے کہ: “ستَّر انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ، “نسیان کی زیادتی کثرتِ بلغم سے ہوتی ہے، اور بلغم کی کثرت زیادہ پانی پی لینے سے ہوتی ہے، اور زیادہ پیاس، زیادہ کھانے کی وجہ سے لگتی ہے۔”
خشک روٹی بلغم کو ختم کرتی ہے، اسی طرح نہار منھ کشمش کھانا بھی بلغم کو ختم کرتا ہے، اور مسواک بھی بلغم کو کم کرتا ہے، حافظہ اور شستہ زبانی میں اِضافہ کرتی ہے؛ کیوں کہ مسواک ایک پسندیدہ سنت ہے۔
شرافتِ علم:
إنَّما شَرُف العلم لکوْنہِ وَسیلۃً إلَی البرِّ والتقوَی، الذيْ یَستحقُّ الکرامۃَ عندَاللّٰہِ، وَالسعادۃَ الأبَدیۃَ، وبہِ أظھرَ اللّٰہُ تعالی فضلَ آدمَں عَلَی المَلٰئکۃِ، وَأمرَہم بالسُّجودِ لہٗ۔ (تقدیم تعلیم المتعلم)
علم کی شرافت بہ ایں وجہ ہے کہ، وہ اس نیکی اور تقویٰ کے حصول کا ذریعہ ہے جو اللہ کے نزدیک شرافت اور سعادتِ ابدیہ کا مستحق ہے۔ اور یہی علم ملائکہ پر حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کا راز ثابت ہوا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے کاحکم ملائکہ کو ہوا۔
مسائلِ علم کا حفظ کرنا:
قِیلَ: حِفظُ حَرفَینِ خَیرٌ منْ سِماعِ وِقرَینِ (الحملُ الثقیلُ)، وفہْمُ حَرفَینِ خَیرٌ منْ حِفظِ وِقرَینِ۔ (تعلیم المتعلم:۶۶)۔
ویَنبغيْ أنْ یُعلِّقَ السَبَقَ بعدَ الضَّبطِ وَالاِعادۃِ، فإنہٗ نافعٌ جِدّاً۔إذا مَا حَفِظتَ شَیئاً أعِدْہٗ: ثُمَّ أکِّدہٗ غایۃَ التَّأکیدِ۔ (تعلیم المتعلم:۶۶)
کہا گیا ہے کہ: دو حرف کا یاد کرنا دو گٹھڑی کے بہ قدر سننے سے بہتر ہے، اور دو حرف کا سمجھنا دو گٹھڑی کے بہ قدر یاد کرنے سے بہتر ہے۔ سبق کو محفوظ کرلینے اور دوہرانے کے بعد لکھ لینا بہت مناسب ہے؛ کیوں کہ لکھنا بہت مفید چیز ہے۔ جب تم کسی چیز کو یاد کرلو تو اس کو دوہرا لو، اور پھر اُس کو اچھی طرح محفوظ کرلو۔
آپسی مذاکرہ کی اہمیت:
فائدۃ المُطارَحۃِ وَالمُناظرَۃِ أقوَی منْ فائدَۃِ مُجرَّدِ التَّکرَارِ؛ لأنّ فیہِ تَکراراً وَزِیادَۃً۔ وقیل: مطارحۃ ساعۃٍ خیرٌ من تکرارِ شہرٍ۔ (تعلیم المتعلم:۶۸)
قِیلَ لابنِ عَبّاسٍ: بِمَ أَدرَکتَ العِلمَ؟ قالَ: بِلسانٍ سَؤُوْلٍ وقَلبٍ عَقولٍ۔
وَقالَ أَبو یوْسفَ حینَ قِیلَ لہٗ: بِمَ أَدرَکتَ العِلمَ؟ قالَ: مَا اِستنکفْتُ من الاِستفادَۃِ، و ما بَخلتُ بالاِفادۃِ۔ (تعلیم المتعلم:۷۰)
علمی بحث ومباحثہ اور مناظرہ کا فائدہ، محض تکرار کے فائدے سے زیادہ قوی ہے؛ کیوں کہ اس میں تکرار بھی ہے اور زیادتی بھی۔ چناں چہ کہا گیا ہے کہ ایک گھڑی کا بحث ومباحثہ ایک مہینے کے تکرارِ محض سے زیادہ بہتر ہے۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے دریافت کیا گیا کہ: “آپ نے علم کیسے حاصل کیا؟”
تو فرمایا:
“بہت زیادہ سوال کرنے والی زبان اور بہت زیادہ سمجھ رکھنے والے دل سے حاصل کیا۔”
امامِ ابویوسف رحمہ اللہ سے جب پوچھا گیا کہ: “آپ نے علم کس طرح حاصل کیا؟”
تو فرمایا کہ: “میں نے نہ تو استفادہ کرنے میں شرم محسوس کی اور نہ ہی دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں بخل کیا۔”
آداب کی رعایت:
قیلَ: منْ تَھاوَنَ بالآدابِ عُوْقِبَ بِحرمانِِ السُّنّۃِ، ومنْ تَھاوَنَ بالسُّنۃِ عُوقِبَ بِحِرمانِ الفَرائضِ، ومنْ تَھاونَ بالفَرَائضِ عُوقبَ بحِرمانِ المَعرَفۃِ۔ (اللّٰہمّ احفظنا منہ) (الاعتدال في مراتب الرجال:۲۳)اسباق کی تیاری تجربہ کار مربیوں کی نظر میں
إنَّ إعدادَ الدَّرسِ منْ قِبلِ الطالبِ ہوَ أَقوَمُ سَبیلٍ لمَنْ یَرومُ الدِّراسَۃَ النَّافعَۃَ۔
مطالعہ کیوں اور کیسے؟
جو طالبِ علم مفید مطالعے کا خواہش مند ہو تو اس کے لئے آئندہ اسباق کی تیاری ہی ٹھیک راستہ ہے۔
گذشتہ اسباق پر مداومت:
قالَ البُخاريْ: لا أَعلَمُ شَیئاً أنفعُ للحِفظِ منْ نُہمۃِ الرَّجلِ، ومُداوَمۃِ النَّظر۔
امامِ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: “مَیں علم کی حفاظت کے لیے آدمی کے شوق، حرص اور مداومتِ نظر سے زیادہ نفع بخش کسی بھی چیز کو نہیں سمجھتا۔” (مطالعہ کیوں اور کیسے؟)
امام صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے حصولِ علم کا سبب:
قال أبوْحنیفۃؒ: إنَّما أدرَکتُ العِلمَ بالحَمدِ والشُّکرِ، فکلَّمَا فَہمْتُ ووَقفتُ علی فِقہٍ وَحِکمَۃٍ فقُلتُ: ’’الحَمْدُ للّٰہِ‘‘ فازْدادَ عِلماً۔ (تعلیم المتعلم:۷۱)
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ: “مَیں نے اللہ کی حمد وثنا اور اُس کا شکر ادا کرنے کے ذریعہ علم حاصل کیا ہے؛ کیوں کہ جب بھی میں کسی علم کی بات کو سمجھتا یا مجھے کسی فقہی مسئلہ یا حکمت ودانائی کی بات معلوم ہوتی، تو میں کہتا: الحمدللہ (تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں )، جس سے میرے علم میں اضافہ ہوگیا۔”
ٓاپنا پورا وقت علم کی نذر کردینا:
ویَنبغِي لطالبِ العِلمِ أنْ یَستغرِقَ جَمیعَ أوْقاتہِ، فإِذا مَلّ منْ علمٍ یَشتغِل بعِلمٍ آخرَ۔ وکانَ ابنُ عباسٍ إذا ملَّ منْ الکَلامِ، یَقوْلُ: ہاتوْا دِیوانَ الشُّعَرائِ۔(تعلیم المتعلم:۸۱)
طالبِ علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمہ وقت مشغول رہے، جب کسی ایک علم سے اُکتا جائے تو دوسرے علم میں مشغول ہوجائے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ جب علمِ کلام سے اکتا جاتے تو فرماتے کہ: “شعراء کا دیوان لاؤ۔”
طلبا پر شفقت اور اُن کی خیر خواہی:
وَ یَنبغِیْ أنْ یَکونَ صاحبُ العلمِ مُشفِقاً ناصِحاً، غیرَحاسدٍ، فالحسدُ یَضرُّہٗ ولایَنفعُہٗ۔ قالَ المَشائخُ: إنَّ ابنَ المُعلِّمَ یَکونُ عالماً؛لأنَّ المُعلِّمَ یُریدُ أنْ یکونَ تَلامذتُہٗ فيْ القُرآنِ علمائَ، فبِبَرَکۃِ اعتقادِہِ وَشَفقتِہِ یَکونُ ابنُہ عَالماً۔ (تعلیم المتعلم:۸۱)
صاحبِ علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ شفیق اور خیر خواہ ہو، حاسد نہ ہو؛ اِس لئے کہ حسد تو اس کو نقصان ہی پہنچائے گا، نہ کہ نفع۔ معلم کا بیٹا عالم بنتا ہے؛ اس لئے کہ معلم کی یہ خواہش ہوتی ہےکہ، اُس کے تلامذہ زمانے کے علما بن جائیں ، پس استاذ کے اعتقاد اور اُس کی شفقت کی برکت سے اس کا فرزند عالم بن جاتا ہے۔
علم کو ضیاع سے بچانا:
ماحُفِظَ فرَّ، ومَاکُتبَ قَرَّ۔ (تعلیم:۸۵)
العُمرُ قَصیرٌ، والعِلمُ کَثیرٌ، فیَنبغِيْ أَلاَّیُضیِّعَ الأوْقاتَ والساعاتِ، ویَغتنِمَ اللَّیاليَ والخَلَواتِ۔ (تعلیم:۸۷)
“علم کا جو حصہ یاد کیا گیا وہ نکل گیا، اور جو لکھ لیا گیا وہ باقی رہا۔”
انسان کی عمر بہت تھوڑی ہے اور علم بہت زیادہ ہے؛ اِس لئے اوقات اور لمحات کو ضائع کرنا ہرگز مناسب نہیں ہے، اور اِس کے لیے راتوں اور تنہائیوں کو غنیمت جانے۔
محنت ومشقت برداشت کرنا:
لابدَّ لطالبِ العِلمِ منْ تَحمُّلِ المَشقَّۃِ وَالمَذَلَّۃِ فيْ طلبَ العلمِ، قیلَ: العلمُ عِزٌّ لاذُلَّ فیہِ، لایُدرکُ إلاَّ بِذُلٍّ لاعِزَّ فیہِ۔ (تعلیم:۸۸)
طالبِ علم کے لیے تحصیلِ علم میں مشقَّت اور ذلت کا برداشت کرنا بھی ضروری ہے۔ کہا گیا ہے کہ: “علم ایک ایسی عزت ہے جس میں ذلت کی آمیزش نہیں ، اور علم ایسی ذلت ہی سے حاصل ہوتا ہے جس میں کوئی عزت نہیں۔”
کثرت طعام و منام اور اختلاط مع الانام سے احتراز:
وَمنَ الوَرعِ:انْ یَتحرَّزَ عنْ الشِّبعِ، وکثرۃِ النَّومِ،وَکثرۃِ الکلامِ فیْما لایَنفعُ۔ (تعلیم:۸۸)
پرہیز گاری یہ ہے کہ، شکم سیری، زیادہ سونے اور بے فائدہ چیزوں میں بسیار گوئی سے اجتناب کرے۔
غیبت اور لایعنی سے حفاظت:
وصّٰی فقیہٌ منْ زُہّادِ الفُقہائِ طالبَ العلمِ: عَلیکَ أنْ تَتحرَّزَعنْ الغِیبۃِ وَعنْ مُجالسَۃِ المِکثارِ۔ وقالَ: إِنَّ منْ یُکثِرُ الکلامَ یَسرقُ عُمرَکَ وَیُضیِّعُ أوقاتَکَ۔ (تعلیم:۸۹)
ایک زاہد فقیہ نے ایک طالبِ علم کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ: “تم غیبت کرنے والے اور بسیار گو کے پاس اُٹھنے بیٹھنے سے بچو.” اور فرمایا کہ: “زیادہ بولنے والا شخص تمھاری عمر کیچوری کر رہا ہے، اور تمھارے وقت کو ضائع کر رہا ہے.”
حافظے کو قوت پہنچانے والے اسباب یہ ہیں؛
أَقوَی أَسبابِ الحِفظِ: الجِدُّ، وَالمُواظبَۃُ، وتَقلیلُ الغَدائِ، وصَلاۃُ اللَّیلِ، وقرائَۃُ القُرآنِ منْ أسبابِ الحِفظِ۔ (تعلیم المتعلم:۹۱)
“محنت، پابندی، کم کھانا اور تہجد کی نماز پڑھنا۔ نیز تلاوتِ قرآنِ پاک بھی اسبابِ حفظ میں سے ہے۔”
اسبابِ نسیان:
المَعاصِي، وَکثرۃُ الذُّنوبِ، وَالھُمومِ والاحزانِ فيْ أُمورِ الدُّنیَا، وَکثرۃُ الأَشغالِ والعَلائقِ۔ (تعلیم:۹۳)
نسیان پیدا کرنے والی چیزیں: معاصی، کثرتِ گناہ، دنیاوی کاموں کا رنج وغم اور زیادہ تعلقات۔
حافظہ کو تیز کرنا:
امیرالمو منین فی الحد یث حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے پوچھا گیا کہ: “قوتِ حافظہ تیز کرنے کے لئے کیا تدبیر اپنائی جائے؟”
آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا: ’’کتابوں کا مطالعہ مسلسل جاری رکھا جائے، اِس سے حافظہ مضبوط ہوگا۔” (مطالعہ،۸۹)
مطالعہ سے قبل پڑھنے کی دعا:
بِسْمِ اللّٰہِ وَسُبْحَانَ اللہِ وَالحَمدُلِلّٰہِ وَلاإلہَ إلاَّ اللہُ وَاللّٰہُ أَکبرُ، وَلاحَولَ وَلاقُوَّۃَ إلاَّ باللہِ العَظیمِ، عَدَدَکلِّ حَرفٍ کُتبَ وَیُکتَبُ، أَبدَ الآبدینَ وَدَہرَ الدَّاہرینَ۔ (تعلیم:۹۲)
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، اُس کی ذات پاک ہے، تمام تعریفیں اُسی کے لئے ہیں، اللہ سب سے بڑا ہے، اُس کی مدد کے بغیر نہ نیکی کی قوت ہے نہ برائی سے بچنے کی طاقت۔ وہ بَڑائی والا اور عظمت والا ہے، (مَیں یہ کلمات کہتا ہوں) ہر حرف کے بہ قدر جو لکھے گئے اور لکھے جائیں گے، ہمیشہ ہمیشہ اور عرصۂ دراز تک۔
مطالعہ محفوظ کرنا:
کسی بھی کتاب کو سہولت کے لحاظ سے کئی حصوں پر تقسیم کیا جائے، پھر مطالعہ کو باربار کیا جائے، اور اس کا خلاصہ بھی لکھا جائے۔ آخر میں کتاب بند کرکے پڑھے ہوئے حصے کا ذہن میں اعادہ کیا جائے۔ انشآء اللہ یہ اعادہ مفید ثابت ہوگا۔
حفظِ متون:
بہ قول حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی: ’’اکابر کے زمانے میں ہر علم وفن میں کوئی نہ کوئی متن طلبہ کو ضرور یاد کروایا جاتا تھا؛ اِسی لیے عُلما ذی استعداد پیدا ہوتے تھے، عالَم عرب میں اب تک متون اور مختصرات کے یاد کروانے کا رواج باقی ہے۔ نہ صِرف صَرف و نحو بلکہ تاریخ وسِیَر اورلسا نیات میں بھی مختصرات کی تحفیظ پر بڑی توجُّہ دی جاتی ہے۔” (مقدمۂ مصطلحات النحو)
ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ:
کسی بھی کتاب کے مطالعے سے جب فارغ ہوجائے تو اپنے پڑھے ہوئے مضمون کی تلخیص کو اپنے اوپر لازم سمجھے؛ اس لیے کہ تلخیص کا کام ہی مل کے کو پروان چڑھا نے کا پہلا مرحلہ اور لیاقت وصلاحیت کو جِلا بخشنے کا پہلا اسٹیج ہے، اِس مرحلے کو عبور کیے بغیر نا م وَر اُدَبا اور ممتاز اِنشا پردازوں کے مقام تک پہنچنا، اور اُن کی صف میں کھڑا ہونا دشوار ہی نہیں بلکہ خواب وخیال ہے۔ (مطالعہ کیوں اور کیسے:۸۵)
طلبا کا اساتذہ سے ربط، حضرت مولانا علی میاں صاحب ندوی کی زبانی:
افسوس! کہ آج تمام مدارس میں ایک خلا ہے اور طلبہ واساتذہ میں ربط نہیں ہے؛ بلکہ اُن کے درمیان ایک خلیج حائل ہے۔ خوب سمجھ لیجیے کہ، اِن ہی اساتذہ کی محفلوں میں شرکت کرکے آپ صحیح ذوق وشوق پیدا کرسکتے ہیں ؛ لیکن شرط یہ کہ آپ اعتماد اور ایک حد تک اعتماد و اتحاد کے ساتھ بیٹھیں۔
فوائد ثمینہ:
علمی دوستو! مدارس کا مال اور ان کا ایک ایک لقمہ؛ بلکہ پانی کا ایک گھونٹ بھی وقف (اللہ کا)ہے،جس میں ہزاروں محسنین کا حصہ لگا ہوا ہے، جس کا حساب مالک أرض وسماء، ربِّ ذوالجلال والاکرام کے سامنے دینا ہوگا۔ (اللہمّ احفظنا منہ)، اِس کا ہر وقت استحضار رکھتے ہوئے ہر لقمے کے ادائیگی حق کی حتی الامکان فکر کرنا۔
(۱) ہر کتاب سے استفادہ کرنے سے پہلے مصنفِ کتاب، استاذ محترم اور محسن انسانیت اسے لیکر اپنے تک کے تمام وسائط پر تین مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھ کر ایصال ثواب کرتے رہنا، کتاب کھولنے سے پہلے یہ دعا پڑھنا:
بسم اللّٰہ، والحمد للّٰہ، ولا إلٰہَ إلاَّ اللّٰہ واللّٰہ أکبر، ولا حول ولاقوّۃ إلّا باللّٰہ العليِّ العظیم عددَ کلِّ حرفٍ کُتبَ ویُکتبُ أبدَ الآبدینَ ودھرَ الداہرینَ۔
(۲) ہر فن و کتاب کو شروع کرنے سے پہلے اُس کا آسان ہونا اور بے حد مفید ہونا ذہن میں بٹھالیا جائے، جس سے پہاڑ بھی رائے کا دانہ بن جاتاہے؛ ورنہ مشکل سمجھنے کی صورت میں رائے کا دانہ بھی پہاڑ سے کم نہیں ہے۔
(۳) کسی بھی فن وکتاب کے بابت یہ تصور کہ یہ تو مجھے کہاں سے سمجھ میں آئے گا؟ اِس بات کو حاشیۂ خَیال سے قطعاً خارج کردیں ، کیوں کہ نہ سمجھ میں آنے والی چیز کذبِ محض ہی ہے۔
(۴) اکابرین و ماہرینِ فن کے متعیَّن کردہ نصابِ تعلیم کے مطابق ہر درجے میں شروع ہونے والے فنون کے متن اور نقشے کا بار بار استحضار کرتے رہنا چاہیے؛ تاکہ اُس فن کا مکمل حق ادا ہوسکے، اور دیگر کتب و فنون کو سمجھنے میں سہولت ہوسکے؛ کیوں کہ فنون آپس میں بے انتہا مربوط ہیں ۔
(۵) عربی سوم کے بعد روزانہ ہر کتاب کے اسباق کو ایک مرتبہ اپنی زبان سے ادا کریں ، اپنے علمی ساتھیوں سے علمی مذاکرہ کرنا تکرار سے بھی زیادہ مفید ہے۔ قیل مُطارحۃُ ساعہٍ خیرٌ من تکرار شھرٍ۔ اور فنی کتابوں میں کم ازکم کل گذشتہ کے پڑھے ہوئے اسباق کو تین مرتبہ، پرسوں کے اسباق کو دو مرتبہ اور ترسوں کے اسباق کو ایک مرتبہ نظر سے گذارنا امر لابُدِّی ہے۔
(۶) دورانِ مطالعہ معلوم ہونے والے نکات کو اُس فن کی ذاتی دل چسپ کتاب میں ضبط کر لینا؛ تاکہ رجوع کرنے میں آسانی ہو۔ علمی مسئلہ کے حل ہونے پر اللہ ربُّ العزت کی تعریف کریں ؛ کیوں کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ نے اپنی زیادتیٔ علم کی وجہ بتلائی ہے:
إنّما أدرکتُ العلمَ بالحمدِ والشکرِ۔
(۷) فرائض الٰہیہ کو امر الٰہی سمجھ کر عظمت و شوق سے ادا کرنا، سنتِ نبویہ ا کو مقرِّب الیٰ اللہ و رسولہ کے استحضار کے ساتھ ادا کرنا، صبح و شام کی تسبیحات اوراد و وظائف کو پورا کرنا، روزانہ کسی ایک نفل نماز کی پابندی کرنا، چلتے پھرتے درود شریف و استغفار کی کثرت کرنا روحانیت بنانے میں بے حد مفید ثابت ہوگا۔
(۸) حضرت تھانویؒ کی طلباء اور اہلِ علم کو نصیحت: “تم اپنے کو مٹا دو، گمنام کردو، تو پھر تمہاری محبوبیت کی یہ شان ہوگی کہ تم چپ ہوگے، اور تمام مخلوق میں تمہارا آوازہ (شہرہ) ہوگا۔” (العلم والعلماء)
اپنے بڑوں کی رہبری میں رہو۔ بہ قول حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ: مطالعہ وسیع کیجئے، اور اِس کے لیے اپنے اساتذہ سے، خاص طور پر مربی الاصلاح سے اور اُن اساتذہ سے جن سے آپ کا ربط ہے، مشورہ لیجئے۔”
(۹) خدا را! اپنی ذات اور والدین پر رحم کھاتے ہوئے، خاندان اور علاقے والوں کی حالت پر ترس کھاتے ہوئے، اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو نظام الاوقات سے مربوط کرتے ہوئے مکمل وصول کرنے کی فکر کریں، إن شاء اللہ کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
(۱۰) اپنے اندر کمال پیدا کرنے کا نسخۂ کیمیایہ ہے کہ، آدمی دوسرے کی خوبیاں خوب دیکھے، اور بدی کو بُرا ضرور جانے؛ لیکن یہ خیال رہے کہ بدی والے کی حَقارت دل میں بالکل نہ آنے پائے؛ کیوں کہ ساری مخلوقات میں سراپا خیر انبیاء وملائکہ ہیں، سراپا شر نفس وشیطان ہیں ، باقی تمام مخلوقات میں خیروشر دونوں کا مادہ موجود ہے؛ لہٰذا اولاً اپنی کوتاہیوں کی فکر کرنی چاہئے۔
فائدہ: اپنی ایک مخصوص کاپی بنائیں جس میں وعظ ونصیحت کی حدیثیں، اشعار، اقوالِ سلف اور مفید باتیں جمع کریں، جن کو حالات اور پریشانیوں میں پڑھنے سے راہِ اعتدال ملتی ہے، اور ایک کاپی میں علمی نکات کا ذخیرہ بحوالہ جمع کریں جو بہ وقتِ ضرورت کام آسکے۔
ختم شد
اللہم تقبلہا بقبول حسن وأنبتہا نباتا حسنا
(ماخوذ:انوارالمطالع فی ھدایات المطالع از حضرت مولنا الیاس صاحب دامت برکاتہم استاذ الحدیث مدرسہ دعوةالایمان مانیکپور ٹکولی نوساری گجرات)

عطاءالرحمن بن محمد حنیف بڑودوی7203812188
(ماخوذ: انوارالمطالع فی ھدایات المطالع از حضرت مولنا الیاس صاحب دامت برکاتہم)