طلاق ثلاثہ بل تضاد پر مبنی

اندازہ ہے کہ ۲۸؍ دسمبر ۲۰۱۸ء کو مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرشاد پارلیمنٹ میں وہ بل پیش کردینگے، جس کا تعلق تین طلاق سے ہے ایوان زیریں کے ٹیبل پر رکھے جانیوالے اس بل کا نام دی مسلم ومن (پروٹیکشن آف رائٹس آن مریج) بل ۲۰۱۷ ء ہے اس کا تعلق ایک ساتھ تین طلاق دینے سے ہے — سپریم کورٹ نے ۲۲، اگست ۷۱۰۲ء کو فیصلہ سنادیا تھا کہ اگر شوہر نے تین طلاق ایک ساتھ دیدی تو وہ بے اثر ہوگی ازدواجی زندگی پر اس طلاق کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ قانونی مثالوں کی روشنی میں اگر اس تین طلاق کو سمجھا جاسکتا ہے تو یہ کہ اس طرح کی بات ایک ”نامناسب“ لفظ تھا، جو زبان سے نکل گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں ایسی طلاق کی حیثیت اس سے کچھ زیادہ نہیں ہے۔
شرعی لحاظ سے ”طلاق“ کا لفظ میاں بیوی کے رشتہ میں دراڑ ڈالنے والا اور تین دفعہ استعمال ہو تو اس رشتہ کو یکسر ختم کرنیوالا ہے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ نے مسلم سماج کےلئے بڑی مشکل پیدا کردی، کورٹ کے فیصلہ کے لحاظ سے ایک اور دو طلاق تو نتیجہ خیز ہے مگر تین طلاق بے اثر ہے جبکہ شرعی لحاظ سے تین طلاق کے بعد شوہر اور بیوی کا رشتہ فوراً ختم ہوجاتا ہے اور دونوں کا ساتھ زندگی گذارنا حرام ہے، مسلم سماج اس مرحلہ میں بڑی مشکل میں پڑجائیگا، مسلمانوں کےلئے حلال اور حرام کی سرحدیں واضح ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی جگہ، مگر تین طلاق کے بعد سابق میاں بیوی ساتھ رہے تو شریعت کے لحاظ سے وہ بالکل غلط اور حرام ہے، کورٹ نے یہ بالکل نہیں سونچا کہ ایسا فیصلہ مسلمانوں کو کتنی الجھن اور کیسے تضاد میں ڈالدے گا۔
اب مرکزی وزیر قانون نے نئے بل کے ذریعہ یہ اضافہ کیا کہ سپریم کورٹ کے کالعدم اور بے اثر طلاق کو کریمنل اقدام مان لیا، انہیں سونچنا چاہئے تھا کہ بے اثر لفظ کی تکرار کوئی کریمنل اقدام کیسے ہوجائیگا۔ اس بل کو لانیکی ضرورت کیوں پڑی؟ اسکی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا، کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجود لوگ تین طلاق دینے سے باز نہیں آرہے تھے اور ایک ساتھ تین طلاق کے بہتر (۲۷) کیس ریکارڈ کئے گئے اس لئے سخت قانون کی ضرورت پڑی، پہلا سوال تو یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ کے فیصلہ کے پیش نظر طلاق دینے کا کوئی اثر ہوا ہی نہیں، تو پھر تین طلاق کو سخت قانون سے روکنے کا کیا مطلب ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ تازہ بل میں تین طلاق دینے والے تین سال کی سزا کے مستحق قرار دیئے گئے ہیں، اور بیوی بچوں کی کفالت بھی طلاق دینے والے کے ذمہ ہوگی، اب اگر تین طلاق کے بعد عورت نے مجسٹریٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، اور طلاق دینے والا تین سال کےلئے جیل چلاگیا، تو اس عورت اور بچوں کا کھانا خرچہ اور تعلیمی کفالت مرد جیل میں رہ کر کس آمدنی سے کرسکے گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب مرد تین سال جیل میں زندگی گذارکر باہر آئیگا، تو وہ عورت اس وقت بھی اس کی بیوی رہیگی، (جیساکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے مگر موجودہ بل میں اس معاملہ پر خاموشی ہے) ایسی صورتحال میں جس عورت نے مرد کو تین سال جیل کی ہوا کھلائی اسے بیوی کی حیثیت سے ساتھ رکھنا کیا عملاً ممکن ہوگا۔
بل کا یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ یہ کریمنل ایکٹ بننے والا ہے، جبکہ نکاح معاہدہ اور سول معاملہ ہے، سول معاملہ کو کریمنل بنادینا خود قانون دانوں کی واضح رائے کے خلاف ہے، ۶۰۰۲ءمیں سپریم کورٹ کے ججوں مسٹر ایچ کے سیما اور مسٹر آر وی رویندرن نے فیصلہ دیا تھا کہ سول معاملات کو کریمنل بنادینا صحیح نہیں ہے، ایسی کسی بھی کوشش کو بہتر نہیں کہا جاسکتا یہ طریقہ کار انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے، جسکی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔
جب سپریم کورٹ نے ایک ساتھ تین طلاق کو بے اثر بنادیا ہے تو بیوی کے لئے پھر اس میں نہ علیحدگی کا معاملہ ہے اور نہ کوئی بُری بات، اسے تشدد آمیز جملہ بھی نہیں کہا جاسکتا اور نہ اسے گالی کے درجہ میں رکھا جاسکتا ہے، اگر مرکزی حکومت اسے گالی سمجھتی ہے تو اس کے لئے بھی قانون موجود ہے، اگر کسی حساس خاتون کو اس کی وجہ سے ذہنی ایذا رسانی ہوتی ہے تو شوہر کی طرف سے ذہنی یا جسمانی ایذا رسانی کے لئے ڈومیسٹک وائلنس ایکٹ ۵۰۰۲ موجود ہے، عورت مجسٹریٹ تک معاملہ پہنچاسکتی ہے، وہاں سے ایذارسانی کا علاج نکلے گا، یہ پورا معاملہ بھی سول پروسیجیور کا ہے کریمنل کا نہیں ہے، پھر یہ کہاں تک قانوناً درست ہوگا، کہ جس چیز کو عدالت عالیہ بے اثر قرار دے چکی ہے، اس پر ایکبارگی بلا سبب کریمنل قانون بنادیا جائے جبکہ قانون سازی کی تاریخ یہ ہے کہ ذہنی یا جسمانی تشدد کو پہلے سول معاملہ کے درجہ میں رکھا جاتا ہے۔
اس معاملہ کو قانون شہادت کی روشنی میں بھی دیکھا جانا چاہئے — عام طور پر تین طلاق بیوی کو کسی ناراضگی یا جھگڑے کے موقع پر دیجاتی ہے، جہاں اکثر و بیشتر مواقع پر میاں بیوی ہی ہوتے ہیں، خاندان یا محلہ کے لوگ کبھی کبھار ہی جمع ہوجاتے ہیں۔ اب اگر بیوی مجسٹریٹ کے یہاں تین طلاق کا دعویٰ کرے، تو قانون شہادت کی رو سے گواہ کہاں ملیں گے؟ کون خاندان والا اپنے عزیز کو تین سال کی جیل بھیجنے کی گواہی دیگا؟ اور اگر طلاق کے وقت صرف میاں بیوی تھے تو گواہی کا معاملہ اور بھی مشکل ہے۔
جن لوگوں کے سامنے گھریلو جھگڑوں یا میاں بیوی کی تلخیوں کے واقعات آتے رہتے ہیں، وہ شہادت دے سکتے ہیں کہ اچھی خاصی تعداد میں ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں جو شوہر کی بدمزاجی، سخت گیری یا مزاج نہ ملنے کی وجہ سے شوہر سے پہلی فرصت میں گلوخلاصی چاہتی ہیں، اور وہ خود مطالبہ کرتی ہیں کہ انہیں فوراً تین طلاق دیکر چھٹکارہ دیدیا جائے۔ اور سمجھانے سے شوہر بھی شرطوں کے ساتھ یا بلا شر ط تین طلاق دینے کو تیار ہوجاتا ہے — مگر اس بل کے ایکٹ بننے کے بعد کوئی مرد مذکورہ شکل میں بیوی کو علیٰحدہ کرنیکی ہمت کرے گا؟ یہ سمجھنا کہ تین طلاق مرد ہمیشہ یک طرفہ دیتا ہے، سماجی حالات کو نہ جاننے کی وجہ سے ہے، جن لوگوں کو دارالافتاءاور دارالقضاءکے کاموں کا تجربہ ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ طلاق عورت کے اصرار پر بھی مردوں کو دینی پڑتی ہے۔
سیاسی مقاصد کی تکمیل کےلئے عجلت میں لایا گیا یہ بل ان لوگوں نے تیار کیا ہے جنھیں مسلم سماج کے انداز و مزاج، مسائل و مشکلات، سہولتوں اور دشواریوں کا اندازہ نہیں ہے، انہیں ایک کریمنل لا بنانا تھا، یہی سرکار والا تبار کا آدیش تھا، انھوں نے سخت قسم کا قانون ڈرافٹ کردیا، انھوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ دستور کے آرٹیکل ۴۱-۵۱ کی خلاف ورزی ہوگی، جب تین طلاق بے اثر ہے، تو پھر جیل کی سزا کیوں؟ انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ جب دوسرے مذہب کے ماننے والوں کےلئے بیوی کو چھوڑدینے کی سزا ایک سال ہے، تو مسلمانوں کو نہ چھوڑنے پر تین سال کی سزا کیوں کر دیجاسکتی ہے؟ کیا یہ قانون سازی میں مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں ہے اور کیا یہ آئین کے مطابق ہے؟
قانون سازوں کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اس ملک میں مردم شماری رپورٹ کے مطابق بتیس لاکھ عورتیں وہ ہیں جنہیں سات پھیرے کے کچھ دنوں بعد شوہروں نے چھوڑ دیا ہے اور وہ کسمپرسی کی زندگی گذاررہی ہیں، ان کی زندگی گذار نے کا کوئی نظم ہونا چاہئے، ان کے شوہروں نے انہیں چھوڑ رکھا ہے وہ بھی غلط کار ہیں، ان کے لئے بھی سزا ہونی چاہئے۔
یہ بل اپنے اندر کئی تضاد رکھتا ہے، اور سپریم کورٹ کی منشا کے بھی خلاف ہے، اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے اور اسے اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالہ کرنا چاہئے، یا پھر راجیہ سبھا اسے سلیکٹ کمیٹی کے حوالہ کرے جہاں تمام گوشوں پر غور کیا جاسکے، دانشوروں، علماء کرام سے بھی مشورہ لیکر اسکی خامیوں کو دور کیا جائے —- ورنہ موجودہ صورتحال میں کئی اہم سوالات ہیں جو سپریم کورٹ کے فیصلہ اور پیش کردہ بل کے نتیجہ میں بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں، جن پر پارلیمنٹ کے اندر بحث ہونی چاہئے، اور علماء اور دانشوروں کو بھی اپنی رائے دینی چاہئے۔
مولانا محمد ولی رحمانی
…….
ہمارا جن لوگوں سے سامنا ہے،
وہ مسلمانوں اور
اسلام کی شناخت کے خلاف ہیں،

آج صبح 9 بجے سے ہی مختلف چینلز پر بحث میں شریک ہوں، سنگھ، بھاجپا والے بغیر سوالات کے جوابات دیے، باتیں کر رہے ہیں، وہ مسئلے کو حل نہیں کرنا چاہتے ہیں بلکہ شرعی احکام کو بے اثر قرار دے کر اسلامی شریعت اور مسلمانوں کی شناخت کو ختم کرنا چاہتے ہیں، وہ بل کو اپنی پسند کے مطابق ہی پاس کروائیں گے، اتنا لکھ کر جب ڈیبیٹ کے لئے چینل اسٹؤڈیو میں گیا تو جس خدشہ اور اندازہ پہلے سے تھا وہی ہوا کہ اقتداری پارٹی نے تمام تر اصلاحات کو مسترد کرتے ہوئے بل کو معلوم منظوری دے دی، سنگھ، ہندوتو وادیوں کا پہلے سے ہی پروگرام ہے کہ مسلمانوں کو حرام میں مبتلا کیا جائے اور حلال کو عمل میں نہ رہنے دیا جائے، مزید یہ کہ ان کی کوئی مذہبی وتہزیبی شناخت نہ ہو، ہندؤں میں حلال و حرام کا سرے سے کوئی تصور نہیں ہے، صرف قانونی غیر قانونی کا مسئلہ ہے، مسلم نام والے، بل کی حمایت کرنے والے مرد اور عورت کا بھی یہی معاملہ ہے، ہمارا برسوں سے یہ نظریہ ہے کہ ہندوتو وادی طاقتوں کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جائے، اگر ہم صحیح مزاحمت کرتے تو یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی، جمعیتہ علماء ہند میں رہتے ہوئے بھی ہمارا یہی طرز فکر و عمل تھا، لیکن وہاں بھی کچھ لوگوں نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی، اگر اب بھی ہم نےمزاحمت کے صحیح طریقے. نہیں اختیار. نہیں کریں گے تو آنے والے دنوں میں اور زیادہ بد ترین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا، 28/12/2017
https://www.facebook.com/abdulhameed.noumani/posts/1581855068573626
….
بندروں نے مچھلیوں پر رحم کھا کے پانی سے بچانے والا بل پاس کردیا۔ اب پانی سے نکال کر انھیں دھوپ دکھائینگے تاکہ سرد موسم میں انھیں سردی نہ لگ جائے اور کوئی مچھلی پانی میں ڈوب کر مرنہ جائے!
….
زکوة نہ دینے والے کو قیامت کے دن “گنجا سانپ” (شجاع اقرع) کا طوق بن کے ڈسنا پڑھا اور پڑھایا تھا۔
جبکہ آج پارلیمنٹ میں اس “گنجا سانپ” (ایم جے اخبث) کو پورے مسلمانوں کو ڈستا دیکھ کے یقین ہوگیا کہ پورے گلستاں کی فضاء کو زہر آلود کرڈالنے کے لئے یہ “بے دال کا بودم” گنجا اکیلا ہی کافی ہے۔
ابو اسامہ