متعدد مذاہب کے لوگ آپس میں اختلافات کے باوجود کبھی نہیں لڑتے….ہندو مذہب میں 73 نہیں بلکہ لاکھوں فرقے موجود ہیں مگر مذہب کی بنیاد پر وہ نہیں لڑتے. سکھوں میں اکالی اور نركاری هیں لیکن ایک دوسرے کے اختلافات کے باوجود کبھی نہیں لڑتے. دگمبر جین اور شویتامبر جین دونوں فرقوں میں بہت زبردست اختلاف ہے کہ دگمبر مونی ننگی رہتے ہیں اور شویتامبر سر سے پیر تک سفید لباس پہنتے ہیں، مگر کیا مجال ہے کہ آپ پروچنوں کے دوران ایک دوسرے پر تنقید کریں یا کبھی گالیوں سے نوازیں.عیسائیوں میں رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے درمیان ابتدا میں تلخی رہی مگر جلد ہی دونوں کو عقل آگئی اور انہوں نے لڑنا بند کردیا.
پوری دنیا میں صرف مسلمان ہی ایک ایسی قوم ہے جس نے اپنے دین کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے تنازع کھڑے کئے ہیں اور بے شمار فرقے بناڈالے. ہر فرقہ اپنے آپ میں ایک دین بن گیا لیکن امت میں دعوت کے فقدان کے سبب صرف خود کو مسلمان اور دوسرے فرقوں کو کافر کہنا اور سمجھنا شروع کردیا.
مسلمان سارے کافرہیں!
تقسیم سے پہلے پنجاب کے دل لاہور سے’پرتاب’ نام کا ایک اخبار نکلا کرتا تھا جو کہ پرتاب نام کے ایک ہندو کا تھا وہی اس کا مالک بھی تھا اور چیف ایڈیٹر بھی
ایک دن پرتاب اخبار میں سُرخی لگی! …مسلمان سارے کافرہیں!… لاہور میں تہلکہ مچ گیا، پرتاب کے دفتر کے باہر لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ جو مرنے مارنے پر تیار تھا، نقصِ امن کے خطرے کے پیش نظر انگریز کمشنر نے پولیس طلب کر لی! مجمعے کو یقین دلایا گیا کہ انصاف ہوگا اور مجرم کو قرار واقعی سزا دی جائے گی! تمام مکاتب فکر کی مشترکہ کمیٹی کے پچاس آدمیوں کی مدعیت میں پرچا کٹوا دیا گیا! چالان پیش کیا گیا اور مجسٹریٹ نے جو کہ انگریزہی تھا، پرتاب سے پوچھا،
“یہ اخبار آپ کا ہے؟”
پرتاب: “می لارڈ، میراہے!”
مجسٹریٹ: “اس میں جو یہ خبر چھپی ہے کہ مسلمان سارے کافر ہیں آپ کے علم اور اجازت سے چھپی ہے؟”
پرتاب: “می لارڈ !میں ہی اس اخبار کا مالک اور چیف ایڈیٹر ہوں۔ میرے علم و اجازت کے بغیر کوئی خبر کیسے چھپ سکتی ہے؟
مجسٹریٹ: “آپ اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہیں؟ ”
پرتاب: “می لارڈ ! جب یہ جرم ہے ہی نہیں تو میں اس کا اعتراف کیسے کرسکتا ہوں!
مجسٹریٹ: “آپ کے خلاف، پچاس مسلمانوں نے درخواست دی ہے، کہ آپ نے اُن کی توہین کی ہے اور اُنہیں اپنے اخبار میں کافر لکھا ہے.”
پرتاب: “می لارڈ! مجھے تو خود مسلمانوں نے ہی بتایا ہے جو میں نے چھاپ دیا ہے!”
مجسٹریٹ: “اُن سب کے نام بتائیں.”
پرتاب: “می لارڈ، سورج کی پہلی کرن نکلنے سے پہلے، اپنی رسومات کے بعد برگد کے پاس قبرستان کے نزدیک بنی ہوئی مسجد سے اعلان ہوتا ہے، کہ سامنے میدان کے نزدیک والی مسجد میں جانے والے کافر ہیں.”
مجسٹریٹ: “ہوں.”
پرتاب: “می لارڈ، میدا ن والی مسجد سے ظہر کے بعد اعلان ہوتا ہے، برگد کے نزدیک جو مسجد ہے وہ کافروں نے بنائی ہے، اُس میں جانے والا ہر فرد کافر ہے۔ بلکہ بازاروالی مسجد والے بھی کافر ہیں اور ماتم کرنے والے بھی کافروں میں شمار ہوتے ہیں.”
مجسٹریٹ: “ہوں.”
پرتاب: “می لارڈ، مغرب کے بعد بازار والی مسجد کے اردگرد رہنے والے لوگ جس میں ہندو بھی ہیں کرسٹان بھی بُدھ بھی ہیں اور سکھ بھی سب کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ اِس مسجد میں نماز پڑھنے والوں کے علاوہ سب کافر ہیں اور جہنمی ہیں۔ میں چونکہ بازار والی مسجد کے پاس رہتا ہوں اور پانچوں وقت جب لاوڈ سپیکر کھلتا ہے، دلیلوں کے ساتھ یہ سننے کے بعد قائل ہو گیا کہ مسلمان واقعی کافر ہیں اور مجھے یقین ہے کہ عدالت بھی یقین کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔
مجسٹریٹ: “عدالت بیان نہیں، ثبوت مانگتی ہے۔ کیا آپ اِس کا ثبوت پیش کرسکتے ہیں؟”
پرتاب: “می لارڈ! بس اگلی تاریخ پر قبرستان والی مسجد، میدان والی مسجد، بازار والی مسجد کے مولوی صاحبان کو بلالیا جائےاور اُن سے پوچھا جائے کہ وہ دوسری مسجد میں نماز پڑھنے والوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ اور جن 50 آدمیوں کی مدعیت میں پرچا کاٹا گیا ھے انہیں بھی اگلی پیشی پہ بلالیا جائے تو معاملہ ایک ہی تاریخ میں حل ہوجائے گا!
مجسٹریٹ نے حکم دیا، “اگلی پیشی پر سب کو پیش کیا جائے”۔
اگلی پیشی شروع ہوئی، عدالت کے کمرے میں، 50 مدعیان اور مسجدوں کے مولوی صاحبان حاضر تھے۔ مجسٹریٹ صاحب بہادر عدالت میں داخل ہوئے، سب نے تعظیم دی، مجسٹریٹ صاحب بہادر اپنی نشت پر بیٹھے-
مقدمے کی تفصیل سب کو معلوم تھی لہذا کمرہءِ عدالت کے باہر ہجوم تھا- جو احاطہ عدالت کے باہر تھا۔ نقصِ امن کے خطرے کے پیش نظر انگریز کمشنر نے پولیس طلب کرلی کہ کہیں کوئی سرپھرا پرتاب بابو کو قتل نہ کردے کیوں کہ 24 ستمبر 1928ء کو کوچہ چابک سواراں (سرفروشاں) لاہور کے رہنے والے ایک نوجوان غازی علم دین نے راج پال کو قتل کیا۔
عدالت کی کاروائی شروع ہوئی تو پرتاب بابو نے مجسٹریٹ سے درخواست کی، پرتاب: “می لارڈ! یہاں قبرستان والی مسجد، میدان والی مسجد، بازار والی مسجد کے مولوی صاحبان حاضر ہیں، درخواست ہے کہ، قبرستان والی مسجد کے مولوی صاحب کے علاوہ باقی مولوی صاحبان کو ،جب تک قبرستان والی مسجد کا بیان نہیں ہوجاتا باہر بھیجا جائے اور باری باری سب کو بلایا جائے اور بیان کے بعد کمرہ عدالت سے باہر بھجوادیا جائے”۔
مجسٹریٹ نے سب کو باہر جانے کا کہا، تینوں مسجد کے مولوی حضرات منہ بناتے ہوئے باہر چلے گئے اور قبرستان والی مسجد کے مولوی صاحب کٹہرے میں آئے، یہ بریلویوں کی مسجد تھی-
بریلوی مولوی سے قرآن پر حلف لیا گیا، جس کے بعد پرتاب نے مجسٹریٹ سے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
پرتاب: می لارڈ! مولوی صاحب سے پوچھا جائے کہ قرآن، حدیث اور فقہہ کی روشنی میں، کیا وہ اہلِ حدیث، دیوبندیوں کو اپنے جیسا مسلمان سمجھتے ہیں؟
مجسٹریٹ نے کٹہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: “پرتاب کے سوال کا جواب دیا جائے!”
قبرستان والی مسجد کے مولوی صاحب نے کھنکار کر گلہ صاف کرتے ہوئے کہا، “جناب پرتاب بابو نے بڑا آسان سوال پوچھا ہے، جس کا جواب تو کوئی بھی مسلمان دے سکتا ہے.”
مجسٹریٹ: “ٹھیک ہے آپ اپنا جواب بتائیے!”
قبرستان والی مسجد کا مولوی: “جناب ، اہلِ حدیث، دیو بندی، کتاب و سنت و احادیث اور ہمارے اکابرین کے افکار کے مطابق، توھینِ رسالت کے مرتکب اور بدترین کافر ہیں! پھر اس نے آدھے گھنٹے تک، دیوبندیوں اور اھلِ حدیثوں کے بزرگوں کے اقوال کا حوالہ دیا اور چند احادیث اور آیات اور اپنے اکابرین سے ان کو کافر ثابت کیا۔
پرتاب: می لارڈ! میدان والی مسجد کے مولوی صاحب کا بیان لیا جائے۔
مجسٹریٹ نے اپنے ریڈر کو کہا، “میدان والی مسجد کے مولوی صاحب کو بلایا جائے.” پھر قبرستان والی مسجد کے مولوی صاحب کو ریڈر نے کمرہ عدالت سے باہر انتظار کرنے کا کہا، وہ مجسٹریٹ صاحب کو سلام کرکے باہر چلے گئے۔
آواز لگی میدان والی مسجد کے مولوی صاحب، کٹہرے میں آئے، یہ اھلِ حدیث کی مسجد تھی-
اھلِ حدیث مولوی سے قرآن پر حلف لیا گیا، جس کے بعد پرتاب نے مجسٹریٹ سے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
پرتاب: می لارڈ! مولوی صاحب سے پوچھا جائے کہ قرآن، حدیث اور فقہہ کی روشنی میں، کیا وہ بریلویوں، دیوبندیوں کو اپنے جیسا مسلمان سمجھتے ہیں؟
مجسٹریٹ نے کٹہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: “پرتاب کے سوال کا جواب دیا جائے!”
میدان والی مسجد کا مولوی: “جناب ،کتاب و سنت، صحابہ کرام اجمعین اور سلفِ صالحین کے مطابق یہ کافر ہیں اور روزِ قیامت محمد ﷺ کی شفاعت سے محروم رہیں گے۔
پرتاب: می لارڈ! بازار والی مسجد کے مولوی صاحب کا بیان لیا جائے۔
مجسٹریٹ: “بازار والی مسجد کے مولوی صاحب کو بلایا جائے.”
ریڈر نے آواز لگائی اور میدان والی مسجد کے مولوی صاحب کو ریڈر نے کمرہءِ عدالت سے باہر انتظار کرنے کو کہا، وہ مجسٹریٹ صاحب کو سلام کرکے باہر چلے گئے۔
آواز لگی بازاروالی مسجد کے مولوی صاحب، کٹہرے میں آئے، یہ دیوبندیوں کی مسجد تھی،
دیوبندی مولوی سے قرآن پر حلف لیا گیا، جس کے بعد پرتاب نے مجسٹریٹ سے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
پرتاب: می لارڈ! مولوی صاحب سے پوچھا جائے کہ قرآن، حدیث اور فقہہ کی روشنی میں، کیا وہ بریلویوں کو اپنے جیسا مسلمان سمجھتے ہیں؟
مجسٹریٹ نے کٹہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: “پرتاب کے سوال کا جواب دیا جائے!”
بازار والی مسجد کا مولوی: “جناب، احادیث، قران مجید، کتاب و سنت، فقہا کرام، اجماع ِ امّت اور ہمارے جملہ اکابرین مرحوم و مغفور کے تدبّر و فہم کے مطابق دیگر فرقوں کے لوگ اگر یہ رجوع کرلیں، تو اللہ غفور اور رحیم ہے وہ یقیناً معاف کردے گا۔پرتاب: یور آنر! آپ نے خود سن لیا کہ یہ سب ایک دوسرے کو کافر سمجھتے اور ببانگ دہل اپنے علاوہ سب کو کافر بھی کہتے ہوئے عدالت سے نکل گئے ہیں، اب عدالت میں جو لوگ بچے ہیں ان میں سے مدعیوں کے وکیل صاحب بھی اُنہی کے فرقے سے تعلق کرتے ہیں، لہذا یہ بھی کافروں میں سے ہیں!
یور آنر! اب باقی جو مسلمان بچا ہے، اسے طلب کرلیجئے تا کہ کیس آگے چلے۔ مجسٹریٹ نے کیس خارج کر دیا اور……..
پرتاب بابوکو بَری کردیا اور پرتاب اخبار کو دوبارہ بحال کردیا- سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس امت کا دین ایک، رب ایک، رسول ایک، قرآن ایک، اور قبلہ ایک ہو پھر بھی ہزاروں طرح کی مذہبی جھگڑے کیوں؟ آخر اللہ ان پر اپنی رحمتیں کیوں نازل فرمائے اور کیوں نہ مصیبت میں ڈالے آج جو حالات پوری دنیا میں مسلمانوں کے ہیں وہ ہماری اپنی غلطی اور دیوانگی کا نتیجہ ہیں..
ابھی وقت ہے کہ مسلمان سنبھل جائیں اور اللہ کی رسی یعنی کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لیں اور ایک ٹھوس امت بن جائیں. پچھلی بے وقوفیاں نہ دوہرائی جائیں.
اور زندگی کے مقصد کو سمجھیں، تعلیم حاصل کریں، ہر شعبے میں اپنی جگہ بنائیں، تعلیم حاصل کرنے میں قوم کے ہر بچے کی مدد كریں تب ہی تم اپنے قوم کی فلاح کے لئے کچھ کرسکیں گے. باہمی تفرقہ بازی سے باہر نکلیں، جہالت چھوڑیں، چاہے خود بھوکے رہ لیں لیکن اپنے بچوں کو اعلی درجے کی دینی تعلیم دلوائیں. قوم کو متحد اور مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کریں. بس اسی طرح آپ دشمنان اسلام کی سازشوں اور ان کے ناپاک منصوبوں کو ناکام کرسکتے ہیں.
اللہ ہم سب کو نیک ہدایت دے. آمین۔