ساگ ایک سبز رنگ کی ڈھیٹ قسم کی سبزی ہوتا ہے، ڈھیٹ اس لیے کہ جس گھر میں گھس جائے دو دو ماہ پڑا رہتا ہے، سردیوں کے کچھ ماہ تو اس کی حیثیت گھر کے فرد جیسی ہوجاتی ہے، ناشتے، لنچ اور ڈنر میں ماوں کو اتنی فکر اپنے بچوں کی نہیں ہوتی جتنی ساگ کی ہوتی ہے، اکثر گھروں میں “ارے ساگ کہاں ہے” جیسے جملے تواتر سے سننے کو ملتے ہیں۔ سو یوں کہا جائے کہ ساگ اور روزے سال میں ایک مہینہ ہر مسلمان مرد عورت پہ فرض ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ سائنسی اعتبار سے دیکھا جائے تو ساگ میں کلیشیم، پوٹاشیم، فولاد، فاسفورس اور آلو کافی مقدار میں موجود ہوتے ہیں، اکثر قدامت پسند گھروں میں ساگ میں آلو نہ ڈالنا ساگ کی بلاسفیمی سمجھا جاتا ہے، بعض گھروں میں تو اتنے برتن بھی نہیں ہوتے جتنی قسموں کا وہاں ساگ بنا ہوتا ہے، سردیوں میں اکثر فریج کھولیں تو آلو ساگ، قیمہ ساگ، چکن ساگ، میتھی ساگ ، اور اسی طرح کے چند اور ساگوں سے فریج ساگو ساگ ہوا ہوتا ہے۔ مشہور فیس بکی مورخ گل خان اپنے ایک سٹیٹس میں فرماتے ہیں کہ ساگ کو چاہے پانچ منٹ پکاو چاہے پانچ گھنٹے پکاو یہ اپنا رنگ نہیں بدلتا، اگر اس کے کچھ اور کلرز مارکیٹ میں لانچ کردئیے جائیں تو یہ ایک اچھی سبزی ثابت ہوسکتا ہے۔ ساگ کے متعلق عورتیں اتنی ایموشنل ہوتی ہیں کہ اگر آپ اپنی امی کے سامنے ساگ کی برائی کردیں تو وہ رو بھی سکتی ہے۔
فی زمانہ اگر کوئی فرد یہ دعوی کرتا ہے کہ اس نے کبھی ساگ نہیں کھایا تو یا تو وہ جھوٹ بول رہا ہے یا پھر اس کے رشتے دار پنجاب میں موجود نہیں ہیں، پنجاب کے ضلع جھنگ کی چوڑیاں، مولوی اور ساگ پورے ملک میں مشہور ہیں۔ اگر کوئی دور پرے کا رشتے دار مہمان بن کر آئے اور ساگ ساتھ نہ لائے تو پھر یا تو وہ رشتے دار نہیں رہتا یا پھر مہمان نہیں رہتا۔ ساگ کی ایک اور خراب بات کہ یہ ایک دن پکاو تو ہفتہ ہفتہ چل جاتا ہے، جو لوگ ساگ کو قریب سے جانتے ہیں انہیں اچھی طرح علم ہوگا کہ اسے کھا کھا کر بندہ خراب ہو جائے تو ہو جائے یہ خود کبھی خراب نہیں ہوتا۔ ہمارے دوست تنویر صاحب فرماتے ہیں کہ ساگ انسانی صحت کے لیے اچھا ہے کیونکہ یہ جسم کی کسی چیز کو چھیڑتا ہی نہیں جیسا اندر جاتا ہے ویسا ہی باہر نکل جاتا ہے۔ بہرحال ہمارا ماننا تو یہ ہے کہ ساگ اور آگ جس گھر کو لگ جائے وہ مشکل سے ہی بچتے ہیں۔ ساگ کے متعلق تاریخ ایسے ہی خاموش ہے جیسے ہم ہر روز سامنے ساگ کو دیکھ کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر بات پاکستان کی ہو تو اس کے جھنڈے اور ساگ میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے یوں لگتا ہے جھنڈے کا ڈیزائن بنانے والا اس وقت ساگ کھا رہا تھا اس لیے ہوبہو ساگ والا رنگ دے دیا اور شاید ساگ میں مکھن بھی موجود تھا اس لیے ساتھ سفید رنگ بھی شامل کردیا، وہ تو شکر ہے حفیظ جالندھری کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا ورنہ قومی ترانہ بھی “ساگ سرزمین شاد باد” ہوجاتا۔