رضی اللہ عنہ اور علیہم السلام کسے کہہ سکتے ہیں؟
13 محرم الحرام ھ1438 مطابق
15اکتوبر ع2016 بروز شنبہ۔۔
کیا “رضی اللہ عنہ” غیر صحابہ کے لئے اور “علیہم السلام” غیر انبیاء کے لئے بول سکتے ہیں؟
جیسا کہ آج کل روافض لوگ
حضرت حسین کے لئے “علیہم السلام” لکھتے اور بولتے ہیں۔۔
کیا حکم ہے ؟
بحوالہ مدلل اس پر روشنی ڈالیں۔۔
……
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و باللہ التوفیق
وبوسیلة سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صیغہ تراضی….. اسکا استعمال قرآن شریف میں سورہ. لم یکن. میں تمام نیکوکار مومنین کے لئے کیا گیا ہے
جسمیں صحابی وغیر صحابی دونوں شامل ہیں
جبکے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت پر انکو اسکی بشارت سنائی
…. لہذا.. رضی اللہ عنہ… کا جملہ صحابہ و تابعین و صلحاء امت کے لئے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں
البتہ جہاں صحابی و غیر صحابی میں فرق دشوار ہو وہاں اسسے بچنا چاہیے
فتاوی محمودیہ ۱۹/۱۴۰
…….
ﻣﯿﺮﺍ ﺳﻮﺍﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ” ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ “ ﮐﮩﻨﺎ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﻭﻟﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ” ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ “ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﮯ؟ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻃﺎﺭﻕ ﺟﻤﯿﻞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﺎﻥ ﺳﻨﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ” ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ “ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺎ ﻟﻨﮏ ﺫﯾﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ؟
http://www.darsequran.com/index.php/bayanat/tariq-jameel
ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﺮﺣﻴﻢ
Fatwa ID: 27-38/H=2/1436-U
ﺻﺤﺎﺑﮧٴ ﮐﺮﺍﻡ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺑﻌﯿﻦ ﻭﻏﯿﺮﮨﻢ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ” ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ “ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﺒﻌﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ، ﻣﺴﺘﻘﻼً ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ، ﻧﯿﺰ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺴﯿﻦ ”ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ“ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﺭﻭﺍﻓﺾ ﮐﺎ ﺷﻌﺎﺭ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻣﺎﻥ ﮐﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ؛ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﺎ ﭼﺎﮨﮯ۔
ﻭﺃﻣﺎ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻓﻨﻘﻞ ﺍﻟﻠﻘﺎﻧﻲ ﻓﻲ ﺷﺮﺡ ﺟﻮﮨﺮﺓ ﺍﻟﺘﻮﺣﯿﺪ ﻋﻦ ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺍﻟﺠﻮﯾﻨﻲ ﺃﻧﮧ ﻓﻲ ﻣﻌﻨﯽ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻓﻼ ﯾﺴﺘﻌﻤﻞ ﻓﻲ ﺍﻟﻐﺎﺋﺐ ﻭﻻ ﯾﻔﺮﺩ ﺑﮧ ﻏﯿﺮ ﺍﻷﻧﺒﯿﺎﺀ ﻓﻼ ﯾﻘﺎﻝ: ﻋﻠﻲ ” ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ “ ﻭﺍﻟﻈﺎﮨﺮ ﺃﻥ ﺍ ﻟﻌﻠﺔ ﻓﻲ ﻣﻨﻊ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻣﺎ ﻗﺎﻟﮧ ﺍﻟﻨﻮﻭﻱ: ﻓﻴﻌﻠﺔ ﺻﻨﻊ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﺃﻥ ﺫﻟﮏ ﺷﻌﺎﺭ ﺃﮨﻞ ﺍﻟﺒﺪﻋﺔ ( ﺷﺎﻣﻲ : ۱۰/ ۸۴۳ ، ﺯﮐﺮﯾﺎ ) ﺍﻭﺭ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺑﻌﯿﻦ، ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﻏﯿﺮﮨﻢ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ”ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ“ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ،
ﻭﯾﺴﺘﺤﺐ ﺍﻟﺘﺮﺿﻲ ﻟﻠﺼﺤﺎﺑﺔ ﻭﺍﻟﺘﺮﺣﻢ ﻟﻠﺘﺎﺑﻌﯿﻦ ﻭﻣﻦ ﺑﻌﺪﮨﻢ ﻣﻦ ﺍﻟﻌﻠﻤﺎﺀ ﻭﺍﻟﻌﺒﺎﺩ ﻭﺳﺎﺋﺮ ﺍﻷﺧﯿﺎﺭ ﻭﮐﺬﺍ ﯾﺠﻮﺯ ﻋﮑﺴﮧ ( ﺍﻟﺪﺭ ﻣﻊ ﺍﻟﺮﺩ : ۱۰/ ۴۸۵ ، ﺯﮐﺮﯾﺎ )
ﻭﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﻋﻠﻢ
ﺩﺍﺭﺍﻻﻓﺘﺎﺀ،
ﺩﺍﺭﺍﻟﻌﻠﻮﻡ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪ
……….
علیہ السلام اس جملے کا استعمال غیر نبی کے لیے جائز ہے؟؟؟
اس میں کچھ تفصیل ہے
…..
فتاوی محمودیہ میں میرے پیر و مرشد نے بڑی طویل بحث فرمائی ہے… میں اسکو مختصرا لکھنے کی کوشش کرتا ہوں….. لکھتے ہیں…..
مجوزین کے دلائل ⬇
۱… سلام یہ دعائیہ جملہ ہے جو اپنی اصل کے اعتبار سے غیر نبی پر بھی بولا جاسکتا ہے.
۲… ہمیشہ وقت ملاقات اسکی تعلیم دی گئی ہے لوگ آپس میں کہتے ہيں… السلام علیکم..
وعلیکم السلام…
۳… اختتام نماز پر امام و مقتدی سب ہی کہتے ہيں
..السلام علیکم و رحمة اللہ…
۴…کوئی شخص کسی کا سلام پہنچائے تو جواب میں کہا جاتا ہے…. علیہ و علیکم السلام…
۵…اصول فقہ کی مشہور کتاب اصول الشاشی میں ہے… والسلام علی ابی حنیفة واحبابہ…..
۶… خد قرآن شریف کی آیت
… سلام علی الیاسین….
اسسے پتہ چلتا ہے کے سلام آل نبی پر بھی بولا گیا ہے
بلکہ تفسیر ابن کثیر رح اور تفسیر ابن عباس رض میں تو یہاں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہے… اور دوسری قرات میں پڑہا جاتا ہے…. سلام علی آل یس…… یعنی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
۷…. مفسرین میں امام رازی رحمت اللہ علیہ اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ نے حضرات حسنین کے لئے… علیہ السلام… کا جملہ استعمال کیا ہے
۸… امام ابوبکر جصاص رح نے جو فقہ حنفی میں صاحب ہدایہ سے بلند پایہ ہے جا بجا حضرت علی کے لئے… علیہ السلام… کا جملہ استعمال کیا ہے
۹… امام بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی صحیح بخاری میں حضرت فاطمہ کے لئے… علیہا السلام… کا جملہ استعمال کیا ہے
۱۰… امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے سنن ابی داؤد میں لکھا ہے…. مر بحسن بن علی علیہما السلام…
۱۱… حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے شرح تراجم البخاری میں لکھا ہے… من قتل حسین علیہ السلام..
۱۲… نیز دور حاضر کے محققین علامہ شبلی نعمانی رح مولانا سید سلمان ندوی رح امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد رح نے ان اصحاب کو اپنی شہرہ آفاق کتابو میں .. علیہ السلام… لکہا ہے
۱۳… حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رح نے متعدد مواقع میں اسکے استعمال کی اجازت دی ہے
۱۶… فتاوی عزیزی میں بھی اسکی اجازت دی ہے
…….
غیر نبی پر صلوٰۃ وسلام پڑھنا؟
سوال (۳۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: صلوٰۃ وسلام علی غیر النبی روا ہے یا نہیں اور اس کی کیفیت کیا ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: غیر انبیاء پر اصالۃً صلوٰۃ وسلام پڑھنا جائز نہیں ہے، البتہ انبیاء کے تابع کرکے دوسروں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے، جیسے صلی اللہ علیہ واٰلہ واصحابہ الخ۔
قال في المرقاۃ: وقال محمد الجویني: السلام کالصلاۃ یعني لایجوز علی غیر الأنبیاء والملائکۃ إلا تبعاً۔ (مرقاۃ المفاتیح، الصلاۃ / باب الصلاۃ علی النبي ا وفضلہا ۳؍۷ تحت رقم: ۹۲۰ بیروت) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتاب النوازل
……
ﻣﯿﺮﺍ ﺳﻮﺍﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ” ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ “ ﮐﮩﻨﺎ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﻭﻟﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ”ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ“ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﮯ؟ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻃﺎﺭﻕ ﺟﻤﯿﻞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﺎﻥ ﺳﻨﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ”ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ“ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺎ ﻟﻨﮏ ﺫﯾﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ؟
http://www.darsequran.com/index.php/bayanat/tariq-jameel
ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﺮﺣﻴﻢ
Fatwa ID: 27-38/H=2/1436-U
ﺻﺤﺎﺑﮧٴ ﮐﺮﺍﻡ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺑﻌﯿﻦ ﻭﻏﯿﺮﮨﻢ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ” ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ “ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﺒﻌﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ، ﻣﺴﺘﻘﻼً ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ، ﻧﯿﺰ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺴﯿﻦ ” ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ “ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﺭﻭﺍﻓﺾ ﮐﺎ ﺷﻌﺎﺭ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻣﺎﻥ ﮐﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ؛ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ ﻭﺃﻣﺎ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻓﻨﻘﻞ ﺍﻟﻠﻘﺎﻧﻲ ﻓﻲ ﺷﺮﺡ ﺟﻮﮨﺮﺓ ﺍﻟﺘﻮﺣﯿﺪ ﻋﻦ ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺍﻟﺠﻮﯾﻨﻲ ﺃﻧﮧ ﻓﻲ ﻣﻌﻨﯽ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻓﻼ ﯾﺴﺘﻌﻤﻞ ﻓﻲ ﺍﻟﻐﺎﺋﺐ ﻭﻻ ﯾﻔﺮﺩ ﺑﮧ ﻏﯿﺮ ﺍﻷﻧﺒﯿﺎﺀ ﻓﻼ ﯾﻘﺎﻝ : ﻋﻠﻲ ” ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ “ ﻭﺍﻟﻈﺎﮨﺮ ﺃﻥ ﺍ ﻟﻌﻠﺔ ﻓﻲ ﻣﻨﻊ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻣﺎ ﻗﺎﻟﮧ ﺍﻟﻨﻮﻭﻱ : ﻓﻴﻌﻠﺔ ﺻﻨﻊ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﺃﻥ ﺫﻟﮏ ﺷﻌﺎﺭ ﺃﮨﻞ ﺍﻟﺒﺪﻋﺔ ( ﺷﺎﻣﻲ : ۱۰/ ۸۴۳ ، ﺯﮐﺮﯾﺎ ) ﺍﻭﺭ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺑﻌﯿﻦ، ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﻏﯿﺮﮨﻢ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ” ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ “ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ، ﻭﯾﺴﺘﺤﺐ ﺍﻟﺘﺮﺿﻲ ﻟﻠﺼﺤﺎﺑﺔ ﻭﺍﻟﺘﺮﺣﻢ ﻟﻠﺘﺎﺑﻌﯿﻦ ﻭﻣﻦ ﺑﻌﺪﮨﻢ ﻣﻦ ﺍﻟﻌﻠﻤﺎﺀ ﻭﺍﻟﻌﺒﺎﺩ ﻭﺳﺎﺋﺮ ﺍﻷﺧﯿﺎﺭ ﻭﮐﺬﺍ ﯾﺠﻮﺯ ﻋﮑﺴﮧ ( ﺍﻟﺪﺭ ﻣﻊ ﺍﻟﺮﺩ : ۱۰/ ۴۸۵ ، ﺯﮐﺮﯾﺎ )
ﻭﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﻋﻠﻢ
ﺩﺍﺭﺍﻻﻓﺘﺎﺀ،
ﺩﺍﺭﺍﻟﻌﻠﻮﻡ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪ
➖➖➖
عدم جواز کے قائلین کے دلائل ⬇
۱… فتاوی عزیزی میں تفصیل کے بعد اخیر میں لکہتے ہیں
.. پس واضح دلائل مثل آفتاب نیم روز گردید کہ صلوة چہ بل سلام ہم بر غیر انبیاء جائز نیست…
۲… تفسیر مدارک التنزیل میں ہے…. اذا افرد غیرہ من اہل البیت بالصلوة فمکروہ وہو من شعار الروافض… وعن امام الجوینی رح انہ فی معنی الصلوة فلا یستعمل فی الغائب ولا یفرد بہ غیر الانبیاء فلایقال علی علیہ السلام…… وعلة منع السلام ان ذالک شعار اہل البدع
۳…. تفسیر کبیر میں ہے… ان اصحابنا یمنعون من ذکر صلوات اللہ. و علیہ الصلوة و السلام الا فی حق الرسول…
۴… غنیة المستملی المعروف بالکبیری میں ہے…. فلا یقال فلان علیہ السلام فالواجب الاتباع واجتناب الابتداع….
۵… تفسیر کشاف میں ہے…. لانہ یؤدی الی اتباع الروافض…
۶… طیبی کے حوالے سے مشکوة کے حاشیے پر ہے….. فالجمہور علی عدم الجواز ابتداءا وقیل انہ حرام وقیل انہ مکروہ وقیل انہ ترک الاولی
والصحیح انہ مکروہ کراہة تنزیہی
➖➖➖➖➖
ان دونوں طرف کے دلائل کے بعد حضرت پیر و مرشد رح نے جو خلاصہ لکھا ہے استے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت رح خود جواز کے قائل ہیں یا کم از کم شدت عدم جواز کے خلاف ضرور ہے
اور طالب علم جواز ہی کی رای رکہتا ہے
…. حضرت رح کا خلاصہ اسطرح ہے کہ….
سلام دعائیہ جملہ ہے اس میں کسی کی تخصیص نہیں
قرآن سے بھی اسکا جواز ثابت ہے نیز اسلاف کی عبارات سے بھی
سلام مستقلا اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لکہنا جائز ہے
رہی بات مخالف دلائل کی تو…
… ممتنعین لفظ. صلوة.. کے غیر انبیاء کے ساتھ مستقلا لکھنے کے خلاف ہے نہ کہ سلام کے
… احناف میں جو حضرات خلاف بھی ہے تو صرف کراہت تنزیہی کے ہیں
… نیز بعض احناف نے منع کیا بھی ہے تو اسکی علت… اشتباہ بالشعار الروافض و اہل البدع ہے
اسکا جواب یہ ہے کہ ہر جگہ اہل تشیع کا اثر نہیں لہذا جہاں انکا اثر ہو وہاں احتراز کیا جائے اور حضرات اہل بیت کے لئے بھی دیگر اصحاب کی طرح رضی اللہ عنہ لکہیں
نیز ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اصحاب اہل بیت کے علاوہ دیگر اصحاب کےلیے بھی علیہ السلام استعمال کرے مثلا حضرت علی علیہ السلام. حضرت ابوبکر علیہ السلام حضرت عمر علیہ السلام حضرت عثمان علیہ السلام وغیرہ
غرض جواز والا طریقہ زیادہ مؤثر ہوگا کیونکہ اگر ہم اہل بیت کے لئے علیہ السلام کے استعمال کو اہل تشیع و اہل بدعت کا شیوا قرار دینگے تو خطرہ ہے عوام کی نظر میں وہ مقتدر اسلاف و محققین جنہوں نے علیہ السلام کا استعمال کیا ہے وہ یا تو العیاذ بااللہ شیعہ یا اہل بدعت قرار پائنگے
➖➖➖
علیہ السلام و رضی اللہ عنہ کا استعمال
کتاب: فتاوی محمودیہ جلد 19
صٖفحہ نمبر: 139
عنوان: علیہ السلام و رضی اللہ عنہ کا استعمال
علیہ السلام و رضی اللہ عنہ کا استعمال
کتاب: فتاوی محمودیہ جلد 19
صٖفحہ نمبر: 140
عنوان: علیہ السلام و رضی اللہ عنہ کا استعمال
علیہ السلام و رضی اللہ عنہ کا استعمال
کتاب: فتاوی محمودیہ جلد 19
صٖفحہ نمبر: 141
عنوان: علیہ السلام و رضی اللہ عنہ کا استعمال
علیہ السلام اور لفظ امام کا استعمال
کتاب: فتاوی محمودیہ جلد 19
صٖفحہ نمبر: 145
عنوان: علیہ السلام اور لفظ امام کا استعمال
علیہ السلام اور لفظ امام کا استعمال
کتاب: فتاوی محمودیہ جلد 19
صٖفحہ نمبر: 146
عنوان: علیہ السلام اور لفظ امام کا استعمال
علیہ السلام و ترضی و ترحم
کتاب: فتاوی محمودیہ جلد 19
صٖفحہ نمبر: 147
عنوان: علیہ السلام و ترضی و ترحم
علیہ السلام و ترضی و ترحم
کتاب: فتاوی محمودیہ جلد 19
صٖفحہ نمبر: 148
عنوان: علیہ السلام و ترضی و ترحم