“حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإیْمَان”


تحقیق “حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإیْمَان”
مسئلہ(۶):
بعض حضرات جو قومیت ووطنیت کو مذہب سے بھی زیادہ اہم سمجھتے ہیں، وہ اپنے نظریۂ قومیت ووطنیت پر ایک زبان زدِ عام وخاص- غیر مستند وبے اصل روایت پیش کرتے ہیں:
’’حب الوطن من الإیمان‘‘
کہ وطن سے محبت کرنا یہ ایمان کا جز ہے(۱)، جب کہ اکثر علماء حدیث، مثلاً: شیخ ملاعلی قاری، علامہ عجلونی، علامہ سیوطی، علامہ سخاوی اور علامہ طاہر پٹنی رحمہم اللہ وغیرہ نے اس روایت کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے، اور اس کے حدیث ہونے سے اپنی لاعلمی ظاہر کی ہے(۲)، لہٰذا یہ استدلال صحیح ودرست نہیں ہے، ہاں! البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وطن سے محبت ہر فردِ بشر میں ایک فطری چیز ہے، جو ہر ہندوستانی مسلمان میں بھی پائی جاتی ہے، اور ہمیں اپنے ملک اور اس کے ذرّے ذرّے سے فطری محبت ہے، اب رہا نظریۂ قومیت، تو اسلامی نقطۂ نظر سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ محبت و نصرت اورتعلق کی تمام تر اَساس وبنیاد اخوتِ ایمانی ہے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی:
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ}(۳)
اور
{اَلْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بعضہم أولیآء بعض}(۴)
سے ثابت ہوتا ہے، رہی بات نظریۂ وطنیت وعلاقائیت کی تو وہ ایک عظیم فتنہ ہے، جس نے مسلمانوں کو وہ نقصان پہنچایا ہے کہ شاید ہی کسی اور چیز نے اِس درجے نقصان پہنچایا ہو، اس لیے اس نظریہ کو کمزور کرنے کی ضرورت ہے، نہ یہ کہ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
اللہ پاک ہمیں ہدایت عطا فرمائے۔ آمین !
——————————
الحجۃ علی ما قلنا:
(۱) ما في ’’موسوعۃ الرد علی المذاہب الفکریۃ المعاصرۃ ‘‘ : وإن أخطر ما في مثل ہذہ الدعوۃ أن بعض المسلمین یتحمس لہا ویدافع عنہا بحسن نیۃ وسلامۃ مقصد ، بل وتجدہم یرددون ما یزعمون أنہ حدیث نبوي (حب الوطن من الإیمان) وہو حدیث موضوع لا یجوز الاحتجاج بہ ولا الرکون إلیہ ۔ وأشیر ہنا إلی أن حب الوطن أمر غریزي جبلي لا یستطیع الإنسان أن ینکرہ أو ینفیہ ، ولکن الخطر الداہم أن کثیرًا من دعاۃ الوطنیۃ اتخذوہ صنمًا یعبد من دون اللّٰہ ، وتخلوا علی مبادئہم الإسلامیۃ باسم الوطنیۃ (ومن الناس من یتخذ من دون اللّٰہ أندادًا یحبونہم کحب اللّٰہ) ۔ [البقرۃ :۱۶۵] ۔
(۳۹/۸۱ ، من القومیۃ إلی الوطنیۃ ، جمع وإعداد : علي بن نایف الشحود، و: ۳۹/۱۷۴، ثقافۃ التلبیس ، و:۴۹/۷ ، الإسلام والوطنیۃ المزعومۃ)
(۲) ما في ’’ أسنی المطالب في أحادیث مختلفۃ المراتب ‘‘ : حدیث ’’ حب الوطن من الإیمان‘‘ حدیث موضوع ۔ (۱/۱۲۳، رقم :۵۵۱ ، م : محمد بن درویش بن محمد الحوت، ط : دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ما في ’’ الدرر المنتثرۃ في الأحادیث المشتہرۃ ‘‘ : (حدیث) ’’ حب الوطن من الإیمان ‘‘ لم أقف علیہ ۔ (۱/۱۹۷، م : جلال الدین عبد الرحمن بن أبي بکر السیوطي)
ما في ’’ المقاصد الحسنۃ في بیان کثیر من الأحادیث المشتہرۃ علی الألسنۃ ‘‘ : حدیث (حب الوطن من الإیمان) لم أقف علیہ ۔
(۱/۲۹۷ ، رقم : ۳۸۶ ، م : عبد الرحمن السخاوي ، ط : دار الکتاب العربي بیروت)
ما في ’’ کشف الخفاء ومزیل الإلباس عما اشتہر من الأحادیث علی ألسنۃ الناس ‘‘ : (حب الوطن من الإیمان) قال الصغاني : موضوع ۔ وقال في المقاصد : لم أقف علیہ ۔ (۱/۳۴۵ ، م : إسماعیل بن محمد الجراحي العجلوني ، ط : دار احیاء التراث العربي بیروت ، موضوعات الصغاني :۱/۲ ، م: الرضي الصغاني ، اللؤلؤ المرصوع :۱/۷۲ ، حرف الحاء ، رقم :۱۷۰، م : محمد بن خلیل بن إبراہیم المشیشي الطرابلسي ، ط : دار البشائر الإسلامیۃ بیروت ، المصنوع في معرفۃ الحدیث الموضوع :۱/۹۱ ، م : علي بن سلطان=
= الہروي القاري ، ط : مکتب المطبوعات الإسلامیۃ بیروت)
(۳) (سورۃ الحجرات : الآیۃ/۱۰) (۴) (سورۃ التوبۃ : الآیۃ/۷۱)
(مستفاد :کتاب الفتاویٰ:۱/۳۱۵، ۳۱۶، وطن کی محبت ایمان سے ہے کی تحقیق)
)(المسائل المهمة فيما ابتلت به العامة :10/27،28)
……….
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
مسئلہ (۴):
علامہ اقبال مرحوم کے مشہور ترانہ کا مصرع- ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘- اس کے بارے میں بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ مصرع اسلامی تصور کے خلاف ہے (یعنی نعوذ باللہ! سرزمینِ ہند مکہ مکرمہ ومدینہ طیبہ سے افضل اور مبارک ہے)، جب کہ کسی کلام کا معنی ومقصود متعین کرتے ہوئے ضروری ہے کہ صاحبِ کلام کی فکر اور اس کے خیالات کو بھی ملحوظ رکھا جائے، اگر ایک شخص کا مومن وموحد ہونا معلوم ہو، اور وہ کوئی ایسی بات کہے جس کی دو تشریحات کی جاسکتی ہوں، ایک عقیدۂ توحید سے مطابقت رکھتی ہو، اور دوسری مشرکانہ فکر سے، تو اس کلام کی تشریح میں پہلی صورت کو ملحوظ رکھا جائے گا، اور اگر یہی بات کسی مشرک کی زبان سے نکلے، تو اس کلام کو مشرکانہ تصور کیا جائیگا۔ علامہ اقبال مرحوم نہایت ہی قابل اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے، قرآن وحدیث کے ایک ایک حرف پر ایمان رکھتے تھے، آپ کے کلام کا ہر شعر اسلامی فکر کا نقیب ہے، قرآن وحدیث کی اصطلاحات سے آپ کا کلام پُر ہوتا ہے۔ نیز کسی جگہ کاافضل ہونا اور اچھا ہونا دونوں میں فرق ہے، افضل کا لفظ عموماً دینی اور روحانی فضیلت کے لیے بولا جاتا ہے، اور اچھا ہونا مادی اسباب و وُجوہ سے بھی ہوتا ہے، مثلاً کوئی کہے کہ: ہندوستان موسم کے اعتِدال ، کھیتی باڑی کے لیے موزونیت اور ہر جگہ میٹھے پـانی وغیرہ کی دستیابی کے اعتبار سے بمقابلہ جزیرۃ العرب کے زیادہ اچھا ہے، تو اس میں کوئی قباحت نہیں، علامہ اقبال کا مقصد بھی یقینا یہی ہوگا، ورنہ
اگر روحانی فضیلت کے اعتبار سے کوئی ہندوستان (بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک ) کو ان مقاماتِ مقدسہ ومبارکہ سے افضل وبرتر سمجھے، تواس کے بارے میں کفر کا اندیشہ ہے۔ (۱)
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’قواعد الفقہ‘‘ : ’’أمور المسلمین علی السداد حتی یظہر غیرہ‘‘ ۔ (ص/۶۳)
ما في ’’عقود رسم المفتي‘‘ : وکل قول جاء ینفي الکفرا ــــ عن مسلم ولو ضعیفًا أحریٰ ۔
(ص/۱۴۵)
(کتاب الفتاویٰ:۱/۳۱۴، ۳۱۵، سارے جہاں سے اچھا ، ایمانیات)
(المسائل المهمة فيما ابتلت به العامة:10/24)
…………………..
وطن سے محبت فطری تقاضا اورشرعی بھی
اپنےوطن سے محبت ایک ایسا فطری جذبہ ہے جو ہر انسان بلکہ ہر ذی روح میں پایا جاتا ہے. جس زمین پر انسان پیدا ہوتا ہے، زندگی گزارتاہے، وہاں کے گلی کوچوں ، درو دیواربلکہ ایک ایک چیز سے اس کی یادیں وابستہ ہوتی ہیں.
مشہور حکیمانہ جملہ ہے :حب الوطن من الایمان: وطن کی محبت ایمان کا تقاضاہے۔(یہ بات ملحوظ رہے یہ الفاظ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں۔اس لیے یہ حدیث نہیں بلکہ حکیمانہ جملہ ہے)البتہ کئی دیگر احادیث سے وطن سے محبت ایک فطری اور شرعی تقاضا ہونا معلوم ہوتا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب حضور نبی کریم ﷺ کسی سفر سے آتے تو مدینہ شریف کی اونچی منزلیں دیکھ کر خوش ہوتے اور اونٹنی تیزی سے اس کی طرف دوڑا دیتے تھے ، اور اگر کوئی دوسرا جانور ہوتا تو اس کو حرکت دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ بدر الدین عینی اور حافظ ابن حجر رحمھما اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: یہ حدیث شریف مدینہ منورہ کی فضیلت اور وطن سے محبت اور اس کے اشتیاق کی مشروعیت پر بڑی واضح دلیل ہے ۔
حدثنا سعید بن ابی مریم قال أخبرنا محمد بن جعفر قال أخبرنی حمید أنہ سمع أنسا رضی اللہ تعالیٰ عنہ یقول: کان رسول اللہ اذا قدم من سفر فأبصر درجات المدینۃ أوضع ناقتہ و ان کانت دابۃ حرکھا۔۔۔۔۔
قال الحافظان العینی والعسقلانی:وفیہ دلالۃ علی فضل المدینۃ وعلی مشروعیۃ حب الوطن والحنۃ الیہ ۔(عمدۃ القاری للعینی،وفتح الباری باب من اسرع ناقتہ اذا بلغ المدینۃ)
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے: جب حضور نبی کریم ﷺ مکہ سے نکلے اور مکان جحفہ پہنچے تو آپ کو مکہ شریف کی جانب رغبت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آیت نازل فرمائی:
’’ان الذی فرض علیک القرآن لرادک الی معاد
(بیشک جس نے تم پر قرآن فرض کیا وہ تمھیں پھیر جائے گا جہاں پھرنا چاہتے ہو ۔ یعنی مکہ کی طرف)‘‘
حدثنا ابی حدثنا ابن ابی عمیرقال : قال سفیان فسمعناہ عن مقاتل منذ سبعین سنۃ عن الضحاک قال : لما خرج النبی ﷺ من مکۃ فبلغ الجحفۃ اشتاق الی مکۃ ، فانزل اللہ تبارک و تعالیٰ علیہ القرآن (رادک الی معاد) الی مکۃ ۔
( تفسیر ابن ابی حاتم، قولہ تعالیٰ: رادک الی معاد، ج ۹سورۃ القصص)
ابن شھاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: أصیل غفاری رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کی ازواج مطہرات پر حجاب فرض ہونے سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس تشریف لائے توآپ نے أصیل غفاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا مکہ کو کیسا پایا تو آپ نے بعض اوصاف بیان فرمایا ، پھر حضور ﷺ آئے اور آپ نے بھی پوچھا کہ مکہ کو تم نے کیسا پایا تو آپ نے کچھ اوصاف بیان کئے توآپ دل برداشتہ ہوئے اور فرمایا: اصیل بس کرو ہمیں مکہ شریف کے اوصاف بیان کر کے غمزدہ نہ کرو
عن ابن شھاب قال قدم أصیل الغفاری قبل ان یضرب الحجاب علی أزواج النبی ﷺ فدخل علی عائشۃ رضی اللہ عنھا ، فقالت لہ : یا أصیل کیف عھدت مکۃ قال: قدأخصب جنابھا ، وابیضت بطحائہا قالت : أقم حتی یا تیک النبی ﷺ فلم یلبث أن دخل النبی ﷺ فقال لہ یاأصیل کیف عھدت مکۃ قال: واللہ عھدتھا قد أخصب جنابھا وابیضت بطحا ؤھا و أغدق اذ خرھا وأسلت ثمامھا و أمش سلمھا فقال : حسبک یاأصیل لا تحزنا ۔(أخبار مکۃ وما جاء فیھا من الآثار لابی الولید محمد بن عبد اللہ الازرقی ، تذکر النبی ﷺ و أصحابہ مکۃ،ج۲ص۱۵۵، دار الاندلس بیروت)
سرورعالم صلى الله عليه وسلم جب ہجرت فرماکر مکہ مکرمہ سے جانے لگے تو فرمایا کرتے تھے: اے مکہ توخدا کا شہر ہے تومجھے کس قدر محبوب ہے،اے کاش تیرے باشندے مجھے نکلنے پر مجبور نہ کرتے تو میں تجھ کو نہ چھوڑتا۔ (جمع الفوائد:۱/۱۹۵)
جب سرورعالم صلى الله عليه وسلم نے مدینہ منورہ کو وطن بنالیا تو دعا میں فرمایاکرتے تھے: اے اللہ ہمارے اندر مدینے کی اتنی محبت پیدا کردے جتنی تونے مکہ کی محبت دی ہے،مدینے کی آب وہوا درست فرمادے اور ہمارے لیے مدینے کے صاع اور مد (ناپنے کے پیمانے) میں برکت عطا فرما اور مدینہ کے بخار کو (حجفہ مقام) کی طرف منتقل فرمادے۔ (بخاری شریف:۱/۵۵۸)
اس حدیث شریف سے وطن عزیز کی محبت کا بھی بخوبی پتہ چلتا ہے نیز اس کی اقتصادی ترقی اور آب وہوا کی درستگی اور صحت وعافیت کی بحالی کی شدید رغبت بھی ظاہرہوئی ہے، اس لیے وطن کی محبت فطری تقاضا بھی ہے اور شرعی بھی۔
مولانا سیف اللہ تونسوی دامت برکاتهم
https://www.facebook.com/muftiadnankakakhail/posts/902058303170256