جھوٹ بولے ،کوا کاٹے
ایس اے ساگر
معاشرہ میںجھوٹا وعدہ، جھوٹی معذرت، فضول بہانے عام ہیں۔ ان کے ذریعہ لوگ اپنے تئیں ’بے ضرر‘ جھوٹ کا سہارا لے کر تنازع سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ جھوٹ اتنا بھی بے ضرر نہیں، یہ عمل فرد کوبیمار اور ہمارے تعلقات کو تباہ کر دیتا ہے۔ ’سب کچھ ٹھیک ہے، میں خیر خیریت سے ہوں‘ کہنا عام بات ہے جبکہ حالیہ تحقیق کے مطابق یہ ایسا جھوٹ ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ بولا جاتا ہے۔ اس کے بعد مروت میں جھوٹ بولنا، جیسے’میرا فون بند تھا‘ یا ’میں ٹریفک میں پھنس گیا تھا‘ جیسے بہانے بنائے جاتے ہیں۔گویا کہ دنیا بھر میں مختلف انداز سے جھوٹ بولا جاتا ہے لیکن سپلنڈڈ ریسرچ نامی ایک تحقیقی ادارے کے مطابق قریب ساٹھ فیصد جرمن شہری بھی جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق زیادہ تر لوگ ہر دس منٹ کی گفتگو کے دوران کم از کم ایک مرتبہ جھوٹ بولتے ہیں۔ ان جائزوں کے نتائج کس حد تک حقیقت پر مبنی ہیں، یہ کہنا بھی مشکل ہے کیوں کہ جھوٹ بولنے سے متعلق سروے کے دوران بھی بعض لوگ جھوٹ بولنے سے باز نہں آتے۔
بیماری اور تنہائی کا سبب:
معروف خبررساں ادارہ ڈی ڈبلیو نے اپنے فیس ب ک صارفین سے پوچھا کہ وہ کب اور کیوں جھوٹ بولتے ہیں تو کئی طرح کی توجیحات پیش کی گئیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ وہ اپنی ماں کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ بولتا ہے۔ ایک سروے کے دوران انچاس فیصد جرمنوں کی رائے تھے کہ کسی کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ بولنا اور معقول وجہ ہے۔ یونیورسٹی آف کاسل سے وابستہ ماہر نفسیات مارک آندرے رائنہارڈ کے مطابق:
’’انسانی تعلقات اسی صورت میں کام کرتے ہیں جب آپ ایک دوسرے کی عزت نفس مجروع نہ کی جائے۔ ہم اپنے بارے میں منفی رائے نہیں سن سکتے اور انسان اپنے امیج کے بارے میں بہت حساس ہوتا ہے۔‘‘
سر درد اور ڈپریشن کا باعث:
لیکن روز مرہ کے معمولات میں بولے جانے والے ایسے ’معصومانہ اور بے ضرر‘ جھوٹ بھی ہمیں ذہنی اور جسمانی طور پر بیمار کر دیتے ہیں۔ امریکی سائیکالوجی ایسوسی ایشن کی ایک تحقیق کے مطابق اگر ہم روزمرہ کی زندگی میں جھوٹ بولنا کم کر دیں تو ہماری صحت پر اس کے کافی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس ادارے نے ایک تجرباتی تحقیق کے دوران اس تجربے میں شامل لوگوں کو عام بول چال کے دوران جھوٹ بولنے یا بات بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے منع کیا۔ دس ہفتوں تک ان افراد کا مسلسل جائزہ لیا گیا تو حیرت انگیز طور پر سچ بولنے کے بعد ان کی صحت پر کافی مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ دس ہفتوں بعد اس تجربے میں شامل لوگوں میں ذہنی دباؤ اور ڈیپریشن جیسے مرض نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ علاوہ ازیں سر اور پیٹ میں درد جیسے جسمانی امراض بھی ناپید ہو گئے۔
اس دوران یہ جائزہ بھی لیا گیا کہ سچ بولنے کے بعد ان کے نجی اور دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ حیرت انگیز طور پر ان کے تعلقات میں کوئی بگاڑ نہیں آیا بلکہ توقعات کے برعکس ان لوگوں کے نجی اور سماجی تعلقات مزید گہرے اور مضبوط ہوئے۔
http://www.dw.com/ur/%D8%AC%DA%BE%D9%88%D9%B9-%D8%A8%D9%88%D9%84%D9%86%D8%A7-%D8%A8%DB%8C%D9%85%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AA%D9%86%DB%81%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%B3%D8%A8%D8%A8/a-41895124
پکڑنے کے طریقے:
کئی لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ کچھ اپنے مفادکے لیے، کچھ مصلحت کے تحت اور کئی محض دوسروں کو پریشان کرکے لطف اٹھانے کے لیے۔ جھوٹ بڑی حیثیت رکھنے والے بھی بولتے ہیں اور عام افراد بھی۔ بڑے آدمی کے جھوٹ کا اکثر اوقات اس کے بولنے کے دوران ہی پتا چل جاتا ہے، لیکن کوئی اسے کہہ نہیں سکتا۔ جب کہ چھوٹے آدمی کے جھوٹ پر عموماً کوئی دھیان نہیں دیتا۔
پنوکیو جب جھوٹ بولتا ہےتو اس کی ناک لمبی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ پنوکیو کی کہانی دنیا بھر کے بچے پڑھتے ہیں اور اس کےترجمے اکثر زبانوں میں موجود ہیں۔ مگر دنیا میں جھوٹ پھر بھی بولاجاتا ہے اور ایسے افراد کم کم ہی ہوں گے جو یہ دعویٰ کرسکیں کہ انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ ماسوائے ایک شخص کے۔
خلیل جبران نے اپنے ایک افسانے میں لکھا ہے کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، سوائے ایک جھوٹ کے کہ میں جھوٹ نہیں بولتا۔ کہتے ہیں کہ پہلا جھوٹ مشکل ہوتا ہے، دوسرے پر ہچکحاہٹ ہوتی ہے اور تیسرے جھوٹ پر ندامت یا پشمانی کا احساس نہیں ہوتا۔اور پھر انسان بڑے اعتماد سے جھوٹ بولنے لگتا ہے۔ لیکن ماہرین کا کہناہےکہ جس طرح بڑے سے بڑا مجرم اپنے پیچھے کوئی ایسی نشانی چھوڑ جاتا ہے جو اس تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے اسی طرح ہر جھوٹے سے بھی کوئی ایسی حرکت ضرور سرزد ہوجاتی ہے جس سے شک کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو مگرآپ کو ایسے بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑا ہوگا جن کے جھوٹ سے آپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی یا آپ کو نقصان اٹھانا پڑا۔ لیکن مستقبل میں آپ ایسے کسی نقصان سے بچ سکتے ہیں کیونکہ نفسیاتی ماہرین نے طویل تحقیق کے بعد جھوٹ پکڑنے کے چند طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔ یہ طریقے ایسے ہیں جن کے لیے آپ کوکسی مشین کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی لمبی چوڑی تحقیق کی۔ ماہرین کا کہناہے کسی شخص کی حرکات و سکنات کی بنا پر آسانی سے یہ تعین کیا جاسکتا ہے کہ آیا کہ وہ سچ بول رہاہے یا جھوٹ۔ ماہرین کے مطابق گفتگو کے دوران ہاتھ اور بازوں کی حرکت اور چہرے کے تاثرات سچ اور جھوٹ ظاہر کردیتے ہیں۔ کیونکہ جھوٹے شخص کے چہرے پر تناؤ ہوتا ہے اور ہاتھوں اور بازوں کی حرکت اس کی گفتگو کا ساتھ نہیں دے رہی ہوتی۔آنکھ ملاکر بات کرنے سے کتراتا:
جھوٹا شخص آنکھ ملاکر بات کرنے سے کتراتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا غیر ارادی طور پر اپنے چہرے، گردن اور منہ پر ہاتھ پھیرتا رہتا ہے اور ناک یا کان کو کھجاتا نظر آتا ہے۔ کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے ماہرین کا کہناہے کہ چہرے کے اعصاب یہ بتا دیتے ہیں کہ انسان سچ بول رہاہے یا جھوٹ۔ ڈاکٹر برنکے کہتے ہیں کہ آپ صرف مسکراہٹ دیکھ کر ہی یہ قیاس کرسکتے ہیں کہ آپ کا مخاطب سچ بول رہا ہے یا سچ کو چھپا رہا ہے۔ کیونکہ انسانی جذبات جھوٹ کاساتھ نہیں دیتے۔ اگر کوئی شخص اپنی گفتگو میں مسرت، دکھ یا محبت کا اظہار کررہاہو اور وہ اپنے اظہار میں سچا نہ ہوتو اس چہرے پر تاثرات تاخیر سے ظاہر ہوں گے اور اچانک غائب ہوجائیں گے۔ جب کہ سچے جذبات اظہار سے پہلے چہرے پر آجاتے ہیں اور دیر تک برقرار رہتے ہیں۔ جھوٹ بولنے والے کئی افراد اپنی باتوں کا یقین دلانے اور نارمل نظر آنے کے لیے مسکراہٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ ڈاکٹر برنکے کہتے ہیں کہ حقیقی مسکراہٹ میں چہرے کے سارے اعصاب حصہ لیتے ہیں اوردیکھنے والے کو پورا چہرہ کھلا ہوا سا دکھائی دیتا ہے۔ سچی مسکراہٹ دیر تک قائم رہتی ہے اور آہستہ آہستہ تحلیل ہوتی ہے۔ جب کہ زبردستی کی مسکراہٹ صرف ہونٹوں اور اس کے آس پاس کے اعصاب تک محدود رہتی ہے۔ منصوعی مسکراہٹ کے دوران گال اور آنکھوں کی بھوئیں اپنی نارمل حالت میں رہتی ہیں۔ ڈاکٹر برنکے کی ٹیم نے اپنی تحقیق کے لیے 52 افراد کے چہروں کے تاثرات کا تفصیلی تجزیہ کیا اور ان کے چہروں کے23000 سے زیادہ ویڈیو فریم بنائے گئے۔ چہرے کے تاثرات کے معائنے نے 26 افراد کے جھوٹے ہونے کی نشاندہی کی۔ جب ماہرین نے ان سے منسلک حقائق کا جائزہ لیا تو ان کے جھوٹے ہونے کی تصدیق ہوگئی۔دفاعی انداز اپنانا:
ماہرین کا کہناہے کہ جھوٹا شخص گفتگو میں دفاعی انداز اپناتا ہے جب کہ سچے کا رویہ عموماً جارحانہ ہوتا ہے۔ جھوٹے سے اگر کچھ پوچھا جائے تو اس پر گھبراہٹ طاری ہوجاتی ہے، جسے وہ چھپانے کے لیے اپنے سراور گردن کو بار بار حرکت دیتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی غیر شعوری حرکتوں سے بھی جھوٹ کی نشاندہی ہوتی ہے۔ مثال کے طورپر اگر جھوٹ بولنے والا آپ کے سامنے بیٹھا ہے تو وہ بات کرتے ہوئے غیر ارادی طور پر اپنے سامنے رکھی ہوئی کوئی چیز اٹھا کر اپنے اور آپ کے درمیا ن رکھ لے گا۔ وہ یہ عمل لاشعوری طورپر خودکو محفوظ بنانے کے لیے کرتا ہے۔ اگر جھوٹے سے کوئی سوال کیا جائے تو وہ جواب میں غیر ارادی طورپر سوال کے ہی کچھ لفظ دوہرا دیتا ہے۔ اکثر جھوٹ بولنے والے صاف کہنے کی بجائے بات کوگھمانے اور الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جھوٹا انسان ایک نارمل شخص سے زیادہ بولتا ہے اور غیر ضروری اور غیر متعلقہ تفصیلات بیان کرتا ہے ۔ وہ خاموش ہونے سے اس لیے ڈرتا ہے کہ کہیں کوئی ایسا سوال نہ پوچھ لیا جائے، جس سے اس کا جھوٹ پکڑا جائے۔ ایک کہاوت ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ مگر جھوٹا شخص کئی جھوٹ بولنےکے بعد اس لیے پکڑا جاتا ہے کیونکہ اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ پہلے کیا کچھ کہہ چکاہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ آیا آپ کا مخاطب جھوٹ تو نہیں بول رہا، فوراً گفتگو کا موضوع تبدیل کردیں۔ اگر وہ سکون اور اطمینان محسوس کرے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ جھوٹ بول رہاتھا۔ جب کہ سچا شخص اچانک موضوع بدلنے سے پریشان ہوجاتا ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے آپ کو اصل موضوع پر لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ نفسیاتی ماہرین کا کہناہے کہ بعض افراد کے اعصاب اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ وہ اپنا جھوٹ ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ اور بعض اوقات سچ بولنے والا اتنی گھبراہٹ کا شکار ہوجاتا ہے کہ اس کا سچ بھی جھوٹ لگنے لگتا ہے۔ چنانچہ بعض افراد کے معاملے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے صرف قیافہ شناسی ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ ٹھوس شواہد بھی درکار ہوتے ہیں۔
https://www.urduvoa.com/a/detect-lies-khalil-jibran-11aprl12-147024865/1349976.html
کفر و شرک اور بدعت کے علاوہ اور بہت سے بڑے گناہ ہیں جن کو کبیرہ گناہ کہتے ہیں- کبیرہ گناہ شرع میں اس گناہ کو کہتے ہیں جس کو شرع شریف میں حرام کہا گیا ہو اور اس پر کوئی عذاب مقرر کیا ہو یا اور طرح سے اس کی مذمت کی ہو اور یہ وعید حرمت و مذمت قرآن پاک یا کسی حدیث سے ثابت ہو، :کبیرہ گناہ بہت سے ہیں جن کا احاطہ مشکل ہے. کچھ کبائر یہ ہیں غیبت یعنی کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کرنا، جھوٹ بولنا،
https://www.majzoob.com/1/13/131/1310410.htm
…..
ہمارے دین کامل اسلام میں جھوٹ بہت بڑا عیب اور بد ترین گناہ کبیرہ ہے۔ جھوٹ کا مطلب ہے ”وہ بات جو واقعہ کے خلاف ہو“ یعنی اصل میں وہ بات اس طرح نہیں ہوتی جس طرح بولنے والا اسے بیان کرتا ہے۔ اس طرح وہ دوسروں کو فریب دیتا ہے جو اللہ اور بندوں کے نزدیک بہت برا فعل ہے۔ جھوٹ خواہ زبان سے بولا جائے یا عمل سے ظاہر کیا جائے، مذاق کے طور پر ہو یا بچوں کو ڈرانے و بہلانے کےلئے ہر طرح سے گناہ کبیرہ اور حرام ہے۔
جھوٹ ام الخبائث (برائیوں کی جڑ) ہے۔ کیونکہ اس سے معاشرے میں بے شمار برائیاں جنم لیتی ہیں۔ جھوٹ بولنے والا ہر جگہ ذلیل وخوار ہوتا ہے۔ ہر مجلس میں اور ہر انسان کے سامنے بے اعتبار و بے وقار ہو جاتا ہے۔ جھوٹ بولنے سے دنیا و آخرت کا نقصان، عذاب جہنم اور قبر کی قسم قسم کی سزاؤں میں مبتلا ہوتا ہے۔ جھوٹ بولنے سے آدمی اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں ،نبیوں اور ولیوں کی رحمت و عنایت سے دور ہوجاتا ہے۔ جھوٹے آدمی پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔ جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ اور چہرہ بے رونق ہو جاتا ہے۔ رزق میں برکت ختم ہو جاتی ہیں۔
جھوٹ غم و فکر پیدا کرتا ہے کیونکہ ایسا آدمی وقتی طور پر مطمئن ہوجاتا ہے۔ لیکن بعد میں اس کا ضمیر اسے ہمیشہ ملامت کرتا رہتا ہے ۔جس کے نتیجے میں وہ اطمینان قلب کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے ۔
جھوٹ گناہوں کا دروازہ ہے کیونکہ ایک جھوٹ بول کر اسے چھپانے کےلیے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں اس قبیح عادت کو چھوڑنے کی سختی سے تاکید کی گئی ہے۔
قرآن حکیم میں جھوٹ کی مذمت:
ارشاد خدا وندی ہے۔ ”ان کے دلوں میں مرض ہے تو اللہ نے ان کے مرض میں اضافہ کر دیا۔ اور ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کے “لئے درد ناک عذاب ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
“بے شک اللہ تعالیٰ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا ۔جو حد سے بڑھنے والا جھوٹا ہو۔”
جھوٹ کی مذمت میں احادیث کریمہ:
رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ صدق کو لازم کر لو! کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے۔ آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے اللہ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔
نبی ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے۔ مزید فرمایا کہ بڑی خیانت کی بات یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس میں سچا جان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔
ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: کہ مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ فرمایا: ہاں، پھر عرض کیا گیا کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے؟ فرمایا: ہاں، پھر پوچھا گیا: کیا مومن کذاب (جھوٹا) ہو سکتا ہے؟ فرمایا: نہیں۔ نبی کریمﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے نہ کلام کرے گا نہ ان کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا، بلکہ انہیں درد ناک عذاب دے گا۔ وہ تین آدمی بوڑھا زانی ،جھوٹا بادشاہ اور متکبر فقیر ہیں۔
غرض کہ جھوٹ کی بیماری سراسر نقصان کا ہی سودا ہے، اور ہم کتنے مزے سے صرف وقت گزاری کے لئے کیسے جھوٹ پہ جھوٹ بول کر اپنی قبر بھرتے ہیں۔ مزید کچھ احادیث جن میں(اُن مردوں) کے بارے میں حکم ہے جو کہ مخنث/عورت بنتے ہیں۔
http://www.antidajjalmission.com/5700/%D8%AC%DA%BE%D9%88%D9%B9%D8%8C-%D9%81%D8%B1%DB%8C%D8%A8%D8%8C-%D8%AF%DA%BE%D9%88%DA%A9%DB%81-%D8%AF%D8%AC%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D9%BE%DB%8C%D8%B1%D9%88%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%D9%86%DB%81-%D8%A8/
———–
…………
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/%D8%B5%D8%BA%DB%8C%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D8%A8%DB%8C%D8%B1%DB%81-%DA%AF%D9%86%D8%A7%DB%81/2017-02-20