جسمانی امراض اور مسواک

حکیم ایس ایس اقبال اخبارِ جہاں میں لکھتے ہیں کہ میرے پاس ایک مریض آیا جس کے دل کی جھلیوں میں پیپ بھر ی ہوئی تھی اور دل کا علاج کرتے رہے ۔ افاقہ نہ ہوا آخر دل کا آپریشن کر کے پیپ نکال لی گئی ہے کچھ عرصے کے بعد پھر پیپ بھر گئی ۔ تھک ہار کر میرے پاس آئے تو میں نے تشخیص کی تو پتہ چلا کہ اس کے مسوڑھے خراب ہیں اور ان میں پیپ پڑی ہوئی ہے اور وہ پیپ دل کو نقصان پہنچا رہی ہے اس تشخیص کو ڈاکٹروں نے بھی تسلیم کیا ہے ۔
اب اس کا پہلا علاج دانتوں اور مسوڑھوں کا کیا گیا ۔ کھانے کیلئے کچھ ادویہ اور پیلو کا مسواک استعمال کرنے کیلئے دیا ۔ بہت جلد مریض نے افاقہ محسوس کیا ۔
مسواک اور منہ کی بدبو
ایک صاحب منہ کی بدبو کیلئے اعلیٰ قسم کی ٹوتھ پیسٹ استعمال کر چکے تھے ادویات منجن اور طرح طرح کی دافع تعفن ادویہ استعمال کیں ۔ مشورہ کیا تو پیلو کا مسواک استعمال کرنے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی یہ احتیاط بتائی کہ روزانہ مسواک کے ریشے نئے ہوں یعنی روزانہ ان ریشوں کو کاٹتے رہیں اور نئے ریشے استعمال کرتے رہیں (یہ آدمی کیلئے ضروری ہے ورنہ مسواک کے فوائد مطلوبہ سے محرومی ہوگی ) تھوڑے عرصے کے بعد وہ تندرست ہوگیا ۔
ایک صاحب عقل نے بڑی حکیمانہ اور پرلطف بات کہی کہ جب سے ہم نے مسواک چھوڑا ہے اس دن سے ڈینٹل سرجن کی ابتدا ہوئی ۔
مسواک اور بابا گرونانک
گرو نانک کے متعلق مشہور ہے کہ وہ مسواک ہاتھ میں رکھتے تھے اور دانتوں کو مسواک کرتے رہتے تھے اور فرماتے تھے یہ لکڑی لے لو یا پھر بیماری لے لو ۔ کتنی گہری بات ہے کہ مسواک لے تو امراض ختم ورنہ امراض سے واسطہ پڑنا ایک ضروری بات ہے ۔
مسواک کرنے سے منہ کے اندر ایسی لہریں پیدا ہوجاتی ہیں جس سے تلاوت ، تسبیح اور حمدِ الٰہی میں مزہ اور آسانی ہوتی ہے ۔
برش اور مسواک
ماہرین جراثیم کی برسہا برس کی تحقیق کے بعد یہ بات پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے کہ جس برش کو ایک دفعہ استعمال کیا جائے اس کا استعمال صحت اور تندرستی کیلئے اس وقت مضر ہے جب اس کو دوبارہ استعمال کیا جائے ۔ کیونکہ اس کے اندر جراثیموں کی تہہ جم جاتی ہے اگر اس کو پانی سے صاف کیا بھی جائے تو جراثیم مصروف نشو ونما رہتے ہیں ۔ دوسری بات برش دانتوں کے اوپر چمکیلی اور سفید تہہ کو اتار دیتا ہے جس کی وجہ سے دانتوں میں خلا پیدا ہو جاتا ہے اور دانت آہستہ آہستہ مسوڑھوں کی جگہ چھوڑتے جاتے ہیں ۔ اس لیے غذا کے ذرات خلائوں میں پھنس کر مسوڑھوں اور دانتوں کیلئے نقصان کا باعث بنتے ہیں ۔
مسواک
ہر اس لکڑ ی کا مسواک دانتوں کیلئے موزوں ہوتا ہے جس کے ریشے نرم ہوں اور دانتوں کے درمیان خلائوں کو زیادہ نہ کریں اور مسوڑھوں کو زخمی نہ کریں لیکن ان میں سب سے زیادہ اہم تین قسم کی لکڑی کے مسواک ہیں :
۱۔ پیلو کا مسواک
۲ ۔ کنیر کا مسواک
۳۔ نیم یا کیکر کا مسواک
مسواک کے خاص اوقات اور مواقع
ہمارے علمائے کرام نے ان ہی احادیث کی بنا پر لکھا ہے کہ مسواک کرنا یوں تو ہر وقت میں مستحب اور باعث اجر وثواب ہے لیکن پانچ موقعوں پر مسواک کی اہمیت زیادہ ہے ۔ وضو میں ، نماز میں کھڑے ہوتے وقت ، (اگر وضو اور نماز کے درمیان زیادہ فصل ہوگیا ہو ) اور قرآن مجید کی تلاوت کیلئے ، اور سوتے سے اٹھنے کے وقت اور منہ میں بدبو پیدا ہوجانے، یا دانتوں کے رنگ میں تغیر آجانے کے وقت ان کی صفائی کیلئے ۔
سونے کے بعد اٹھنے پر ، وضو کرتے وقت ، قرآن مجید کی تلاوت کیلئے ، حدیث شریف پڑھنے اور پڑھانے کیلئے ، ذکرِ الٰہی کرنے سے پہلے ، سفر سے آنے کے بعد ، سونے سے قبل ، خانہ کعبہ یا حطیم میں داخل ہونے کے وقت ، اپنے گھر میں داخل ہونے کے بعد، بیوی سے مقاربت سے پہلے ، کسی بھی مجلس خیر میں جانے سے پہلے ، بھوک پیاس لگنے کے وقت ، موت آثار پیدا ہوجانے سے پہلے ، سحری کے وقت ، کھانا کھانے سے قبل ، سفر میں جانے سے قبل ۔
مسواک سے متعلق چند خاص باتیں
مسواک کے متعلق سنتیں :
مسواک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مسواک داہنے ہاتھ میں اس طرح لے کہ مسواک کے ایک سرے کے قریب انگوٹھا اور دوسرے سرے کے نیچے اخیر کی انگلی اور درمیان میں اوپر کی جانب اور انگلیاں رکھے اور مٹھی باندھ کر نہ پکڑے اور پہلے اوپر کے دانتوں کے طول میں داہنی طرف کرے پھر بائیں طرف اسی طرح پھر نیچے کے دانتوں میں اسی طرح اور ایک بار مسواک کرنے کے بعد مسواک کو منہ سے نکال کر نچوڑ دے اور ازسرِنو پانی سے بھگو کر پھر کرے اسی طرح تین بار کرے ۔ اس کے بعد مسواک کو دھوکر دیوار وغیرہ سے کھڑی کر کے رکھ دے ۔ زمین پر ویسے ہی نہ رکھ دے دانتوں کی عرض میں مسواک نہ کرنا چاہیے ۔
لمبائی میں ایک بالشت ہونا چاہیے استعمال سے تراشتے تراشتے اگر کم ہوجائے تو مضائقہ نہیں موٹائی میں انگوٹھے سے زیادہ نہ ہو ، سیدھی ہو گرہ دار نہ ہو اگر مسواک نہ ہو یا دانت نہ ہوں تو کپڑے یا انگلی سے مسواک کا کام لینا چاہیے ۔