علامہ ابوالحسن علی بن ابی بکر المرغینانیی متوفی 593 ھجری نے جامع الصغیر اور مختصر القدوری سے مسائل کا انتخاب کرکے “بدایة المبتدی” نامی کتاب تصنیف فرمائی تھی، پھر اس کی شرح “کفایة المنتھی” کے نام سے 80 ضخیم جلدوں میں فرمائی۔ طوالت کی بنیاد پر کفایہ سے استفادہ عام طور پر مشکل تھا۔اسلئے بدایة المبتدی کی ایک مختصر شرح “ھدایہ” کے نام سے لکھی۔ جو 4 جلدوں میں ہے۔ پہلی دو جلدیں”اولین” اور آخری دو جلدیں “آخرین” کے نام سے مشہور ہے۔
تیرہ 13 سال کا طویل عرصہ ھدایہ کی تصنیف میں صرف ہوا۔ اور کمال ہے کہ صاحب کتاب ایام منہیہ کو چھوڑ کے اس پوری تیرہ سالہ مدت میں روزہ دار رہے۔
مسائل کے بیان میں صاحب کتاب نے فقہ کی عمومی ترتیب: عبادات، معاملات، معاشرت اور عقوبات کا لحاظ فرمایا ہے۔ مسائل کے اثبات کے لئے کتاب اللہ ، احادیث مبارکہ، اور آثار صحابہ سے استدلال کیا گیا ہے۔
کتاب، باب، اور فصل کے عنوان کے تحت مسائل بیان کئے گئے ہیں۔
کتاب کے تحت مختلف اجناس، باب کے تحت مختلف انواع، اور فصل کے تحت ایک ہی نوع کے مسائل ذکر کئے گئے ہیں۔
کتاب کی سب سے امتیازی اور انفرادی خصوصیت یہ ہے کہ مسائل کو عقلی ونقلی ہر دو دلائل سے ثابت کیا گیا ہے۔ کتاب کے اسلوب بیان، عبارتوں کی روانی اور شستگی سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ادب عربی کے اعلی معیار کی کوئی شاہکار ہے!
کتاب میں پہلے بدایة المبتدی (جو جامع الصغیر للامام محمد 189۔اور مختصر القدوری لابی الحسین احمد القدوری م 428 ھجری سے انتخاب ہے) کی عبارت ذکر فرماتے ہیں۔ پہر اس کی جامع و مانع شرح فرماتے ہیں۔ مصنف کا عمومی طرز یہ ہے کہ فقہائے متبوعین کے اقوال بیان فرماتے ہیں۔ انکے دلائل ذکر فرماتے ہیں۔جو قول مصنف کی نظر میں راجح ہو اسے آخر میں بیان فرماتے ہیں۔ اور اس کی دلیل بھی آخر میں ذکر کرتے ہیں جو فقہاء کے دلائل کا جواب ہوتی ہے۔
کتاب اپنی انہی خصوصیات وکمالات کی بنیاد پر صدیوں سے ہند و پاک کے مدارس عربیہ میں زینت تدریس بنی ہوئ ہے۔جو حضرات فقہ حنفی سے ظاہری عناد رکھے ہوئے ہیں۔ اور جو علم فقہ کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں ان کے مدارس میں بھی ھدایہ شامل نصاب ہے۔ والفضل ما شھدت بہ الاعداء۔
کتاب کی تشریح و توضیح میں علماء امت کی صدیوں سے بہترین ذہانتیں صرف ہوئ ہیں۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے۔شروحو حواشی لکھے گئے۔
عربی میں شیخ اکمل الدین محمد بن محمود البابرتی متوفی 786 ھجری کی “العنایہ”۔ بدرالدین محمود بن احمد العینی متوفی 855 ھجری۔ کی “البنایہ” اور کمال الدین محمد بن عبد الوھاب المعروف بابن الھمام متوفی 861 ھجری کی “فتح القدیر”
خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔
اردو شروحات میں مولانا محمد مالک اور مولانا محمد میاں فرزندان مولانا محمد ادریس کاندھلوی کی
“سراج الھدایہ”۔ مولانا محمد حنیف گنگوھی کی “السعایہ” اور حضرت الاستاذ مولانا محمد جمیل سکڑوڈوی (میرے افتاء کے سال ہی حضرت دارالعلوم تشریف لائے تھے۔ “قواعد الفقہ” ان سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا) کی “اشرف الھدایہ”
قابل ذکر ہے۔
انگریزی میں “ہملٹن” نامی شخص نے ترجمہ کرکے لندن سے شائع کیا ہے۔۔۔۔۔۔فارسی میں مولانا غلام یحی خان نے ترجمہ کیا ہے۔
شیخ جلال الدین عمر بن محمد الخبازی متوفی 691 ھجری۔ نے “حاشیہ ھدایہ” کے نام سے اور شیخ نجم الدین ابو الطاھر اسحاق بن علی متوفی 711 ھجری نے “حواشی ھدایہ” کے نام سے۔ اور فاضل لکنوی مولانا عبدالحی فرنگی محلی متوفی 1303 ھجری نے “مقدمة الھدایہ” کے نام سے گراں قدر اور بیش قیمت حواشی تحریر فرمائے ہیں۔
کتاب میں مسائل کے اثبات کے لیئے جن احادیث سے استدلال کیا گیا ہے، انکی تخریج کے سلسلہ میں بھی علماء نے “کار” نہیں، “کارہائےنمایاں” انجام دیئے ہیں۔شیخ جمال الدین یوسف الزیلعی متوفی 762 ھجری نے “نصب الرایہ لاحادث الھدایہ”
شیخ محی الدین عبدالقادر محمد بن القرشی متوفی 775 ھجری نے “العنایہ فی تخریج احادیث الھدایہ:
اور حافظ احمد بن علی بن حجر العسقلانی الشافعی متوفی 852ھج۔
نے “الدرایہ فی احادیث الھدایہ” کے نام سے تخریج احادیث پہ کتابیں لکھی ہیں ۔
حافظ نے ھدایہ کی جن احادیث کے بارے میں “لم اجد” یا ” لا ادری” کہا ہے، ان تمام احادیث کی حافظ الحدیث علامہ قاسم بن قطلو بغا متوفی 879 ھجری نے “منیةالالمعی فی ما فات الزیلعی” میں تخریج کردی ہے۔۔ لہذا حافظ کے “لم اجد” یا لا ادری جیسے الفاظ کو بہانہ بنا کر “منکرین فقہ” کا عوام کو فقہ حنفی سے بدظن کروانے کا “مذموم وشاطرانہ” عمل، فن حدیث سے نا واقفیت اور “فقہ دشمنی” کے سوا کچھ نہیں۔
صاحب کتاب بیان مسائل کے دوران ،گذری ہوئ قرآنی آیت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے “ماتلونا” اور دلیل عقلی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے “ماذکرنا” اور حدیث کی طرف اشارہ کرنے کے لیئے”ماروینا” اور ان تمام دلائل کی طرف اشارہ کرنے کے لیئے ” لما بینا” کی اپنی مخصوص اصطلاحوں کا استعمال فرماتے ہیں۔
شکیل منصور القاسمی