بٹ کوائن یا ڈیجیٹل کرنسی کی شرعی حیثیت
سوال # 154241
آج کل انٹرنیٹ پر ”بٹ کوائن“ بہت زیادہ چل رہا ہے۔ بٹ کوئن ڈیجیٹل کرنسی ہے جو کہ ایک بٹ کوئن آج 430565 پاکستانی روپے کا ہے۔ اس میں آپ اپنے پیسوں سے بٹ کوئن خرید لیتے ہیں اور پھر آپ کو روزانہ کی بنیاد (daily bases) پر بٹ کوئن کے ریٹ کے حساب سے پیسے آتے رہتے ہیں۔ اور اگر آپ کسی کو ریفر (reffer) کرتے ہوں اس میں تو اس کا کمیشن الگ سے آتا ہے۔ میرے بہت سے دوست یہ کام کرتے ہیں اور ماہانہ اچھی خاصی اِنکم کما رہے ہیں۔ اور ان کے کہنے پر میں اس میں پیسے لگانا چاہتا ہوں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ:۔
کیا اس کام سے کمائی گئی رقم حلال ہے یا حرام؟ مزید آپ خود بھی اس کے بارے میں انٹرنیٹ سے پڑھ لیجئے گا۔
Published on: Oct 7, 2017
جواب # 154241
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1418-1441/N=1/1439
بٹ کوائن یا کوئی بھی ڈیجیٹل کرنسی، ایک محض فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف وشرائط بالکل نہیں پائی جاتیں۔ اور آج کل بٹ کوئن یا ڈیجیٹل کرنسی کی خرید وفروخت کے نام سے نیٹ پر جو کاروبار چل رہا ہے، وہ محض دھوکہ ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مبیع وغیرہ نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کاروبار میں بیع کے جواز کی شرعی شرطیں پائی جاتی ہیں؛ بلکہ در حقیقت یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی شکل ہے، اس لئے بٹ کوائن یا کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی کی خرید وفروخت کی شکل میں انٹرنیٹ پر چلنے والا کاروبار شرعاًحلال وجائز نہیں ہے، لہٰذا بٹ کوائن یا کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی کے نام نہاد کاروبار میں نہ شرکت کی جائے اور نہ کسی کے لئے دلالی کی جائے۔ اور مزید تفصیل کے لئے سابقہ دو فتوے (۲۳۸/ن، ۸۸۱/ن، ۱۴۳۸ھ۔ ۴۶۰/ن، ۸۹۶/ن، ۱۴۳۸ھ) بھی منسلک ہیں، انھیں بھی ملاحظہ کرلیا جائے۔
……………
قال اللّٰہ تعالی: وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)، یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون (المائدة، ۹۰)، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:إن اللہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر(المسند للإمام أحمد،۲: ۳۵۱، رقم الحدیث: ۶۵۱۱)، ﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة (معالم التنزیل ۲: ۵۰)، لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخریٰ۔ وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص(رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة،باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹: ۵۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وقال اللہ تعالی :ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان (سورة المائدة، رقم الآیة: ۲)۔
………
آپ نے بٹ کوائن (bitcoin) کے بارے میں سنا ہوگا، یہ ڈیجیٹل کرنسی ہے اس کی قیمت سونے کی طرح اوپر نیچے ہوتی ہے، پانچ سال پہلے اس کی قیمت صرف پانچ ڈالر تھی اور اب ۷۵۰/ ڈالر ہے۔ اس کے بعد اور بہت ساری ڈیجیٹل کرنسیوں نے مارکیٹ میں جنم لیا جیسے اِتھیریوم (ETHEREUM) ، داش (DASH) اور ایسی بیش بہا کرنسیاں وجود میں آئیں، یہ ساری کرنسیاں بٹ کوئن (bitcoin) کے عوض خریدی جاتی ہیں اور اوپر نیچے منافع کم کرکے بیچ دیئے جاتے ہیں۔ کچھ مشہور ویب سائٹس جہاں بٹ کوئن کے بارے میں آپ پڑھ سکتے ہیں وہ ویب سائٹ https://blockchain.info/\nhttps://www.coinbase.comجہاں بٹ کوئن کے عوض باقی کوئن کی خرید و فروخت ہوتی ہے وہ بھی کافی ہیں، کچھ مثال کے طور پر درج ذیل ہیں: https://poloniex.com/exchange\nhttps://btc-e.com۔ اسی سے متعلق میرے دو سوالات ہیں:
(۱) کیا میں اپنی کچھ رقم بٹ کوئن کی صورت میں محفوظ کر سکتا ہوں جیسے کہ لوگ سونا یا مال و زر کی صورت میں محفوظ رکھتے ہیں یا زمین جائداد کی صورت میں، کیونکہ یہ بٹ کوئن کی اپنی قیمت بڑھا رہا ہے، پانچ سال پہلے ۵۰۰/ پاکستانی روپئے کا تھا اور آج ۷۰/ ہزار روپئے کا ہے۔
(۲) کیا اس بٹ کوئن کے عوض میں تجارت کر سکتا ہوں؟ مجھے علم ہے کہ فیروکس (forex) تو حرام ہے، شاید کچھ صورتیں اُس میں حلال ہوں مگر میں شک کی بنیاد پر فیروکس (forex) نہیں کرتا، مگر کیااس بٹ کوئن کی تجارت بھی حرام ہے جب میرا مقصد بٹ کوئن کے عوض کوئی کوئن خرید کر اس کو اپنے پاس رکھنا ہے اور جب اس کی قیمت بڑھ جائے تو واپس بیچ کر بٹ کوئن کی صورت میں منافع کما لینا ہے۔
میں نے ایکسچینج کے معاملے میں فتویٰ پڑھا ہے اور پوچھا بھی ہے کہ ڈالر اور پاوٴنڈ یورو کے بارے میں، میں لوگوں سے سستا لے کر آگے مہنگا بیچتا ہوں، اُن علماء نے کہا کہ
ایکسچینج جائز ہے۔
برائے مہربانی میرے بٹ کوائن کے معاملے میں رہنمائی فرمائیں، میں اپنی اضافی رقم بٹ کوئن کی صورت میں سنبھالنا چاہتا ہوں، کیونکہ یہ بھی زر اور زمین کی طرح اپنی مالیت کو بڑھاتا ہے اور منافع کا سبب بنتا ہے۔
Fatwa: 238-881/N=1/1439
(۱، ۲): آج کل دنیا میں جو مختلف کرنسیاں رائج ہیں، وہ فی نفسہ مال نہیں ہیں، وہ محض کاغذ کا ٹکڑا ہیں، ان میں جو مالیت یا عرفی ثمنیت پائی جاتی ہے ، وہ دو وجہ سے ہے؛ ایک تو اس وجہ سے کہ ان کے پیچھے ملک کی اقتصادی چیزیں ہوتی ہیں، اسی لئے ملک کی اقتصادی ترقی اور انحطاط کا کرنسی کی ویلیو پر اثر پڑتا ہے، یعنی: اقتصاد ہی کی وجہ سے ملک کی کرنسی کی ویلیو گھٹتی بڑھتی ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہر ملک عوام کے لیے اپنی کرنسی کا ضامن وذمہ دار ہوتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ملک اپنی کوئی کرنسی بند کرتا ہے تو کرنسی محض کاغذ کا نوٹ بن کر رہ جاتی ہے اور اس کی کوئی ویلیو یا حیثیت باقی نہیں رہتی۔ اب سوال یہ ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی کے پیچھے کیا چیز ہے جس کی وجہ سے اس کی ویلیو متعین ہوتی ہے اور اس کی ترقی اور انحطاط سے کرنسی کی ویلیو گھٹتی بڑھتی ہے؟ اسی طرح اس کرنسی کا ضامن وذمہ دار کون ہے؟ نیز کرنسی کی پشت پر جو چیز پائی جاتی ہے، کیا واقعی طور پر اس پر کرنسی کے ضامن کا کنٹرول ہوتا ہے یا یہ محض فرضی اور اعتباری چیز ہے؟
ڈیجیٹل کرنسی کے متعلق مختلف تحریرات پڑھی گئیں اور اس کے متعلق غور کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ڈیجیٹل کرنسی محض ایک فرضی چیز ہے اور اس کا عنوان ہاتھی کے دانت کی طرح محض دکھانے کی چیز ہے اور حقیقت میں یہ فاریکس ٹریڈنگ وغیرہ کی طرح نیٹ پر جاری سٹے بازی اور سودی کاروبار کی شکل ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مبیع وغیرہ نہیں پائی جاتی اور نہ ہی اس کے کاروبار میں بیع کے جواز کی شرعی شرطیں پائی جاتی ہیں۔
پس خلاصہ یہ کہ بٹ کوائن یا کوئی اور ڈیجیٹل کرنسی، محض فرضی کرنسی ہے، حقیقی اور واقعی کرنسی نہیں ہے، نیزکسی بھی ڈیجیٹل کرنسی میں واقعی کرنسی کی بنیادیں صفات نہیں پائی جاتیں، نیز ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار میں سٹہ بازی اور سودی کاروبار کا پہلو معلوم ہوتا ہے؛ اس لیے بٹ کوئن یا کسی اور ڈیجیٹل کرنسی کی خرید اری کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح بٹ کوئن یا کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی کی تجارت بھی فاریکس ٹریڈنگ کی طرح ناجائز ہے؛ لہٰذا اس کاروبار سے پرہیز کیا جائے ۔
قال اللّٰہ تعالی: وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵) ، یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون ( المائدة، ۹۰) ، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر (المسند للإمام أحمد، ۲: ۳۵۱، رقم الحدیث: ۶۵۱۱) ، ﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة (معالم التنزیل ۲: ۵۰) ، لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخریٰ۔ وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹: ۵۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)
……………
ڈیجیٹل کرنسی، ون کوائین یا بٹ کوائین کی شرعی حیثیت
س: علمائے کرام سے ایک اہم مسئلہ کے بارے میں رہنمائی مطلوب ہے:
آج کل انٹرنیٹ پر ڈیجیٹل کرنسی کی کئی کمپنیاں کام کر رہی ہیں، بقول ان کے ایک ایسا دور آنے والا ہے یا آچکا ہے جب دنیا میں کاغذ کے نوٹ ختم ہو جائیں گے اور اس کی جگہ ڈیجیٹل کرنسی لے لیگی، اور واقعی دنیا کے کئی بڑے بڑے بینکوں نے اس کرنسی کو قبول کر بھی لیا ہے اور وہ رجسٹرڈ ہو چکی ہیں ۔ اور کئی ممالک میں ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعے آن لائن خرید و فروخت شروع ہو چکی ہے ۔ ان کمپنیوں میں سے ایک کمپنی ون کوئین “OneCoin” کے نام سے کام کر رہی ہے ، جو اپنی ایک ڈیجیٹل کرنسی متعارف کروارہی ہے . اور بہت سارے لوگ منافع کمانے کی غرض سے دھڑا دھڑ اس کمپنی کے ممبر بنتے جا رہے ہیں ۔ اس کمپنی کا ماننا ہے کہ: ڈیجیٹل کرنسی تبھی عام ہوگی جب لوگ اس کو استعمال کرنا شروع کریں گے؛ اس لیے اس کمپنی نے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اس میں سرمایہ کاری کرنے پر کئی منافع بخش طریقے فراہم کیے ہیں :
1. پہلا طریقہ : منافع حاصل کرنے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ: جو اس کمپنی کی رکنیت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے 100 یورو سے لے کر 28000 یورو تک میں کوئی ایک پکیج حاصل کرنا ہوتا ہے.(کمپنی ان پیکجز کو ایجوکیشن پیکجز یا تعلیمی پیکجز کا نام دیتی ہے) اس کے ساتھ ساتھ ان پیکجز کے بدلے کمپنی اس ممبر کو ٹوکنز Tokens بھی دیتی ہے. ان ٹوکنوں کی تعداد ہر پیکج کے حساب سے الگ الگ ہے ، پھر کچھ عرصہ (تقریبا 90 دن) گزرنے کے بعد کمپنی ان ٹوکنوں کو دوگنا کر دیتی ہے. ٹوکنز دگنا ہونے کے بعد ممبران کو اختیار حاصل ہوتا ہے کے وہ ان ٹوکنز کو ڈیجیٹل کوئینز(سکّوں) میں تبدیل کروا لیں ، جو کمپنی فری میں کر کے دیتی ہے ۔ ڈیجیٹل کوئینز حاصل کرنے کے بعد ہر صارف کو اختیار حاصل ہوتا ہے کے وہ ان کوئینز کو بیچ سکے، اس طرح صارف کو تقریبا دوگنا فائدہ حاصل ہوتا ہے ؛ کیوں کہ کوئینز اچھی قیمت میں بک جاتے ہیں ۔
2. دوسرا طریقہ: منافع حاصل کرنے کا دوسرا طریقہ Compensation Plan کا ہے ،جو کہ اختیاری ہے لازمی نہیں ہے، یعنی اگر کسی کو فائدہ حاصل کرنا ہو تو وہ اس طریقے کو اختیار کرے ورنہ نہیں ۔ پھر اس کی بھی تین صورتیں ہیں۔ پہلی صورت Direct sale کی ہے: یعنی جو بندہ کمپنی کی رکنیت حاصل کرلے اور اس کے بعد وہ کسی کو بھی کمپنی کے بارے میں بتائے اور وہ بندہ اس کے اکاؤنٹ کے تحت کمپنی کا ممبر بن جائے تو وہ نیا آنے والا ممبر جتنے پیسوں کی سرمایہ کاری کرتا ہے اس کا دس فیصد 10% کمپنی پہلے والے ممبر کو دیتی ہے جو اس کے آنے کا سبب بنا ، اور یہ ادائیگی ایک دفعہ ہوتی ہے۔ دوسری صورت Network Bonus کی ہے: اس صورت میں کسی بھی ممبر کے تحت دائیں اور بائیں جانب جتنے بھی لوگ بالواسطہ یا بلاواسطہ ممبر بنتے ہیں ان کی ہفتہ وار مجموعی سرمایہ کاری کا دس فیصد 10% حصہ کمپنی اس پہلے درجے والے ممبر کو ادا کرتی ہے جس کے نیچے ان کی رکنیت واقع ہوئی، اور یہ ادائیگی کمپنی ہفتے میں ایک دفعہ کرتی ہے۔ تیسری صورت Matching Bonus کی ہے: اس کی تفصیل یہ ہے کہ کوئی ممبر رکنیت حاصل کرنے کے بعد جن لوگوں کو ڈائریکٹ سپانسر کرکے کمپنی کا ممبر بنواتا ہے تو اس کو کمپنی کی اصطلاح میں First generation (پہلی نسل) کہتے ہیں، اور پہلی نسل یا درجے والے جن لوگوں کو ڈائریکٹ سپانسر کرکے کمپنی میں لاتے ہیں وہ پہلے والے ممبر کی دوسری نسل کہلاتے ہیں اسی طرح تیسری اور پھر چوتھی نسل تک سلسلہ ہوتا ہے۔ تو پہلی نسل یا درجے کے ممبر ہفتہ وار Network Bonus سے جتنا کماتے ہیں اس کا دس فیصد 10% پہلے والے ممبر کو ملتا ہے ۔اسی طرح دوسری تیسری اور چوتھی نسل والوں کی ہفتہ وار کمائی کے حساب سے پہلے والے رکن کو ملتا رہتا ہے ۔اور یہ Matching Bonus بونس ہفتے میں ایک دفعہ اور چار نسلوں یا درجوں تک دس فیصد کے حساب سے ملتا ہے چار سے زیادہ نہیں ۔ اس کے علاوہ کمپنی کبھی کبھار ڈیجیٹل کرنسی (Coins) کے حامل ممبران کے لیے ایک اور اضافی پیشکش بھی کرتی ہے کہ :کمپنی میں ان کے جتنے بھی کوئینز موجود ہیں، مقررہ تاریخ کو وہ تعداد دوگنی ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپنی کئی ایک کئی قسم کے بونس اور ایوارڈ مختلف ممبران کو وقتا فوقتاً ان کی کارکردگی کے حساب سے دیتی رہتی ہے۔
برائے مہربانی اس ساری تفصیل کی روشنی میں چند سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں:
سوال 1 : اس کمپنی میں منافع حاصل کرنے کا جو پہلا طریقہ مذکور ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
سوال 2 : منافع حاصل کرنے کے دوسرے طریقے کی تین صورتیں ہیں ہر ہر صورت کا شرعی حکم کیا ہے ؟
سوال 3 : تمام ممبران کے کوئینز کو کسی مقررہ تاریخ پر دوگنا کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
سوال 4 : اہم سوال یہ ہے کہ اگر کوئی اس کمپنی میں صرف کوئینز حاصل کرنے کے لیے رکنیت حاصل کرلے اور Networking کے ذریعے مزید لوگوں کو کو رکن نہ بنائے تو کیا شرعًا ایسا کرنا صحیح ہو گا؟
سوال 5 : عمومی طور پر اس کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا شریعت اسلامیہ کی نظر میں کیسا ہے؟
ج: ڈیجیٹل کرنسی کا معاملہ تاحال مشتبہ ہے اورپاکستان میں اسے قانونی کرنسی کی حیثیت بھی حاصل نہیں ہے ؛ اس لیے اس کی خریدوفروخت نیز اس کے ذریعہ کاروبار کی کسی بھی شکل سے گریز کرنا چاہیے۔تفصیلی فتویٰ ہمارے ماہنا مہ “بینات ” میں شائع ہوچکا ہے ، آپ درج ذیل لنک سے حاصل کرسکتے ہیں:
http://www.banuri.edu.pk/web/uploads/2017/04/9-rajab_1438.pdf
فقط واللہ اعلم
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/%DA%88%DB%8C%D8%AC%DB%8C%D9%B9%D9%84-%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%B3%DB%8C-%D9%88%D9%86-%DA%A9%D9%88%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%86-%DB%8C%D8%A7-%D8%A8%D9%B9-%DA%A9%D9%88%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%B1%D8%B9%DB%8C-%D8%AD%DB%8C%D8%AB%DB%8C%D8%AA/2016-09-24