اربابِ مدارس کی خدمت میں


مدرسہ مرکب ہے تین عناصر سے:
1. اربابِ انتطام،
2. اساتذہ اور
3. طلبہ،
یہ تینوں عناصر درست ہوں، ان میں باہم موافقت ہو اور سب اپنی اپنی ذمہ داریاں بحسن وخوبی انجام دے رہے ہوں تو مدرسہ عمدہ چلتا ہے۔ بات بہت طویل نہیں ہے۔ خلاصہ صرف اتنا ہے کہ یہ تینوں عناصر اپنے پیش نظر تمام امور ومعاملات میں اللہ اور رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے احکام وہدایات کو رکھیں، حتی الامکان وہی کام کریں جو شریعت کی جانب سے ان پر لازم ہو، مدرسہ علم دین کی درس گاہ ہے۔ کس کام کا دینی حکم کیا ہے؟ اس کا علم مدرسہ میں بہت آسان ہے۔ بس آدمی اپنے کو پابند رکھے کہ وہ شریعت کے دائرہ سے باہر نہیں نکلے گا اگر کسی معاشرہ میں یہ اہتمام ہوتو اﷲ تعالیٰ کی رضاورحمت مسلسل برسے گی۔
اربابِ انتظام کی ذمہ داری یہ ہے کہ ادارہ سے وابستہ کارکنان اور مالیات دونوں میں بہت حزم واحتیاط کو پیش نظر رکھیں۔ مدرسہ میں اساتذہ عموماً علماء ہوتے ہیں، علماء کا ایک خاص مقام ہوتا ہے، یہ علماء جو مدارس میں پڑھاتے ہیں۔ اربابِ انتظام کے لحاظ سے ان کی دو نسبتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ حضرات عالم دین ہیں اور اس حیثیت سے یہ بہت زیادہ قابل تکریم وتعظیم ہیں، اور دوسری حیثیت یہ ہے کہ یہ اپنی خدمات کا دنیوی معاضہ بصورت تنخواہ ارباب انتظام سے حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح ایک حیثیت ملازمت کی ہوجاتی ہے، اور اس حیثیت سے گویا یہ حضرات ارباب انتظام کے دست نگر ہوتے ہیں، اور ان کے سامنے اپنی خدمات کے سلسلے میں جواب دہ ہوتے ہیں، اپنی حاجات وضروریات کے سلسلے میں انھیں بسا اوقات درخواستیں ارباب انتظام کے سامنے پیش کرنی پڑتی ہیں ۔ یہاں اربابِ انتظام سے اکثر چوک ہوجاتی ہے، ان کے سامنے ان علماء کرام کی دوسری یعنی ملازمت والی حیثیت زیادہ نمایاں رہتی ہے۔ اور اسی تقاضے کے مطابق زیادہ عمل کرنے میں لگ جاتے ہیں، یہ ایک غلطی ہے ۔ اس کے نتیجے میں اہل انتظام اور اساتذہ کے درمیان دوری ہونے لگتی ہے۔
اہل انتظام اگر اساتذہ کے بارے میں ان کے علم وفضل کا لحاظ رکھیں اور ان کے ساتھ عظمت واحترام کا وہی معاملہ رکھیں جو شرعاً مطلوب ہے، قانونی معاملات میں بے شک دستور کی پابندی کریں، مگر اس طرح نہیں کہ ان حضرات کی بے وقعتی ہونے لگ جائے، خدمت میں کوتاہی ہوتو بے شک تنبیہ کی جائے، مگر اس طرح نہیں کہ ان کی اہانت ہوجائے، دوسرے ملازمین وطلبہ کے درمیان ان کی رسوائی ہوجائے، نہیں بلکہ اس طرح کہ ان کا احترام بھی برقرار رہے اور تنبیہ بھی ہو۔
دارالعلوم دیوبند کے ابتدائی مہتمم حضرت مولانا رفیع الدین صاحب نے ایک بار محسوس کیا کہ اساتذہ درس گاہوں میں قدرے تاخیر سے پہنچتے ہیں، انھوں نے کچھ کہا نہیں، انھوں نے اس دروازے پر جس سے اساتذہ گزرتے تھے چارپائی ڈال لی، اور وقت سے پہلے آکر بیٹھ جاتے، کچھ کام کرتے رہتے، اساتذہ نے خود بخود پابندی شروع کردی۔ ایک بزرگ استاذ اپنی بعض مشغولیات کی وجہ سے پھر بھی تاخیر سے آتے رہے، تو ان سے تنہائی میں بہت ادب سے کہا کہ:
حضرت آپ بہت مشغول رہتے ہیں ، تعلیم کے وقت کے کچھ کام میرے سپرد کردیں، میں انھیں انجام دوں گا۔ آپ وقت پر مدرسہ تشریف لایا کریں تاکہ طالب علموں کا نقصان نہ ہو۔
بعض مدارس میں ناظم اور مہتمم کی جانب سے مختلف قوانین اور ہدایات وقتاً فوقتاً جاری ہوتے رہتے ہیں، تعلیم یا انتظام سے متعلق کوئی بات آئی اسے بصورت قانون پیش کردیا جاتا ہے، اس طرح قوانین کی بھرمار ہوجاتی ہے، اور کسی قانون کی عمر چند روز سے زیادہ نہیں رہ پاتی، لیکن جن پر وہ قانون نافذ کیا جاتا ہے، ان کی طبیعتیں اچاٹ ہوجاتی ہیں۔ ایک بے دلی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، قانون کی وقعت ختم ہوجاتی ہے، اور علمی فضا پژمردہ ہوکر رہ جاتی ہے۔
بہت غور وفکر کے ساتھ چند اصولی اور ضروری قوانین مرتب کرلیں جن پر عمل درآمد کی پابندی کی جائے۔ باقی جزئی امور کو باہمی رابطہ سے درست کرلیا جائے انھیں اصولی اور قانونی شکل نہ دی جائے۔
اربابِ اقتدار بعض اوقات ایک بڑے مہلک ابتلاء میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور وہ ہے خوشامد پسندی ۔ حبِّ جاہ سے کون خالی ہوتا ہے، ہر ایک میں یہ مرض ہوتا ہے، بہت محنت اور بہت علاج کے بعد کہیں اس بیماری سے شفا ہوتی ہے۔ لیکن جب کسی کے ہاتھ میں اقتدار آجاتا ہے تو اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اپنی تعریف کی لامتناہی خواہش دل میں موجیں مارنے لگتی ہے، ہر وقت یہی دھن سوار رہتی ہے کہ لوگ تعریف کرتے رہیں، خواہ کوئی کام قابل تعریف ہو یا نہ ہو۔ اگر اتفاق سے کوئی تعریف کرنے والا نہیں ملتا تو ہر مجلس میں، ہر شخص سے خود اپنی اور اپنے کارناموں کی تعریف شروع کردیتے ہیں، عنوان خواہ کچھ اختیار کریں مگر مقصود اپنی تعریف ، مدح سرائی اور اپنی تشہیر ہوتی ہے، ان کی ماتحتی میں جو لوگ کام کرتے ہیں، وہ اس نکتہ کو پالیتے ہیں تو جو کوئی سفلہ پن کا شکار ہوتا ہے، وہ منہ بھر بھر کر ان کی تعریف کرتا ہے۔ جا بے جا ہاں میں ہاں ملاتا ہے، اس طرح کےلوگ دل سے نہیں مانتے بلکہ اپنی اغراض حاصل کرنے کیلئے چاپلوسی کرتے ہیں۔ یہ فرض منصبی کی ادائیگی میں چاہے کوتاہی کریں، مگر حاضر باشی، خوشامد گری، مدح سرائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اس سے حد سے بڑھی ہوئی خوشامد پسندی اور حب جاہ کی پیاس کو وقتی طور سے آسودگی ملتی ہے ، پھر یہ لوگ مقرب بن جاتے ہیں، اور معاملات کے سیاہ وسفید میں ان کا دخل ہوجاتا ہے، یہ لوگ کام کے بالکل نکمے ہوتے ہیں، مگر خوشامد ا نہ پالیسی کی بدولت مقبول ہوتے ہیں، اور جولوگ واقعی کام کرنے والے ہوتے ہیں، وہ ان چھچھوروں کی چیرہ دستیوں اور چغلخوریوں کی و جہ سے پریشان رہتے ہیں۔
حکومت سے لے کر مدارس ومساجد کے اہتمام وانتظام تک ہر جگہ یہ بیماری جڑ پکڑے ہوئے ہے۔ لیکن اس سے دین کا کتنا بڑا نقصان ہوتا ہے، اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، حب جاہ اور خوشامد پسندی کا لازمی ثمرہ کبر وغرور ہے۔ اور معلوم ہے کہ کبر وغرور کتنی زبردست معصیت ہے۔ ابلیس اسی سے تباہ ہوا۔ آدم کی اولاد کو تو یہ غلطی نہیں کرنی چاہئے۔
مدارس داخلی طور اس بیماری کی وجہ سے بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں، ہر شخص خوشامد کا یہ رویہ اپنا نہیں سکتا، پھر وہ اپنے ناکردہ گناہوں کی وجہ سے اربابِ اقتدار کی طرف سے برابر پریشان رہتا ہے۔
پھر یہ سوچنا چاہئے کہ نفس وطبیعت کا یہ جذبہ معاصی کی بنیاد پر ہے، نہ جانے معصیت کے کتنے شعلے اس کی وجہ سے دہکتے ہیں ، پھر اللہ کی رحمت، جس کا تعلق طاعت وعبادت سے ہے کیونکر آسکتی ہے۔
ایک مسئلہ جو اربابِ انتظام سے متعلق ہے، دیکھا جاتا ہے کہ تعلیم کمزور ہے ، تربیت کا فقدان ہے، مردم گری کا کارخانہ سست ہے، اور تعمیرات کاکام بے ضرورت بھی جاری ہے، اور زیب وزینت اور نمائش تو ایسی کہ ہر شخص کی نگاہ اس پر پڑے، مدارس کو پختہ ضرور بنائیں، ضروری تعمیرات کروائیں، لیکن اصل توجہ تعلیم وتربیت پر ہونی چاہئے، اگر یہ نہیں تو پتھر اینٹ کی عمارت وبال ہی لائے گی۔ نمائشی تعمیر بلکہ نمائش کی ہر چیز حتیٰ کہ نمائش والی عبادت بھی اللہ کی نظر رحمت سے محروم ہوتی ہے۔
ایک بڑا مسئلہ جو اربابِ انتظام کیلئے دردِ سر بنارہتا ہے، وہ چندے کا مسئلہ ہے، اس سلسلے میں دو باتیں قابل لحاظ ہیں۔ ایک تو چندے میں اتنا غُلو پایا جاتا ہے جیسے چندہ ہی اصل مقصد ہو، نہ تعلیم وتربیت، نہ کتابیں، نہ نظام، بس چندہ کی دھن ہے، اس کے لئے نہ وقت کی قید ہے، نہ اس کا لحاظ ہے کہ کس کو چندے پر بھیجا جارہا ہے، اور نہ تعلیم کے نقصان کا خیال ہے، کتنے مدرسے ہیں، جن میں جہاں کسی فصل کا وقت آیا، اساتذہ وطلبہ سب کو چندے میں جھونک دیا جاتا ہے، اساتذہ پڑھانے کے لئے ہیں۔ طلبہ پڑھنے کے لئے ہیں، چندے کی ان مہموں کی وجہ سے تعلیم کتنی متاثر ہوتی ہے۔ بس بیان سے باہر ہے۔ بقرعید میں چرم قربانی کی مہم، دھان کی فصل تیار ہوئی، تو اس کی محنت، گیہوں تیار ہوا، تواس کی وصولی، تعلیم کے اوقات کا بڑا حصہ ان چیزوں کی نذر ہوجاتا ہے، نتیجہ میں تعلیم صفر ہوکر رہ جاتی ہے۔
مدرسین اور طلبہ کوتو تعلیم وتعلم کے لئے یکسو رکھنا چاہئے تاکہ وہ فراغتِ ذہن ودماغ کے ساتھ علم کے مشغلے میں لگے رہیں۔ مدرسین ہی چندہ بھی کریں، دربدر کی ٹھوکریں کھائیں، لوگوں کی کڑوی کسیلی سنیں، اور پھر رقم لاکر مہتمم صاحب کو دیدیں اور وہ اس کے ذریعہ انھیں مدرسین پر حکومت کریں، کتنی نازیبا بات ہے۔
ایک مسئلہ وقت پر تنخواہوں کی ادائیگی کا بھی ہے، قاعدہ یہ ہے کہ جب ملازمین اور کارکنان سے ادارہ کا معاملہ ہوا ہے، اور عرف میں یہ بات طے شدہ ہے کہ خدمت کرنے والاپورے ماہ خدمت کرے گا، اور مہینہ ختم ہونے پر کم یا زیادہ جو اس کی تنخواہ ہو، وہ مل جانی چاہئے۔ بہت سے مدرسوں میں دیکھا جاتا ہے کہ یہی شعبہ سردمہری کا شکار ہوتا ہے، ہر کام ہورہا ہے، حتیٰ کہ مہتمم صاحب کی ادنیٰ سے ادنیٰ ضرورت تک کے لئے بڑی فیاضی سے رقم خرچ ہوتی ہے۔ مگر مدرسین وملازمین کی تنخواہ کے لئے مدرسہ کے خزانہ میں رقم نہیں ہے اور نہ اس کی ادائیگی کیلئے معتد بہ فکر واہتمام ہے، یہ شرعی ذمہ داری سے انحراف ہے، وعدہ خلافی ہے۔
ایمان کا لازمہ ہے کہ آدمی وعدے کا پابند ہو ، اور نفاق کا شاخسانہ یہ ہے کہ آدمی وعدہ کی خلاف ورزی کرتا رہے، بکثرت یہ شکایت ہوتی ہے کہ حضرات منتظمین اساتذہ سے، طلبہ اور دوسرے خدمت گزاران مدرسہ سے سے وعدہ کرتے ہیں، مگر اسے وفا نہیں کرتے، اور اس سے قلوب میں بے اطمینانیاں اور بے اعتمادیاں پیدا ہوتی ہیں۔ وعدہ تو ایسا نبھانا چاہئے کہ ہر شخص مطمئن ہوجائے۔
اربابِ انتظام کی طرف سے طلبہ کے داخلے اور اخراج کے سلسلے میں بھی بعض اوقات بے اعتدالیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ بعض مدارس میں علاقائی عصبیت کارفرما ہوتی ہے ، کسی کسی علاقہ کے طلبہ کا داخلہ نہیں کیا جاتا، یا مشکل سے کیا جاتا ہے علم میں تعصب کا کیا دخل؟ علم کا طالب جو بھی آئے، اگر وہ واقعی طالب ہے تو اسے سینے سے لگانا چاہئے، اور اگر وہ طالب نہیں مطلوب بننے کی شان رکھتا ہو، تو وہ کہیں کا ہو، اس سے معذرت کرلینی چاہئے، کوئی طالب علم صاحب ثروت گھرانے کا آگیا تو اہل انتظام کی نگاہیں فرشِ راہ ہوجاتی ہیں، اور اگر غریب گھرانے کا ہے تو اس سے بات کرنے کے روادار نہیں ہیں۔ حالانکہ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ تعلیم وتعلم کا مزاج فاسد ہوجاتا ہے۔
یہی حال اخراج کا ہوتا ہے۔ اپنا خاص آدمی ہے یا اصحابِ ثروت میں سے ہے تو اس کی بڑی سے بڑی غلطی معاف اور اگر ایسا نہیں ہے تو ادنیٰ غلطی اخراج کیلئے کافی ہوتی ہے، یہ طرز عمل عدل وانصاف کے خلاف ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مدرسہ جب دین اور علم دین کی نشرواشاعت کی بقاء و استحکام کیلئے ہے، نیز اس لئے ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوں تو جب تک اس سے یہ مقصد حاصل ہوتا ہو وہ کارآمد ہے، ورنہ وبالِ جان ہے۔
اربابِ مدرسہ کو دوسروں کے اعمال واحوال کے ساتھ اپنے طرزِ عمل اور نیتوں کا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہئے، جہاں کور کسر ہو اسے درست کرتے رہیں۔ ﷲ تعالیٰ حسن نیت پر توفیق عطافرماتے ہیں، نصرت فرماتے ہیں۔

حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی علیہ الرحمہ