کیوں کھائیں گُڑ؟


کیوں کھائیں گُڑ؟
ایس اے ساگر
دیکھنے میں سرخی مائل یاسرخی مائل سیاہ اور زردنظر آنے والا گ ±ڑجدید معاشرہ میں اپنی شناخت اور مقبولیت کھو چکا ہے۔ کیڈبری، ملک ڈیری،فائیو اسٹار چاکلیٹ اور ٹافی کھانے والوں کو علم نہیں کہ گُڑ بھی کوئی ذائقہ شیریںچیز ہوتی ہے۔ لیکن عمررسیدہ لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ گڑ ایک ایسی قدرتی مٹھاس ہے جو مضر کیمیکل اور مصنوعی فلیورکی محتاج نہیں ہوتی بلکہ گنے کے رس کو فقط گرم کرنے سے یا پکاکر حاصل ہوجاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض مفاد پرستوں نے یہاں بھی مضر کیمیکل شامل کرکے اس کے’ رنگ روپ‘ اور’ ذائقہ‘ کو تو’نکھاردیا‘ ہے تاہم اگر خالص نصیب ہوجائے تو بنیادی طور گُڑ میں کیروٹین، نکوٹین، تیزاب، وٹامن اے، وٹامن بی ون، وٹامن بی ٹو، وٹامن سی کے ساتھ ساتھ آئرن اور فاسفورس بھی پایا جاتا ہے۔ گُڑ کا مزاج گرم اور دوسرے درجے میں پرانا گڑ خشک ہے جب کہ نیا گڑ کف، دمہ، کھانسی، پیٹ کے کیڑے وغیرہ جیسے مختلف امراض کے لیے مفید ترین قرار دیا گیا ہے۔ گڑ نظام ہضم کی اصلاح کرتا ہے۔ قبض دور کرتا اور گیس کی تکلیف سے نجات دلاتا ہے۔
لیکن اس کا کیا کیجئے کہ جدید دور میں نئی نسل ہی نہیں بلکہ پرانے لوگ بھی گ گُڑ سے نہ صرف پرہیز کرتے ہیں بلکہ اسے دیہات اور گاوں والوں کے لیے ہی مخصوص سمجھتے ہیں۔ لیکن طبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہی گُڑ نہ صرف صحت بخش ہے بلکہ کئی بیماریوں کا علاج بھی ہے۔ گڑ گنے کے رس سے بنایا جاتا ہے جسے عربی میں فارلیڈ، فارسی میں قندسیاہ بنگالی میں گُڑ اور انگریزی میں jaggery کہا جاتا ہے۔ کسان عام طور پر بیلنے کے ذریعہ گنے کا رس نکلتا ہے اور بعد میں اسے پکا کرگُڑ بناتا ہے۔ گنے کے رس کو پکا کر جما لیا جاتا ہے پھر اسے سخت ہاتھوں سے سفوف بنالیا جائے تو اسے شکر کہتے ہیں اور اس کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے۔ بعض دفعہ اس کا رنگ سرخی مائل سیاہ اور زردہ بھی ہو جاتا ہے اور ذائقہ شیریں ہوتا ہے۔ اس کا مزاج گرم ہوتا ہے اور دوسرے درجے میں تر ہوتا ہے۔ پرانا گُڑ گرم و خشک ہوتا ہے، اس کے بیشمار فوائد ہیں:
کھانے کو ہضم کرتا ہت اور طبعیت کو نرم کرتا ہے۔
بلغم کو چھانٹتا ہے۔
دمہ، کھانسی اور درد سینہ میں گُڑ کارگر ہے۔
گوشت کو گلانے کے لیے اس میں ڈال دیا جائے تو جلد گل جاتا ہے۔
جسم کو طاقت دیتا ہے۔
جسم کو توانا اور موٹا کرتا ہے۔
ایک سال پرانا گُڑ خون صاف کرتا ہے۔
باہ کو بڑھاتا ہے۔
جوڑوں کی درد میں مفید ہے۔
ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے۔
جسم کی کھال کو لچکدار بناتا ہے۔
گُڑ کھانے سے جھریاں ٹھیک ہوجاتی ہیں۔
گُڑ کا ذیادہ استعمال بھی نقصان دہ ہے۔ یہ دانتوں کے لیے مضر ہے اس کے ساتھ ساتھ خون میں بھی شکر کی مقدار بڑھاتا ہے۔
بلڈ پریشر، یرقان، دمہ، بڑا آپریشن:
کیا یہ گڑ چھوڑنے کی وجہ سے تو نہیں؟
گڑ قدرت کا ایک ایسا انمول تحفہ ہے جسے ہند/پاک میں لوگ قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے.
ہمارے یہاں گڑ وہ مقام حاصل نہیں کرسکا جو چینی نے حاصل کیا ہے. لیکن حقیقت یہ ہے کہ چینی میں اس کے سفید رنگ کے علاوہ کوئی خوبی نہیں ہے جبکہ گڑ کے اندر 21 غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں.
آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہوا ہوگا کہ چینی میں کتنے غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں؟
ہو سکتا ہے آپ کو جواب پر یقین نہ آئے لیکن دل تھام کر سنئے کہ چینی میں غذائی اجزاء نہ ہونے کے برابر پائے جاتے ہیں.
اگر وزن کے لحاظ سے دیکھا جائے تو 100 گرام گڑ میں 2800 ملی گرام غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں جبکہ 100 گرام چینی میں صرف 300 ملی گرام غذائی اجزاء ہوتے ہیں. کہاں 2800 اور کہاں 300!
دراصل ساری کی ساری چینی سکروز پر مشتمل ہوتی ہے. اور اسی وجہ سے اسے سفید زہر بھی کہا جاتا ہے. جبکہ گڑ، شکر کو دنیا کا صحت مند ترین میٹھا تسلیم کیا جاتا ہے. دیسی کھانڈ بھی گڑ و شکر کے ہی قبیلے سے تعلق رکھتی ہے.
گڑ میں کون کون سے غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں؟ گڑ میں 21 غذائی اجزاء موجود ہوتے ہیں. یہ تمام اجزاء ایک جدول کی صورت میں یہاں درج کئے جا رہے ہیں.
گڑ کے کون کون سے فوائد ہیں؟
یوں تو حکیموں نے گڑ کے ان گنت فوائد بتائے ہیں جو جدید سائنسی تجربات کے ذریعے ثابت ہوچکے ہیں.
واضح رہے کہ گڑ، مشرق کی سوغات ہے. اس لئے مغربی ممالک نے اس کے فوائد پر نہ ہونے کے برابر تحقیق کی ہے. اسی طرح پاکستان میں بھی تحقیق کرنے والوں نے گڑ کو نظر انداز کیا ہے.
1- اعصابی نظام کو مضبوط بناتا ہے۔
گڑ ہمارے اعصابی نظام کو مضبوط کرتا ہے. پٹھوں کو آرام پہنچاتا ہے اور جسم کو تھکنے نہیں دیتا. اس کے ساتھ ساتھ یہ خوں کی نالیوں میں بہتری لاتا ہے اور جسم کی توڑ پھوڑ کو روکتا ہے. گڑ کے یہ تمام فوائد اس میں موجود میگنیشیم کی بدولت ہیں.
2- بلڈ پریشرکو کنٹرول کرتا ہے۔
گڑ، بلڈ پریشر کو نارمل رکھتا ہے. اور جسم میں تیزابیت کو بڑھنے نہیں دیتا. یہ دونوں‌کام گڑ میں موجود کیلشیم اور سوڈیم کی مرہونِ منت ہیں.
3- انیمیا کی بیماری کو دور کرتا ہے.
انیمیا دراصل ایک ایسی بیماری ہے جس میں جسم کے اندر خون کی مسلسل کمی رہتی ہے. گڑ میں موجود آئرن انیمیا کی بیماری سے بچاتا ہے.
4. دمہ سے بچاتا ہے
گڑ کھانے والے افراد عام طور پر دمہ کی بیماری سے محٍوظ رہتے ہیں. دمہ میں مبتلا مریض گڑ کھانے سے افاقہ محسوس کرتا ہے.
5- دردِ شقیقہ یعنی آدھے سر کے درد سے محفوظ رکھتا ہے.
گڑ کھانے والے لوگ عام طور پر درد شقیقہ یعنی آدھے سر کے درد میں مبتلا نہیں ہوتے.
6- دورانِ زچگی اور زچگی کے بعد کے مراحل میں آسانی پیدا کرتا ہے.
گڑکھانے والی خواتین کو زچگی (یعنی بچے کی پیدائیش) کے مختلف مراحل میں آسانی رہتی ہے. خاص طور پر بچے کی پیدائیش کے بعد ماں کے رحم کی صفائی میں گڑ بہت معاون ثابت ہوتا ہے.
7- دھول اور دھویں میں کام کرنے والوں کو بیماریوں سے بچاتا ہے.
عام طور پر جو لوگ دھول، مٹی اور دھویں وغیرہ کے ماحول میں کام کر رہے ہوتے ہیں یہ ساری آلودگی ان کے پھیپھڑوں اور خوراک کی نالی میں جا کر مختلف بیماریوں‌ کا باعث بنتی ہے. گڑ کھانے والے لوگوں میں آلودہ ماحول میں کام کرنے والوں کے پھپھڑوں اور خوراک کی نالی وغیرہ کو صاف رکھتا ہے اس طرح لوگ بیماریوں سے بچے رہتے ہیں.
8- یرقان سے محفوظ رکھتا ہے.
گڑ کھانے سے خون صاف رہتا ہے اور آدمی یرقان سے بھی بچا رہتا ہے.
دلچسپ بات یہ ہے کہ تیس پینتیس سال پہلے لوگ بلڈ پریشر کے نام سے بھی واقف نہیں تھے. ہلکا پھلکا یرقان کبھی کبھار ہو جاتا تو لسی کے ذریعے اس کا علاج ہو جاتا تھا. مائیں کو بچے پیدا کرنے کے لئے آپریشن کروانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی. اعصابی مسائل جیسے ڈپریشن وغیرہ کو امیروں کی بیماری سمجھا جاتا تھا .
آج بلڈ پریشر ہر گھر کی کہانی ہے. جو بھی ٹیسٹ کرواتا ہے اسے ہیپاٹائٹس (یعنی یرقان) نکل آتی ہے. اگر کسی کے ہاں بچہ آپریشن کے بغیر پیدا ہو جائے تو اسے دوہری مبارک دی جاتی ہے- ایک مبارک باد بچے کی خوشی کی اور دوسری آپریشن سے بچنے کی خوشی کی. اسی طرح سانس اور دمے کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے. اعصابی مسائل خاص طور پر ڈپریشن اور اینگزائٹی غریبوں کے گھروں میں بھی گھس آئے ہیں. گڑ میں ان تمام بیماریوں سے بچانے کی صلاحیت موجود ہے.
دلچسپ بات یہ ہے کہ کسان صحت بخش رس سے بھرے ہوئے گنے کوڑیوں کے بھاؤ صنعت کار کے ہاتھ بیچ کر تاجر سے چینی یعنی سفید زہر گھر خرید لاتا ہے. اور پھر بیمار ہوکر ڈاکٹروں اور حکیموں‌ کے پاس چکر لگاتا ہے.
کیا کسان نے یہ کبھی سوچا ہے کہ وہ خود اپنے ساتھ کیا کررہا ہے؟
پیپل کے پتے 10 گرام، دار چینی، تیزپات اور کالی مرچ 30، 30 گرام، سونٹھ 35 گرام اور ہرڑ کا سفوف 100 گرام؛ ان تمام اشیاء کو 200 گرام گُڑ کے ساتھ اچھی طرح کوٹ کر پیسنے کے بعد 25،25  گرام کے لڈو بنالیں۔ ایک لڈوصبح اور ایک شام کے وقت گرم پانی کے ساتھ کھانے سے بواسیر سے تو چھٹکارہ ملتا ہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ انسانی بدن کو بے شمار دوسری بیماریوں جن میں پیٹ کی گیس ، پیٹ کی گڑگڑاہٹ ، سنگرہنی اور ہاتھ پاؤں کی سوجن اور کھانسی سے بھی نجات مل جاتی ہے۔

کھانسی سے نجات کے لیے یہ نسخہ بھی مفید ہے: 10 گرام سرسوں کے خالص تیل میں 10 گرام گُڑ ملا کر صبح و شام ایک ایک چمچہ چاٹ لیں۔ پیپل کے پتے اور جوکھار 4،4 گرام ، کالی مرچ 5 سے 7 گرام ، اناردانہ 25 گرام کو ملا کر 50 گرام گُڑ میں شامل کرکے سفوف بنالیں۔ صبح و شام گرم پانی کے ساتھ5  گرام سفوف کھانے سے دائمی کھانسی سے نجات مل جاتی ہے۔ اگر کسی مریض کا ملیریا بخار نہ اتر رہا ہو تو کالا زیرہ اور گُڑ کا سفوف ملا کر کھلانے سے فائدہ ہوگا۔

سردیوں کے موسم میںگُڑ اور کالے تل کے لڈو بنا کر صبح و شام کھانے سے ٹھنڈک کے خلاف جسم میں بھرپور قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے اور کھانسی ، دمہ اور برانکائیٹس وغیرہ میں بھی فائدہ ہوتا ہے۔ وہ بچے جو نیند میں بستر پر پیشاب کر دیتے ہیں ان کے لیے یہ نسخہ مجرب مانا گیا ہے۔ ہچکی روکنے کے لیے بھی گُڑ کارگر ثابت ہوا ہے۔ پرانا گُڑ خشک کر کے پیس لیں۔ اس میں پیسی ہوئی سونٹھ ملا کر سونگھنے سے ہچکی میں افاقہ ہوتا دیکھا گیا ہے۔

ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں میگرین یا درد شقیقہ کا مرض عام ہوتا جا رہا ہے۔ اسے آدھے سر کا درد بھی کہتے ہیں۔ اس سے نجات کے لیے صبح سورج نکلنے سے پہلے اور رات کو سوتے وقت 12 گرام گُڑ کو 6 گرام گھی میں ملا کر چند دن کھائیں۔ اگر بلغم کی شکایت ہو اور بلغم بھی زیادہ بن رہا ہو توگُڑ کے ساتھ ادرک کا رس استعمال کروانے سے بلغم کی شکایت ختم ہو جاتی ہے ۔

معمر خواتین و حضرات کو اکثر کمر درد کی شکایت ہوجاتی ہے۔ اگر وہ 50 گرام اجوائن کے سفوف میںہم وزن گُڑ ملا لیں اور اس آمیزہ کا 5 گرام صبح اور 5  گرام شام کے وقت کھائیں تو اس سے انھیں افاقہ ہوگا۔

مٹاپے سے نجات پانے کے خواہش مند چینی کی جگہ گڑ کا استعمال کریں۔ وہ افراد جنھیں پیشاب کے قطرے آتے ہیں،گڑ اور تل کے لڈو بنا کر کھانے سے انھیں اس عارضے سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ گُڑ میں پکے ہوئے چاول کھانے سے بیٹھا ہوا گلا ٹھیک اور آواز سریلی ہوجاتی ہے۔