مبادیاتِ عقائد


مبادیاتِ عقائد
ایمان وعقیدہ کےمعنی ٰ اور اس کامفہوم
اسلام کا معنی و مفہوم اورعملِ صالح کی دنیا وآخرت میں اہمیت
ایمانیات کےبنیادی ذرائع و احکام اوران کے دلائل
محکم و متشابہ کامفہوم و احکام اور ان سے متعلق کچھ ضروری وضاحت
اہل السنۃ و الجماعۃ کا مختصر تعارف اوردیگر فرقوں کے وجود میں آنے کےبنیادی وجوہ و اسباب
کفر کے معنی،اقسام واحکام اور کسی کوکافر قرار دئے جانے کے بنیادی اصول و ضوابط
شرک کے معنی اور اس کے اقسام و احکام
ارتداد کے معنی اور اس کے اقسام و احکام
نفاق ،زندقہ اور الحاد کے معنی اور ان کے اقسام واحکام
فسق و ضلالت کے معنی اور مرتکب کبیرہ کا حکم
بدعت کے معنی اور اس کے اقسام و احکام
ایمان وعقیدہ :
دین میں جن باتوں کا تعلق دل سے ماننے سے ہو ان کو ’’ایمانیات‘‘ کہتے ہیں، انہیں کو ’’عقائد/یا عقیدہ ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اور علمی کتابوں میں انہیں کو ’’اصول ِدین‘‘اور’’ضروریاتِ دین‘‘سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ، البتہ اس میں ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ امور جن کو نہ ماننے سے ایک انسان مسلمان باقی نہیں رہتا خاص ان کو ’’ضروریات دین‘‘ کہتے ہیں ، ان سب میں سب سے عام اصطلاح ’’عقائد‘‘ ہے۔
اِیمان کے معنی:
ایمان کے لفظی معنی ہیں :تصدیق کرنا۔ اور دین اسلام میں ایمان کے معنی ہیں: نبی ﷺ جو باتیں اپنے رب کے پاس سے لے کر آئے ہیں ان میں آپ کی دل سے تصدیق کرنا، اور زبان سے ان کا اقرار کرنا۔
والإيمان: هو الإقرار باللسان، والتصديق بالجنان.(العقیدة الطحاوية) وَالْإِيمَان لُغَة التَّصْدِيق ، وَشَرْعًا تَصْدِيق الرَّسُول فِيمَا جَاءَ بِهِ عَنْ رَبّه.
(فتح الباری ۱/۸)

اصطلاح میں محض تصدیق ایمان نہیں ہے، دل کی تصدیق بسا اوقات زبان پر کفر کے ساتھ بھی ہوتی ہے، مثلاً یہودمدینہ کی تصدیق یا ابوجہل کی تصدیق، ایسی تصدیق قطعی طور پر کفر ہے۔
التَّصديق قد يجتمع مع الجُحود أيضاً وهو كفرٌ قطعاً قال تعالى: {وَجَحَدُواْ بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ أَنفُسُهُمْ ظُلْماً وَعُلُوّاً}
(النمل: 14)

وقال تعالى أيضاً: {يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَآءهُمْ} (البقرة: 146)، وقال تعالى: {فلما جاءهم ما عَرَفُوا كفروا به}
(البقرة: 89) (فیض الباری:ج۱ ص ۶۰)

ایمان کےلئے تصدیق کے علاوہ اقرار شرط ہے ، ایمان میں تصدیق کے علاوہ جو اقرار باللسان مطلوب ہے اس میں محض تکلم اور زبان سے اقرار شرط ہے، اعلان شرط نہیں ہے۔ جبکہ احکام دنیویہ کے اجراء کے لئے جو شہادت مطلوب ہے وہ امام المسلمین یا اس کے نمائندہ ادارہ کے سامنے اعلان و اقرار کی شکل میں ہونا یا عام مسلمانوں کے درمیان اعلان کی شکل میں ہونا ضروری ہے، یا جو شخص ایمان لایا ہو ضرورت کے مقام پر اگر اس سے اقرار کا مطالبہ ہو تو اس کو اقرار کرنا شرط ہے ورنہ وہ کافر جاحد ہے اور اس کا عمل کفر عناد و جحود شمار ہوگا۔
أن الإقرار لهذا الغرض لا بد أن يكون على وجه الإعلان والإظهار على الإمام وغيره من أهل الإسلام بخلاف ما إذا كان لإتمام الإيمان فإنه يكفي مجرد التكلم وإن لم يظهر على غيره كذا في شرح المقاصد .
(حاشیة ابن عابدین:ج۴ ص ۲۲۲)

يلزم المصدق أنه يعتقد أنه متى طولب به أتى به، فإن طولب به فلم يقر به فهو – أي كفه عن الاقرار – كفر عناد.
(حاشی ابن عابدین:ج ۴ ص ۴۰۶)

نبی پاک ﷺکی جانب سے دئیے ہوئے ’’احکام‘‘ کی تصدیق بھی لازم ہے:
نبی ﷺ کی غیب کی باتوں میں تصدیق کرنے میں وہ تمام احکام بھی آجاتے ہیں جن کو وہ اللہ کے پاس سے بھیجے جانے کا دعوی کرتے ہیں، خواہ یہ احکام وحی کے کسی بھی ذریعہ سے پہنچے ہوں، وحی متلو قرآن سے پہنچے ہو ں ،یا وحی غیر متلو یعنی حدیث سے پہنچے ہوں۔
وجميع ما صح عن رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم من الشرع والبيان كله حق.(العقیدۃ الطحاویۃ) وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ (سورة الْأَحْزَابِ :۳۶) وَجَمِيعُ مَا صَحَّ عَنْ رَسُولِ الله صلى الله عليه وَسَلَّمَ مِنَ الشَّرْعِ وَالْبَيَانِ كله حَقٌّ …………(وَجَمِيعُ ذَلِكَ حَقٌّ وَاجِبُ الِاتِّبَاعِ)
(العقیدۃ الطحاویۃ مع شرحہ لابن ابی العز ۱/۲۳۰)

مؤمن:
ایمان والے شخص کو مؤمن کہتے ہیں، یعنی جس نے دل سے نبی پاک ﷺ کی تصدیق کی ہے اور زبان سے اس کا اقرار کیا ہے۔
اسلام کے معنی:
اسلام کے معنی ہیں تسلیم کرنا اور جھک جانا۔ یعنی دین اسلام اس کو کہتے ہیں کہ :زندگی گذارنے کا جو طریقہ اور راستہ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے ذریعہ بھیجا ہے اس کو تسلیم کرنا، اس کے آگے جھک جانا ، اور اس کے مطابق عمل کرنا۔ خود اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ اور دین کو اسلام کا نام دیا ہے۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَام۔
ُ)آل عمران:۱۹)

اسلام اور ایمان کو باہم مترادف معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، چنانچہ ایمان اور اسلام کی تعریف میں قدر مشترک ہوتا ہے، اور کبھی ان میں فرق بھی کیا جاتا ہے۔
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ o
(الحجرات:۱۴)

اسلام کا رکنِ اعظم اقرار ِشہادت:
اسلام کا رکن اعظم شہادتین کا اقرار ہے، یعنی زبان سے الوہیت اور رسالت کی شہادت دینا ، جیسے :أشهد أن لا اله الا الله و أشهد أن محمدا رسول الله (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں)کہنا یا ان کے ہم معنی الفاظ کی گواہی دینا ۔
جب کوئی شخص ان کی گواہی دیتا ہے تو اس پر ظاہر میں مسلمان کے احکام جاری ہوجاتے ہیں، مثلاً اس کی جان و مال کا حرمت و الا ہوجانا، اس کے پیچھے اور اس کے اوپر نماز پڑھنا، مسلمانوں کا اس سے نکاح جائز ہونا، مسلمانوں کے قبرستان میں اس کو دفن کرنا، اس سے زکوۃ اور عشور کا مطالبہ کرنا وغیرہ۔
والإقرار شرط لإجراء الأحكام الدنيوية أي من الصلاة عليه وخلفه والدفن في مقابر المسلمين والمطالبة بالعشور والزكوات.
(حاشیة ابن عابدین:ج۴ ص ۲۲۲)

مسلم پر شہادتین کے اقرار کے بعد احکام اسلام کی پا بجائی شرط ہے، احکام کو قبول کرکے ان کے مطابق عمل کرنے کا نام ہی اسلام ہے۔مثلاً: نماز ادا کرنا، صاحب نصاب ہو تو زکاۃ دینا، صاحب استطاعت ہو تو حج کرنا، روزے رکھنا، گناہ سے بچنے اور نسل کے حصول کےلئےحلال نکاح کرنا، حلال ذریعہ معاش کو اختیار کرنا اور دیگر مطالبات دین کو پورا کرنا وغیرہ یہ سب اسلام میں داخل ہیں ۔ اور فرماں برداری میں پورا داخل ہونا ہی حقیقی اسلام ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً۔
(سورۃ البقرۃ:۲۰۸)

عمل ِصالح کی اہمیت :
عمل صالح ایمان کے بعد دین کا ضروری حصہ ہے، اعمال کو ترک کرنا نقصان دہ اور اعمال صالحہ کو اختیار کرنا مفید ہے۔ یہ کہنا کہ تصدیق کے بعد اعمال مفید نہیں اور محرمات و منہیات کا ارتکاب نقصان دہ نہیں ہے یہ کفریہ عقیدہ ہے۔
ولا نقول: لا يضر مع الإيمان ذنب لمن عمله.(العقیدۃ الطحاویۃ)…قَالَتِ الْمُرْجِئَة: لَا يَضُرُّ مَعَ الْإِيمَانِ ذَنْبٌ لِمَنْ عَمِلَه ! وَهَذَا بَاطِلٌ قَطْعًا.
(العقیدۃ الطحاویۃ مع شرحہ لابن ابی العز:ج۱ ص ۲۱۵)

مذهب أهل السنة والجماعة وهم بين بين، فقالوا: إن الأعمال أيضاً لا بد منها، لكنّ تَارِكها مُفَسَّقٌ لا مُكَفَّر.
(فیض الباری:ج۱ ص ۷۱)

مسلم /یا مسلمان:
دین اسلام کو ماننے والے کو مسلم /یا مسلمان کہتے ہیں۔یعنی جس نے خود کو اِس دین کے آگے عمل کےلئے جھکا دیا ہو، اللہ اور اس کے رسولوں کی فرماں بردار امتوں کو مسلم /یا مسلمین نام خود اللہ نے دیا ہے۔هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا
(الحج: ۷۸)

تکلیفِ شرعی:
لفظِ تکلیف اردو میں جس معنی میں استعمال ہوتا ہے یہ اس معنی میں نہیں ہے، بلکہ اس کے معنی ہیں ذمہ دار بنانا، ’’تکلیف شرعی‘‘ کا مطلب ہے، احکام شرعیہ کا ذمہ دار بنانا، اور مکلّف (اس کو کہتے ہیں جسے شریعت نے اپنے احکام کا ذمہ دار بنایا ہے۔
ہر بالغ و عاقل شریعت کے احکام کا مکلف ہے، خواہ مرد ہو خواہ عورت ہو، خواہ انسان ہو خواہ جن ہو، ہاں مجنون اور بچہ شرعی طور پر مکلف نہیں ہیں، اس اصول سے کوئی بالغ و عاقل مستثنیٰ نہیں ہے، اگر کوئی شخص اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ اس کی کثرت عبادات اور کثرت ریاضت سے وہ اس مقام کو پہنچ گیا ہے کہ اب وہ احکام کا مکلف نہیں رہا تو وہ کافر ہے، علما اسلام نے ایسے شخص کے واجب القتل ہونے کی صراحت کی ہے۔
Home

Login | Register

.
اسلام
عقائد
تفسير
حدیث
سیرت
صحابہ
دعا اقوال
قیامت آخرت
فقہ
مسائل فتاویٰ
فقہاء محدثین
تزکیہ احسانتاریخکوئزفرق مللآڈیومضامین
You are here: Home » مبادیاتِ عقائد » ایمانیات کےبنیادی ذرائع و احکام اوران کے دلائل
ایمانیات کےبنیادی ذرائع و احکام اوران کے دلائل
Bookmark and Share Increase the font size of this article Default font size Decrease the font size of this article

اہل السنۃ و الجماعۃ جن عقائد کو مانتے ہیں ان کی استنادی حیثیت کو جاننا ضروری ہے، تاکہ یہ پتہ چلے کہ جن عقائد کو ماننا ضروری قرار دیا جاتا ہے وہ پایہ ثبوت کو پہنچے ہوئے ہیں یا نہیں ہیں، اور اس سے یہ بھی پتہ چلے گا کہ ایمانیات میں جس بات کو ماننا ضروری قرار دیا جاتا ہے اس میں سند اور ثبوت کو کتنا اہم قرار دیا گیا ہے، اور یہ بھی پتہ چلے گا کہ عقائد و ایمانیات کی بنیاد اوٹ پٹانگ اندازوں اور توہمات پر نہیں ہوتی بلکہ ان میں ثبوت اور سند کی اہمیت ہوتی ہے، اور اس میں بھی علم کے یقینی ذرائع پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔
ایمانیات کے ذرائع و دلائل قرآن و سنت ہیں:
ایمانیات و عقائد کے اصول و ذرائع قرآن وسنت ہیں، اس باب میں قیاس اور اندازوں کی گنجائش نہیں ہوتی، کسی بھی بات کو ایمانیات و عقائد کا حصہ بنانے کےلئے ضروری ہے کہ وہ بات اللہ اور اس کے رسول سے منقول ہو، اور قرآن و سنت میں مذکور ہو، اس طرح سے کہ قرآن و سنت نے اس کو ماننے کا مطالبہ کیا ہے، یا قرآن و سنت نے اس کو ماننے کی نسبت اللہ کی جانب کی ہے، یا قرآن و سنت نے اس بات کے ماننے کی نسبت انبیا٫ و رسل اور ان کے پیرکاروں کی جانب کی ہے۔
وأسماء الله عز و جل تؤخذ توقيفا ولا يجوز أخذها قياسا۔
(اصول الدین:۱/۱۰۸)

وَكَيْفَ تُعْلَمُ أُصُولُ دِينِ الْإِسْلَامِ مِنْ غَيْرِ كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ ؟ وَكَيْفَ يُفَسَّرُ كِتَابُ اللَّهِ بِغَيْرِ مَا فَسَّرَهُ بِهِ رَسُولُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُ رَسُولِهِ، الَّذِينَ نَزَلَ الْقُرْآنُ بِلُغَتِهِمْ ؟ وَقَدْ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ». وَفِي رِوَايَةٍ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ». وَسُئِلَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَفَاكِهَةً وَأَبًّا}
(1). مَا الْأَبُّ ؟ فَقَالَ: أَيُّ سَمَاءٍ تُظِلُّنِي، وَأَيُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِي، إِذَا قُلْتُ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا لَا أَعْلَمُ ؟
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ لإبن أبی العز:۱/۱۱۴)

قطعی دلائل:
دلائل ؛قطعی اور یقینی اور غیر قطعی اور غیر یقینی دونوں طرح کے ہوتے ہیں، اصطلاح دین میں قرآن کی آیاتِ محکمات اور سنتِ متواترہ محکمہ اور اجماع کو قطعی دلیل کہتے ہیں، ان میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی، ان سے ثابت امور کو ماننا دین میں ضروری اور لازمی ہے، عقائد، فرائض اور محرمات کا ثبوت اسی درجہ کے دلائل سے ہوتا ہے۔
الأدلة الشرعية منها ما هو قطعي، ومنها ما هو ظني:فالدليل القطعي: ما كان قطعي السند والثبوت، وقطعي الدلالة أيضًا.وحكم هذا النوع من الأدلة وجوب اعتقاد موجبه علمًا وعملاً، وأنه لا يسوغ فيه الاختلاف.
(معالم اصول الفقه عند اهل السنة و الجماعة:۱/۸۱)

أما ما كان نص كتاب بين، أو سنة مجتمع عليها، فالعذر فيها مقطوع، ولا يسع الشك في واحد منها، ومن امتنع من قبوله اسُتتيب.
( الرسالة للامام الشافعى:ص۴۶)

وَقَدْ دَخَلَ فِيمَا ذَكَرْنَاهُ مِنْ الْإِيمَانِ بِاَللَّهِ : الْإِيمَانُ بِمَا أَخْبَرَ اللَّهُ بِهِ فِي كِتَابِهِ وَتَوَاتَرَ عَنْ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَجْمَعَ عَلَيْهِ سَلَفُ الْأُمَّةِ.
(العقیدة الواسطیة للامام ابن تيمية)

إجماع الصحابة حجة بلا خلاف
(إرشاد الفحول إلي تحقيق الحق من علم الأصول.: محمد بن علي بن محمد الشوكاني ۱/۲۱۷)

اسی میں روایت کی ایک قسم ’’ مشہور ‘‘ جو فنی اعتبار سے تو خبر واحد ہوتی ہے، لیکن تواتر کے درجہ سے کم اور حقیقی خبر واحد سے بلند تر ہوتی ہے اس سے ثابت امور بھی عقائد ضروریہ میں شامل ہوسکتے ہیں جن کا منکر کافر شمار ہوگا۔
الثالث ما يكفر به على الأصح وهو المشهور المنصوص عليه الذي لم يبلغ رتبة الضرورة.
(الاشباه و النظائر۱/۴۸۸)

قطعی عقائد:
قطعی دلائل میں جو امور مذکور ہوتے ہیں وہ قطعی عقائد ہوتے ہیں، جن کا انکار انسان کو کافر بنادیتا ہے، مثلاً : اللہ کو ایک ماننا، اس کی ذات ،صفات و حقوق میں کسی کو شریک نہ کرنا، رسولوں کو ماننا، محمد ﷺ کی رسالت کو ماننا، آپ ﷺ کو خاتم النبیین ماننا، آخرت کو ماننا، جنت و جہنم کو ماننا وغیرہ جیسے جو بھی عقائد قطعی دلائل میں مذکور ہیں سب قطعی عقائد ہیں، ان سب کو ماننا ضروری ہے،عقائد میں اکثر مسائل اسی درجہ کے ہیں۔ قطعی عقائد میں سے کسی ایک عقیدہ کا انکار انسان کو کافر بنادیتا ہے۔ثبوت و دلالت کے اعتبار سے قطعی دلائل میں تاویل بھی کفر مانی جاتی ہے۔
ما ثبت بدليل قطعي الثبوت وقطعي الدلالة حيث لا شبهة فيه ويكفر جاحده ويعذب تاركه.
(قواعد الفقه۱/۴۱۰)

يجب تكفير من يغير الظاهر بغير برهان قاطع. و قال ايضا: كل ما لم يحتمل التأويل في نفسه وتواتر نقله ولم يتصور ان يقوم على خلافه برهان فمخالفته تكذيب محض.
(إعلام الموقعین۴/۲۴۷)

إن الإيمان تصديق بأمور مخصوصة عُلِم كونُها من الدين ضرورة.
(فیض الباری:ج۱ ص ۶۰)

غیر قطعی دلائل:
بعض دلائل غیر قطعی ہوتے ہیں، جن سے علم ضروری حاصل نہیں ہوتا، اصطلاح دین میں مثلاً دلالت کے اعتبار سے وہ آیات جن میں تاویل کی گنجائش ہوتی ہے، یا ثبوت کے اعتبار سے خبر واحد یہ غیر قطعی دلائل ہیں، غیر قطعی دلائل میں بھی ایمانیات سے متعلق امور مذکور ہو تے ہیں۔
إن ما يقصد به الاعتقاد لا يكفي فيه الظن وفيه نظر لأنهم ذكروا في العقائد ما لا مطمع فيه للقطع فتدبر.
(تیسیر التحریر۳/۴۲۳)

أن العقائد تثبت بالأدلة الظنية۔
(معالم اصول الفقه عند اهل السنة و الجماعة۱/۸۲)

غیر قطعی عقائدکا حکم:
غیر قطعی دلائل میں ایمانیات سے متعلق جو امور ہیں ان کو ماننا بھی واجب ہے، یعنی خبر واحد میں اگر کوئی ایمان سے متعلق بات منقول ہو تو اس پر ایمان لانا بھی واجب ہے۔ لیکن اس کا منکر کافر نہیں ہوگا، کیونکہ وہ ایک ایسی بات کا انکار کررہا ہے جو نبی ﷺ سے قطعی طور پر ثابت نہیں ہے، اور اسی یعنی ثبوت میں عدم قطعیت کی وجہ سے اس کے انکار پر کفر کا انتہائی سخت حکم لگانے سے گریز کیا جاتا ہے، البتہ دلیل کے درجہ کے پیش نظر غیر قطعی دلیل جو صحت کے ساتھ منقول ہے اس کا منکر بھی فاسق و گمراہ ضرور ہوگا۔
وَمَا وَصَفَ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ الْأَحَادِيثِ الصِّحَاحِ الَّتِي تَلَقَّاهَا أَهْلُ الْمَعْرِفَةِ بِالْقَبُولِ وَجَبَ الْإِيمَانُ بِهَا كَذَلِكَ.(العقیدة الواسطیة للامام ابن تيمية) والواجب ما ثبت بدليل قطعي الدلالة وظني الدلالة وقطعي الثبوت۔
(قواعد الفقه۱/۴۱۰)

خبرِ واحد جس کو امت میں تلقی بالقبول حاصل ہو:
وہ خبر واحد جس کو امت میں قبولیت عامہ کا درجہ حاصل رہا ہے وہ تواتر کے درجہ میں ہے، اور اس سے ثابت حکم/یا عقیدہ کا درجہ مطلق خبر واحد سے ثابت حکم / یا عقیدہ سے بڑھا ہوا ہے۔ ایسے مسائل میں قبر کا عذاب و نعمت، فرشتوں کا سوال کرنا، قیامت کی نشانیاں، کبائر کے مرتکبین کے لئے شفاعت، میزان، صراط، حوض کی ’’تفصیلات‘‘ شامل ہیں۔ تفصیلات کا لفظ ہم نے اس لئے ذکر کیا ہے کہ ان عقائد کی مطلق بنیاد قطعی دلائل سے ثابت ہے، جن کو ہم ان کی جگہوں پر ذکر کریں گے، البتہ ان کی بعض تفصیلات ان اخبار احاد میں آئی ہیں جن کو امت میں تلقی بالقبول کا درجہ حاصل رہا ہے، اور ایسی اخبار احاد سے ثابت امور کی حیثیت بھی بہت اونچی ہے۔
فقد احتجُّوا بخبر الواحد المتلقى بالقبول في مسائل الصفات والقدر ، وعذاب القبر ونعيمِه ، وسؤال الملكين ، وأشراط الساعة ، والشفاعة لأهل الكبائر ، والميزان ، والصراط ، والحوض ، وكثير من المُعجزات ، وما جاء في صفة القيامة والحشر والنشر ، والجزم بعدم خلود أهل الكبائر في النار۔
(مجمل اعتقاد ائمۃ السلف:۱/۱۴۶)

عقائد اور اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کو قرآن وسنت سے ماننا واجب ہے، امور ایمانیات کو عقل سے ماننے پر موقوف رکھنا ایمان نہیں ہے:
کتاب و سنت میں جو بھی عقائد مذکور ہیں مثلاً اللہ کو ماننا، اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی تفصیلات، رسول کو ماننا وغیرہ ان کو محض کتاب و سنت میں ہونے کی بنا٫ پر ماننا لازمی ہے خواہ وہ عقل میں آتے ہوں یا نہ آتے ہوں، جو شخص محض قرآن و سنت میں مذکور ہونے سے ان کو مانے وہی مؤمن ہے، جو یہ کہے کہ جو باتیں عقل پر پوری اتریں گی ان کو مانوں گا اور جو عقل پر پوری نہیں اتریں گی ان کو نہیں مانوں گا تو وہ مؤمن نہیں ہے۔
وَكُلُّ مَنْ قَالَ بِرَأْيِهِ وَذَوْقِهِ وَسِيَاسَتِهِ – مَعَ وُجُودِ النَّصِّ، أَوْ عَارَضَ النَّصَّ بِالْمَعْقُولِ – فَقَدْ ضَاهَى إِبْلِيسَ، حَيْثُ لَمْ يُسَلِّمْ لِأَمْرِ رَبِّهِ، بَلْ قَالَ:أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ:سورة آلِ عِمْرَانَ آية: ۳۱.
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ لابن ابی العز ۱/۱۲۵)

امورِ غیب کا حصول صرف منقولات سے ہوتا ہے:
غیبی امور اور ایمانی مسائل کے علم کا انحصار کل کا کل نبی ﷺ کی خبر پر ہے، عقل سے ان کا ادراک نا ممکن ہے، اور ان کے بارے میں کسی قسم کی بحث و تفتیش اور ان کی کیفیات کی تحقیق انسان کو گمراہی کی جانب لے جاتی ہے۔ اس لئے ان امور میں عقل کے گھوڑے دوڑانے سے گریز کرنا اور جس طرح منقول ہے اسی طرح ایمان لا نا فرض ہے۔
إن تفصيل القول فيما يجب أو يمتنع أو يجوز في حق الله تعالى من أمور الغيب التي لا يمكن إدراكها بالعقل، فوجب الرجوع فيه إلى ما جاء في الكتاب والسنة۔
(القواعد المثلى في صفات الله وأسمائه الحسنى:۱/۳۳)

أن أحوال البرزخ من أمور الغيب التي لا يدركها الحس، ولو كانت تدرك بالحس لفاتت فائدة الإيمان بالغيب۔
(شرح ثلاثة الأصول:۱/۱۲۹)

امورِ غیبی میں موقوف روایات مرفوع کے حکم میں ہیں:
اسی اصول کی بنیاد پر کہ غیبی امور کا کل کا کل انحصار نبی ﷺ کی خبر پر ہے صحابہ کی موقوف روایات کو مرفوع پر محمول کیا جاتا ہے، مثلاً قیامت کے احوال، حشر و نشر کی تفصیلات، جنت و جہنم کی صفات وغیرہ امور جن کا بیان صرف نبی ﷺ کی خبر پر منحصر ہے ان کو کوئی کسی صحابی بغیر آپ ﷺکا ارشاد ہونے کی صراحت کے ذکر کریں تو اس کو حکماً مرفوع حدیث پر ہی محمول کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ باتیں صحابی اپنی جانب سے اس وقت تک نہیں کہہ سکتے جب تک کہ وہ ان کو نبی ﷺ سے نہ سنے ہوں۔
لو تحدث الصحابي عن أمر من أمور المستقبل، أو أمور الغيب، فإنه يُحكم له بالرفع، لأن أمور الغيب ليس للرأي فيها مجال.
( شرح المنظومة البيقونية في مصطلح الحديث:۱/۶۹)

أن الصحابي إذا قال ما لا يمكن أن يقوله عن اجتهاد بل عن توقيف : أنه يكون مرفوعا ، صرح به علماء الحديث والأصول۔
(التحبير شرح التحرير في أصول الفقه:۸/۳۸۱۱)

عقل کی محدودیت:
علم و معرفت کے وسائل میں عقل ایک محدود ذریعہ ہے، حسی امور کے علاوہ ما وراء الطبعیاتی امور میں عقل یقینی طور پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی، ہاں غیبی امور کے معنی سمجھ سکتی ہے، لیکن ان کی کیفیات کا ادراک عقل کے بس سے باہر ہے، اسی لئے سلف امور غیبیہ کی صرف تصدیق تک محدود رہے ان کی کیفیات کی تحقیق میں نہیں پڑے۔
غیبی امور میں عقل کی دخل اندازی سے ممانعت کا مطلب:
غیبی امور میں عقل کی دخل اندازی سے ممانعت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عقل بالکل ہی بے کار شے ہے، عقل اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ، اور ایک درست میزان ہے، لیکن اس کی ایک حد اور مقام ہے، مثلاً عقل کے مقام کے تعین کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ شریعت نے بچہ اور مجنون کو مکلف نہیں بنایا ہے، اور غور و فکر اور تدبر کی بہت سے امور میں نہ صرف ہمت افزائی کی ہے بلکہ ان کو ضروری قرار دیا ہے، چنانچہ کتاب اللہ میں تدبر کرنے کا خود قرآن کا حکم اسی نوع کا ہے، ظاہر ہے تدبر عقل کے ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ اس بارے میں عقل کے استعمال کی جو ممانعت ہے وہ اس اعتبار سے ہے کہ عقل کو ان جگہوں پر استعمال نہ کرو جہاں وہ کام نہیں کر سکتی ، اور جن مسائل کو عقل کی میزان پر تولا نہیں جا سکتا ان میں عقل کا استعمال مناسب نہیں ہےمثلاً: امور توحید، امور آخرت، حقیقت نبوت، صفات الہیہ کے حقائق وغیرہ۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ وہ ترازو اور میزان جس کو سونا تولنے کےلئے بنایا گیا ہو کوئی نادان اس سے پہاڑ تولنے لگے، اس سے جو عدم توازن پیدا ہوگا وہ بالکل ظاہر ہے، اسی طرح اس کا یہ مطلب نکالنا بھی درست نہیں ہے کہ جب ا س میزان سے پہاڑ نہ تولا جا سکے تو وہ سونا تولنے کےلئے بھی درست نہیں ہے،بلکہ وہ جس حد کےلئے بنائی گئی ہے اس حد میں بالکل صحیح ہے۔
” العقلُ ميزان صحيحٌ ، فأحكامُه يقينيّةٌ لا كَذِب فيها ، غير أنك لا تَطْمُعُ أن تَزِنَ به أمورَ التوحيد ، والآخرة ، وحقيقة النبوة ، وحقائِقَ الصفات الإِلهية ، وكلَّ ما وراءَ طًوره ، فإنِ ذلك طمعٌ في محال ، ومثال ذلك مثال رجل رأى الميزان الذي يوزن به الذهب ، فطمع أن يزن به الجبال ، وهذا لا يدل على أن الميزان في أحكامه غير صادق ، لكن العقل قد يقف عنده ، ولا يتعدى طوره حتى يكون له أن يحيط بالله وبصفاته ، فإِنه ذرة من ذرات الوجود الحاصل منه ” ۔
(مقدمۃ ابن خلدون :۳۶۴-۳۶۵)

غیبیات میں عقل نہیں انبیاء معیار ہیں:
عقل حجت ہے، لیکن حجت بالغہ اور حجت کاملہ نہیں ہے، عقل کو ان امور میں فیصل نہیں بنایا جا سکتا جن کے لئے انبیا٫ و رسل مبعوث کئے جاتے ہیں، انبیا٫ و رسول کی بعثت ہی ان امور میں ہوتی ہے جن کا کامل اور تفصیلی ادراک عقل نہیں کر سکتی، اسی لئے عذاب آخرت کو انبیا٫ کی بعثت سے جوڑا گیا ہے، عقل سے سمجھ لینے سے نہیں جوڑا گیا ۔
إِن طور النبوة وراء العقل والتفكير ، فالحقائق التي يعجز العقل عن إِدراكها ، تأتي النبوة لتثبيتها وتحققها ولو كان العقل كافيًا وحده ، لما بعث الأنبياء صلوات الله وتسليماته عليهم أجمعين ، ولما ربط عذاب الآخرة ببعثتهم :{ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا } [ الإِسراء : 15 ] .والعقلُ حجةٌ ، ولكنه ليس بحجةِ بالغة ، وليس في حجته بكامل ، وقد تحققت الحجة البَالغة ببعثة الأنبياء والرسل عليهم الصلوات والتسليم ، فقطعت ألسنة المكلفين ، وقضت على معاذيرهم ، يقول الله تعالى :{ رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا } [ النساء : 165 ] .ولما ثبت عجز العقل وقصوره في بعض القضايا ، فليس من المستحسن أن توزن جميع الأحكام الشرعية في ميزان العقل ، وإن محاولة التطبيق بين العقل وبين الأحكام الشرعية بصفة دائمة ، والتزام ذلك ، والتقيد به ، حكم بكفاية العقل وغناه ، وإنكارٌ للنبوة . أعاذنا الله تعالى منه ” (رسالۃ السرھندی، رقم(۳۶) المجموعۃ الثالثۃ).إِن إِخضاع أخبار الأنبياء الصادقة للطريقة العقلية للبحث والتأمل ، والتحقيق والتوفيق بينهما ، إِنكار في الحقيقة للنبوة ، فالاعتماد في هذه القضايا التي هي وراء طور العقل على الاتباع الكامل ، والإِيمان الصادق بالأنبياء عليهم الصلوات والتسليمات من غير طلب الدليل والبرهان .ولا يظن ظان أن طريقة النبوة تعارض طريق العقل ، لا ، بل إِن طريق العقل ، وهو النظر والاستدلال ، لا يؤدِّي بدون تقليد الأنبياء واتباعهم إِلى هذا المقصِد الرفيع ، المعارضة شيء ، والعجز والقصور شيء آخر ، لأن المعارضة لا تتصور إِلا بعد القدرة والتمكن ۔
(رسالۃ السرھندی، رقم(۳۶) المجموعۃ الثالثۃ)

صحیح منقول صریح معقول کے موافق ہوتی ہے:
کتاب و سنت سے ثابت ہر عقیدہ صریح عقل کے موافق ہوتا ہے، عقل صریح کے خلاف نہیں ہوتا، اگر بظاہر اس میں کوئی تعارض نظر آرہا ہے تو وہ فہم کا قصور ہے ، مناسب اور ضروری غور و فکر سے بظاہر نظر آنے والا تعارض بھی دور ہو جاتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جو بات صریح عقل سے ثابت ہو وہ صحیح منقول کےخلاف کبھی نہیں ہو سکتی، کیونکہ عقل و نقل دونوں ایک ہی انجام کے الگ الگ وسیلے ہیں، یعنی اللہ تک پہنچانے والے، او رجو وسائل ایک ہی نتیجہ تک پہنچاتے ہیں ان میں تعارض نہیں ہوتا ، توافق ہوتا ہے۔
وَقَدْ تَدَبَّرْت مَا أَمْكَنَنِي مِنْ أَدِلَّةِ الشَّرْعِ فَمَا رَأَيْت قِيَاسًا صَحِيحًا يُخَالِفُ حَدِيثًا صَحِيحًا كَمَا أَنَّ الْمَعْقُولَ الصَّرِيحَ لَا يُخَالِفُ الْمَنْقُولَ الصَّحِيحَ ؛ بَلْ مَتَى رَأَيْت قِيَاسًا يُخَالِفُ أَثَرًا فَلَا بُدَّ مِنْ ضَعْفِ أَحَدِهِمَا لَكِنَّ التَّمْيِيزَ بَيْنَ صَحِيحِ الْقِيَاسِ وَفَاسِدِهِ مِمَّا يَخْفَى كَثِيرٌ مِنْهُ عَلَى أَفَاضِلِ الْعُلَمَاءِ فَضْلًا عَمَّنْ هُوَ دُونَهُمْ ؛ فَإِنَّ إدْرَاكَ الصِّفَاتِ الْمُؤَثِّرَةِ فِي الْأَحْكَامِ عَلَى وَجْهِهَا وَمَعْرِفَةَ الْحُكْمِ وَالْمَعَانِي الَّتِي تَضَمَّنَتْهَا الشَّرِيعَةُ مِنْ أَشْرَفِ الْعُلُومِ فَمِنْهُ الْجَلِيُّ الَّذِي يَعْرِفُهُ كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ وَمِنْهُ الدَّقِيقُ الَّذِي لَا يَعْرِفُهُ إلَّا خَوَّاصُهُمْ ؛ فَلِهَذَا صَارَ قِيَاسُ كَثِيرٍ مِنْ الْعُلَمَاءِ يُرَدُّ مُخَالِفًا لِلنُّصُوصِ ؛ لِخَفَاءِ الْقِيَاسِ الصَّحِيحِ عَلَيْهِمْ كَمَا يَخْفَى عَلَى كَثِيرٍ مِنْ النَّاسِ مَا فِي النُّصُوصِ مِنْ الدَّلَائِلِ الدَّقِيقَةِ الَّتِي تَدُلُّ عَلَى الْأَحْكَامِ ۔
(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ:۲۰/۵۶۸)

المنقول الصحيح لا يعارضه معقول صريح قط ، وقد تأملت ما تنازع فيه الناس ، فوجدت ما خالف النصوص الصريحة شبهات فاسدة يُعلم بالعقل بطلانها ، بل يعلم بالعقل ثبوت نقيضها الموافق للشرع ، وهذا تأملته في مسائل الأصول الكبار ، كمسائل التوحيد والصفات ، ومسائل القدر ، والنبوات ، والمعاد ، وغير ذلك .ووجدت ما يعلم بصريح العقل لم يخالفه السمع ، الذي يقال إِنه يخالفه : إِما حديثٌ موضوعٌ ، أو دلالةٌ ضعيفةٌ ، فلا يصلح أن يكون دليلًا لو تجرد عن معارضة العقل الصريح ، فكيف إِذا خالفه صريح المعقول ونحن نعلم أن الرسل لا يُخبِرون بمحالات العقول! بل بمحارات العقول ، فلا يخبرون بما يعلم العقل انتفاءه ، بل يخبرون بما يعجز العقل عن معرفته .
(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ)

ایمانیات میں صحابہ و سلف کا طرز عمل:
نبی ﷺ کے محض کہہ دینے پر صحابہ نے غیبیات کو ایسے ہی قبول کیا جیسا ان کے سامنے بیان کیا گیا ، انہوں نے اس میں قبول پر اکتفا٫ کا ہے ، جن امور میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہو سکتا مثلاً صفات باری تعالی وغیرہ اس میں اپنے عقلی گھوڑے نہیں دوڑائے۔ حتی کے دین میں جن سوالات کو وہ حل کر سکتے تھے ان میں بھی نبی پاک ﷺ کی جانب سے سوال کیا جانے پر صحابہ نے الّٰله و رسوله اعلم کہا ، اور اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تعلیم کو پسند کیا، اپنی طرف سے کچھ کہنے سے گریز کیا ، اور یہی محفوظ طریقہ کار ہے ،اسی سے ان پر اللہ کی برکتیں اور رحمتیں نازل ہوئیں۔
فالأصل في هذا الباب أن يوصف الله بما وصف به نفسه، أو وصفه به رسله، نفياً وإثباتاً، فيثبت لله ما أثبته لنفسه، وينفى عنه ما نفاه عن نفسه وقد علم أن طريقة السلف وأئمتهم إثبات ما أثبته من الصفات من غير تكييف ولا تمثيل، ومن غير تحريف ولا تعطيل، وكذلك ينفون عنه ما نفاه عن نفسه۔
(الرسالۃ التدمریۃ:۴)

الصفات السبع التي يثبتها جميع الأشاعرة وهي: ( العلم، والقدرة، والإرادة، والكلام، والسمع، والبصر، والحياة) أثبتوها لأن العقل دل عليها، ثم إنهم لما وجدوا السمع وافق العقل في هذا احتجوا به، وهذا خلاف منهج السلف الصالح -رحمهم الله- الذي يقوم على الإقرار بما ورد في الكتاب والسنة وإن لم نعلمه بعقولنا۔
) التمسك بالسنن والتحذير من البدع:۱/۲۲)

فاسد تاویلات سے گریز کرنا:
غیبیات کے جن امور کا ادراک عقل سے ممکن نہ ہو ان میں سلف کے طرز کو چھوڑ کر فاسد تاویل کرنا جو سلف کے طرز سے علیحدہ ہو درست نہیں ہے، ان تاویلات سے مسائل غیبیات سلجھنے کے بجائے الجھتے جاتے ہیں، اور ان میں ملوث آدمی حق سے بہت دور جا پڑتا ہے۔ اسی طرح غیبیات کے علاوہ جن نصوص کا ظاہر ایک معنی رکھتا ہو اس کو اس کے معنی سے ہٹا کر کچھ اور معنی نکالنا بھی تاویل فاسد کا حصہ ہے۔
وَهَذَا الَّذِي أَفْسَدَ الدُّنْيَا وَالدِّينَ. وَهَكَذَا فَعَلَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى فِي نُصُوصِ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ، وَحَذَّرَنَا اللَّهُ أَنْ نَفْعَلَ مِثْلَهُمْ. وَأَبَى الْمُبْطِلُونَ إِلَّا سُلُوكَ سَبِيلِهِمْ، وَكَمْ جَنَى التَّأْوِيل الْفَاسِدُ عَلَى الدِّينِ وَأَهْلِهِ مِنْ جِنَايَةٍ. فَهَلْ قُتِلَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَّا بِالتَّأْوِيلِ الْفَاسِدِ! وَكَذَا مَا جَرَى فِي يَوْمِ الْجَمَلِ، وَصِفِّينَ، وَمَقْتَلِ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَالْحَرَّةِ ؟ وَهَلْ خَرَجَتِ الْخَوَارِجُ، وَاعْتَزَلَتِ الْمُعْتَزِلَةُ، وَرَفَضَتِ الرَّوَافِضُ، وَافْتَرَقَتِ الْأُمَّةُ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، إِلَّا بِالتَّأْوِيلِ الْفَاسِدِ؟
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ لإبن أبی العز:۱/۱۱۰)

الواجب في نصوص القرآن والسنة إجراؤها على ظاهرها دون تحريف، لا سيما نصوص الصفات، حيث لا مجال للرأي فيها.
( القواعد المثلى في صفات الله وأسمائه الحسنى:۱/۳۳)

کتاب و سنت کے الفاظ و اصطلاحات کی اہمیت:
قرآن و سنت کے الفاظ اور اصطلاحات کی اپنی اہمیت ہے، وہ اللہ اور اس کے رسول کے دئیے ہوئے الفاظ و اصطلاحات ہیں، بعد کے زمانہ کے متکلمین نے ان کی رعایت نہیں کی بلکہ دیگر مذاہب سے اختلاط کے نتیجہ میں ان کی جانب سے پیدا ہونے والے اعتراضات کے جواب میں اس درجہ غلو سے کام لیا کہ عقائد و ایمانیات کےلئے بھی نئی اصطلاحات وضع کرڈالیں، اور جن لوگوں میں وہ شبہات نہیں تھے ان میں بھی عقائد کی تعلیم کےلئے نئے وضع کردہ اصطلاحات سے عقائد کی تعلیم دی، جس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ جو اثر کتاب و سنت کے الفاظ و اصطلاحات میں تھا اس سے محروم ہوگئے۔
مثلاً : صفات باری تعالیٰ کے بیان میں متکلمین کی عبارتیں کچھ اس طرح ہوتی ہیں:
صانع العالم ليس بجوهر لأن الجوهر متجزئ وتحله الحوادث تعالى الله عن ذلك علوا كبيرا۔ صانع العالم ليس بجسم لأن الجسم مؤلف من الجوهر وإذا بطل كونه جوهرا بطل كونه جسما ضرورة۔ صانع العالم ليس بعرض لأن العرض لا قيام له بذاته بل هو مفتقر إلى جسم يقوم به والقديم عز و جل قائم بذاته غير مفتقر إلى محل يقوم به ۔ صانع العالم ليس بصورة لأن الصورة تنشأ عن التركيب فإذا نفينا كونه جوهرا وجسما نفينا كونه صورة۔ صانع العالم لا يوصف باللون والطعم والرائحة والحرارة والبرودة والرطوبة واليبوسة لأن الألوان والطعوم والحرارة والبرودة والروائح والطبائع الأربعة أعراض تحل في الجواهر فإذا نفينا كونه عرضا وكونه محلا للأعراض ينتفي جميع ذلك:
لا حول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم کہاں قرآن و سنت کا باری تعالیٰ کا تعارف اور کہاں علم کلام کی یہ کج مج تعبیرات جن میں مدح کے بجائے بعض صورتوں میں تو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ علی و عظیم رب ذو الجلال کے تعارف میں ہو رہا کلام ہے۔ کسی درجہ میں اس کی اجازت ان لوگوں کے جواب کےلئے دی جاسکتی ہے جو ان شبہات کے شکار رہتےہیں تو یقیناً اس کی اجازت دی جا سکتی ہے لیکن عام انسانوں کےلئے بیان کئے جارہے عقائد کےلئے قطعاً نہیں دی جا سکتی۔ یہی حال ایمانیات کے تمام اصول و کلیات کا ہے کہ ان میں قرآن و سنت کی اصطلاحات کو ترجیح دینا ضروری ہے۔
وأما الألفاظُ التي ليست في الكتاب والسنة ، ولا اتفق السلف على إِثباتها ونفيها ، فهذه ليس على أحد أن يوافق من نفاها أو أثبتها حتى يستفسر عن مراده ، فإِن أراد بها معنى يوافق خبر الرسول ، أقر به ، وإِن أراد بها معنى يخالف خبر الرسول ، أنكره۔
(مجمل اعتقاد ائمۃ السلف:۱/۱۳۴)

لفظی اور معنوی اختلاف :
اختلاف کی صورت میں اصل اختلاف معنی کا اختلاف ہے، اگر کسی معاملہ میں کسی سے دینی امور میں معنوی اتفاق ہو لیکن لفظی اختلاف ہو تو لفظی نزاع کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔اہل سنت و الجماعت کے درمیان عمل ایمان میں داخل ہے یا نہیں ؟ اسی طرح ایمان میں زیادتی اور کمی ہونے کے معاملہ میں نزاع محض لفظی ہے جبکہ دونوں ایک ہی حقیقت کے قائل ہیں۔ ہاں اگر کسی فرقہ سے لفظی اتحاد ہو اور معنی میں اختلاف ہو تو ان سے لفظی اتحاد کا کوئی اعتبار نہیں ہے، ان کے ساتھ معنوی اختلاف کا اعتبار ہوگا۔مثلاً اعمال کو ایمان کا جزءقرار دینے میں محدثین رحمہم اللہ کا معتزلہ اور خوارج کے ساتھ لفظی اتحاد ہے جبکہ معنوی اختلاف ہے، اس لفظی اتحاد کی وجہ سے محدثین پر اس معاملہ میں معتزلہ اور خوارج کے ہم مسلک ہونے کا الزام نہیں لگایاجائے گا۔ اسی طرح اعمال کو ایمان کا جزء قرار نہ دینے میں فقہاء کوفہ اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ وغیرہ کا مرجئہ کے ساتھ لفظی اتحاد ہے جبکہ معنوی اعتبار سے دونوں کا موقف اس معاملہ میں بالکل جدا ہے ، اس لئے یہ نہیں کہا جائے گا کہ فقہاء کوفہ اور امام ابو حنیفہ مرجئہ کے ہم مسلک ہیں۔ بلکہ جس طرح محدثین کا مسلک معتزلہ اور خوارج سے جدا ہے اسی طرح امام ابو حنیفہ کا مسلک مرجئہ سے جدا ہے۔ ہاں دونوں کی اصطلاحات بظاہر ملتی جلتی ہیں ، لیکن ایسی جگہوں پر معنوی اختلاف کا اعتبار ہے لفظی اتحاد کا اعتبار نہیں ہے۔
وما زال أهل العلم إذا انتهى النزاع بينهم إلى الألفاظ مع اتفاقهم على المعاني يقولون هذا نزاع لفظي والنزاع اللفظي لا اعتبار به يستهينون بالنزاع في الألفاظ إذا وقع الاتفاق على المعاني۔
(الرد علی البکری لإبن تیمیۃ:۱/۲۶۳)

هَلْ الْإِيمَانُ دَالٌّ عَلَى الْعَمَلِ بِالتَّضَمُّنِ أَوْ بِاللُّزُومِ ؟ وَمِمَّا يَنْبَغِي أَنْ يُعْرَفَ أَنَّ أَكْثَرَ التَّنَازُعِ بَيْنَ أَهْلِ السُّنَّةِ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ هُوَ نِزَاعٌ لَفْظِيٌّ وَإِلَّا فَالْقَائِلُونَ بِأَنَّ الْإِيمَانَ قَوْلٌ مِنْ الْفُقَهَاءِ – كَحَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ قَالَ ذَلِكَ وَمَنْ اتَّبَعَهُ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ – مُتَّفِقُونَ مَعَ جَمِيعِ عُلَمَاءِ السُّنَّةِ عَلَى أَنَّ أَصْحَابَ الذُّنُوبِ دَاخِلُونَ تَحْتَ الذَّمِّ وَالْوَعِيدِ وَإِنْ قَالُوا : إنَّ إيمَانَهُمْ كَامِلٌ كَإِيمَانِ جِبْرِيلَ فَهُمْ يَقُولُونَ : إنَّ الْإِيمَانَ بِدُونِ الْعَمَلِ الْمَفْرُوضِ وَمَعَ فِعْلِ الْمُحَرَّمَاتِ يَكُونُ صَاحِبُهُ مُسْتَحِقًّا لِلذَّمِّ وَالْعِقَابِ كَمَا تَقُولُهُ الْجَمَاعَةُ .
(مجموع الفتاوی:۷/۲۹۷)

افعال میں حسن اور قباحت:
افعال و امور میں حسن اور قباحت کے بارے میں معتدل اور متوازن بات یہ ہے کہ افعال میں بذاتہ حسن و قبح ہوتا ہے، جیسے وہ نافع و ضار ہوتے ہیں، اور اشیا٫ و افعال کے حسن اور قبح کا ادراک عقل سے ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت ایسی بنائی ہے، اور اس میں فجور و تقوی کی معرفت ایسے ودیعت کی ہے کہ وہ اپنی عقل و فطرت سے سچائی، انصاف، پاکبازی، نیکی اور انعام و احسان کے مقابلہ میں شکر گذاری کی اچھائی کو کسی کتابی تعلیم کے بغیر بھی پا لیتا ہے، جس طرح ان کی ضد :جھوٹ، ظلم، بے حیائی، برائی اور ناشکری کا ادراک کرلیتا ہے۔
البتہ افعال کی جزا٫ و سزا٫ کا تعین عقل سے نہیں ہوتا، بلکہ اس کےلئے معیار شریعت ہے، افعال کی جزا٫ و سزا٫ شارع کے امر و نہی پر موقوف ہوتے ہیں، جزا٫ و سزا٫ عقل سے ثابت نہیں ہوتے۔
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا (7) فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا o
(سورۃ الشمس:۸)

أن الأفعال في نفسها حسنةٌ وقبيحةٌ ، كما أنها نافعةٌ وضارةٌ ، وأنَّ العقلَ يُدركُ الحسْنَ والقُبْحَ في الأشياء ، والله قد فطر عباده على استحسان الصدق ، والعدل ، والعفة ، والإِحسان ، ومقابلة المنعم بالشكر ، وفطرهم على استقباح أضدادها ، لكنَّ الثواب والعقاب شرعيّان يتوقفان على أمر الشارع ونهيه ، ولا يَجِبانِ عن طريق العقل۔
(مجمل ائمۃ السلف: ۱/۱۴۴)

محکم و متشابہ کا مفہوم:
قرآن مجید کی آیات کی طرح صفات باری تعالیٰ میں بھی بعض باتیں وہ ہیں جنہیں بالکل کھلا ہوا واضح اور صریح بیان کیا گیا ہے، جن میں کسی تاویل کی نہ ضرورت ہوتی ہے ، نہ گنجائش ہوتی ہے، ایسے امور کو محکم کہا جاتا ہے۔
جبکہ بعض صفات ایسی بیان کی گئی ہیں کہ جن کے معنی صرف اللہ جانتا ہے، ان کی مراد ظاہر اور واضح نہیں ہوتی، انہیں بندوں کو آزمائش کے طور پر متشابہ شکل میں دیا گیا ہے، اور ان کے جو معنی ہمیں بظاہر سمجھ میں آرہے ہیں وہ لینا مشکل ہوتا ہے، اگر ان کے ظاہر میں جو معنی سمجھ میں آتے ہیں ان پر محمول کیا جائے تو وہ دوسری نصوص کے خلاف پڑتے ہیں، ایسے امو رکو متشابہ کہا جاتا ہے۔
أن في القرآن آيات محكمات هن أم الكتاب، أي: بينات واضحات الدلالة، لا التباس فيها على أحد من الناس، ومنه آيات أخر فيها اشتباه في الدلالة على كثير من الناس أو بعضهم.
(التفسير القرآن العظيم, لابن كثير:۲/۶)

مُحْكَماتٌ واضحات الدلالة، لا خلاف في معناها….. مُتَشابِهاتٌ هي التي لم يظهر معناها ولم يتضح، بل خالف ظاهر اللفظ المعنى المراد….. وما يعلم تأويل المتشابه إلا اللّه، فهو مما استأثر اللّه بعلمه، أو ما خالف ظاهر اللفظ فيه المراد منه، فلا يعلم حقيقته إلا اللّه.
(التفسیر المنیر:۳/۱۵۳)

محکم امور کا حکم:
محکم صفات اور عقائد کو بعینہ قبول کرنا ہے، ان میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی ہے، بلکہ محکم میں تاویل کرکے اس میں تحریف کرنا کفر ہے۔
فمن ردّ ما اشتبه عليه إلى الواضح منه، وحكم محكمه على متشابهه عنده، فقد اهتدى. ومن عكس انعكس.
(التفسير القرآن العظيم, لابن كثير:۲/۶)

كل ما لم يحتمل التأويل في نفسه وتواتر نقله ولم يتصور ان يقوم على خلافه برهان فمخالفته تكذيب محض.
(إعلام الموقعین۴/۲۴۷)

إن التأويل في ضروريات الدين غيرَ مقبول، وذلك لأن التأويلَ فيها يُساوِق الجحود.
(فتح الباری: ج۱ ص ۶۵)

متشابہات کی مثال اور ان کے ظاہر سے پیدا ہونے والے معنی کا ممتنع ہونا:
متشابہ صفات میں مثلاً : اللہ کےلئے قرآن و سنت میں وجہ(چہرہ)، ید(ہاتھ)، ساق(پنڈلی)، رجل(پیر)، اعین (آنکھیں)، استوا٫ علی العرش (عرش پر مستوی ہونا)، اور آسمان دنیا پر نزول فرمانا جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں، اب مسئلہ یہ ہے کہ ان صفات والے جتنے ذی حیات اقسام کو ہم جانتے ہیں سب کے سب جسم والے ہیں، اور جسم والے جتنے ہیں ان سب کےلئے ایک طے شدہ امر یہ ہے کہ: وہ حادث اور ممکن ہوتے ہیں، ان پر جوہر یا عرض کا اطلاق ہوتاہے۔پھر رب العلمین کےلئے حادث اور ممکن ہونا خود ایک عیب ہے، جبکہ پھر حادث اور ممکن ہونے میں مزید عیوب مضمر ہوتے ہیں، مثلاً : حادث کے لئے مُحدِث ضروری ہے (کہ اس کا پیدا کرنے والا کوئی اور ہوتا ہے)، ممکن کےلئے کوئی اور واجب الوجود ضروری ہے۔ پھر حادث حدود میں محدود ہوتا ہے، ذی جہت ہوتاہے، محاط ہوتا ہے وغیرہ اب یہ سب باری تعالیٰ کےلئے عیوب ہیں، ان میں سے کسی ایک کی نسبت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی جا سکتی۔ اللہ حادث و ممکن نہیں بلکہ واجب الوجود ہے، جہتوں میں محدود نہیں ہےبلکہ ان سے ما ورا٫ ہے، محاط نہیں محیط ہے تو پھر ان اوپر مذکورہ صفات کا مطلب کیا ہے؟
وتعالى عن الحدود والغايات، والأركان والأعضاء والأدوات.لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات.
(العقیدۃ الطحاویۃ)

متشابہات کا حکم:
متشابہات کا علم اللہ کے پاس ہے، وہ ان پر اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے مطلع کرتا ہے، ان پر اجمالاً ایسے ہی ایمان لانا ہے جیسے ان کو بیان کیا گیا ہے، کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی ان سے مراد ہے وہ حق ہے ،اور ان کی کیفیت کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے علم کے حوالہ کیا جاتا ہے،ان کی مزید تفتیش اور کھود کرید کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اور ان کو ماننے سے بظاہر جو نقائص و عیوب لازم آتے ان کی اللہ تعالیٰ سے نفی کی جاتی ہے۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کےلئے جتنے ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ بالکل برحق ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا چہرہ، ہاتھ، آنکھیں،پنڈلی، پیر سبھی ہیں، اور وہ عرش پر مستوی ہے لیکن ان کی کیفیت کہ سب چیزیں اللہ کے ساتھ کیسی ہیں ہمیں معلوم نہیں ہے، ان کی کیفیت اللہ بہتر جانتے ہیں، ان صفات کی کیفیت کو ہم اللہ کے حوالہ کرتے ہیں، رہی بات یہ کہ ان کو اگر ایسے مانا جائے جیسی ان چیزوں کی کیفیت ہم جانتے ہیں تو ان کا ذی جسم، جہتوں والا اور محدود و محاط ہونا وغیرہ لازم آتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب اس کی کیفیت کی نسبت کو ہم نے اللہ سے منسوب کردیا اور ہمیں معلوم کیفیت کی اللہ سے نفی کردی تو خود ہی اس بات کی بھی نفی ہوگئی کہ: اللہ جسم والا ، یا جہتوں میں محدود ہے ، یا محاط ہے وغیرہ، اب اللہ تعالیٰ میں یہ سب نقائص نہیں ماننے پڑیں گے۔
ونقول: الله أعلم، فيما اشتبه علينا علمه.(العقیدة الطحاویة) مُحْكَماتٌ واضحات الدلالة، لا خلاف في معناها….. مُتَشابِهاتٌ هي التي لم يظهر معناها ولم يتضح، بل خالف ظاهر اللفظ المعنى المراد….. وما يعلم تأويل المتشابه إلا اللّه، فهو مما استأثر اللّه بعلمه، أو ما خالف ظاهر اللفظ فيه المراد منه، فلا يعلم حقيقته إلا اللّه.(التفسیر المنیر:۳/۱۵۳) لا ندخل في ذلك متأولين بآرائنا، ولا متوهمين بأهوائنا .
(العقیدة الطحاویة)

متشابہات امور میں صحابہ اور بعد والوں کے طرزِ عمل کا فرق :
صحابہ کرام ان صفات کو مانتے تھے، لیکن ان کے علم کی گہرائی اور ان میں ان صفات کی کیفیت کی تحقیق سے گریز کی وجہ سے ان کو یہ سب شبہات نہیں پیش آتے تھے۔جبکہ بعد میں اسلام دور دراز کے علاقوں میں پھیلا اور دیگر فلسفیانہ موشگافیاں کرنے والوں سے اختلاط ہوا، اور انہوں نے بھی اسلام کو قبول کیا، تو ان سے یہ شبہات شروع ہوئے، ان کو مطمئن کرنے کےلئے علما٫ نے جو کلام کیا ہے اس میں ان سب اعتراضات کے جوابات مذکور ہوتے ہیں، آج جن لوگوں میں یہ شبہات ہوں انہیں کو اس کی تفصیلات ذکر کرنا چاہئے اور جو ان کو نہیں جانتے ان کے سامنے قرآن و سنت سے راست عقائد ذکر کردینا چاہئے، ہم نے بھی یہاں اس موضوع پر اجمالی خاکہ پیش کردیا ہے، تفصیل کےلئے دوسرا مقام ہے۔
صفات متشا بہات پر مزید کچھ کلام آگے ایمان باللہ میں صفات باری تعالیٰ کے موضوع کے تحت بھی آئے گا۔
وردَّ علم ما اشتبه عليه إلى عالمه.ولا تثبت قدم الإسلام إلا على ظهر التسليم والاستسلام.فمن رام علم ما حظر عنه علمه، ولم يقنع بالتسليم فهمه، حجبه مرامه عن خالص التوحيد، وصافي المعرفة، وصحيح الإيمان. فيتذبذب بين الكفر والإيمان، والتصديق والتكذيب، والإقرار والإنكار.موسوساً تائهاً، شاكاً، لا مؤمناً مصدقاً، ولا جاحداً مكذباً.
(العقیدۃ الطحاویۃ)

قرآن و سنت نے جن امور کو مبہم رکھا ہے ان کو مبہم ہی رکھنا بہتر ہے:
جس مضمون کو قرآن و سنت نے صراحت و تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اس کو صراحت و تفصیل سے قبول کرنا ہے،اور جس مضمون کو قرآن و سنت نے بطور اجمال اور ابہام کے بیان کیا ہے اس میں اجمال اور ابہام ہی بہتر ہے، اس میں اپنی جانب سے تفصیل مناسب نہیں ہے۔ایسےمضامین میں اجمال اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ اس کی تفصیلات کو حل کرنا بندوں کی محدود عقل کےلئے ممکن نہیں ہے، ایسے مجمل اور مبہم امور کو کھولنے کی کوشش بھی گمراہی ہے کیونکہ وہ ان کو اپنی محدود عقل سے کھول نہیں پاتے ہیں اور الجھ جاتے ہیں۔
مثلاً اللہ ذی جسم ہیں یا نہیں ہیں؟ یاجوج ماجوج کی تفصیلات کیا ہیں؟ حضرت آدم نے جنت میں کونسا درخت کھایا تھا، اصحاب کہف کے کتے کی کیا تفصیل ہے؟ وغیرہ ایسے امور کو اللہ اور اس کے رسول نے مبہم رکھا ہے، اب ان کو کھولنے میں دین کا کوئی فائد ہ نہیں ہے، اس لئے ایسے امور کو مبہم ہی رکھنا ہے، اور ان کے علم کو اللہ سے منسوب کرنا ہے کہ ان کی تفصیل اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں۔
فما سكت عنه الشرع نفيًا وإِثباتًا ، ولم يكن في العقل ما يثبته أو ينفيه ، سكتنا عنه ، ونثبت ما علمنا ثبوته من ذلك ، وننفي ما علمنا نفيه .
(مجمل اعتقاد أئمۃ السلف:۱/۱۳۲)

اس کی اور بھی مثالیں ہیں جن کو ہم آگے بالترتیب اپنی اپنی جگہ تفصیل سے ذکر کریں گے۔
علم ِموجود اور علم ِمفقود:
ایک علم وہ ہے جو بندوں کو دیا گیا ہے، اس کو کہتے ہیں علم موجود مثلاً قرآن کے محکمات کا علم، یہ علم موجود ہے۔ اور ایک علم وہ ہے جو بندوں کو نہیں دیا گیا ہے، مثلاً غیب کا علم، مستقبل کے واقعات کا علم، متشابہات کا علم، تقدیر کا علم وغیرہ، یہ علم مفقود ہے۔ جس طرح علم موجود کا انکار کفر ہے اسی طرح علم مفقود کا دعوی بھی کفر ہے،ایمان کا ثبوت جس طرح علم موجود کے قبول سے ہوتا ہے، اسی طرح علم مفقود کی طلب چھوڑ دینا بھی ایمان کا لازمی تقاضہ ہے، اس پر اس طرح اجمالاً ایمان لانا ہے کہ وہ ہے، اور اللہ کے علم میں ہے۔
لأن العلم علمان: علم في الخلق موجود، وعلم في الخلق مفقود.فإنكار العلم الموجود كفر، وادعاء العلم المفقود كفر.ولا يثبت الإيمان إلا بقبول العلم الموجود، وترك طلب العلم المفقود.
(العقیدۃ الطحاویۃ)
اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد:
یہاں بیان کئے جارہے عقائد کتاب و سنت کے عقائد ہیں، انہیں ’’عقائد اہل السنۃ و الجماعۃ ‘‘بھی کہا جاتا ہے، یعنی وہ ایمان و عقیدہ جو رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کا ایمان و عقیدہ تھا ان کو عقائد اہل السنۃ و الجماعۃ کہا جاتا ہے۔
’’اہل السنۃ و الجماعۃ‘‘نام کی بنیاد اور اس کے معنی:
اہل حق مسلمانوں کا ’’اہل السنۃ و الجماعۃ‘‘ نام پڑنے کی بنیاد خود حدیث نبوی ہے: ایک موقع پر نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ میری امت میں تہتر فرقے ہوں گے جن میں سے صرف ایک نجات پائے گا، باقی سب جہنمی ہوں گے، صحابہ نے دریافت کیا : یا رسول اللہ وہ نجات پانے والا فرقہ کونسا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ گروہ جو اس راستہ پر گامزن ہوگا جس پر میں ہوں ،اور میرے صحابہ ہیں۔ اس حدیث میں آپ نے فرمایا: ’’ما أنا علیه و اصحابی‘‘ اس میں ’’ ما أنا علیه ‘‘سے مراد سنت نبوی ہے، اور ’’اصحابی‘‘ سے مراد جماعت صحابہ ہے، اب بعد میں جنہوں نے سنتوں اور صحابہ کی جماعت کی پیروی کی انہیں ’’اہل السنۃ و الجماعۃ‘‘کہا جاتا ہے۔ اور وہ لوگ جو سنت اور جماعت صحابہ کے عقیدوں اور طریقہ سے ہٹ گئے انہیں فرقہ کہا جاتا ہے۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – ﷺ – لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِى مَا أَتَى عَلَى بَنِى إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلاَنِيَةً لَكَانَ فِى أُمَّتِى مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِى إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِى عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِى النَّارِ إِلاَّ مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمَنْ هِىَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْه وَأَصْحَابِى.
(حسن: سنن الترمذی)

صحابہ کو معیار حق بنانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ صحابہ نے براہ راست آپ کی نگرانی میں رہ کر دین کی تربیت حاصل کی ہے، اور آپ کے بعد بہت سے ایسے واقعات پیش آنے والے تھے جس کےلئے آپ ﷺ نے صحابہ کی اور ان میں قیادت کےلئے خاص طور سے خلفاء راشدین کی تربیت فرمائی تھی، جس کا عملی اظہار دور ِخلافت راشدہ میں ہونا تھا، اسی لئے آپ ﷺ نے اپنے ساتھ صحابہ کو معیار حق بنایا اور خلفاء راشدین کی سنت کو لازمی قرار دیا۔
سنت اور جماعت ِصحابہ معیارِ حق ہیں:
اس حدیث کی رو سے سنت اور صحابہ کر ام کے طریقہ کی پیروی لازم ہے، اور فرقہ بندی حرام اور جہنم میں پہنچانے والی ہے، نبی ﷺ اگر چاہتے تو صرف یہ کہہ دیتے کہ وہ راستہ جس پر میں ہوں وہ نجات پانے والا ہے ، لیکن آپ نے اپنے ساتھ جماعت صحابہ کو بھی شامل فرمایا اور اسی وجہ سے سنت اور جماعت صحابہ دونوں معیار حق ہیں۔
اب سنت و جماعت صحابہ کی پیرو ی لازم ہے، اور ان سے الگ راہ بنانا حرام ہے، اور جو اس کی پیروی کرے وہ دین اسلام کی پیروی کرنے والا ہے اور ان سے علیحدگی شذوذ اور فرقہ بندی ہے۔
ونتبع السنة والجماعة، ونجتنب الشذوذ والخلاف والفرقة.ونرى الجماعة حقاً وصواباً، والفرقة زيغاً وعذاباً. ودين الله في الأرض والسماء واحد، وهو دين الإسلام. قال الله تعالى: (إن الدين عند الله الإسلام) وقال تعالى (ورضيت لكم الإسلام ديناً) .
(العقیدۃ الطحاویۃ)

خلفاء راشدین کون ہیں:
حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم خلفاء راشدین ہیں، ان حضرات کے دور میں دین کی جو بات جماعت صحابہ نے خلافت کے ادارہ سے متفقہ طور پر طے کی ہو وہ اجماع ہے جس کی پیروی ایسے ہی لازم ہے جیسے سنت کی پیروی لازم ہے، کیونکہ اس کا حکم خود قرآن اور نبی ﷺ نے دیا ہے۔
ونثبت الخلافة بعد رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم: أولاً لأبي بكر الصديق رضي الله عنه، تفضيلاً له وتقديماً على جميع الأمة، ثم لعمر بن الخطاب رضي الله عنه، ثم لعثمان رضي الله عنه، ثم لعلي بن أبي طالب رضي الله عنه ، وهم الخلفاء الراشدون والأئمة المهتدون.
(العقیدۃ الطحاویۃ)

قال النبی ﷺ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِى فَسَيَرَى اخْتِلاَفًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ
(سنن ابی داؤد)

اجماع ِصحابہ کو ماننے سے انکار کرنا:
اجماع صحابہ بغیر کسی اختلاف کے حجت ہے، جن امور پر صحابہ کا اجماع ہو چکا ہو ان کو ماننا اور ان کی پیروی کرنا واجب ہے، اور اس کی مخالفت کرنا کفر ہے، ، یہ شبہ نہ ہو کہ صحابہ کا انکار کفر کیسے ہوگا، اس لئے کہ اجماع صحابہ کو ماننے کا حکم خود اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے، اس لئے اس کو ماننے سے انکار کرنا اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو ماننے سے انکار کرنا ہے۔
یہ تمام اہل سنت و الجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے، جس میں احناف، مالکیہ، شوافع، حنابلہ، اور محدثین سبھی شامل ہیں، امت کا سواد اعظیم اسی عقیدہ کا حامل ہے، اس عقیدہ کا انکار کرنے والا اہل سنت و الجماعت میں نہیں بلکہ شاذ اور فرقہ ہے۔
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
(النساء:115)

اَلَّذِي خَالَفَ سُنَّتَهُ وَإِجْمَاعَ الصَّحَابَةِ وَعُلَمَاءَ أُمَّتِهِ فَهُوَ الْكَافِرُ . (مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ:۲۷/۳۳۸) ومذهب أهل السنة والجماعة مذهب قديم معروف قبل أن يخلق الله أبا حنيفة ومالكا والشافعي وأحمد فإنه مذهب الصحابة الذين تلقوه عن نبيهم ومن خالف ذلك كان مبتدعا عند أهل السنة والجماعة فإنهم متفقون على أن إجماع الصحابة حجة۔ (منہاج السنۃ النبویۃ:۲/۳۶۳) إجماع الصحابة حجة بلا خلاف۔ (ارشاد الفحول للشوکانی:۱/۲۱۷) واكفروا من لم ير اجماع الصحابة حجة۔
(الفرق بین الفرق لعبد القاهر ابو منصور البغدادی:۱/۳۳۷)

فرقوں کی بنیاد کیسے پڑی:
نبی ﷺ نے جو دین اسلام امت کے پہلے طبقہ یعنی صحابہ کو دیا انہوں نے بعینہ اس کو مانا اور اس پر عمل کیا، صحابہ کے بعد جب دین میں بدعات شروع ہوئیں، جن میں اصل دین اسلام میں کہیں ’’کمی‘‘ یا کہیں ’’زیادتی ‘‘کی گئی جس کا اصل اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا، اصل اسلام سے ہٹنے کی یہ جو روش تھی یہیں سے فرقہ بندی کا آغاز ہوا، جس نے اسلام کے جس اصول کو توڑا یا چھوڑا اس نے اسلام کو چھوڑ کر ایک نئے فرق / اور نئے فرقہ کو جنم دیا۔
قال النبی ﷺ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِى فَسَيَرَى اخْتِلاَفًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ۔
(سنن ابی داؤد)

اصول و کلیات میں فرق سے فرقہ بنتا ہے:
یہ فرق /یا نئی بات کا پیدا کرنا معمولی چیزوں میں شمار نہیں ہوتا ہے، مثلاً دور نبوت کے بعدصحابہ کےدور میں جب نئے لوگ اسلام لانے لگے تو ان میں ایک بات حضرت ام المؤمنین حضرت عائشہ نے دیکھی کہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھاتے تھے، حضرت عائشہ نے اس پر فرمایا کہ یہ ایک نئی بات / اور بدعت تم نے شروع کی کہ تم پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہو جبکہ دو رِنبوت میں ایسے نہیں ہوتا تھا، ہم پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے تھے۔حضرت عائشہ نے یہاں جس بدعت کا ذکر کیا ہے اس فرق سے کوئی فرقہ نہیں بنتا ، بلکہ اسلام کی بنیادیں، اور اسلام کے مسلمات اور اصول و کلیات جن پر پوری اسلام کی عمارت کی بنیاد کھڑی ہے اس میں فرق سے فرقے بنتےہیں۔
نبی ﷺ نے جو اسلام دیا ہے اس کا ہر اصول اور ہر رکن اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، اور کل اسلام کو ماننا ضروری ہے، جو اسلام کے تمام مسلمہ اصولوں کو مانے جس پر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ تھے وہ نجا ت پانے والے اور کامیاب ہیں، اور بعد میں جنہوں نے اسلام کے کل مسلمات اور اس کے اصولوں سے روگردانی کی یا کسی ایک قطعی اصول کو توڑا وہ فرقہ بن گئے۔
أول ما أحدث الناس أربعة أشياء : المناخل ، والشبع ، وغسل اليدين بالأشنان بعد الطعام ، والأكل على الموائد ، وهذا كله ـ إن ثبت نقلاً ـ ليس ببدعة ، وإنما يرجع إلى أمر آخر ، وإن سلم أنه بدعة فلا نسلم أنها مباحة ، بل هي ضلالة ومنهي عنها ، ولكنا نقول بذلك .
(الإعتصام للشاطبی:۱/۱۵۷)

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – ﷺ – لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِى مَا أَتَى عَلَى بَنِى إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلاَنِيَةً لَكَانَ فِى أُمَّتِى مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِى إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِى عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِى النَّارِ إِلاَّ مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمَنْ هِىَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِى.
(حسن: سنن الترمذی)

اسلام میں پہلا فرقہ اور پھر فرقوں کی مثالیں:
اسلام میں سب سے پہلا فرقہ حضرت ابو بکر کے دور میں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن اس کا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے استیصال کردیا ، اور اسے جڑ سےاکھاڑ پھینکا، اس فرقہ کو حضرت ابو بکر نے فرقہ بننے نہیں دیا۔
نبی ﷺ کے وصال کے بعد بعض نئے نئے اسلام قبول کرنے والے قبائل نے زکاۃ کے معاملہ میں انحراف کیا، اورکہا کہ وہ زکاۃ نہیں دیں گے۔ان کا زکاۃ کی ادائیگی سے انکار دین کے کسی غیر اہم جز٫ کا انکار نہیں تھا بلکہ اسلام کے ایک اہم رکن سے انحراف تھا، اسلام کو ماننے والے کےلئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے کسی رکن کو ماننے سے انکار کرے ، ورنہ پھر وہ مسلمان کہاں رہا،اور اس کا دین اسلام کہاں باقی رہا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس وقت بہت غیر معمولی بات ارشاد فرمائی، انہوں نے کہا : أ ینقص الدین و أنا حیّ: کہ کیا ابھی میں زندہ ہوں اور دین میں کمی کردی جائے گی؟ حضرت ابو بکر کا یہ جملہ کوئی معمولی جملہ نہیں تھا ، انہوں نے زکاۃ دینے سے انکار کرنے والوں کو کہا کہ یہ دین میں نقص ہے، حالانکہ یہ اللہ اور اس کے رسول، کتاب اللہ، آخرت، تقدیر وغیرہ جیسے امو رکا انکار نہیں تھا ، ہاں لیکن یہ کتابُ اللہ کے ایک حکم کا انکار تھا، اور اس اعتبار سے یہ یقیناً دین میں نقص کا باعث تھا، حضرت ابو بکر نے تمام صحابہ کی تائید اور حمایت سے اس فتنہ کی سرکوبی کی ، یہ فتنہ اور فرقہ وجود میں تو آیا لیکن اس کو پنپنے نہیں دیا گیا، اور اس کو پوری طرح سے جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا۔
قال عبد الله بن مسعود: لقد قمنا بعد رسول الله، صلى الله عليه وسلم، مقاماً كدنا نهلك فيه لولا أن الله من علينا بأبي بكر، أجمعنا على أن لا نقاتل على ابنة مخاض وابنة لبون، وأن نأكل قرى عربية ونعبد الله حتى يأتينا اليقين، فعزم الله لأبي بكر على قتالهم، فوالله ما رضي منهم إلا بالخطة المخزية أو الحرب المجلية۔
(الکامل فی التاریخ:۱/۳۶۵)

دوسری مثال:
اسلام سے فرق کر کے فرقہ بننے کی دوسری مثال حضرت عثمان کے قتل کے بعد خوارج کا فتنہ تھا۔
خوارج اسلام کے جس اصول سے ہٹے اس کو جاننا چاہئے جس سے واضح ہو جائے گا کہ فرقے کیسے بنے اور بنتے ہیں، اسلام کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ:گناہ کبیرہ کا مرتکب فاسق ہوتا ہے، اگر اس گناہ کی کوئی سزا٫ دنیا میں مقرر ہے تو اس کو وہ حد یا تعزیر کے طور پر سزا٫ دی جائے گی، لیکن وہ دنیا میں مسلمان ہی باقی رہے گا، اس اصول کے بہت دور رس نتائج نکلتے ہیں، مثلاً بحیثیت مسلمان دیگر مسلمانوں کے جو حقوق ہوتے ہیں مرتکب کبیرہ کے بھی وہی حقوق ہوں گے، اس کی جان ومال کی اسلامی حکومت میں حفاظت ہوگی، اور آخرت میں اللہ چاہے تو اس کو اس کے گناہ کی سزا٫ دیں گے ، یا معاف کرکے جنت میں داخل کریں گے، یہ اسلام کے عقائد کااصولی کلیہ ہے ۔ گویا مرتکب کبیرہ کو اللہ اور اس کے رسول نے مؤمن و مسلمان مانا، البتہ ان کی دنیا یا آخرت میں کوئی سزاء مقرر فرمائی، اس سے ہٹ کر وہ کافر نہیں ہے۔
خوارج نے اسلام کے اس اصول و کلیہ سے انحراف کیا، انہوں نے مرتکب کبیر ہ کو کافر قرار دیا، جاننا چاہئے کہ یہ بات صرف ایک اصول کو توڑنے کی حد تک ہی محدود نہیں رہتی، بلکہ اس کے بہت دور رس نتائج نکلتے ہیں چنانچہ انہوں نے کہا کہ جب یہ ارتکاب کبیرہ سے کافر ہو چکے تو اب مرتکب کبیرہ اُن کی جان ومال کی حفاظت سے وہ علیحدہ ہوگئے، اور ان کو قتل کرنا اور ان کے مال کو مالِ غنیمت بنانا سب جائز ہے۔
یہ نظریہ دین اسلام کے مسلمات میں ایک اضافہ تھا، حالانکہ وہ اللہ اور اس کے رسول، آخرت اور قرآن کو ماننے والے تھے، لیکن قرآن و سنت سے ثابت ایک اصول دین سے منحرف ہوگئے تھے، دین اسلام سے اسی فرق نے انہیں فرقہ بنایا۔
یہ اسلام کا ابتدائی فرقہ ہے جو بعد میں بھی باقی رہا، اول حضرت علی نے ان کو اسلام کا صحیح اصول بتلانے اور ان کی غلطی کو واضح کرنے کےلئے حضرت ابن عباس کو بھیجا ،حضرت ابن عباس کی جانب سے اسلام کے صحیح اصول کو واضح کرنے کے بعد ان بہکے ہوے لوگوں میں سے آٹھ ہزار کا مجمع اسلام میں اس فرق کو پیدا کرنے سے توبہ کرکے اس فرقہ سے علیحدہ ہو کر مسلمانوں میں مل گیا، لیکن چار ہزار افراد پھر بھی اس فرقہ میں باقی رہے، اور مسلمانوں سے جنگ و جدال کرتے رہے، لیکن پھر ان کا زور بھی توڑ دیا گیا، مگر پھر بھی یہ ایک فرقہ کی شکل میں طویل عرصہ تک باقی رہے، اور ان کے نظریات کا کچھ اثر آج بھی مختلف شکلوں میں موجود ہے۔
وأول من ضل في ذلك هم الخوارج المارقون حيث حكموا لنفوسهم بأنهم المتمسكون بكتاب الله وسنته وأن عليا ومعاوية والعسكرين هم أهل المعصية والبدعة فاستحلوا ما استحلوه من المسلمين(الاستقامۃ:۱/۱۱۳)وأول بدعة حدثت في الإسلام بدعة الخوارج والشيعة حدثتا في أثناء خلافة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب فعاقب الطائفتين أما الخوارج فقاتلوه فقتلهم وأما الشيعة فحرق غاليتهم بالنار وطلب قتل عبدالله بن سبأ فهرب منه وأمر بجلد من يفضله على أبي بكر وعمر وروى عنه من وجوه كثيرة أنه قال خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر ثم عمر ورواه عنه البخاري في صحيحه۔
(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ:۳/۲۸۰)

تیسری مثال:
مسلمانوں میں فرقے دین اسلام سے خود کسی فرق کی وجہ سے بھی بنے ، اور کچھ اسلام دشمنوں کی سازشوں میں آکر دین اسلام کے اصول سے انحراف سے بھی بنے، مثلاً حضرت علی اور حضرت معاویہ کے سیاسی نزاع سے فائدہ اٹھا کر یہودیوں اور عیسائیوں نے مسلمانوں میں فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی، اس میں ایک یہودی عبد اللہ بن سبا کا خاص نام آتا ہے، اس نے اس سیاسی اختلاف کو مذہبی عقیدہ میں انحراف کا ذریعہ بنایا۔
اہل بیت کی محبت مسلمانوں میں ایک فطری عنصر ہے، یعنی نبی ﷺ کے گھر والوں سے محبت، اس میں ازواج مطہرات کے علاوہ حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن حضرت حسین رضی اللہ عنہم سے گہرا تعلق اور محبت اہم پہلو ہے، حضرت معاویہ سے اختلاف کے موقع پر عبد اللہ بن سبا نے حضرت علی کی شخصیت کو نئے اسلام قبول کرنے والوں کےلئے ایک پیچیدہ مسئلہ بنادیا، اور ان کے بارے میں تقریباً اسی تجربہ کو اپنا گیا جو حضرت عیسی کی شخصیت کے بارے میں اس کے پیش رو یہودی پال نے اپنایا تھا ، اور دین عیسوی کی حقیقت ہی بدل دی، اسی طرح نئے اسلام قبول کرنے والوں میں جو اسلام کے سیاسی محاسن سے اسلام کے قریب آئے تھے، ان کی اسلامی عقائد کی بنیادیں ابھی مضبوط نہیں ہوئی تھیں اور وہ مشرکین یا عجمیوں کی توہم پرستیوں سے قریب تھے، ان میں جہاں موقع ہوا وہاں اسلام کے الگ الگ اصولوں سے انحراف پیدا کیا۔
جو لوگ عبد اللہ بن سبا کی محنتوں سے امت کے عام دھارے سے ہٹ کر فرقہ بنے ان میں بتدریج اسلام کے متعدد مسلمات سے انحراف پایا جاتا ہے، مثلاً: بعضوں میں حضرت علی میں خدا کی ذات کا حلول کر جانا عقیدہ بنا، بعضوں میں یہ عقیدہ بنا کہ رسالت کے حقیقی حقدار حضرت علی تھے(غرابیہ)، بعضوں میں یہ عقیدہ بنا کہ شروع سے خلافت کے حقیقی حقدار حضرت علی تھے، اور آگے بھی امامت انہیں کی نسل میں چلنا شرعاً طے شدہ تھا، اور انہوں نے اماموں میں وہ اختیارات مانے جو شارع کے ہوتے ہیں مثلاً تحلیل و تحریم، احکام کو منسوخ کرنا، اماموں کا معصوم ہونا وغیرہ (امامیہ)، اسی طرح بعضوں نے قرآن میں تحریف کا عقیدہ اختیار کیا، حضرت عائشہ پر تہمت کو حق جانا، صحابہ اور بالخصوص شیخین کو گالیاں دینا دین کا حصہ بنایاوغیرہ، ان میں سے کوئی ایک ہی عقیدہ اس لائق ہے کہ اس کے ماننے والوں کو اسلام سے جدا کرکے ایک فرقہ بنادے، جبکہ شیعہ تو اسلام کے متعدد اہم اصول اور مسلمات سے انحراف کامجموعہ ہیں۔
اسی طرح اسلام کا ایک مسلمہ اصول ہے ’’تقدیر کو ماننا‘‘، قدریہ نے اس اصول کا انکار کیا اور وہ اسلام سے ہٹ کر ایک فرقہ بن گئے۔اسلام کا ایک اور مسلمہ اصول ہےکہ: ’’اللہ تعالیٰ کی صفات ثابت ہیں‘‘ جہمیہ نے اس مسلمہ اصول سے انحراف کیا اور صفات باری تعالیٰ کا انکار کیا اور ایک فرقہ بن گئے۔اسلام کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ : ’’قبول ایمان کے بعد اعمال صالحہ سے انسان نیک بنتا ہے، اور وہ مؤمن کو نفع پہنچاتے ہیں اور بد عملی سے وہ گناہ گار ہوتا ہے اور گناہ اس کو نقصان پہنچاتے ہیں‘‘ مرجئہ نے اسلام کے اس مسلمہ اصول سے انحراف کیا اور یہ کہا کہ قبول ایمان کے بعد اعمال کوئی نفع نہیں پہنچاتے اور سیئات کوئی نقصان نہیں پہنچاتے، اسلام سے اس انحراف نے انہیں اسلام سے ہٹ کر ایک فرقہ بنا دیا۔
جبکہ اہل السنۃ و الجماعۃ نبی ﷺ اور صحابہ اور اسلام کے تمام صحیح اور مستند طور پر ثابت مسلمات کو ماننے کا نام ہے، وہ اسلام کے کسی ایک مسلمہ اصول سے بھی انحراف نہیں کرتے،ہر ثابت مسلمہ کو مانتے ہیں، ان سے ہٹ کر جو بھی گروہ ان مسلمات سے کلی طور پر انحراف کرتا ہے، یا کسی ایک مسلمہ اصول سے انحراف کرتا ہے جو نبی ﷺ سے یقینی طور پر ثابت ہے یہ انحراف اس کو اسلام سے جدا کرکے ایک فرقہ بنادیتا ہے، کیونکہ اس نے نبی کی تصدیق سے ہٹ کر ایک راہ اپنا ئی ہے، اور یہ انحراف اس کو جہنم میں لے جائے گا۔
وأول بدعة حدثت في الإسلام بدعة الخوارج والشيعة حدثتا في أثناء خلافة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب فعاقب الطائفتين أما الخوارج فقاتلوه فقتلهم وأما الشيعة فحرق غاليتهم بالنار وطلب قتل عبدالله بن سبأ فهرب منه وأمر بجلد من يفضله على أبي بكر وعمر وروى عنه من وجوه كثيرة أنه قال خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر ثم عمر ورواه عنه البخاري في صحيحه۔ (مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ:۳/۲۸۰) وأما القدرية الذين ينفون الكتابة والعلم فكفروهم ۔
(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ:۳/۳۵۲)
کفرکے معنی:
کفر کے معنی چھپانے کے ہیں، لغت عرب میں کفر انکار کرنے کے معنی میں مستعمل ہے، اس کے ایک معنی نا شکری کرنے کے بھی ہیں۔
والكفر لغة الستر) ومنه سمي الفلاح كافرا، لانه يستر البذر في الارض، ومنه كفر النعمة وهو موجود في المعنى الشرعي لانه ستر ما وجب إظهاره.
(حاشیة ابن عابدین:ج۴ ص ۴۰۷)

اصطلاحِ دین میں کفر کے معنی ہیں:
اصطلاح دین میں کفر ایمان کی ضد ہے، یعنی نبی ﷺ کی لائی ہوئی باتوں پر ایمان نہ لانا کفر ہے، خواہ یہ ایمان نہ لانا شک کی بنیا دپر ہو، یا محض اعراض ہو، یا تکبر اور حسد کی بنیاد پر ہو یا خواہشات نفس کی پیروی میں ہو سبھی صورتوں میں نبی ﷺ پر ایمان نہ لانا کفر ہے۔ اور رہی بات نبی ﷺ پر ایمان لانے سے کھلا انکار کرنا ،اور نبی کو ان کے دعوی نبوت میں جھٹلانا یہ بڑا کفر ہے۔ اسی طرح نبی کو سچا جانتے ہوئے اس کی تکذیب کرنا بھی ایک بڑا کفر ہے۔اور جن باتوں کے ماننے سے کوئی شخص مؤمن ہوتا ہے ان میں سے کسی کے انکار سے کافر ہو جاتا ہے۔دعوت دین کے جواب میں صراحت کے ساتھ انکار کرنا بھی کفر ہے، اور سکوت اختیار کرکے اقرار نہ کرنا بھی کفر ہے۔ نبی کو مان کر اور ان کی تصدیق کرکے ان کی کسی ایک بات کو ماننے سے انکار کرنا بھی کفر ہے۔
والكفر تكذيبه ﷺ و المراد بالتكذيب عدم التصديق الذي مر: أي عدم الاذعان والقبول. (حاشیة ابن عابدین:ج۴ ص ۴۰۷) لا يخرج الرجل من الإيمان إلا جحود ما أدخله فيه (حاشیة ابن عابدین:ج۴ ص ۲۲۴) أن ما ينفي الاستسلام أو يوجب التكذيب فهو كفر۔
(حاشیة ابن عابدین:ج۴ ص ۴۰۷)

کافر:اور ایسا شخص جو کفر کا ارتکاب کرے اس کو کافر کہتے ہیں۔
کفر کی اقسام:
کفر کی دو قسمیں ہیں (۱) کفر اعتقادی اور کفر عملی
کفرِ اعتقادی:
وہ کفر جو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے، یعنی اعتقاد کے ساتھ دین اسلام کی کسی بات کا انکار کرنا اس کو کفر اعتقادی کہتے ہیں۔
اس میں کفر ِتکذیب یعنی کھلے طور پر جھٹلا کر انکار کرنا، اور نبی کو ان کے دعوی نبوت میں جھوٹا کہنا، جیسے مشرکین مکہ کا کفر۔ اور تصدیق کے ساتھ تکبر اور اباء: یعنی تصدیق تو کرے لیکن ساتھ ہی تکبر اور انکار کیا جائے، جیسے شیطان کا کفر ۔ اور کفر جحود : یعنی دل میں سچا جانے لیکن زبان سے انکار کرے سبھی شامل ہیں۔
کفر نفاق بھی اسی میں شامل ہے لیکن اس کا مستقل ذکر آگے آرہا ہے۔
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَo
(العنكبوت:68).

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ
(البقرة:34).

الكفر : هو تكذيب النبي صلى الله عليه وسلم نعوذ بالله في شيء مما جاء به من الدين ضرورة وھو كفر الإنكار وهو أن يكفر بقلبه ولسانه ولا يعتقد الحق ولا يقر به ۔
(قواعد الفقه:ج۱ ص ۴۵۵)

کفر ِعملی:
اور جو شخص اعتقاد میں تو اسلام کو مانتا ہو لیکن اس کا کوئی خاص گناہ اور برا عمل اسلام کے مطابق نہ ہو اس کو کفر عملی کہتے ہیں، یہ کفر اس کے مرتکب کو ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا ہے، یہ وہ گناہ ہیں جن کا نام کتاب و سنت میں کفر آیا ہے۔مثلاً کوئی مسلمان نماز ادا نہ کرتا ہو لیکن وہ نماز کو فرض مانتا ہے تو اس کا نماز کو چھوڑ دینا یہ کفر عملی ہے۔اور اسی طرح مسلمان کے ساتھ قتال کرنا۔ اس میں شک نہیں کہ ان اعمال کو قرآن و سنت نے کفر کہا ہے، لیکن ان کے مرتکب کو مؤمن بھی مانا ہے۔
أَنَّ الْمَعَاصِي يُطْلَق عَلَيْهَا ” الْكُفْر ” مَجَازًا عَلَى إِرَادَة كُفْر النِّعْمَة لَا كُفْر الْجَحْد أَرَادَ أَنْ يُبَيِّن أَنَّهُ كُفْر لَا يُخْرِج عَنْ الْمِلَّة۔
(فتح الباری:ج۱ ص ۴۸)

قال النبی صلى الله عليه وسلم : سباب المسلم فسوق وقتاله كفر۔
(متفق علیہ)

وقال النبی صلى الله عليه وسلم : لا ترجعوا بعدي كفارا ، يضرب بعضكم رقاب بعض
(متفق علیہ)

يَاأَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُواكُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى(البقرة:178) وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا۔
(الحجرات:9)

کفر ِاعتقادی اور کفر ِعملی میں فرق:
(۱)کفر ِاعتقادی ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے، اور دیگر اعمال کو بھی اکارت کردیتا ہے، جبکہ کفر ِعملی ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا ہے، اور نہ ہی اس سے دیگر اعمال اکارت ہوتے ہیں، لیکن بد عملی کے اعتبار سے درجہ میں نقص پیدا ہوتا ہے، اور اس کا مرتکب اس بدعملی کی وعید کا مستحق ہوگا۔ (۲) کفر اعتقادی کا مرتکب ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہے گا ، جبکہ کفر عملی کا مرتکب اپنی بدعملی کی سزاء پانے کے بعد ہمیشہ ہمیش جہنم میں نہیں رہے گا، اور اگر اللہ اس کو بخش دے تو وہ جہنم میں ہی نہیں جائے گا۔ (۳)کفر اعتقادی سے اس کی جان و مال مباح ہو جاتے ہیں، جبکہ کفر عملی سے اس کے مرتکب کی جان و مال مباح نہیں ہوتے ہیں۔(۴) کفر اعتقادی سے مؤمن اور ایسے کافر کے درمیان عداوت دینی پیدا ہوجاتی ہے، وہ مؤمنین کا دوست نہیں ہو سکتا، اس کے ساتھ موالات جائز نہیں ہے، جبکہ کفر عملی سے مطلق موالات ختم نہیں ہوتی، البتہ اس کی بد عملی کی حد تک اس سے بغض رکھا جائے گا۔
کسی کوکافر قرار دئے جانے کے اصول:
تکفیر کوئی معمولی بات نہیں ہے، جو شخص اسلام قبول کرلے اس کو کسی بھی معمولی کوتاہی پر کافر نہیں کہہ دیا جاتا ، تکفیر کے مستقل اصول ہیں کہ : انہیں امور کے انکار سے کوئی شخص کافر ہو گا، جن کے ماننے سے وہ مؤمن ہوا ہے ، یعنی جن امور پر ایمان لانا اس کو لاز م تھا انہیں کہ انکار سے وہ کافر ہوگا۔مثلاً کوئی شخص دین میں قطعی دلائل سے ثابت امور کے ماننےسے مؤمن ہواتھا تو اب ایسے ہی قطعی امر کا صاف و صریح انکار کرے یا دین کے کسی قطعی امر میں ایسی تاویل کرے جس کی وجہ سے قطعی دلیل کے معنی کو اسلامی معنی سے پھیرنا لازم آرہا ہو تو بلاشبہ ایسا کرنے والا کافر ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ پیش نظر رہے کہ جو شخص سچے دل سے نبی کی تصدیق کرے ، اور اسلامی احکام کو مان کر قبول کرلے اس کو اسلام بھی قبول کرلیتا ہے، اب اس کو ضروریات دین کے علاوہ کسی اور امر کے انکار کی وجہ سے خارج از اسلام نہیں کیا جاسکتا۔
ولا يخرج العبد من الإيمان إلا بجحود ما أدخله فيه……ونرى الصلاة خلف كل برٍّ وفاجر من أهل القبلة وعلى من مات منهم. (العقیدۃ الطحاویۃ) وفي الفتاوى الصغرى الكفر شيء عظيم فلا أجعل المؤمن كافرا متى وجدت رواية أنه لا يكفر۔
(حاشیة ابن عابدین:ج۴ ص ۲۲۴)

البتہ جو شخص اسلام ہی کے اصول کا انکار شروع کردے تو اسلام غیر ضروری اس کو چمٹائے رکھنابھی نہیں چاہتا، پھر دین کی جو بنیادی باتیں ہیں ان میں کسی ایک بنیاد کا انکار بھی پورے دین کے انکار کے مماثل ہے، اس لئے دین کی کوئی بنیاد جس میں شرط یہ ہے کہ وہ قطعی طور پر ثابت ضروریا ت دین کا حصہ ہو اس کے انکار کو دین اسلام بغاوت شمار کرتا ہے، اور ایسا کرنے والے کو کافر سمجھتا ہے۔
جو شخص ضروریات دین کو مانتا ہو، ان پر ایمان لاتا ہو ، ان کی شہادت دیتا ہو ، لیکن عملی طور پر کوتاہی ہے تو وہ مؤمن ہے ، لیکن بے عملی کی وجہ سے فاسق ہوگا، اس کو کافر نہیں کہا جائے گا۔
مثلاً :اگر کوئی شخص نماز کی فرضیت کا ہی انکار کردے، یا قطعی دلائل سے پانچ نمازیں ثابت ہیں ان کا انکار کردے تو وہ کافر ہے، لیکن اگر کوئی نماز کی ثابت تفصیلات کے ساتھ ان کی فرضیت کو مانتا اور اقرار کرتا ہو البتہ عملی کوتا ہی ہوجاتی ہو تو وہ فاسق ہے، اور اس کا عمل کفریہ ہے وہ خود کافر نہیں ہے۔
فَمَنْ أَقَرَّ أُجْرِيَتْ عَلَيْهِ الْأَحْكَام فِي الدُّنْيَا وَلَمْ يُحْكَم عَلَيْهِ بِكُفْرٍ إِلَّا إِنْ اِقْتَرَنَ بِهِ فِعْل يَدُلّ عَلَى كُفْره.
(فتح الباری:۱/۹)

اجماع کی مخالفت کفر ہے:
اجماع صحابہ کا حکم پہلے بیان ہو چکا ہے، امت میں صحابہ کے بعد کے اجماع کو ماننا بھی لازم ہے، اور وہ بھی حجت ہے،اور اس اجماع کی مخالفت بھی کفر ہے، البتہ اس میں یہ تفصیل ہے کہ ایسے اجماع کی مخالفت کفر ہے جس کے ساتھ شارع علیہ السلام سے تواتر کے ساتھ دلیل ہو ، جیسا کہ پنج وقتہ نمازیں ہیں، یعنی جس اجماع کے ساتھ قطعی الدلالۃ خبر متواتر یا ایسی آیت جس کی دلالت صریح ہوتی ہے ، جس کی دلالت میں شبہ نہ ہو اس کا انکار کفر ہے۔ورنہ جو اجماع ایسی دلیل کی بنیاد پر ہو جو قطعی الثبوت تو ہو لیکن اس کی دلالت میں شبہ ہو، یا اجماع سب کا نہ ہو، یا اجماع تو سب کا ہو لیکن صحابہ کے بعد کا ہو، یا صحابہ کا ہی اجماع ہو لیکن اس کا صحابہ سے ثبوت قطعی (متواتر)نہ ہو، یا صحابہ سے ثبوت قطعی ہی ہو لیکن یہ اجماع سکوتی ہو تو ان تمام صورتوں میں ایسے اجماع کا منکر کافر نہیں ہوگا۔
أن مخالف الاجماع يكفر، والحق أن المسائل الاجماعية تارة يصحبها التواتر عن صاحب الشرع كوجوب الخمس وقد لا يصحبها، فالاول يكفر جاحده لمخالفته التواتر لا لمخالفته الاجماع اھ……إذا لم تكن الآية أو الخبر المتواتر قطعي الدلالة أو لم يكن الخبر متواترا، أو كان قطعيا لكن فيه شبهة، أو لم يكن الاجماع إجماع الجميع أو كان، ولم يكن إجماع الصحابة أو كان، ولم يكن إجماع جميع الصحابة، أو كان إجماع جميع الصحابة، ولم يكن قطعيا بأن لم يثبت بطريق التواتر، أو كان قطعيا لكن كان إجماعا سكوتيا، ففي كل من هذه الصور لا يكون الجحود كفر.
(حاشیة ابن عابدین:ج۴ ص ۴۰۷)

اہل ِقبلہ کو مسلمان ماننے کا مطلب:اہل قبلہ کو مسلمان ماننے کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص دین کے مسلمات کو مانتا ہے اور ان میں کسی بات کا انکار نہیں کرتا، وہ اخوت ایمانی میں تمام مسلمانوں کے ساتھ ہے اور اس کا قبلہ تمام مسلمانوں کی طرح ایک ہے، ایسے اہل قبلہ کو ہم کسی معمولی بات کی وجہ سے خارج از اسلام نہیں کہہ سکتے، ان کو مسلم اور مؤمن ہی مانیں گے، اس وقت تک جب تک کہ وہ نبی ﷺ کی لائی ہوئی باتوں کی تصدیق کریں۔ ہاں جو کوئی نبی ﷺ کے لائے ہوئے دین کے مسلمات میں سے کسی ایک مسلمہ کا بھی انکار کرے گا جو دین میں قطعی طور پر ثابت ہے تو وہ پھر مؤمن و مسلم اور اہل قبلہ باقی نہیں رہے گا۔
ونسمي أهل قبلتنا مسلمين مؤمنين. ما داموا بما جاء به النبي صلى الله عليه وسلم معترفين، وله بكل ما قاله وأخبر مصدقين .
(العقیدۃ الطحاویۃ)
شرک کے معنی:
اصطلاح دین میں شرک کے معنی ہیں: اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا۔ایمان اور عقیدہ میں سب سے اہم عقیدہ اللہ پر ایمان ہے، اللہ کو تقریباً سبھی مانتے ہیں، لیکن اللہ کو ماننے میں سب سے اہم بات توحید کو ماننا ہے، یعنی اللہ کو اس کی ذات و صفات اور حقوق میں اکیلا ماننا، اس کے خلاف کرنا یعنی اللہ کی ذات یا صفات یا اس کے حقوق میں کسی کو اس کے ساتھ شریک کرنا شرک ہے۔
مثلاً کسی کو اللہ کا بیٹا ماننا اس کی ذات میں شرک کرنا ہے۔
اللہ ہر چیز پر قادر ہے ، یہ اللہ کی ایک صفت ہے، اللہ کے علاوہ کسی کو ہر چیز پر قادر ماننا اس کی صفات میں شرک کرنا ہے۔
عبادت کرنا اللہ کا ایک حق ہے، اللہ کے علاوہ کسی کو عبادت میں شریک کرنا یہ اللہ کے حقوق میں شرک کرنا ہے۔
شرک بدترین گناہ ہے، جس کی معافی نہیں ہے۔ باری تعالیٰ نے صاف اعلان فرمایا ہے کہ: وہ دوسرے گناہوں کو اگر وہ خود چاہے تو معاف کرے گا لیکن شرک کو ہر گز معاف نہیں کرے گا، یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر دوہرایا گیا ہے۔
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا (سورة النساء:۴۸)ِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا (سورة النساء :۱۱۶)إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ(سورة المائدة: ۷۲)
أَنَّ الشِّرْكَ أَكْبَرُ الْكَبَائِرِ، كَمَا قَالَ صلى الله عليه وَسَلَّمَ، وَأَخْبَرَ الله تعالى أَنَّ الشِّرْكَ غَيْرُ مَغْفُورٍ۔
(العقیدۃ الطحاویۃ مع شرحہ لابن ابی العز:ج۱ ص ۲۱۵)

شرک کی اقسام:
شرک کی دو قسمیں ہیں: شرک اکبر اور شرک اصغر
شرک ِاکبر:
وہ شرک جو انسان کو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے، اور اس کا مرتکب بغیر توبہ کے مرجائے تو ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہے گا، مثلاً عبادت میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، اللہ کے علاوہ دوسروں کو حاجات پوری کرنے والا اور مصیبتیں دور کرنے والا مان کر اس سے مانگنا، غیر اللہ کےلئے قربانی دینا اور اس کے لئے جانور ذبح کرنا وغیرہ ۔
أَنَّ الشِّرْكَ أَكْبَرُ الْكَبَائِرِ، كَمَا قَالَ صلى الله عليه وَسَلَّمَ، وَأَخْبَرَ الله تعالى أَنَّ الشِّرْكَ غَيْرُ مَغْفُورٍ۔
(العقیدۃ الطحاویۃ مع شرحہ لابن ابی العز:ج۱ ص ۲۱۵)

شرکِ اصغر:
وہ شرک جو انسان کو ملت اسلامیہ سے تو خارج نہیں کرتا لیکن عقیدہ توحید میں نقص پیدا کردیتا ہے، اور اکثر شرک اکبر تک پہنچا دیتا ہے ۔ مثلاً غیر اللہ کے نام پر حلف اٹھانا، یا نظر سے بچاؤ کےلئے دھاگے وغیرہ یہ سوچ کر باندھنا کہ اللہ نے ان کو دفع بلاء کےلئے سبب بنایا ہے، اگر راست انہیں مصیبت سے بچانے میں مؤثر مانا جائے تو وہ پھر شرک اکبر ہے اور ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا ہے۔ اسی طرح ریاء و سمعہ بھی شرک اصغر ہے۔
قال النبي صلى الله عليه وسلم : « أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر – قالوا : يا رسول اللّه ؛ وما الشرك الأصغر ؛ قال : الرياء۔
(مسند احمد، شرح السنۃ)

شرکِ اکبر اور شرکِ اصغرمیں فرق:
شرک اکبر ملت اسلامیہ سے نکال دیتا ہے، جبکہ شرک اصغر ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا۔(۲) شرک اکبر کا مرتکب ہمیشہ ہمیش کی جہنم میں رہے گا، جبکہ شرک اصغر کا مرتکب اس کی سزاء مل جانے کے بعد ہمیشہ ہمیش کی جہنم میں نہیں رہے گا۔ (۳) شرک اکبر دیگر تمام اعمال صالحہ کو برباد کردیتا ہے، جبکہ شرک اصغر دیگر اعمال صالحہ کو برباد نہیں کرتا، سوائے ریاء کے کہ وہ جس عمل کے ساتھ ملے گا اس کو برباد کردے گا۔(۴) شرک اکبر سے اسکے مرتکب کی جان و مال مباح ہوجاتی ہے ، جبکہ شرک اصغر کے مرتکب کی جان و مال مباح نہیں ہوتی۔
توحید و شرک کے تفصیلی مسائل آگے ایمان باللہ کے تحت آرہے ہیں۔
ارتداد کے معنی اور اس کے اقسام و احکام
ارتداد کے معنی:
ارتداد اور رِدّت کے معنی ہیں پلٹ جانا، اور اصطلاح دین میں ارتداد کہتے ہیں اسلام قبول کرنے کے بعد کفر کی جانب پلٹ جانا۔
وَالْمُرْتَدُّ في اللُّغَةِ الرَّاجِعُ مُطْلَقًا ، وفي الشَّرِيعَةِ الرَّاجِعُ عن دِينِ الْإِسْلَامِ كما في فَتْحِ الْقَدِيرِ ، وفي الْبَدَائِعِ رُكْنُ الرِّدَّةِ إجْرَاءُ كَلِمَةِ الْكُفْرِ على اللِّسَانِ وَالْعِيَاذُ بِاَللَّهِ بَعْدَ وُجُودِ الْإِيمَانِ ۔ (البحر الرائق:۵/۱۲۹،رد المحتار:۴/۲۲۱) فَالرُّجُوعُ عن الْإِيمَانِ يُسَمَّى رِدَّةً في عُرْفِ الشَّرْعِ۔
(بدائع الصنائع: ۷/۱۳۴)

ارتداد کی اقسام:
اسلام کو ختم کردینے والی کسی ایک چیز کے ارتکاب سے مسلمان مرتد ہوجاتا ہے، اور نواقض اسلام کئی ہیں:
زبان سے کسی ناقض ِاسلام کی ادائیگی:
زبان سے کوئی ایسا کلمہ کہنا جس سے اسلام ختم ہوجاتا ہو، مثلاً اللہ کو ، اس کے رسولوں کو ، یا فرشتوں میں سے کسی کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا۔ یا علم غیب کا دعوی کرنا،یا نبوت کا دعوی کرنا، یا کسی مدعی نبوت کی تصدیق کرنا۔یا اللہ کے علاوہ کسی اور کو پکارنا اور اس کو حاجت روا سمجھ کر اس سے مانگنا۔
عملاً کسی ناقضِ اسلام کا ارتکاب کرنا:
کسی ناقض اسلام کو عملاً اختیار کرنے سے بھی آدمی مرتد ہوجاتا ہے، مثلاً : بتوں کو سجدہ کرنا، صاحب قبر کو تصرف اور اختیار والا مان کر اس کی قبر کو سجدہ کرنا، اللہ کے نازل کردہ حکم کے علاوہ کسی اور حکم کے مطابق فیصلہ کرنا اور اس کو حلال سمجھنا، یا قرآن کی کسی ؤیت کا انکار کرنا۔
وكما لو سجد لصنم أو وضع مصحفا في قاذورة فإنه يكفر وإن كان مصدقا لأن ذلك في حكم التكذيب كما أفاده في شرح العقائد وأشار إلى ذلك بقوله للاستخفاف فإن فعل ذلك استخفافا واستهانة بالدين فهو أمارة عدم التصديق۔
(رد المحتار:۴/۲۲۲)

اعتقادی ارتداد:
اسلام کے بعد پھر اللہ کے ساتھ کسی کے شریک ہونے کا اعتقاد رکھنا، یا اللہ کی حرام کردہ چیزیں مثلاً زنا شراب یا سود کو حلال جاننا ۔ یا گمان کرنا کہ نماز فرض نہیں ہے۔ یا جن امور کے فرض ہونے پر اجماع ہے ان کی فرضیت کو نہ ماننا یہ سب اعتقادی ارتداد کی صورتیں ہیں۔
وكذا مخالفة أو إنكار ما أجمع عليه بعد العلم به لأن ذلك دليل على أن التصديق مفقود……وما يوجب التكذيب جحد كل ما ثبت عن النبي ادعاؤه ضرورة۔
(رد المحتار:۴/۲۲۳)

امورِ دین میں شک کی بناء پر ارتداد کا حکم:
بہت سے دین کے امور ایسے ہیں جن میں شک کی بھی گنجائش نہیں ہے، ان میں شک کرنے سے بھی آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے اور مرتد ہو جاتاہے۔ مثلاً شرک کے حرام ہونے میں شک کرنا، یا شراب اور زنا کے حرام ہونے میں شک کرنا۔ یا نبی ﷺ یا کسی اور یقینی نبی و رسول کی نبوت و رسالت میں شک کرنا۔ یا ختم نبوت میں شک کرنا۔اس زمانہ یا کسی زمانہ میں اسلام کے قابل عمل ہونے اور اس کی اتباع لازم ہونے ، یا اسلام کے ذریعہ صلاح پیدا ہونے میں شک کرنا ،ان سب صورتوں میں آدمی مرتد ہوجاتا ہے۔
أما ما كان نص كتاب بين، أو سنة مجتمع عليها، فالعذر فيها مقطوع، ولا يسع الشك في واحد منها، ومن امتنع من قبوله اسُتتيب.
( الرسالة للامام الشافعى:ص۴۶)

جس کے مرتد ہونے میں شک ہوتو اس کو کافر قرار دینے میں جلدبازی نہ کریں:
یہ امور اتنے سخت ہیں کہ ان کے بارے میں وضاحت کردی گئی ہے، لیکن یہ واضح رہنا چاہئے کہ متعین طور پر کسی کو کافر / یا مرتد کہہ دینا درست نہیں ہے، کسی مسلمان کو کافر /یا مرتد کہنا معمولی بات نہیں ہے، حتی الامکان شخصی اور متعین طور پر کفر کا فتوی دینے سے محقق علما٫ گریز کرتے ہیں، تاآنکہ مکمل تحقیق کرلیں ،علامہ ابن نجیم مصری کہتے ہیں کہ: میں نے اس بات کی پابندی کی ہے کہ کسی شحص کے بارے میں متعین طور پر کافر/یا مرتد ہونے کا فتوی نہ دوں(ہاں وجوہ ارتداد کو بیان کیا ہے)۔
وفي التتارخانية لا يكفر بالمحتمل لأن الكفر نهاية في العقوبة فيستدعي نهاية في الجناية ومع الاحتمال لا نهاية اھ . والذي تحرر أنه لا يفتي بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على مجمع حسن أو كان في كفره اختلاف ولو رواية ضعيفة فعلى هذا فأكثر ألفاظ التكفير المذكورة لا يفتي بالتكفير فيها وقد ألزمت نفسي أن لا أفتي بشيء منها اھ كلام البحر باختصار۔ (رد المحتار:۴/۲۲۴) ومن شك في عذابه وكفره كفر۔
(الدرالمختار:۴/۲۳۲)

ثبوتِ ارتداد کے بعد کے احکام:
ارتداد کے مرتکب پر دوبارہ اسلام پیش کیا جائے گا، اگر وہ توبہ کرکے اسلام کی جانب لوٹ آئے تو اس سے اسلام کوقبول کرلیا جائے گا۔
اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے گا، اور اگر وہ مہلت مانگے تو اس کو تین دن کی مہلت دی جا سکتی ہے، اگر وہ تین دن کے اندر اندر قبول کرلے تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا، اور اگر و ہ اپنے ارتداد پر باقی رہے تو اگر وہ اسلامی حکومت کا باشندہ ہے تو اس کو اسلامی حکومت کو قتل کردینا واجب ہے۔ نبی ﷺ نے مرتد کے قتل کا حکم دیا ہے۔

قال النبی صلى الله عليه وسلم : من بدل دينه فاقتلوه۔
(صحیح بخاری و سنن ابو داؤد)

يعرض الْإِسْلَامِ على الْمُرْتَدِّ ، أَيْ يَعْرِضُهُ الْإِمَامُ وَالْقَاضِي وهو مَرْوِيٌّ عن عُمَرَ رضي اللَّهُ عنه لِأَنَّ رَجَاءَ الْعَوْدِ إلَى الْإِسْلَامِ ثَابِتٌ لِاحْتِمَالِ أَنَّ الرِّدَّةَ كانت بِاعْتِرَاضِ شُبْهَةٍ لم يُبَيِّنْ صِفَتَهُ وَظَاهِرُ الْمَذْهَبِ اسْتِحْبَابُهُ فَقَطْ وَلَا يَجِبُ ……وفي الْخَانِيَّةِ يُعْرَضُ عليه الْإِسْلَامُ في كل يَوْمٍ من أَيَّامِ التَّأْجِيلِ

قَوْلُهُ ( وَيُحْبَسُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَإِنْ أَسْلَمَ وَإِلَّا قُتِلَ ) لِأَنَّهَا مُدَّةٌ ضُرِبَتْ لِإِبْدَاءِ الْأَعْذَارِ وهو مَرْوِيٌّ عن عُمَرَ رضي اللَّهُ عنه ، أَطْلَقَهُ فَأَفَادَ أَنَّهُ يُمْهَلُ وَإِنْ لم يَطْلُبْهُ وهو رِوَايَةٌ وَظَاهِرُ الرِّوَايَةِ أَنَّهُ لَا يُمْهَلُ بِدُونِ اسْتِمْهَالٍ بَلْ يُقْتَلُ من سَاعَتِهِ كما في الْجَامِعِ الصَّغِيرِ إلَّا إذَا كان الْإِمَامُ يَرْجُو إسْلَامَهُ كما في الْبَدَائِعِ۔
(البحر الرائق:۵/۱۳۵)

وأما هذا فهو ثمرة التأجيل ثلاثة أيام لأن من انتقل عن الإسلام والعياذ بالله تعالى لا بد له غالبا من شبهة فتكشف له إن أبداها في هذه المدة. ……وإلا قتله أي بعد عرض الإسلام عليه وكشف شبهته۔
(رد المحتار:۴/۲۲۵)

زوجین میں سے کسی ایک کے ارتداد سے دونوں میں فرقت ہو جائے گی، مرتد کا ذبیحہ اور شکار حرام ہے، اور یہ جرم کہیں اسلامی حکومت کے دائرہ میں ہو تو وہاں مرتد کو اس کے مال میں تصرف کے اختیارکو ختم کردیا جائے گا، اگر وہ اسلام لے آئے تو اس کا مال اس کا ہوجائے گا ورنہ اس کے قتل اور ارتداد پر موت کے ساتھ ہی اس کا مال بیت المال کی ملکیت میں چلا جائے گا۔اور مرتد کی شہادت کا اعتبار بھی ختم ہوجائے گا۔اور مرتدنہ کسی مسلمان کا وارث ہوتا ہے اور نہ کوئی مسلمان اس کا وارث ہوتا ہے۔جب مرتد مر جائے یا اس کو قتل کردیا جائے تو اس کو غسل نہیں دیا جائے گا، اور نہ ہی اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جائے گا۔
وَمِنْهَا الْفُرْقَةُ إذَا ارْتَدَّ أَحَدُ الزَّوْجَيْنِ…وَمِنْهَا حُرْمَةُ ذَبِيحَتِهِ لِأَنَّهُ لَا مِلَّةَ لِمَا ذَكَرْنَا. وَمِنْهَا أَنَّهُ لَا يَرِثُ من أَحَدٍ لِانْعِدَامِ الْمِلَّةِ وَالْوِلَايَةِ. وَمِنْهَا أنها تُحْبَطُ أَعْمَالُهُ لَكِنْ بِنَفْسِ الرِّدَّة عِنْدَنَا۔ (بدائع الصنائع:۷/۱۳۶) ويبطل منه اتفاقا ما يعتمد الملة وهي خمس النكاح والذبيحة والصيد والشهادة والإرث۔
(الدرالمختار: ۴/۲۴۹)

جن کی توبہ قابلِ قبول نہیں ہے:
ارتداد کی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ اگر وہ توبہ کرتے ہوں تو ان کے باطنی حال کو اللہ کے حوالہ کیا جائے گا کہ اُخروی سزا٫ اسے دے یا معاف کرے یہ اللہ کے ہاتھ ہے، لیکن دنیا میں ان کی توبہ کو دیکھ کر انہیں چھوڑ نہیں دیا جائے گا بلکہ اسلامی حکومت انہیں ہر حال میں قتل کرے گی، اسی طرح بعض گناہ وہ ہیں جن کے مرتکبین کی توبہ کو قبول کرکے دنیا میں ان پر حد جاری کرنے سے گریز نہیں کیا جائے گا، ارتداد اور ایسے جرائم کی گیارہ صورتیں ہیں:
(۱)نبی ﷺ کو برا بھلا کہنے والا (۲) شیخین میں سے کسی کو گالیاں دینے والا (۳)ساحر (۴) زندیق (۵) خناق (۶) کاہن (۷) ملحد (۸) اباحی (۹) منافق جس نفاق ظاہر ہوجائے (۱۰) ضروریات دین کا مخفی طورپر منکر (۱۱) بار بار مرتد ہونے والا۔
فالمستثنى أحد عشر وكل مسلم ارتد فتوبته مقبولة إلا أحد عشر من تكررت ردته وساب النبي وساب أحد الشيخين والساحر والزنديق والخناق والكاهن والملحد والإباحي والمنافق ومنكر بعض الضروريات باطنا ۔
(رد المحتار: ۴/۲۴۵)

نفاق کے معنی:
نفاق یہ لفظ ’’نافقاء‘‘ سے بنا ہے، نافقاء یربوع /بڑا چوہا (گھونس) کے بل کو کہتے ہیں ، جس کے دو سوراخ / دو راستے ہوتے ہیں ، جب اس کو ایک سے پکڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ دوسرے راستہ سے بھاگ جاتا ہے۔ نفاق کے معنی یہ ہیں کہ :دل میں کچھ ماننا اور زبان سے کچھ اور ظاہر کرنا۔ دین میں نفاق کے معنی ہیں: بظاہر اسلام اور ایمان کو ظاہر کرنا اور دل میں کفر کو چھپانا۔ نفاق کفر اعتقادی ہے بلکہ عام کفر سے بدتر کفر ہے۔اسی لئے منافقین کا جہنم میں مقام سب سے بدتر ہے۔
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ
(النساء : 145)

النفاق في الدين هو ستر الرجل كفره بقلبه وإظهاره إيمانه بلسانه فهو منافق.
(قواعد الفقه:230)

وَالنِّفَاق لُغَة : مُخَالَفَة الْبَاطِن لِلظَّاهِرِ ، فَإِنْ كَانَ فِي اِعْتِقَاد الْإِيمَان فَهُوَ نِفَاق الْكُفْر ، وَإِلَّا فَهُوَ نِفَاق الْعَمَل ، وَيَدْخُل فِيهِ الْفِعْل وَالتَّرْك وَتَتَفَاوَت مَرَاتِبه .
(فتح الباری: ج۱ ص ۵۳)

نفاق کی اقسام:
نفاق بھی دو طرح کا ہے نفاق اعتقادی اور نفاق عملی۔
نفاقِ اعتقادی:
کوئی شخص جو اسلام کو محض ظاہر ی طور پر قبول کرلے لیکن دل سے اسلام کا منکر ہو مثلاً مدینہ کے منافق جنہوں نے مدینہ میں نبی ﷺ اور صحابہ کے بڑھتے ہوئے زور کو دیکھ کر بظاہر دین اسلام کو قبول کرلیا تھا ، لیکن دل سے کافر تھے، اس طرح کا نفاق نفاق اعتقادی ہے، اور انجام کار آخر ت کے اعتبار سے یہ کافر ہی ہیں۔ اس طرح کا نفاق حقیقت میں ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے، اور اس کے مرتکب کو ہمیشہ ہمیش کی جہنم کا مستحق بناتا ہے جس میں وہ سب سے نچلے حصہ میں رہیں گے۔
ان کے اوصاف قرآن میں عام کفار سے زیادہ بدتر شمار کرائے گئے ہیں، مثلاً حقیقت میں ایمان نہ لانا اور کفر کا مرتکب ہونا، جھوٹ کہنا، دین اور دینداروں کا مذاق اڑانا، اور ان کے ساتھ تمسخر کرنا، اور پوری طرح سے دشمنان دین کی طرف میلان رکھنا اور ان کے ساتھ مل کر دین اور اہل دین کے خلاف سازشیں رچنا وغیرہ۔
اس طرح کے منافقین ہر زمانہ میں ہوتے ہیں خاص طور سے اس وقت یا اس جگہ جہاں اسلام قوت حاصل کرلیتا ہے، اور ظاہر میں یہ کفار اسلام سے مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں تو بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ کسی بھی معاشرہ کا سب سے بدترین گروہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کے آغاز میں انسانی معاشرہ کے تین گروہ گنوائے ہیں: مؤمنین، کافرین، اور منافقین ۔ جس میں مؤمنین کا بیان صرف ۴ آیات میں ہے، اور کافرین کا بیان ۲آیتوں میں ہے، جبکہ وہاں منافقین کے بیان کےلئے ۱۳ آیتیں ہیں۔
نفاقِ اعتقادی کی شکلیں:
(۱) نفاق اعتقادی میں دل میں نبی ﷺ کو کلی طور پر جھٹلانا۔
(۲)یا نبی ﷺ کی کسی ایک بات کو دل میں جھٹلانا، اور ظاہر میں اس کا اظہار نہ کرنا۔
(۳)یا دل میں نبی ﷺﷺ سے کلی طور پر بغض رکھنا۔
(۴) یا دل میں نبی ﷺ کی بعض تعلیمات سے بغض رکھنا۔
(۵) دین اسلام کے بظاہر کہیں کمزور پڑنے سے خوش ہونا۔
(۶) دین اسلام کی ترقی کو نا پسند کرنا۔
یہ سب نفاق اعتقادی کی مختلف شکلیں ہیں۔ جو شخص نفاق سے بچنا چاہتا ہےاس کو ان شکلوں پر غور کرنا چاہئے کہ کہیں وہ بھی اس مرض کا شکار تو نہیں ہو گیا ہے، اور پھر اپنے اعتقاد کی تصحیح کی فکر کرے۔
لیکن ہر وہ شخص جو ظاہر میں اسلام کو سر عام مسلمانوں کی طرح قبول کیا ہوا ہو اس پر دنیا میں مسلمان ہونے کا حکم ہی لگایا جائے گا، دل کا فیصلہ اللہ قیامت کے دن کرے گا۔
كفر النفاق وهو أن يقر بلسانه ويكفر بقلبه ككفر منافقي يثرب(قواعد الفقه:186)وَالنِّفَاق لُغَة : مُخَالَفَة الْبَاطِن لِلظَّاهِرِ ، فَإِنْ كَانَ فِي اِعْتِقَاد الْإِيمَان فَهُوَ نِفَاق الْكُفْر ، وَإِلَّا فَهُوَ نِفَاق الْعَمَل ، وَيَدْخُل فِيهِ الْفِعْل وَالتَّرْك وَتَتَفَاوَت مَرَاتِبه .
(فتح الباری: ج۱ ص ۵۳)

قال ابن أبي مليكة : أدركت ثلاثين من أصحاب رسول اللّه صلى الله عليه وسلم كلهم يخاف النفاق على نفسه .
نفاق ِعملی:
کوئی شخص دل سے تو مؤمن ہے لیکن اس کے کچھ اعمال ایسے ہیں جو حقیقی ایمان والے کے اعمال نہیں ہوتے، ایسے اعمال کا ارتکاب نفاق عملی کہلاتا ہے، مثلاً جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنااور عہد توڑ دینا، جھگڑے کے وقت گالم گلوچ کرنا، ایسا شخص اعتقادی منافق تو نہیں ہے ، اور یہ اعمال اس کو ملت اسلامیہ سے خارج تو نہیں کرتےلیکن اس کے یہ اعمال نفاق عملی میں شمار ہوتے ہیں۔ البتہ نفاق عملی کے ان اعمال کی کثرت سے نفاق اعتقادی کے قریب ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
وَالنِّفَاق لُغَة : مُخَالَفَة الْبَاطِن لِلظَّاهِرِ ، فَإِنْ كَانَ فِي اِعْتِقَاد الْإِيمَان فَهُوَ نِفَاق الْكُفْر ، وَإِلَّا فَهُوَ نِفَاق الْعَمَل ، وَيَدْخُل فِيهِ الْفِعْل وَالتَّرْك وَتَتَفَاوَت مَرَاتِبه .(فتح الباری: ج۱ ص ۵۳)عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ – صلى الله عليه وسلم – قَالَ « آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ » . إِنَّ الْمُرَاد بِالنِّفَاقِ نِفَاق الْعَمَل كَمَا قَدَّمْنَاهُ .
(فتح الباری:ج ۱ ص۵۴ )

زندقہ کے معنی:
یہ فارسی زبان کا لفظ ہے، بعد میں عربی میں بھی استعمال ہونے لگا، نفاق اور بدعات کی مختلف صورتوں کے معنی کو شامل ہے،چنانچہ بہت سی جگہوں پر زندقہ نفاق کے لئے استعمال ہونے والی دوسری اصطلاح ہے۔اور دین میں صحت کے ساتھ منقول امور کو ترک کرکے صرف عقل کو بنیاد بنانا، اور دین کی وہ باتیں جو عقل سے ٹکراتی ہوں ان کو عقل سے ٹکرانے کی وجہ سے چھوڑ دینا، اس پر بھی زندقہ کا اطلاق ہوتا ہے، باری تعالیٰ کی صفات میں ایسا اکثر ہوا ہے، اور جس بھی فَردْ یا فرقہ نے اس طرح باری تعالی کی ذات و صفات کے بارے میں کلام کیا وہ زنادقہ میں شمار ہوا ہے۔اور نصوص کے ظاہر جن میں تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی ان کے ظاہر کو چھوڑ کر ان میں تاویل کرنا یہ بھی زندقہ ہے، یعنی نصوص کو ان کے ظاہر سے ہٹا دینا، اسلام میں معتزلہ ، جبریہ، قدریہ فرقے اسی طرز عمل سے پیدا ہوئے، اور بعد میں قرامطہ اور باطنیہ بھی اسی راستہ سے اسلام سے خارج ہوئے ہیں۔
اپنے مزعومہ باطل خیالات کی جن روایات سے تائید ہوتی ہو ان کو قبول کرنا اور ان کے مقابلہ میں صحیح روایات کو نظر انداز کردینا یہ بھی اسی کا حصہ ہے، روافض اس کا زیادہ شکار رہے ہیں، اور شریعت نے جن بزرگوں کو احترام سے ذکر کیا ہے ان کے احترام کو مجروح کرنا بھی اسی کا حصہ ہے، اور ضروری احترام سے آگے بڑھا کر مشرکین کی طرح کے احترام کو اختیار کرنا، جیسا کہ غالی روافض نے حضرت علی کے ساتھ نصاری کے حضرت عیسی جیسا معاملہ کیا ہے، اس راستہ سے بھی زندقہ کا دروازہ کھل جاتا ہے، عام طور پر جن فرقوں میں صحابہ کرام کا احترام مجروح ہوا ہے ، انجام کار وہ زندقہ پر مرے ہیں، کیونکہ انہوں نے خود کو عقائد اور احکام اسلام کو سمجھنے اور سمجھانے میں صحابہ کے طرز سے مستغنی سمجھا، اور عقل نے انہیں جو راہ سجھائی اسی کی پیروی کی۔
اس ضمن میں یہ بات بھی جاننا چاہئے کہ جن غیر مسلموں نے مسلمانوں کی صف میں ارتداد اور بے دینی پھیلانے کےلئے ظاہری طور پر اسلام کو قبول کیا انہوں نے زندقہ کے سارے راستے اپنائے اور دوسروں کو بھی زندیق بنایا مثلاً عبد اللہ بن سبأ: ظاہر میں مسلمان اور باطن میں منافق تھا، نصوص میں تاویلات کرکے مسلمانوں کو بہکاتا، دیگر صحابہ کا احترام مجروح کرتا، اور حضرت علی کو ان کے مقام سے بڑھا تا،اس پر زندقہ کی تمام صورتیں صادق آتی ہیں۔
زندقہ کا مرتکب بعض صورتوں میں کافر ، بعض میں منافق کہلاتا ہے، اور ہر دو صورت میں مآل کار وہ کافر ہی ہے، مجوسی، دہری اور جہمی پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
الزنديق : هو من يبطن الكفر ويعترف بنبوة نبينا صلى الله علية وسلم ويعرف ذلك من أقواله وأعماله وقيل من لا يتدين بدين۔ (قواعد الفقه:ج۱ ص ۳۱۵)وكذلك زنادقه الأمم جميعهم إنما تطرقوا إلى إفساد ديانات الرسل صلوات الله وسلامه عليهم بالتأويل ومن بابه دخلوا وعلى أساسه بنوا وعلى نقطه خطوا البواعث المؤدية إلى التأويل.
(إعلام الموقعین۴/۲۵۰)

الحاد کے معنی:
انکار کرنے اور اعتدال سے ہٹ جانے کے آتے ہیں۔ وجود باری تعالی میں شک کو بھی الحاد سے تعبیر کرتے ہیں۔اور اسی طرح یہ لفظ نص کے مقابلہ میں عقل کوترجیح دینے کے معنی میں بھی مستعمل ہے، اس اعتبار سے یہ زندقہ کا مترادف ہے۔
أَصْل الْإِلْحَاد الْمَيْل وَالْعُدُول عَنْ الشَّيْء ، وَقِيلَ لِلْمَائِلِ عَنْ الدِّين مُلْحِد.(فتح الباری:ج ۴ ص ۴۱۵، تاج العروس:ج ۹ ص ۱۳۶) الإِلْحَادُ فيه : ای الشَّكُّ في الله(لسان العرب:ج۳ ص ۳۸۸، تاج العروس:ج ۹ ص ۱۳۶)
جاہلیت کے معنی:
جاہلیت اس حالت کو کہتے ہیں جس پر عرب اسلام سے پہلے تھے، یعنی اللہ ،اللہ کے رسول اور شریعت سے جہالت کی حالت۔ آپس میں ایک دوسرے سے نسب و خاندان پر فخر کرنا۔ تکبر کرنا۔ اخلاقی اقدار بھول کر محض طاقت کے زور پر ایک دوسرے پر دست درازی کرنا۔ اس میں علم نہ ہونا اور علم ہوتے ہوئے علم کی پیروی نہ کرنا دونوں شامل ہیں۔
نبی ﷺ کی بعثت کے بعد جب تک اسلام سے ہٹ کر فرقے بننا شروع نہیں ہوئے یہ جاہلیت بھی نہیں تھی، لیکن جیسے فرقوں کا آغاز ہوا ویسے ہی جاہلیت کا بھی آغاز ہوا، اور آج یہ جاہلیت بھی پائی جاتی ہے، بلکہ اس میں اور شیطنت بڑھ گئی ہے، اور جاہلیت جدیدہ جاہلیت قدیمہ سے زیادہ بدتر ہے۔ لیکن اللہ کے رسول ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق ؤپ ﷺ کے بعد ہر جگہ جاہلیت ہی عام ہو جائے ایسا نہیں ہوگا، بلکہ علم اور علم کی اتباع بھی جاری رہے گی، اور اللہ کے بندوں کا ایک گروہ ہر زمانہ میں دین کو اپنی اصل شکل میں باقی رکھے گا۔
لا تزال طائفة ٌ من أمتي يقاتلون على الحق ظاهرين إلى يوم القيامة
(متفق علیہ)

فسق کے معنی:
شریعت میں فسق کے معنی ہیں اللہ کی اطاعت سے نکل جانا، اگر اللہ کی اطاعت سے نکلنا کلی طور پر ہو تو وہ کفر ہے، اور اس پر بھی فسق کا اطلاق ہوتا ہے، اس لئے قرآن مجید میں بہت سی جگہوں پر کافروں کےلئے بھی فاسقین کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ (الكهف : 50)، وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۔
(السجدة : 20)

اور اگر اللہ کی اطاعت سے جزئی طور پر نکل جانا ہو مثلاً کسی ایک گناہ کا ارتکاب ہو، لیکن ساتھ ہی نبی ﷺکی لائی ہوئی باتوں میں ان کی تصدیق ہو البتہ خواہشات نفس میں پڑ کر ان کے کسی حکم کی خلاف ورزی ہو تو اس کو عملی فسق کہتے ہیں ، جبکہ اس کے بارے میں یہ ایمان ہو کہ یہ خلاف ورزی غلط اور ناجائز ہے، اور ایسا کرنے والے کو فاسق کہتے ہیں۔
الفسق : في اللغة عدم إطاعة أمر الله وفي الشرع ارتكاب المسلم كبيرة قصدا أو صغيرة مع الإصرار عليها بلا تأويل
(قواعد الفقه:ج1 ص 412)

الْفِسْق فِي اللُّغَة الْخُرُوج ، وَفِي الشَّرْع : الْخُرُوج عَنْ طَاعَة اللَّه وَرَسُوله ، وَهُوَ فِي عُرْف الشَّرْع أَشَدّ مِنْ الْعِصْيَان
(فتح الباری :ج۱ ص ۷۷)

باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ.
(سورۃ الحجرات:۷)

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ۔
(النور : 4 )

فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ۔
(البقرة : 197)

مرتکبِ کبیرہ:
مؤمن و موحد کبیرہ گناہ کا مرتکب شخص بھی فاسق ہے کافر نہیں ، ایک کبیرہ گناہ کے باصرار ارتکاب کا بھی یہی حکم ہے، وہ بھی فاسق ہے کافر نہیں ہے، چنانچہ وہ اگر توبہ نہ کرے اور اللہ ان کو معاف نہ کریں تو بد عملی کی سزا٫ بھگتنے جہنم میں جائے گا، لیکن وہاں ہمیشہ نہیں رہے گا، بلکہ پھر وہاں سے نکال کر جنت میں بھیجا جائے گا۔
وأهل الكبائر من أمة محمد صلى الله عليه وعلى آله وسلم في النار لا يخلدون، إذا ماتوا وهم موحدون.وإن لم يكونوا تائبين، بعد أن لقوا الله عارفين “مؤمنين” وهم في مشيئته وحكمه، إن شاء غفر لهم عفا عنهم بفضله، كما ذكر عز وجل في كتابه: (ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء) وإن شاء عذبهم في النار بعدله.ثم يخرجهم منها برحمته وشفاعة الشافعين من أهل طاعته.ثم يبعثهم إلى جنته. (العقیدۃ الطحاویۃ)وَلَا نُكَفِّرُ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْقِبْلَةِ بِذَنْبٍ مَا لَمْ يَسْتَحِلَّهُ۔
(العقیدۃ الطحاویۃ)

صالحین اور اہل ِمعاصی کی اخوتِ ایمانی:
اہلِ معاصی کو بھی اخوتِ ایمانی حاصل ہے، وہ اخوت ایمانی میں ایسے ہی شریک ہیں جیسے کہ صالحین شریک ہوتے ہیں۔کسی شخص کو اخوت ایمان سے اس وقت تک خارج نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ وہ کسی قطعی ایمان کے خلاف اور قطعی اسلام کے مناقض امر کا اعتقاد /یا ارتکاب نہ کرے۔
مَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ } اورفرمایا : وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ إنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۔ونرى الصلاة خلف كل برٍّ وفاجر من أهل القبلة وعلى من مات منهم.
(عقیدہ الطحاویۃ)

ضلالت/ گمراہی:
ضلالت / اور گمراہی صراط ِمستقیم سے ہٹ جانے کا نام ہے، یہ ہدایت کی ضد ہے، کئی معنی پر ضلالت کا اطلاق ہوتا ہے:
(۱)کفر کو بھی ضلالت کہتے ہیں۔
(۲)شرک کو بھی ضلالت کہتے ہیں۔
(۳)ہدایت کے راستہ سے مطلق اختلاف کو بھی ضلالت کہتے ہیں جبکہ وہ کفر و شرک نہیں ہوتا، جیسے کہتے ہیں فرق ضالہ۔
(۴)صرف خطا پر بھی ضلالت کا طلاق کیا جاتا ہے۔
(۵) اور کبھی بھول چوک پر بھی ضلالت کا اطلاق ہوتا ہے۔
(۶) کسی چیز کے گم جانے اور ہاتھ سے نکل جانے پر بھی ضلالت کا اطلاق ہوتا ہے۔
بدعت کے معنی اور حکم :
لغت میں بدعت کہتے ہیں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرنا جس کی پہلے سے کوئی اصل نہ ہو، یہ عادات میں بھی ہوتا ہے اور دین میں بھی ہوتا ہے۔ اور اصطلاح میں بدعت کہتے ہیں: دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرنا جس کےلئے کوئی شرعی اصل نہ ہو ۔
دین میں بدعت حرام ہے، کیونکہ دین میں اسی طریقہ کی پیروی ضروری ہے جو رسول اللہ ﷺ نے جاری کیا ہے، اس کے بعد دین میں کسی نئی بات کی گنجائش نہیں ہے۔
بدعت کا دین کے کسی اصول سے ٹکرانا اضافی امر ہے، یعنی اگر نئی بات دین کی کسی بات سے ٹکراتی ہو تو وہ صرف بدعت نہیں بلکہ صریح خلاف دین ہے۔
دین میں نئی بات پیدا کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس امر کو دین اور نیکی سمجھ کر کیا جائے۔
بدعت سنت کی ضد ہوتی ہے، یعنی جو طریقہ سنت میں نہیں ہے بعد میں اس کو جاری کرنا یہ بدعت ہے، یہ اس لئے ممنوع ہے کیونکہ دین میں جتنے ضروری امور ہیں ان کی تعلیم دے دی گئی ہے، دین میں اب کسی اضافہ کی ضرورت نہیں ہے، جو شخص بدعت کو مانتا ہے اور اس کو اختیار کرتا ہے گویا وہ یہ کہتا ہے کہ نعوذ باللہ : نبی ﷺ نے دین کو ناقص چھوڑا تھا اور بعد میں وہ اس کو پورا کررہے ہیں۔
دین میں ہر بدعت گمراہی ہے، بعض بدعات وہ ہیں جن سے کوئی شخص کافر ہو کر دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے، اور بعض بدعات وہ ہیں جن سے کوئی شخص فاسق ہوگا۔
فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة (ابو داؤد، ترمذی) . وقال النبی صلى الله عليه وسلم : من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد (متفق علیہ) ، و وقال النبی صلى الله عليه وسلم: من عمل عملاَ ليس عليه أمرنا فهو رد۔
(مسلم)

دورِ نبوت کے بعد کی ظاہری بدعات جو حقیقت میں بدعت نہیں تھیں:
یہ کہنا کہ کئی چیزیں دین میں ایسی نئی پیدا کی گئی ہیں جن پر سلف نے کوئی انکار نہیں کیا جیسے قرآن مجید کو ایک ہی جگہ جمع کرنا، کتابت حدیث اور تدوین حدیث وغیرہ ، اس بارے میں حقیقی بات یہ ہے کہ ان کی اصل دین میں پہلے سے موجود تھی یہ کوئی محدثہ یا بدعت نہیں تھے۔ اسی طرح تراویح کے لئے حضرت عمر کی نعمت البدعۃ کی تعبیر اپنے لغوی معنی میں ہے ورنہ تراویح کی بھی اصل دین میں موجود ہے خود نبی ﷺ نے صحابہ کے ساتھ یہ نماز پڑھی ہے، البتہ فرضیت کے خدشہ سے چھوڑ دی جب وہ خدشہ نہیں رہا حضرت عمر نے اس کو جاری کر دیا۔ایسے ہی قرآن کو لکھنا نبی ﷺ سے ثابت ہے، اور اس کو ایک جگہ جمع کرنا تاکہ وہ محفوظ ہوجائے یہ دین کی ضرورت تھی۔ اسی طرح تدوین کی شکل میں کتابت حدیث سے پہلے اس لئے روکا گیا تھا کیونکہ اس سے حدیث کے قرآن میں خلط ملط ہونے کا اندیشہ تھا، یہ اندیشہ جب ختم ہوگیا تو پھر تدوین حدیث کا مرحلہ پورا کیا گیا، ورنہ مطلق کتابت حدیث تو نبی ﷺ کے دور میں ثابت ہے، جس کی تفصیل علوم الحدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔
بدعتِ مُکَفِّرَہْ:
ایسی بدعت جس کے ارتکاب سے کفر لازم آتا ہے، مثلاً غالی رافضیوں کا عقیدہ کہ حضرت علی وغیرہ میں خود الوہیت حلول کر گئی ہے، یا کہ حضرت علی قیامت سے پہلے دنیا میں واپس آئیں گے، یا جیسے قرآن مجید میں تحریف واقع ہونے کا عقیدہ رکھنا، یا سیدتنا عائشہ رضی اﷲ عنہا کی جانب تہمت کی نسبت کرنا تو اس طرح کے تمام عقائد دین میں بعد میں پیدا ہوئے ہیں اور سب موجب کفر ہیں۔
من ادعى أن عليا إله وأن جبريل غلط لأن ذلك ليس عن شبهة واستفراغ وسع في الاجتهاد بل محض هوى……يكفر قاذف عائشة ومنكر صحبة أبيها لأن ذلك تكذيب صريح القرآن۔
(رد المحتار:۴/۲۶۳)

بدعتِ مُفَسِّقَة:
اور ایسی بدعت جس کی وجہ سے کسی شخص کو محض فاسق قرار دیا جائے-جیسے خوارج اور وہ رافضی ہیں جو مذکورہ بالا یا اُس جیسا غلو نہیں کرتے، یا ان کے علاوہ دوسرے فرقے جو اہل سنت کے اصول کے بالکل کھلے مخالف ہیں -ان کی بدعتیں ہیں۔ لیکن وہ بدعت نصوص میں تأویل کرکے کی جائے، حالانکہ ان نصوص کا ظاہر واضح ہوتا ہے(جس میں تأویل کی گنجائش نہیں ہوتی)۔
المبتدعة أقسام الأول ما نكفره قطعا كقاذف عائشة رضي الله عنها ومنكر علم الجزئيات وحشر الأجساد والمجسمة والقائل بقدم العالم الثاني مالا نكفره قطعا كالقائل بتفضيل الملائكة على الأنبياء وعلي على أبي بكر.
(الاشباه و النظائر۱/۴۸۸)

بدعات کے ظہور کا زمانہ:
دور نبوت کے بعد خلافت راشدہ کے دور میں ہی بدعات کا ظہور ہو چکا تھا، حضرت ابو بکر کے دور میں بھی چند بدعات ظاہر ہوئیں لیکن ان پر پوری طرح قابو پا لیا گیا، حضرت عمر کی شہادت کے بعد وہ پھیلنے لگیں اور ان کا ظہور حضرت عثمان کی شہادت کے بعد بہت ہی زور و شور سے ہوا، اور اس کے لئے نبی ﷺ کی پیشین گوئی بھی تھی کہ ایسا ہوگا، اور نبی ﷺ نے اس دور کےلئے اپنی سنت اور خلفا٫ راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا۔
أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلاَفًا كَثِيرًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ ، تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ.
(سنن ابی داؤد)

خوارج کی بدعت، إرجا٫ کی بدعت، اور تشیع اور قدر کی بدعات وہ ہیں جو بالکل آغاز میں ظاہر ہوئیں، جیسا کہ فرقوں کے آغاز کے بیان میں بھی یہ گذرا ہے، جہمیہ کی بدعت تابعین کے دور کے آخر میں شروع ہوئی ، جب یہ بدعات ظاہرہوئیں تو صحابہ موجود تھے، اور انہوں نے مبتدعین پر نکیر فرمائی ہے، اور پھر بعد میں اعتزال کی بدعت پیدا ہوئی اور اس کا سلسلہ چلتا رہا، مثلاً قرون مشہود لھا بالخیر کے بعد میں قبروں کی تعظیم ،ان کو پختہ بنانا اور ان کے ساتھ غلو کی بدعت شروع ہوئی، اور پھر نیا آنے والا ہر دور بدعات کا ایک سلسلہ لے کر آیا۔
بدعات کے ظہور کے مقامات:
وہ علاقے جہاں عام طور پر صحابہ آباد ہوئے اور علمی درسگاہیں قائم کیں ان میں مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ، کوفہ، بصرہ اور شام کے علاقے ہیں، یہیں سے قرآن حدیث فقہ اور دیگر علوم اسلامیہ پھیلے اور عام ہوئے ہیں، اور یہی وہ علاقے ہیں کہ سوائے مدینہ منورہ کے انہیں تمام علاقوں سے بدعات کا بھی ظہور ہوا ہے، مثلاً کوفہ سے تشیع اور إرجا٫ کی بدعت شروع ہوئی اور بعد میں دیگر علاقوں میں پھیلی، بصرہ سے قدر اور اعتزال کی بدعت شروع ہوئی اور بعد میں دیگر علاقوں میں پھیلی، شام سے ناصبیت اور قدر کی بدعت شروع ہوئی اور پھر دیگر علاقوں میں پھیلی، جہمیت اور صفات باری تعالیٰ کے انکار کی بدترین بدعت خراسان سے شروع ہوئی اور پھر دیگر علاقوں میں بھی پھیلی، بدعات کے بارے میں یہ ایک اہم حقیقت ہے کہ دورِ نبوت اور دارِ نبوت سے جتنی دوری بڑھی اتنی بدعات ان میں عام ہوئیں، مدینہ منورہ بالعموم ظہور بدعات سے محفوظ رہا ہے، شہر نبوی میں عام طور پر بدعات کمزور بھی رہیں اور بری بھی سمجھی گئیں، قدر کے فتنہ سے متأثر لوگ مدینہ میں رہے لیکن مقہور اور کمزور رہے، بر خلاف کوفہ بصرہ اور شام وغیرہ علاقوں کے کہ وہاں بدعات ظاہر اور غالب رہیں ، اس کےلئے نبی ﷺ کی پیشین گوئی موجود ہے کہ : دجال مدینہ میں داخل نہیں ہو سکے گا، اور علم اور ایمان مدینہ میں ظاہر اور غالب رہے گا۔
ظہورِ بدعات کی وجوہات و اسباب:
جس دین کی تعلیم نبی ﷺ نے دی وہ کامل و مکمل دین ہے، اس کو چھوڑنا یا اس میں کوئی اضافہ و کمی کرنے سے بدعات اور فرقے پیدا ہوتے ہیں، ان کے پیدا ہونے کی بنیادی وجوہات یہ ہیں:
(۱)احکام دین سے جہالت، یعنی جو دین نبی ﷺ نے دیا ہے اس سے ناواقفیت اور بے علمی کے ساتھ اصحاب علم سے رابطہ نہ ہونا ہے بدعات کے ظہور کا ایک اہم سبب ہے، اول تو یہ حکم ہے کہ علم حاصل کرو، اور اگر نہ جانتے ہو تو جاننے والوں سے پوچھو، جب یہ ترک کردیا جاتا ہے تو پھر بدعات کا ظہور ہوتا ہے، اور خود سے نئی باتیں دین میں شامل کی جاتی ہیں۔ اس لئے بدعات کے خاتمہ کی اصل بنیاد صحیح علم کو عام کرنا ہے۔
إن اللّه لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتى إذا لم يُبْق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا فسئلوا فأفتوا بغير علم فضَلوا وأضلوا۔
(متفق علیہ)

(۲)خواہشات نفس کی پیروی کرنا بدعات کے ظہور کی ایک اہم وجہ ہے، جس میں دین نبوی اور اس کے احکام کو چھوڑ کر من مانی کی جاتی ہے، بدعات اور خواہشات نفس کے تانے بانے آپس میں بہت مضبوطی کے ساتھ بنُے ہوئے ہوتے ہیں۔
فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنَ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللَّهِ ۔ (القصص : 50)، أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ۔
(الجاثية : 23)

(۳)نظریات اور شخصیات کےلئے تعصب برتنا، جس نظریہ اور شخصیت سے محبت پیدا ہوجائے اس کی بات خواہ دین اسلام کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اس کو اہمیت دینا بدعات کے ظہور کا ایک اہم سبب ہے، یہ نظریات اور شخصیات کا تعصب آدمی اور قبول حق اور قبول دلیل کے درمیان بڑا آڑ اور رکاوٹ بن جاتا ہے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۔
(البقرة:170)

(۴)کفار کی مشابہت اور ان کی تقلید بدعات کے ظہور کا ایک اہم سبب ہے، بہت سی عملی بدعتیں اسلام میں کفار کی مشابہت سے ہی پیدا ہوئی ہیں، مثلاً پیدائش کے دنوں کو منانا، مخصوص اعمال اور محفلوں کے انعقاد کےلئے مخصوص ایام کو مختص کرنا، پیدائش، موت اور تقاریب کے موقعوں کی تمام بدعات ، اور قبروں پر ہونے والی تمام بدعات کفار کی مشابہت اختیار کرنے کا نتیجہ ہیں، اور تشبہ بالکفار کا یہ مرض اگر حفاظت نہ کی جائے اور اس سے بچنے پر توجہ نہ دی جائے تو ہر قوم میں آجاتا ہے، قوم موسی بھی اس میں مبتلا ہوئی تھی، اور خود نبی ﷺ کے دور میں بعض نئے اسلام قبول کرنے والے اس جانب مائل ہوئے تھے جس پر نبی ﷺ نے تنبیہ فرمائی اور اصلاح کردی تھی۔
خرجنا مع رسول اللّه صلى الله عليه وسلم إلى حنين ونحن حدثاء عهد بكفر ، وللمشركين سدرة يعكفون عندها وينوطون بها أسلحتهم يقال لها ذات أنواط ، فمررنا بسدرة فقلنا : يا رسول اللّه اجعل لنا ذات أنواط كما لهم ذات أنواط ، فقال رسول اللّه صلى الله عليه وسلم : اللّه أكبر ، إنها السنن ، قلتم والذي نفسي بيده كما قالت بنو إسرائيل لموسى : اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ (الأعراف : 138)لتركبن سنن من قبلكم
(سنن ترمذی)

بدعات کے بارے میں اہلِ سنت و الجماعۃ کا موقف:
اہلِ سنت والجماعت بدعات کو ایک لحظہ برداشت نہیں کرتے ہیں، اور انہیں ایک آنکھ پسند نہیں کرتے، صحابہ جہاں کہیں بدعت کا ارتکاب دیکھتے فوراً نکیر کرتے اور سنت کی پیروی کا حکم دیتے۔
امام مالک کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے سوال کیا کہ: میں احرام کہاں سے باندھوں؟ امام مالک نے جواب دیا: اس میقات سے جس کو نبی ﷺ نے میقات بنایا ہے اور خود آپ ﷺ نے وہاں احرام باندھا ہے۔ اس شخص نے پھر امام صاحب سے پوچھا: میں اس سے پہلے اور دور سے احرام کیوں نہ باندھ لوں؟ امام مالک نے فرمایا: میں اس کو درست نہیں سمجھتا ۔ اس شخص نے کہا: اس میں کیا قباحت ہے؟ امام مالک نے اس کو جواب میں فرمایا: مجھے تیرے بارے میں فتنہ میں پڑھنے کا اندیشہ ہے۔ اس شخص نے کہا : زیادہ سے زیادہ خیر حاصل کرنے کی فکر کرنے میں کیا فتنہ ہے؟ امام مالک نے فرمایا: باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌo (النور : 63) اس سے بڑا فتنہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ: تم ایسا فضل خا ص کرنا چاہتے ہو جس کو نبی ﷺ نے خاص نہیں کیا ہے۔
جاء رجل إلى الإمام مالك بن أنس رحمه اللّه فقال : من أين أحرم ؟ فقال : من الميقات الذي وقت رسول اللّه صلى الله عليه وسلم وأحرم منه ، فقال الرجل : فإن أحرمت من أبعد منه ؟ ، فقال مالك : لا أرى ذلك ، فقال : ما تكره من ذلك ؟ ، قال : أكره عليك الفتنة ، قال : وأي فتنة في ازدياد الخير ؟ ! فقال : فإن اللّه تعالى يقول : فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ o (النور :63)، وأي فتنة أعظم من أنك خصصت بفضل لم يختص به رسول اللّه صلى الله عليه وسلم۔
(الباعث علی إنکار البدع و الحوادث : ص۱۴)

اہلِ بدعات پر رد:
اہلِ بدعات پر رد کرنا احیا٫ سنت ہے اور دین کا حصہ ہے، امت میں جب بھی بدعات کا ظہور ہوا علما٫ حق نے ان بدعات اور ان کے اختیار کرنے والوں پر رد کیا ہے، اور دین میں تحریف و تبدیلی کے اس عمل کو برداشت نہیں کیا گیا ہے، چنانچہ علما٫ اہل سنت و الجماعۃ نے رد بدعات کے موضوع پر مستقل کتابیں تصنیف فرمائیں ہیں۔ اور ہر زمانہ میں اہل حق علما٫ اور حق کے پیروکاروں کی دینی ذمہ داری ہے کہ وہ بدعات پر رد کا اہتمام کریں ورنہ اس ذمہ داری میں کوتاہی دین کی حقیقی صورت سے دوری کا سبب بن جاتی ہے،اور جہاں یہ ذمہ داری پوری نہ ہو وہاں دین کی محرف شکل کے عام ہونے کے اسباب پیدا ہوجاتے ہیں۔