یہ دنیا جس میں ہم اپنی یہ زندگی گزار رہے ہیں اور جس کو اپنی آنکھوں،کانوں،حواس وغیرہ سے محسوس کرتے ہیں،جس طرح یہ ایک واقعی حقیقت ہے،اسی طرح آخرت بھی جس کی اطلاع اﷲ کے سب پیغمبروں نے دی ہے،وہ ایک قطعی اور یقینی حقیقت ہے۔
پھر دنیا کے بارے میں ہم کو یقین ہے کہ یہ اور اس کی ہر چیز فانی ہے،بہ خلاف آخرت کے کہ وہ غیر فانی اور جاودانی ہے،اور وہاں پہنچنے کے بعد انسان بھی غیر فانی بنادیا جا ئے گا،یعنی اس کو کبھی ختم نہ ہو نے والی دوامی زندگی عطا فرمادی جا وے گی۔
ظاہر کہ ان سب باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کی فکر وسعی بس آخرت ہی کے لئے ہو،اور دنیا سے اس کا تعلق صرف ناگزیر ضرورت کے بقد رہو۔
لیکن انسانوں کا عام حال یہ ہے کہ دنیا چونکہ ہر وقت ان کے سامنے ہے اور آخر ت سراسر غیب اور آنکھوں سے اوجھل ہے،اس لئے اکثر وبیشتر ان حقیقتوں کے ماننے والوں پر بھی دنیا ہی کی فکر و طلب غالب رہتی ہے،گو یا یہ انسانوں کی ایک قسم کی فطری کمزوری ہے۔
اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے پیغمبروں اوراس کی نازل کی ہو ئی کتابوں کے ذریعہ ہمیشہ انسانوں کی اس غلطی اور کمزوری کی اصلاح کی کوشش ہو تی رہی ہے اور آخرت کے مقابلہ میں دنیا کا جو درجہ ہے اور دنیا کے مقابلہ میں آخرت کا جو مقام ہے وہ واضح کیا جا تا رہا ہے مگر انسانوں سے اس بارہ میںغالباً ہمیشہ بچوں والی غلطی ہو تی رہی ہے۔ارشاد ربانی ہے:
بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا ہ وَالْاٰخِرَۃُ خَیْر’‘ وَّاَبْقٰی ہ اِنَّ ھٰذَا لَفِی
الصُّحُفِ الْاُوْلٰی ہ صُحُفِ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰیہ
’’لیکن تم لوگ دُنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو ، حالانکہ آخرت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے یہ بات یقینا پچھلے (آسمانی) صحیفوں میں بھی درج ہے ، اِبراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔‘‘
یہ بھی ملحوظ رہے کہ قرآن وحدیث میں جس دنیا کی مذمت کی گئی ہے وہ آخرت کے مقابل والی دنیا ہے،اس لئے دنیا کے کا موں کی جو مشغولیت اور دنیا سے جو تمتع فکرِ آخرت کے تحت ہو اور آخرت کا راستہ اس سے کھوٹا نہ ہو تا ہو وہ مذموم اور ممنوع نہیں ہے بلکہ وہ تو جنت تک پہنچنے کا زینہ ہے۔
آخرت کا فکر واہتما م کرنے کی فضیلت وتا کید:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْنَفْس’‘ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْر’‘ م بِمَا تَعْمَلُوْنَ ہ
’’اے ایمان والو ! اﷲ سے ڈرو ، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کیلئے کیا آگے بھیجا ہے ۔ اور اﷲ سے ڈرو ۔ یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو ، اﷲ اُس سے پوری طرح باخبر ہے ۔‘‘
مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں ایک بلیغ انداز سے آخرت کی فکر اور اس کے لئے تیاری کا حکم ہے جس میں پہلے فرمایا:۔یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُو ااﷲَ وَلْتَنْظُرْ نَفْس’‘مَّاقَدَّمَتْ لِغَدٍیعنی فرمایا اے ایمان والو اﷲ سے ڈرو اور تم میں سے ہر نفس کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ اس نے آخرت کے لئے کیا سامان بھیجاہے۔
یہاں چند باتیں غور طلب ہیں :۔ اوّل:۔ یہ کہ اس آیت میں قیامت کو لفظ غَدْ سے تعبیر کیا جس کے معنی ہیں آنے والی کل ، اس میں تین چیزوں کی طرف اشارہ ہے، اوّل پوری دنیا کا بمقابلہ آخرت نہایت قلیل و مختصر ہونا ہے کہ ساری دنیا آخرت کے مقابلہ میں یک دن کی مثل ہے ، اور حساب کے اعتبار سے تو یہ نسبت ہونا بھی مشکل ہے، کیونکہ آخرت دائمی ہے جس کی کوئی انتہا اور انقطاع نہیں، انسانی دنیا کی عمر تو چند ہزار سال ہی بتلائی جاتی ہے ، اگر زمین و آسمان کی تخلیق سے حساب لگائیں تو چند لاکھ سال ہو جائیں گے، مگر پھر ایک محدود مدّت ہے، غیر محدود اور غیر متناہی سے اس کو کوئی بھی نسبت نہیں ہوتی ۔
بعض روایاتِ حدیث میں ہے اَلدُّنْیَا یَوْم’‘ وَلَنَا فِیْہِ صَوْم’‘،”ساری دنیا ایک دن ہے اور اس دن میں ہمارا روزہ ہے۔”اور غور کرو تو تخلیقِ انسانی سے شروع کر ویا تخلیقِ زمین و آسمان سے یہ دونوں چیزیں ایک فرد انسانی کے لئے قابلِ اہتمام نہیں، بلکہ ہر فرد کی دنیا تو اس کی عمر کے ایّام و سال ہیں، اور وہ آخرت کے مقابلہ میں کتنی حقیر مدّت ہے، اس کا ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے ۔
دوسرا اشارہ اس میں قیامت کے یقینی ہونے کی طرف ہے ، جیسے آج کے بعد کل کا آنا امر یقینی ہے کسی کو اس میں شبہ نہیں ہوتا، اسی طرح دنیا کے بعد قیامت و آخرت کا آنا یقینی ہے۔
تیسرا اشارہ اس طرف ہے کہ قیامت بہت قریب ہی جیسے آج کے بعد کل کچھ دور نہیں ، بہت قریب سمجھی جاتی ہے، اس طرح دنیا کے بعد قیامت بھی قریب ہے۔
قیامت ایک تو پورے عالم کی ہے۔دوسری قیامت ہر انسان کی اپنی ہے جو اس کی موت کے وقت آجاتی ہے، جیسا کہ کہا گیا ہے مَنْ مَّاتَ فَقَد قَامَتْ قیَامَتُہ‘،”یعنی جو شخص مر گیا اس کی قیامت تو ابھی قائم ہو گئی۔”کیونکہ قبر ہی سے عالمِ آخرت کے آثار شروع ہو جاتے ہیں، اور عذاب و ثواب کے نمونے سامنے آجاتے ہیں، کیونکہ عالمِ قبر جس کو عالمِ برزخ بھی کہا جاتا ہے اس کی مثال دنیا کی انتظار گاہ (ویٹنگ روم)کی سی ہے جو فرسٹ کلاس سے لے کر تھرڈ کلاس تک کے لوگوں کے لئے مختلف قسم کے ہوتے ہیں، اور مجرموں کا ویٹنگ روم حوالات یا جیل خانہ ہوتا ہے ، اسی انتظار گاہ ہی سے ہر شخص اپنا درجہ اور حیثیت متعین کر سکتا ہے ، اس لئے مرنے کے ساتھ ہی ہر انسان کی اپنی قیامت آجاتی ہے، اور انسان کا مرنا اﷲ تعالیٰ نے ایک ایسا معمّہ بنایا ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا فلسفی اور سائنسدان اس کی یقینی وقت مقرر نہیں کر سکتا ، بلکہ ہر وقت ہر آن انسان اس خطرہ سے باہر نہیں ہوتا، کہ شاید اگلا گھنٹہ زندگی کی حالت میں نہ آئے، خصوصاً اس برق رفتار زمانہ میں تو ہارٹ فیل ہونے کے واقعات نے اس کو روز مرّہ کی بات بنا دیا ہے ۔
اس آیت میں قیامت کو لفظ غَد سے تعبیر کر کے بے فکرے انسان کو متنبّہ کر دیا کہ قیامت کو کچھ دور نہ سمجھو وہ آنے والی کل کی طرح قریب ہے، اور ممکن یہ بھی ہے کہ کل سے پہلے ہی آجائے ۔
دوسری غور طلب بات اس آیت میں یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اس میں انسان کو اس پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی کہ قیامت جس کا آنا یقینی بھی ہے اور قریب اس کے لیے تم نے کیا سامان بھیجا ہے ، اس سے معلوم ہو ا کہ انسان کا اصل وطن اور مقام آخرت ہے ، دنیا میں اس کا مقام ایک مسافر کی طرح ہے، وطن کے دائمی قیام و قرار کے لیے یہیں سے کچھ سامان بھیجنا ضروری ہے ، اور انسان کے اس سفر کا اصل مقصد ہی یہی ہے کہ یہاں رہ کر کچھ کمائے اور جمع کرے پھر اس کو اپنے وطن ِ آخرت کی طرف بھیج دے ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہاں سے دنیا کا سامان ، مال و دولت کوئی وہاں ساتھ نہیں لے جاسکتا تو بھیجنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف مال منتقل کرنے کا جو طریقہ دنیا میں رائج ہے کہ یہاں کی حکومت کے بنک میں جمع کر کے دوسرے ملک کی کرنسی حاصل کر لے جو وہاں چلتی ہے ، یہی صورت آخرت کے معاملہ میں ہے کہ جو کچھ یہاں اﷲ کی راہ میں اور اﷲ کے احکام کی تعمیل میں خرچ کیا جا تا ہے وہ آسمانی حکومت کے بنک (اسٹیٹ بنک)میں جمع ہو جاتا ہے ، وہاں کی کرنسی ثواب کی صورت میں اس کے لیے لکھ دی جاتی ہے، اور وہاں پہنچ کر بغیر کسی دعوہ اور مطالبہ کے اس کے حوالہ کر دی جاتی ہے ۔
مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ عام ہے نیک اعمال اور بد اعمال دونوں کے لیے جس نے نیک اعمال آگے بھیجے ہیں اس کو ثواب کی صورت میں آخرت کے نقود (کرنسی)مل جائے گی، اور جس نے برے اعمال آگے بھیجے ہیں وہاں اس پر فرد جرم عائد ہو گی۔
مَاقَدَّمَتْ کیا چیز اس نے پہلے سے بھیجا ہے نیک عمل جو نجات آخرت کا سبب ہے یا برا عمل جو آخرت میں تباہ کن ہو گا۔ دیکھنے سے مراد یہ ہے کہ نیک عمل کو اختیار کرنا اور برے عمل سے استغفار کرنا اور بچنا چاہئے۔
پہلا اِتَّقُوْا اﷲگزشتہ گناہوں سے توبہ کرنے کیلئے فرمایا ہے اور دوسرا اِتَّقُوْا اﷲجو فرمایا ہے اس میں آئندہ گناہ کرنے سے پرہیز کرنے کا حکم دیا ہے ۔
ایک قول یہ ہے کہ پہلا حکم ادائے فرائض اور واجبات کی اہمیت دلانے کے لیے ہے اور دوسرا حکم گناہوں سے بچنے کے لئے ہے ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے اِ تَّقُوْا اﷲسے اعمال اور احکام ِخداوندی کی تعمیل کر کے آخرت کے لئے کچھ سامان بھیجنے کا حکم ہو ، اور دوسرے اِتَّقُوْا اﷲسے اس طرف ہدایت ہو کہ دیکھو جو سامان وہاں بھیجتے ہو اس کو دیکھ لو، کہ وہ کوئی کھوٹا خراب سامان نہ ہو کہ جو وہاں کام نہ آئے، کھوٹا سامان وہاں کے لئے وہ ہے کہ جس کی صورت عملِ صالح کی ہو مگر اس میں اخلاص اﷲ کی رضا کے لئے نہ ہو بلکہ نام و نمود یا اور کوئی غرض نفسانی شامل ہو، یا وہ عمل جو صورت میں تو عبادت ہے مگر دین میں اس کا کوئی ثبوت نہ کی وجہ سے بدعت و گمراہی ہے، تو اس دوسرے اِتَّقُوْا اﷲکا خلاصہ یہ ہوا کہ آخرت کے لئے محض سامان کی صورت بنا دینا کافی نہیں، دیکھ کر بھیجو کہ کھوٹا سامان نہ ہو جو وہاں نہ لیا جائے۔