عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ اَبُوْبَکْرٍیَا رَسُوْلَ اﷲِ قَدْ شِبْتَ قَالَ شَیَّبْتَنِیْ ھُوْد’‘ وَالْوَاقِعَۃُ وَالْمُرْسَلٰتُ وَعَمَّ یَتَسَا ئَ لُوْنَ وَاِذَا الشَّمْسُ کُوِّ رَتْ (رواہ ترمذی)
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا، کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲعلیہ وسلم آپ پر بڑھاپا آگیا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کہ:۔ مجھے بوڑھا کر دیا سورۂ ہود ، سورہ واقعہ ، سورہ ٔمرسٰلت ، سورۂ عم یتساء لون، اور سورۂ تکویر (اذالشمس کوّرت )نے(ترمذی )
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی جسمانی صحت فطری طور پر جس قدر بہتر تھی، اور قویٰ جیسے اچھے ، اور طبیعت جیسی معتدل تھی، اُس کے لحاظ سے آپ پربڑھاپے کے آثار بہت دیر سے ظاہر ہونے چاہئے تھے، لیکن جب وہ آثار عام اندازہ کے لحاظ سے قبل از وقت ظاہر ہونے لگے، تو حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ نے ایک روز عرض کیا،کہ:۔ حضرت!آپ پر تو ابھی سے بڑھاپا آنے لگا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کہ:۔ مجھے قرآن مجید کی اِن سورتوں (سورہ ٔہود اور واقعہ وغیرہ)نے بوڑھا کر دیا۔ اِن سورتوں میں قیامت و آخرت اور مجرموں پر اﷲ کے عذاب کا بڑا دہشت ناک بیان ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے مضامین سے اس قدر متاثر ہوتے تھے اور ان کی تلاوت سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر خدا کے خوف اور آخرت کی فکر کاایسا غلبہ ہوتا تھا کہ اس کا اثر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی جسمانی قوت اور تندرسی پر پڑتا تھا۔
اس حدیث سے خاص طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خوفِ خدا اور فکر آخرت کے لحاظ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلبِ مبارک کا حال کیا تھا۔
عَنْ جَابِرٍقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُدْخِلُ اَحَدًا مِنْکُمْ عَمَلُہ‘الْجَنَّۃَ وَلَایُجِیْرُ ہ‘ مِنَ النَّارِ وَلَا اَنَا اِلَّا بِرَحْمَۃِ اﷲِ(رواہ مسلم)
حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ “تم میں سے کسی کا عمل اُس کو جنت میں نہ لے جا سکے گا، اور نہ دوذخ سے بچا سکے گا ، اور میرا بھی یہی حال ہے مگر اﷲ کی رحمت اور اس کے کرم سے۔(صحیح مسلم )
عَنْ اَنَسٍ قَالَ اِنَّکُمْ لَتَعْمَلُوْنَ اَعْمَالاًھِیَ اَدَقُّ فِیْ اَعْیُنِکُمْ مِنَ الشَّعْرِ کُنَّا بَعُدُّ ھَا عَلٰی عَھْدِ رَسُوْ لِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُوْ بِقَاتِ یَعْنِی الْمُھْلِکَاتِ(رواہ البخاری)
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے ،انہوں نے اپنے زمانہ کے لوگوں سے فرمایا:۔ تم لوگ بہت سے اعمال ایسے کرتے ہو کہ تمہاری نگاہ میںوہ بال سے بھی زیادہ باریک (یعنی بہت ہی حفیف اور ہلکے ہیں)ہم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ان کو مہلکات میں سے شمار کرتے تھے۔ (صحیح بخاری )
مطلب یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاک زمانہ میں مسلمانوں پر یعنی آنحضرت صلی اﷲ لعیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابۂ کرام پر خوفِ خدا کا اتناغلبہ تھا، اور وہ آخرت کے حساب و انجام سے اِ س قدر لرزاں و ترساں رہتے تھے، کہ بہت سے وہ اعمال جن کو تم لوگ بالکل معمولی سمجھتے ہو، اور بے پروائی سے کرتے رہتے ہو، اور اس نے بچنے کی کوئی فکر نہیں کرتے، وہ ان کو مہلک سمجھتے تھے، اور ان سے بچنے کا ایسا ہی اہتمام رکھتے تھے، جیسے ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔