ابو بکر ہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی شخص نے عرض کیا:۔ یا رسول اﷲ!صلی اﷲعلیہ وسلم آدمی میں کون بہتر ہے ؟(کس قسم کا آدمی آخرت میں زیادہ کامیاب اور فلاح یاب رہے گا)آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کہ :۔ وہ جس کی عمر لمبی ہوئی اور اس کے اعمال اچھے ہوئے۔ پھر اسی سائل نے عرض کیا،کہ:۔آدمیوں میں زیادہ برا (اور آخرت میں زیادہ خسارہ میں رہنے والا )کون ہے؟آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کی عمر لمبی ہوئی اور اعمال اس کیبرے رہے۔ (مسند احمد)
تشریح:۔ظاہر ہے کہ جب کسی شخص کی زندگی اعمالِ صالح والی زندگی ہو گی تو جتنی طویل عمر اس کو ملے گی اسی قدر اس کے دینی درجات میں ترقی ہو گی، اور اس کے برعکس جس کے اعمال و اخلاق اﷲ سے دور کرنے والے ہوں گے ، اس کی عمر جتنی زیادہ ہو گی، اسی قدر وہ اﷲ کی رحمت اور رضا سے دور تر ہوتا چلا جائے گا۔
عبید بن خالد سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دو شخصوں کے درمیان مواخات قائم فرمائی (یعنی اس وقت کے دستور کے مطابق ان کو باہم بھائی بھائی بنایا )پھر یہ ہو اکہ ان میں سے ایک صاحب(قریبی ہی زمانہ میں جہاد میں شہید ہو گئے)پھر ایک ہی ہفتہ بعد یا اس کے قریب دوسرے صاحب کا انتقال ہو گیا (یعنی ان کا انتقال کسی بیماری سے گھر ہی پر ہوا)تو صحابہ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھی، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نمازِ جنازہ پڑھنے والے ان اصحاب سے دریافت کیا، کہ:۔ آپ لوگوں نے (نمازِ جنازہ میں )کیا کہا(یعنی مرنے والے بھائی کے حق میں تم نے اﷲ سے کیا دُعا کی؟)۔ انہوں نے عرض کیا، کہ ہم نے اس کے لئے یہ دعا کی، کہ اﷲاس کی مغفرت فرمائے، اس پر رحمت فرمائے، اور (ان کے جو ساتھی شہید ہو کے اﷲ کے قرب و رضا کا وہ مقام حاصل کر چکے ہیں ، جو شہیدوں کو حاصل ہوتا ہے، اﷲ ان کو بھی اپنے فضل و کرم سے اُسی مقام پر پہنچا ئے)اپنے اُس بھائی اور ساتھی کے ساتھ کر دے(تاکہ جنت میں اُسی طرح ساتھ رہیں جس طرح کہ یہاں رہتے تھے)یہ جواب سُن کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ، پھر اس کی وہ نمازیں کہاں گئیں جو اُس شہید ہونے والے بھائی کی نمازوں کے بعد (یعنی شہادت کی وجہ سے ان کی نمازوں کا سلسلہ ختم ہو جانے کے بعد )انہوں نے پڑھیں، اور دوسرے وہ اعمالِ خیر کہاں گئے، جو اس شہید کے اعمال کے بعد انہوں نے کئے ، یا آپ نے یوں فرمایا ، کہ اس کے وہ روزے کہاں گئے ، جو اس بھائی کے روزوں کے بعد انہوں نے رکھے۔ (راوی کو شک ہے کہ نماز کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عام اعمال کا ذکر کیا تھا، یا روزوں کا ذکر فرمایا تھا)۔ اس کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:۔ ان دونوں کے مقامات میں تو اس سے بھی زیادہ فاصلہ ہے ، جتنا کہ زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے ۔ (ابو دائود، نسائی )
راہِ خدا میں جان دینا بلا شبہ بہت اونچا عمل ہے، اور اس کی بڑی فضیلتیں ہیں، لیکن نماز، روزہ وغیرہ اعمالِ خیر اگر اخلاص اور احسانی کیفیت کے ساتھ نصیب ہوں ، تو ان کے ذریعہ جو ترقی اور بلندی نصیب ہوتی ہے ، اُ س کی کوئی حد نہیں ہے۔
ایمان کے بعد انسان کی زندگی کو سنوارنے اور فلاح کے مقام تک اس کو پہنچانے میں چونکہ سب سے بڑا دخل اﷲ تعالیٰ کے خوف و خشیت اور آخرت کی فکر کو ہے، اس لئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی اُمّت میں ان دو چیزوں کے پیدا کرنے کی خاص کوشش فرمائی ، کبھی اس خوف و فکر کے فوائد اور فضائل بیان فرماتے، اور کبھی اﷲ تعالیٰ کے قہر و جلال اور آخرت کے ان سخت احوال کو یاد دلاتے ، جن کی یاد سے دلوں میں یہ دونوں کیفیتیں پیدا ہوتی ہیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مشہور صحابی حضرت حنظلہ رضی اﷲ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجالس کا خاص موضوع گویایہی تھا، اور صحابہ کرام رضی اﷲ عمنہم اجمعین جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، اور آخرت اور دوزخ و جنت کے متعلق آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ارشادات سنتے تھے، تو اُ ن کا حال یہ ہو جاتا تھا کہ دوزخ و جنت گویا اُن کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔
حضر ت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّھْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ ج وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ ط کَذٰلِکَ یَجْعَلُ اللّٰہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ 0
(جس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے لئے اﷲتعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ اس کو اپنی راہ پہ لگائے اور اپنی رضا اور اپنا قرب نصیب فرمائے، تو کشادہ کر دیتا ہے اس کا سینا اسلام کے لئے یعنی عبدیت اور اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری والی زندگی کیلئے اس کا دل کھول دیا جاتا ہے ۔)یہ آیت تلاوت فرمانے کے بعد اس کی تفصیل اور تشریح کرتے ہوئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :۔ نور جب سینہ میں آتا ہے تو سینہ اس کی وجہ سے کھل جاتا ہے ۔ عرض کیا گیا:یا رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کیا اس حالت کی کوئی علامت بھی ہے ، جس سے اس کو پہچانا جائے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :۔ ہاں! دنیا جو دھوکے فریب کی جگہ ہے اس سے طبیعت کا ہٹ جاتا اور اچاٹ ہو جانا (یعنی زندگی میں زہد کی صفت آجانا)اور آخرت میں جو ہمشہ قیام کی جگہ ہے ، طبیعت کا اس کی طرف رجوع ہو جانا ، اور موت کے آنے سے پہلے پھر تیاری میں لگ جانا (یعنی توبہ و استغفار اور معاصی سے اجتناب، اور عبادت کی کثرت کے ذریعے موت کی تیاری کرنا )
اے لوگو!اگرتم کر سکو تو ایسا کرو، کہ دنیا سے چمٹنے والے اس کے بچے نہ ہو(بلکہ اس دنیا کو دارالعمل سمجھو)تم اس وقت دارالعمل میں ہو(یہاں تمہیں صرف محنت اور کمائی کرنی ہے )اور یہاں حساب اور جزا سزا نہیں ہے ، اور کل تم (یہاں سے کوچ کر کے )اور آخرت میں پہنچ جانے والے ہو، اور وہاں کوئی عمل نہ ہوگا (بلکہ یہاں کے اعمال کا حساب ہوگااور ہر شخص اپنے کیے کا بدلہ پائے گا)۔
ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا، کہ اے اﷲ کے پیغمبر !بتلائیے کہ آدمیوں میں کون زیادہ ہوشیار اور دور اندیش ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، وہ جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے اور موت کے لئے زیادہ سے زیادہ تیاری کرتا ہے جو لوگ ایسے ہیں وہی دانش مند اور ہوشیار ہیں، انہوں نے دنیا کی عزت بھی حاصل کی ، اور آخرت کا اعزاز و اکرام بھی ۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہوشیار اور توانا وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کے لئے(یعنی آخرت کی نجات و کامیابی کے لئے )عمل کرے اور نادان و ناتواں وہ ہے جو اپنے کو اپنی خواہشات نفس کا تابع کردے، (اور بجائے احکامِ خداوندی کے اپنے نفس کے تقاضو ں پر چلے )اور اﷲ سے امیدیں باندھے۔(ترمذی)