انبیاء و رسل


ہم تمام انبیاء و رسل پرکس طرح ایمان لائیں اور ان سے متعلق احکام و عقائد
ہم محمد رسول اللہ ؐپرکس طرح ایمان لائیں اورآپؐ سے متعلق احکام و عقائد
ہم انبیاء ؑکے معجزات پر کس طرح ایمان لائیں اور ان سے متعلق احکام و عقائد

عقیدہ:
اللہ تعالیٰ نےلوگوں کی ہدایت کے لئےنبیوں اور رسولوں کو مبعوث فرمایا ہے، ہر نبی اور رسول پر ایمان لانا ضروری ہے۔تشریح
رسالت پرایمان کا مفہوم اور اس کی بنیاد :
‘‘ایمان بالرسالۃ’’ یعنی نبیوں اور پیغمبروں پر ایمان، کہ خالق و رب ذو الجلال اپنے بندوں تک اپنے پیغام اور اپنی ہدایات کو پہنچانے کےلئے انہیں میں سے ایک خاص معیار کی نیک ہستیوں کو بحیثیت پیغام بر منتخب کرتا ہے تاکہ وہ پیغمبر اللہ کے پیغام کو بندوں تک پہنچانے کا فريضہ انجام دیں، اللہ تعالیٰ اپنی ہدایات ان پیغمبروں تک پہنچاتا ہے اور وہ پیغمبر اس پیغام کو دوسرے بندوں تک پہنچا تے ہیں۔
تمام ایمانیات و عقائد کی بنیاد ’’ایمان باللہ‘‘ ہے، ’’ایمان بالرسالۃ‘‘ کی بنیاد بھی ایمان باللہ ہی ہے، ایمان باللہ کے بیان میں گذرا ہے کہ جس طرح اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اسی طرح ان کی ہدایت کا انتظام بھی اللہ نے ہی کیا ہے، اللہ کی صفات میں ایک صفت ’’الھادی‘‘(یعنی ہدایت دینے والا) بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے بندوں کو ہدایت دینے کےلئے جو یقینی ذریعہ مقرر کیا ہے وہ نبوت و رسالت ہے، اللہ تعالیٰ کی اسی صفت ہدایت کا ظہور رسالت و نبوت کی شکل میں ہوا ہے۔
محض عقل سے اللہ تک پہنچنے کی کوشش:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو صحیح عقل و فہم سے بھی نوازا ہے ، صحیح عقل و فہم اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، لیکن عقل کی خود اللہ نے ایک حد رکھی ہے، اس حد سے آگے وہ کام نہیں کر پاتی ، وہ اللہ کی مرضیات اور نا مرضیات کا خود سے مکمل اندازہ نہیں کر سکتی، شریعت و قانون الہیٰ کو انفرادی یا اجتماعی غور و فکر اور عقل سے اخذ نہیں کیا جا سکتا؛ بلکہ عقل انسانی کا تو بسا اوقات یہ حال ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے جیسے انسانوں کی مراد کو سمجھنے پر پوری طرح قادر نہیں ہوتی، وہ رب ذو الجلال کی معرفت خود سے کیسے حاصل کر سکتی ہے؟ اورساتھ ہی عقل متأثر بھی ہوجاتی ہے، کبھی نفس کی خواہشات سے مغلوب بھی ہو جاتی ہے، کبھی شدت غضب سے معطل بھی ہوجاتی ہے ، اس کے ساتھ کئی اور کمزوریاں بھی ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضیات و نامرضیات کو جاننے کے لئے انسانی عقل پر نہیں چھوڑ دیا ہے۔
اور اجتماعی عقل کا بھی یہی حال ہوتا ہے، کوئی بھی اجتماعیت ہر اعتبار سے کامل نہیں ہوتی، اس میں کوئی نہ کوئی کمی ضروری ہوتی ہے، اور ہر اجتماعیت کسی نہ کسی نفسیاتی اور اخلاقی کمزوری کا ضرور شکار رہتی ہے، وہ کسی نہ کسی گروہ سے تعصب ضرور رکھتی ہے، اس لئے اجتماعی عقل بھی صحیح راستہ متعین کرنے کےلئے کافی یا بھروسہ مند نہیں ہوتی۔
محض فطرت سلیمہ رضاء الہیٰ تک پہنچنے کی کوشش اور نبوت کے انکار کا حکم:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل کے علاوہ سلیم فطرت سے بھی نوازا ہے، انسانی فطرت میں اللہ کی جانب سے فسق و فجور کا بنیادی عنصر بھی ودیعت کردہ ہے، سر راہ کسی طاقتور کی جانب سے کسی کمزور پر ہوتی ہوئی زیادتی کو دیکھ انسان کے دل پر یہ اثر خود اندر سے پیدا ہوتا ہے کہ یہ ظلم ہے، اس درجہ ظلم کے ادراک کےلئے انسان کو کتاب کھول کر دکھانا نہیں پڑتا کہ یہ ظلم ہو رہا ہے، کیونکہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے بنیادی تقوی اور فجور کا احساس پیدائشی طور پر رکھا ہے،لیکن جس طرح اللہ کے یہاں انسان کی پکڑ محض عقل کی بنیاد پر نہیں ہوگی اسی طرح اللہ کے یہاں انسان کی پوچھ اور مؤاخذہ محض اس سلیم فطرت کی بنیاد پر بھی نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کےلئے صحیح عقل و سمجھ بوجھ اور سلیم فطرت کے ساتھ ’’ہدایت ‘‘کا نہایت مستحکم اور یقینی ذریعہ جاری فرمایا ہے، جو ہر طرح کے تأثر سے محفوظ، یقینی ، تفصیلی تعلیمات پر مشتمل ہوتا ہے، اسی سلسلہ ہدایت کا نام ’’نبوت اور رسالت‘‘ ہے۔
نبوت کا انکار جیسا کہ دنیا کی بعض قومیں کرتی ہیں کفر ہے، سلسلہ نبوت کو ماننا لازم اور ضروری ہے-
نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے اس انسان کو کہا جاتا ہے جن پر وحئی الہٰی نازل ہوتی ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تبلیغِ احکام اور ہدایتِ خلق کے لئے مامور ہو، چاہے وہ صاحبِ کتاب ہو یا نہ ہو۔
رسول نبی سے شان میں بڑھ کر ہوتے ہیں، جس نبی کو کوئی خصوصی امتیاز حاصل ہو وہ رسول کہلاتے ہیں، مثلاً نبی اگر صاحبِ کتاب ہو تو رسول کہلائیں گے یا جو اصلاحِ خلق کے لئے مبعوث ہو وہ نبی ہوتے ہیں اور جو مقابلۂ اعداء کے لئے مبعوث ہو وہ رسول ہوتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ہر رسول نبی ہوتے ہیں لیکن ہر نبی کا رسول ہونا ضروری نہیں۔
وحی بندوں کی ہدایت کا حقیقی ذریعہ ہے:
نبیوں و رسولوں تک اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرشتوں کے ذریعہ یا راست جو پیغام بھیجا جاتا ہے اس کو وحی کہتے ہیں۔
فرشتے اللہ تعالیٰ کے جس پیغام کو انبیا٫ و رسل تک پہنچاتے ہیں اس کو وحی کہتے ہیں اور انبیا٫ و رسل اس وحی کو بندوں تک پہنچاتے ہیں، اورکبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ راست کوئی بات نبی و رسول کے دل میں القا٫ فرماتے ہیں اس کو بھی وحی کہتے ہیں، نبی یا رسول اس بات کو بھی بندوں تک پہنچا دیتے ہیں، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی و رسول سے بغیر کسی واسطہ کے خود کلام فرماتے ہیں، یہ بھی وحی الٰہی ہی ہوتی ہے۔
وحی پر ایمان لانا کہ ’’پروردگار نے اپنے بندوں تک اپنے احکام پہنچانے کےلئے نبیوں کو وحی بھیجی ہے‘‘ فرض ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
رسولوں اور نبیوں تک اپنے پیغام کو پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ فرشتوں کو اپنا پیغامبر بناتا ہے۔تشریح
رسولوں کا اصطفا٫ و انتخاب:
یہ اللہ تعالیٰ کاقانون ہے کہ وہ ہر انسان سے راست رابطہ کرکے وہ اپنی مرضی و نامرضی نہیں بتاتا، بلکہ اس کے لئے وہ اپنے خاص بندوں کو چن کر انہیں یہ ذمہ د رای سپرد کرتا ہے، اللہ کے یہ نمائندے نبی و رسول کہلاتے ہیں، اور ان انبیا٫ و رسولوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے والے اللہ کی ایک اور نور سے پیدا کی گئی مخلوق فرشتے ہوتے ہیں، فرشتے اللہ تعالیٰ سے پیغام لے کر انبیا٫ و رسل تک پہنچاتے ہیں اور انبیا٫ و رسل انسانوں تک اس پیغام کو پہنچاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ بندوں تک اپنے احکام اور تعلیمات پہنچانے کےلئے جن ہستیوں کو منتخب فرماتے ہیں یہ چنندہ بندے خاص صلاحیت اور صالحیت کے حامل ہوتے ہیں جو دوسروں میں نہیں پائی جاتیں ، جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ بخوبی جانتے ہیں کہ کن کو نبی و رسول منتخب کیا جائے اور کیوں؟ اور تمام انبیا٫ کا انتخاب اسی بنیاد پر ہوا ہے، او ر جن کا بھی انتخاب عمل میں آیا ہے وہ تمام عالَموں میں سے بلند مرتبہ اصحاب ہیں، اور خود فرشتوں میں اللہ کے پیغام انبیا٫ و رسولوں تک پہنچانے والے بھی منتخب ہوتے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ اس خاص کام کےلئے چنتا ہے ان میں قوت و امانت کی خاص صلاحیتں ہوتی ہیں، یعنی جو پیغام اللہ ان سے بھیجتا ہے وہ پوری امانت داری سے انبیاء و رسل تک پہنچاتے ہیں اور وہ اتنے قوی ہوتے ہیں کہ کوئی درمیان میں حائل ہو کر انہیں ان کے ارادہ سے روک نہیں سکتا۔
یہ ماننا کہ فرشتوں سے پیغام رسانی میں کسی قسم کی غلطی ہو سکتی ہے یا ہوئی ہے کفریہ عقیدہ ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی جانب فرشتوں کو رسول بنا کر نہیں بھیجا جب بھی رسول آئے انسان ہی آئے۔تشریح
رسول انسانوں میں سے آئے:
یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت کا تقاضہ ہوا کہ رسول و نبی انسانوں میں سے ہی بنا کر بھیجے جائیں، خود فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے نبی و رسول بنا کر نہیں بھیجا ، تاکہ بندے ان کی بات کو بآسانی سمجھ سکیں، اور ان کی آپس میں مخاطبت اور مکالمت بغیر کسی الجھن کے عام معمول کے مطابق ہو، جس میں وہ ایک دوسرے کا سامنا کر سکیں، اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کا پیغام نبی و رسول تک پہنچے نبی و رسول اس پر عمل کرکے بندوں کو دکھادیں، اور ایک اسوہ کی حیثیت سے بھی ان کی تعلیم عام ہو۔ فرشتوں کو رسول و نبی کی حیثیت سے بھیجے جانے کا مطالبہ کفریہ مطالبہ ہے، تمام سابقہ قومیں اس کفر میں مبتلا رہی ہیں، جس پر وہ عذاب کا شکار ہوئیں، اللہ کا قانون یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ نے مکلفین تک پیغام رسانی کےلئے انبیاء ورسل انسانوں میں سے ہی بنا کر بھیجا ہے۔
اللہ تعالیٰ اگر انسانوں کے بجائے فرشتوں کو ہی رسول بنا دیتے تو بندے ان کا ان کی اصلی شکل میں سامنا ہی نہیں کر سکتے، یا ان پر ہمیشہ فرشتوں کی ہیبت طاری رہتی ، اور وہ ان سے اللہ کے پیغام کو صحیح طور پر حاصل نہیں کر پاتے۔ اسی کے ساتھ جب فرشتے اللہ کے احکام پر بآسانی عمل کرلیتے تو بندوں کو شبہ باقی رہ جاتا کہ چونکہ وہ فرشتہ ہیں اور ان کی خاص صلاحیتں ہیں اس لئے وہ ان احکام پر عمل کر پا رہے ہیں جبکہ انسانوں کےلئے اس پر عمل کرنا آسان نہیں ہوگا وغیرہ، گویا وہ فرشتے کبھی انسانوں کےلئے اسوہ نہیں بن پاتے جب کہ نبی انسانوں کےلئے پیغمبر ہونے کے ساتھ اللہ کے احکام پر عمل کو سکھانے کےلئے اسوہ بھی ہوتا ہے۔انبیا٫ و رسولوں کو عام انسانی ضروریات لاحق ہوتی ہے، وہ بشری حیثیت کے ساتھ اللہ کے احکام پر عمل کرتے ہیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ اگر فرشتوں کو نبی یا رسول بنا کر بھیجتے بھی تو اس کو نبی و رسول بنانے سے قبل انسان بنادیتے ۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حضرات انبیاء علیہم السلام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے ۔تشریح
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات انبیاء علیہم السلام کا خواب وحی ہوتا ہے، اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھ کر اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلادی تھی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند کی حالت میں صرف آنکھیں سوتی تھیں دل نہیں سوتا تھا، اسی لئے آپؐ کی نیند سے آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
نبی دنیا میں کسی سے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھتے، انہیں براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم عطاء کئے جاتے ہیں، اسی بناء پر وہ اپنے زمانہ میں اور اپنی قوم میں سب سے زیادہ علم والے ہوتے ہیں۔دلائل
عقیدہ:
تمام انبیاء و رسل علیہم الصلوٰۃ و السلام کا دین یعنی اصولی عقائد ایک ہی ہیں اور شریعتیں یعنی فروعی احکام جدا جدا ہیں۔تشریح
انبیا٫ کی صداقت کے نشانیاں:
انبیا٫ کی صداقت کے دلائل:میں سے ایک ان کا زمانوں اور علاقوں کے اختلاف کے باوجود یکساں دعوے کے ساتھ اٹھنا بھی ہے، تمام انبیا و رسل جن اصولوں کی دعوت دیتے ہیں ان میں وہ سب متفق ہوتے ہیں۔
رسول صرف اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں، اور اس کے علاوہ دوسروں کی عبادت سے روکتے ہیں، کہ بندوں کی تخلیق کی واحد غرض یہی ہے کہ بندے اللہ کی عبادت کریں۔
ان میں سے کوئی ایک بھی خود کی عبادت کی دعوت نہیں دیتا، یا عبادت کے علاوہ کسی اور اپنے ذاتی مقصد کی جانب لوگوں کو نہیں پھیرتا ، اور نہ ہی اپنے قبیلہ یا طائفہ کی تعظیم کی دعوت دیتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خود پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ خطاب کروایا: قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ۔ (سورة الأنعام:۵۰)
کوئی نبی یا رسول اپنے دعوے کے مقابلہ میں دنیا کی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے ہیں، چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے انبیا٫ علیہم السلام میں سے حضرات نوح ، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام کے بارے میں نقل کیا کہ ان سب نے اپنی قوم سے خطاب کرکے کہا: وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِين۔ (سورة الشعراء:۱۰۹،۱۲۷،۱۴۵) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ اعلان کردیں: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ۔(سورة ص:۸۶)
رسولوں کا دعوت کا دوسرا بنیادی جزء آخرت کی تیاری کی فکر پیدا کرنا ہے، وہ آخرت کی فکر اس درجہ پیدا کرتے ہیں کہ ان کے متبعین میں اس کا اثر اس طرح دکھائی دیتا ہے جیسے وہ آخرت کو اپنی نگاہوں سے دیکھ رہے ہوں، خود انبیاء آخرت کی تیاری کا ایسا معیار پیش کرتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے وہ دنیا سے کچھ لینا ہی نہیں چاہتے، باوجود یہ کہ وہ دنیا کے سب سے زیادہ دانشمند و صاحب عقل ہوتے ہیں، دنیا سے فائدہ اٹھانے، یہاں مال وزر جمع کرنے سے مکمل گریز کرتے ہیں اور اپنا سب کچھ آخرت کےلئے پس انداز کرتے ہیں اور یہی اثر ان کے متبعین میں ہوتا ہے۔
انبیاء میں سے کوئی ایک دوسرے کسی نبی کی توہین نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی ایک دوسرے کی تنقیص کرتا ہے؛ بلکہ سب ایک دوسرے کو بھائی یا کسی اور احترام کے رشتہ سے ذکرکرتے ہیں، اگر کوئی مدعی نبوت کسی دوسرے نبی کا ذکر خیر کے ساتھ نہ کرے تواس کا نبی ہونا مشکوک ہونے بلکہ اس کا نبی نہ ہونے کےلئے یہی حرکت کافی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
ہر نبی اپنے مقصدِ نبوت میں کامیاب ہوئے ہیں، اگر کسی نبی پر کوئی ایک شخص بھی ایمان نہیں لایا، پھر بھی وہ نبی کامیاب ہیں۔دلائل
عقیدہ:
نبی سے بسا اوقات اجتہادی خطاء ہوسکتی ہے اور یہ نبوت و عصمت کے منافی نہیں؛ لیکن نبی کبھی بھی خطائے اجتہادی پر برقرار نہیں رہتے۔ دلائل
عقیدہ:
نبی اور رسول پر ایمان کے بغیر اللہ تعالیٰ پر ایمان معتبر و مقبول نہیں، اللہ تعالیٰ پر ایمان اس شخص کا معتبر ہے جو انبیاء کرام پر ایمان رکھتا ہے۔ دلائل
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ نے ہر قوم اور ہر علاقہ میں نبی اور رسول بھیجے، کوئی قوم اور کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اللہ کے نبی یا رسول نہ آئے ہوں۔ اور قیامت کے دن اسی بنیاد پر بندوں سے سوال ہوگا۔تشریح
انبیا٫ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر اتمام حجت :
عقل اور فطرت کی عطا٫ کے باجود بندہ ،انسان اپنی گمراہی پر اللہ تعالیٰ سے حیلے بہانے کر سکتا تھا، لیکن انبیا٫ اور رسولوں کے سلسلہ کو جاری کرکے اللہ تعالیٰ نے بندوں پر ہر طرح سے حجت تمام کردی ، اور ان کے لئے کسی عذر و حیلہ کی گنجائش کو بالکل ختم کردیا ہے، انبیا٫ و رسل کے بعد بندے اللہ کی مرضی اور نامرضی کا خیال نہیں رکھتے ہیں تو اللہ کے نزدیک ان کی پوری طرح سے پکڑ ہوگی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسولوں کے ذریعہ اپنی مکمل ہدایت بندوں کے پاس بھیج دی ہے کہ انہیں کیسے زندگی گذارنی ہے، اور اللہ تعالیٰ ان سے کیا چاہتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
نبوت اور رسالت کسبی چیز نہیں ہے۔تشریح
نبوت اور رسالت کسبی چیز نہیں کہ عبادت و ریاضت کے نتیجہ میں انسان رسالت و نبوت حاصل کرلے؛ بلکہ یہ محض عطیۂ الہٰی اور اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے، جس کو وہ چاہتا ہے خلعتِ نبوت و رسالت سے نوازتا ہے، عبادت و ریاضت کو اس میں کچھ بھی دخل نہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
نبی اور رسول منصبِ نبوت و رسالت سے کبھی معزول نہیں کئے جاتے۔تشریح
نبی اور رسول منصبِ نبوت و رسالت سے کبھی معزول نہیں کئے جاتے، ان کی پیدائش بحیثیت نبی ہوتی ہے، نبی مر کر بھی نبی ہی رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے علمِ محیط کی بناء پر کسی ایسے شحص کو مقامِ نبوت سے سرفراز نہیں فرماتے جسے آئندہ معزول کرنا پڑے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
عہد الست کا اقرار بھی ضروری ہے۔تشریح
بندوں تک ہدایت کے بھیجنے کا اللہ کا منصوبہ:
نبوت و رسالت کا سلسلہ انسانوں کے دنیا میں بھیجے جانے کے بعد اچانک نہیں ہوا؛ بلکہ اللہ تعالی ٰنے جب انسان کو اس دنیا میں آنے کا حکم دیا تبھی ان سے وعدہ فرمایا کہ اللہ کی جانب سے ان کے پاس ہدایت آتی رہے گی۔
انسان کے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے جہاں دنیا میں زندگی اور انسان کے جسم کی پرورش کے تمام سامان مہیا کئے ، تو پہلے انسان یعنی سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کرکے ان کی پیٹھ سے ان کی تمام ذریت کو عالم ارواح میں نکالا اور اس دنیا میں بھیجنے سے پہلے ہی ان سے اپنی ربوبیت کا اقرار لیا، اور اس وقت سب نے شعوری طور پر اﷲ کی خالقیت اور ربوبیت کا ادراک کرکے اس کا اقرار کیا ،یہ اقرار آج بھی فطرت انسانی میں موجود ہے، جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کائنات کا اور ہمارا سب کا صرف ایک پرورش کرنے والا ہے، وہی ہمارا معبود حقیقی ہے، محض اسی کی عبادت ہونی ہے اور صرف اسی کو الہ ماننا ہے۔
یہ عہد الست قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے، اس کا اقرار بھی لازم ہے اور انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میثاق انبیاء حق ہے، نبیوں اور رسولوں سے بھی اللہ تعالیٰ نے اس بات کا عہد لیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی تصدیق کریں گے۔تشریح
میثاقِ انبیاء:
اللہ تعالیٰ نے ایک عہد خود تمام انبیاء علیہم السلام سے بھی لیا کہ جب انہیں نبی بنایا جائے اور علم و حکمت سے اللہ کی جانب سے نوازا جائے، پھر کوئی اور نبی و رسول ان کے زمانہ میں ہی ان کے یہاں آجائے تو وہ ان کی تصدیق کریں گے، اور اگر ان کے زمانہ میں نہ آئیں بلکہ ان سے پہلے گذر چکے ہوں تو وہ ان کی تصدیق کریں گے، یا پھر وہ انبیاء جو آنے والے ہیں ان کے بارے میں انبیاء اپنی قوم کو اس بات کی تاکید کریں گے کہ وہ ان کے پاس اللہ کی جانب سے بعد میں بھیجے جانے والے دیگر نبیوں و رسولوں پر ایمان لائیں گے ان کی تصدیق کریں گے، اور ان کی نصرت کریں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ نے بہت سے نبیوں کو بھیجا ہے، مکمل تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے،تمام نبیوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔تشریح
انبیاء کی تعداد:
ہر امت میں اللہ تعالیٰ نے رسول بھیجے ہیں، جنہوں نے اللہ کے پیغام کو بندوں تک پہنچایا ہے،کئی انبیاء اور رسول ایسے ہیں جن کے نام اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بتلائے ہیں اور بہت سوں کا علم زبانِ نبوی سے دیا ہے اور بہت سے انبیاوہ ہیں جن کے نام نہیں بھی بتلائے ہیں،جن کے نام نہیں بتلائے گئے ہیں ان سب کے بارے میں ہمیں اجمالی ایمان رکھنا ہے کہ اللہ نے بہت سے رسولوں کو بھیجا ہے، اور جن کے نام بتلائے ہیں تو جس کے بارے میں جتنی تفصیل ہمیں بتلائی گئی ہے اتنی تفصیل کے ساتھ ان پر ایمان لانا واجب ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اندازہ سے کسی کو نبی قرارنہیں دیا جاسکتا۔تشریح
تاریخ انسانی میں جن شخصیات کا ذکر خیر کے ساتھ ملتا ہے کہ وہ غیر معمولی شخصیات تھیں اور انہوں نے خیر کےلئے کام کیا ہے، بعض لو گ انہیں کہہ دیتے ہیں کہ شائد وہ نبی تھے، ایسا کہنا خلاف عقیدہ ہے، کسی کے ساتھ نبوت کی نسبت صرف یقینی ذریعہ علم سے ہی کی جاتی ہے اندازوں سے نہیں کی جاتی، کسی کے نبی ہونے کے اثبات اور بیان کےلئے دلیلِ قطعی لازم ہے، جس کے نبی ہونے کے بارے میں متعین طور پر دلیلِ قطعی نہ ہو اس کی جانب محض قرائن سے نبی ہونے کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
تمام انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں، ان کے علاوہ کوئی اورمعصوم نہیں ہوتا۔ تشریح
صفاتِ انبیاء:
اللہ تعالیٰ جن کو نبوت و رسالت کے لئے منتخب فرماتے ہیں وہ سب کمال عقل، سلامت فطرت، اور قول و عمل میں سچائی کی صفات سے متصف ہوتے ہیں، نبوت و رسالت کی جس ذمہ داری پر انہیں فائز کیا جاتا ہے اس میں وہ کامل درجہ کی امانت داری و دیانت داری برتتے ہیں، اور اپنی امت کو وہ تمام امور پہنچاتے اور ان کی تعلیم دیتے ہیں جن کا انہیں اللہ کی جانب سے حکم ہوتا ہے، ان کی سیرت ہر طرح کی برائی سے محفوظ ہوتی ہے، وہ معصوم ہوتے ہیں، اور بدنی و جسمانی اعتبار سے وہ نہایت کامل اور ذوق سلیم کے حامل ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے نفس و اخلاق کو نہایت پاک و صاف اور مزکی ّٰ و مجلّٰی رکھتا ہے، وہ تخلیق کے اعتبار سے نہایت مکمل، اخلاق کے اعتبار سے نہایت بلند مرتبہ اور تمام اچھائیوں سے متصف ہوتے ہیں، کرم ،جود و عطا٫ اور شجاعت ان میں رچی بسی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں علم و حلم اور عدل کی صفات سے نوازتا ہے، یہاں تک کہ ہر نبی و رسول اپنی قوم میں ان تمام صفات میں سب سے ممتاز ہوتا ہے، جس کا اعتراف انبیا٫ علیہم السلام کی اقوام کھلے زبان کرتی ہیں، خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسالت کے منصب پر فائز کئے جانے سے پہلے سے ہی اپنی قوم میں ’’الصادق‘‘ اور ’’ الأمین‘‘ کے لقب سے جانے جاتے تھے۔
انبیاء سے کبھی کسی رذیلہ کا صدور نہیں ہوتا، کسی کبیرہ یا صغیرہ گناہ کا صدور بھی نہیں ہوتا، نہ نبوت سے پہلے نہ نبوت کے بعد، اور انبیاء کبھی خلاف شریعت عمل کا ارتکاب بھی نہیں کرتے، چنانچہ انبیاء سے کسی قسم کی اخلاقی کمزوری منسوب کرنا یا صغیرہ یا کبیرہ گناہ کی نسبت کرنا یا ان کی جانب شریعت کی خلاف ورزی کی نسبت کرنا کفر ہے۔
اسرائیلی روایات میں حضرت یعقوب یاحضرات داؤد یا دیگر انبیاء علیہم السلام سے جو غیر شرعی یا غیر اخلاقی قصے منسوب کئے گئے ہیں سب جھوٹے ہیں، انبیاء کی جانب اس طرح کی جھوٹی نسبتیں سب یہودیوں کی بے ہودگیاں ہیں، ان کی تصدیق کرنا اور ان کو صحیح ماننا بھی کفر ہے۔
ہاں اجتہاد میں کبھی انبیاء سے خطا ہو سکتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ انہیں اس خطا پر باقی نہیں رکھتے اور ان کی تصحیح کردی جاتی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ ان سے اجتہاد میں کوئی خطا ہو تو اس کی تصحیح ہوئے بغیر اس کو ویسے ہی چھوڑ دیا جائے، اس لئے کہ انبیاء جو کچھ کہتے یا کرتے ہیں وہ ان کی امت کےلئے قانون یا سنت بن جاتی ہے، اس لئے ان سے اگر کوئی اجتہادی خطا ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کوصحیح کردیتے ہیں، تاکہ انبیاء کے ہر قول و عمل پر پورے اعتماد کے ساتھ عمل کیا جا سکے کہ وہ صحیح ہی ہے، اس لئے انبیاء اجتہادی امور میں بھی انجام کے اعتبار سے معصوم عن الخطا ہوتے ہیں، لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انبیاء سے کبھی کوئی اخلاقی کمزوری کا ارتکاب ہرگز نہیں ہو سکتا، وہ اخلاقی اعتبار سے ہمیشہ نہایت پاکیزہ اور اعلی معیار کے حامل ہوتے ہیں، زندگی میں کبھی ایک بار بھی ان سے کسی رذیلہ کا ارتکاب ہر گز ہرگز نہیں ہو سکتا۔
غیرِ انبیاء معصوم نہیں ہوتے:
انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کسی کے بھی معصوم ہونے کا عقیدہ رکھنا خلاف اسلام ہے،علماء، متقین، ائمہ، یہاں تک کہ انفرادی طور پر صحابہ اور خلفاء بھی معصوم عن الخطأ نہیں ہوتے، ان سے بھی غلطی کا امکان ہوتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
انبیاء و رسول اللہ کے بندے ہوتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی الو ہیت کی صفت سے متصف نہیں ہوتا۔تشریح
انبیاء عبد اللہ ہوتے ہیں الٰہ نہیں:
انبیاء باوجود یہ کہ نبوت و رسالت کے اونچے مقام پر فائز ہوتے ہیں لیکن ہوتے اللہ کے بندے ہیں، مقام نبوت پر فائز ہونے کے بعد وہ اللہ کی عبدیت (بندگی) کے مقام سے بلند ہو کر الوہیت کے مقام تک نہیں پہنچ جاتے، عبدیت میں کمال ہی ان کا اونچا ترین مقام ہوتا ہے۔ انبیاء کےلئے سب سے اونچی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ صفت عبد ہی ہے۔
نبیوں میں سے کسی بھی نبی کو الوہیت کی کسی صفت سے متصف کرنا،سمجھنا خلاف اسلام اور کفریہ عقیدہ ہے۔
حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے نبی اور اس کے بندے تھے، اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے رسول اور اس کے بندے ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
انبیاء و ر سول بشر تھے ۔تشریح
انبیا٫ بشر ہوتے ہیں اور ان کو بشری تقاضے بھی لاحق ہوتے ہیں:
انبیا٫ و رسل باوجود یہ کہ نہایت اعلی صفات کے حامل تھے لیکن ان سب کے علی الرغم وہ بشر تھے اور سبھی فطری بشری تقاضے ان کو لاحق تھے، انہیں بھوک لگتی تھی ،وہ کھاتےتھے، اور بیمار پڑتے تھے تو انہیں شفاء کی ضرورت ہوتی تھی، انہیں نیند آتی تھی اور وہ سوتے تھے، وہ شادیاں کرتے تھے، انہیں اولاد بھی ہوتی تھیں اور انہیں موت بھی آتی تھی۔
قومیں انبیا٫ و رسولوں کو جھٹلاتیں، ان کو تکلیفیں پہنچاتیں، ان کے خلاف سازشیں کرتیں، کبھی ان میں سے کسی کو قتل بھی کیا جاتا تھا ، وہ اللہ کی نصرت کے محتاج ہوتے تھے اور ہر بات پر انہیں قدرت نہیں ہوتی تھی، حتی کہ وہ اپنے نفع و نقصان کے خود مالک نہیں ہوتے ہیں ۔
انبیاء کو اِن فطری بشری تقاضوں سے ما وراء سمجھنا بھی کفر ہے:
ہاں فطری تقاضوں کے ساتھ وہ جن اعلیٰ اخلاق اور خوبیوں کے مالک تھے، عقل صحیح اور سلامت فطرت پر قائم ہوتے تھے ان کی بنیاد پر وہ اللہ کے حکم و وحی کے مطابق زندگی گذارتے تھے، کامل عبدیت کا مظاہرہ کرتے تھے، بندوں کی ہدایت کےلئے ہر سامان کرتے اور ہر طرح کی قربانیاں دیتے، اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچانے کےلئے ہر قسم کی جد و جہد کرتے اور تمام تر عقلی صلاحیتوں کو بروئے کار لا تے، ہر آزمائش پر کھرے اترتے اور حق پر ڈٹے رہتے، مسائل و مصائب سے پریشان نہیں ہوتے، اور نہ ہی حق کا ساتھ چھوڑتے بلکہ حق کی محنت میں کسی قسم کی کمزوری نہیں آنے دیتے، وہ کسی معاملہ میں نا امید نہیں ہوتے بلکہ اللہ سے رہنمائی طلب کرکے اسی کے مطابق اپنی جدو جہد میں لگے رہتے، انبیاء علیہم السلام کا یہی سب سے بڑا امتیاز ہوتا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
انبیاء و رسول اللہ کے بتلانے سے غیب کی بہت ساری باتوں کا علم رکھتے ہیں جو غیر انبیاء کو معلوم نہیں ہوتیں، لیکن اس کے باوجود وہ عالم الغیب نہیں ہوتے، یعنی غیب کی ہر بات کو نہیں جانتے۔تشریح
انبیاء علیہم السلام کا علم:
انبیاء کی تمام صفات دیگر مخلوقات کی طرح ان کی ذاتی نہیں بلکہ عطائی ہوتی ہیں، ان کی حیات، قدرت، سمع، بصر اور علم سب اللہ کا دیا ہوا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو صحیح علم کی تعلیم دینے کےلئے انبیاء کا انتخاب فرماتے ہیں، اور انہیں کتاب وحکمت سے نوازتے ہیں، چنانچہ مکلفین میں تشریعی امور کا علم انبیاء کے ذریعہ سے ہی منتقل ہوتا ہے، اس لحاظ سے تشریعی امور کے علم میں انبیاء سب سے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے اس علم کا موازنہ دیگر مخلوقات کے علم کے ساتھ ممکن ہی نہیں ہے ، کیونکہ ان کے علم کا ذریعہ ’’وحی‘‘ ہوتا ہے، یعنی وہ راست اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کرتے ہیں، ان کے علم کی بنیاد صرف سمع و بصر یا غور و فکر اور تجربہ نہیں ہوتا جس میں غلطی کا امکان باقی رہ جاتا ہے بلکہ ان کے علم کا ذریعہ یقینی اور قطعی ہوتا ہے، یعنی عالم الغیب و الشھادۃ سے ان کا راست رابطہ ہوتا ہے جو ہر چیز کا جاننے والا اور ہر چیز کے بارے میں باخبر ہے جو انہیں علم وحکمت سے نوازتا ہے، البتہ تکوینی امور کی وہی باتیں انبیاء جانتے ہیں جتنا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم دیا ہے، لیکن بہت سے تکوینی امور ایسے ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا علم ہر نبی کو نہیں دیا جاتا، مثلاً حضرت خضر علیہ السلام امورِ تکوینی میں سےایسی باتیں جانتے تھے جن کا علم حضرت موسی علیہ السلام کو نہیں تھا، اسی طرح تکوینیات سے متعلق بہت سی باتیں فرشتے جانتے ہیں جن کا علم انبیاء کو اسی وقت ہوتا ہے جبکہ اللہ انہیں اپنی مصلحت سے بتلانا چاہے، یہ بھی ممکن ہے کہ ان کو بعض تکوینیات بتلائی ہی نہ جائیں، یہ عقیدہ رکھنا کہ انبیاء ما کان و ما یکون میں سے ہر بات کا علم رکھتے ہیں کفر ہے، البتہ یہ حقیقت ہے کہ علوم میں تشریعی علم تکوینی علم سے افضل ہوتا ہے، اس لئے تشریعی علوم کے حاملین تکوینی امور کے حاملین سے افضل ہوتے ہیں۔
انبیاء باوجود یہ کہ بہت اعلیٰ ، بہت گہرا اور بہت وسیع علم رکھتے ہیں، کسی نبی یا رسول کو ’’غیب کا علم‘‘ تھاکہ جو کچھ ہونے والا ہے اس کو جانتے ہوں(’’غیب کا علم‘‘ کس بات کو کہتے ہیں اس کا ذکر ایمان باللہ میں تفصیل سے ہے)، ان کے پاس اتنا ہی علم ہوتا ہے جو اللہ انہیں دیتا ہے، ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے بہت سے امور ایسے رکھے ہیں جن کا علم صرف اسی کو ہے، اللہ کے علاوہ ان کو کوئی نہیں جانتا، نہ کوئی فرشتہ، نہ کوئی نبی اور نہ ہی کوئی رسول ۔
انبیاء میں ان کے فرق مراتب کے لحاظ سے ان کے علم میں بھی تفاوت ہوتا ہے، اس لحاظ سے اولوا العزم من الرسل کا علم بہ نسبت دیگر انبیاء کے بڑھا ہوا ہوتا ہے، اور اولوا العزم من الرسل میں سب بڑھا ہوا علم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہے، تشریعات کے علاوہ تکوینی امور سے متعلق بھی آپ کا علم تمام انبیاء سے بڑھا ہوا ہے،جیسا کہ آپ کی پیشین گوئیوں سے معلوم ہوتا ہے، اور جیسا کہ واقعۂ معراج میں آپ کو جنت و جہنم کا مشاہدہ کرایا گیا، اور پھر آپ سدرۃ المنتہی سے ورے مقام تصریف اقلام کے آگے تشریف لے گئے، ان سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے، البتہ پھر غیب کے علم کی ایک حد ایسی ہے جس کاعلم صرف اللہ کو ہے اللہ کے علاوہ ان کو کوئی نہیں جانتا ہے اس لئے انبیاء کو ’’عالم الغیب‘‘ نہیں کہا جاتا، یہ صفت صرف اللہ رب العزت کی ہے۔
جس طرح غیر انبیاء میں سے کسی کو انبیاء سے زیادہ علم والا ماننا خلاف عقیدہ ہے اسی طرح انبیاء میں سے کسی کو بھی عالم الغیب ماننا بھی کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
نبوت و رسالت کے ثبوت کےلئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے انبیاء و رسولوں کو معجزات اور نشانیاں بھی دی جاتی ہیں۔تشریح
عقیدہ:
کسی نبی کا کوئی دعوی جھوٹا ثابت نہیں ہو سکتا ۔تشریح
مدعئ نبوت کے اقوال و اعمال سے اس کے دعوے کی سچائی کی پرکھ:
نبی کےلئے یہ لازم ہے کہ وہ اپنے مخاطبین کو چند باتوں کی خبر اور چند باتوں کا حکم دیتا ہے اور خود کچھ کام کرتا ہے، انہیں اقوال و اعمال سے اس کے صدق و کذب کا اندازہ ہوجاتا ہے،اسی طرح چند جھوٹے مدعیان نبوت شیطانوں اور جنوں سے روابط سےغیب کی چند باتوں کو بولتے ہیں تو اس میں صدق کے ساتھ کذب و زور بھی ہوتا ہے، ان کے عمل میں فجور بھی ہوتا ہے، جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ان کی باتوں کے ذریعہ فرشتے نہیں ہیں، اور وہ خود نبی نہیں ہیں، جبکہ جو شخص سچے نبی و رسول کی شخصیت سے متعارف ہوتا ہے وہ ان کے صدق و امانت اور ان کے قول و عمل کی مطابقت سے علی وجہ البصیرت یہ جان جاتا ہے کہ وہ اپنے دعوی نبوت میں سچے تھے، وہ کوئی شاعر و ساحر یا مجنون نہیں تھے۔
انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے جیسے باتوں اور کاموں میں پرکھ دی ہے علوم و فنون ،صنعت و حرفت اور دیگر امور میں کھرے اور کھوٹے کی تمیز دی ہے، ساتھ ہی سچے اور جھوٹے کے درمیان فرق و امتیاز کی بھی ایک غیر معمولی استعداد اور ملکہ سے نوازا ہے، اور بغیر کسی ما ورا٫ الطبعی ذریعہ کے اسی استعداد اور ملکہ سے انسان سچ اور جھوٹ میں فرق کر سکتا ہے۔
چنانچہ نبوت و رسالت چند علوم اور اعمال کے مجموعہ پر مشتمل ہوتی ہے، جس سے نبی و رسول کو متصف ہونا ضروری ہے، یہ علوم اور اعمال دونوں ہی اشرف علوم اور اشرف اعمال ہوتے ہیں، اس میں سچا جھوٹے سے ممتاز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، محققین کے نزدیک لوگوں کی جو باتیں ہیں خواہ وہ خبر واحد ہی کیوں نہ ہو یا دو اور ان سے زیادہ لوگوں کی روایت کیوں نہ ہو قرائن سے ان خبروں اور اطلاعات سے سچی بات اورعلم ضروری کو نکال لیتے ہیں، جیسے کوئی شخص کسی کی پسند، محبت، ناراضگی، خوشی اور غم کو چہرہ پڑھ کر اندازہ کرلیتے ہیں ، جبکہ چہروں اور آنکھوں میں پائی جانے والی اس تحریر کو بیان نہیں کیا جا سکتا، اور الفاظ کی تعبیر ان کو نہیں دی جا سکتی، جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَوْ نَشَاءُ لَأَرَيْنَاكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيمَاهُمْاسی طرح سے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ۔عام طور پر انسان اپنے رازوں کو اپنے چہرہ کے اتار چڑھاؤ اور زبان کے استعمال سے ظاہر کردیتا ہے، تو جب کسی عام آدمی کا سچا یا جھوٹا ہونا قرائن سے معلوم ہوجاتا ہے، تو دعوی نبوت و رسالت کیسے نہیں پرکھا جا سکتا؟ اور ایک مدعی نبوت ور سالت کا سچ اور جھوٹ چھپا کیسے رہ سکتا ہے، اور سچا جھوٹوں سے ممتاز ہوئے بغیر کیسے رہ سکتا ہے۔
کسی مدعی نبوت میں اصول مسلمہ کے مطابق مبینہ طورپر غیر اخلاقی اور اوچھے اوصاف جیسے جھوٹ، دھوکہ وغیرہ پائے جائیں اس کو نبی یا رسول ماننا بھی کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
دعوی نبوت سے پہلے بھی انبیاء و رسولوں کی زندگی مثالی ہوتی ہے، وہ اخلاق کے بہت اعلی معیار پر فائز ہوتے ہیں۔تشریح
عقیدہ:
انبیاء و رسول اپنی خدمات پر کسی اجرت کا مطالبہ نہیں کرتے تھے۔ وہ صرف اللہ کے اجر پر نظر رکھتے تھے۔تشریح
کارِ نبوت پر اجرت:
یہ تمام انبیاء علیہم السلام ہی کا خاصہ ہے کہ وہ کارِ نبوت و دعوت پر کوئی اجرت امت سے طلب نہیں کرتے، ان کا بدلہ تو صرف اللہ دے سکتا ہے، کوئی امت نبی و رسول کی نصرت کرکے یا ان کے حق میں دعاء کرکے یہ گمان نہیں کر سکتی کہ اس نے نبی و رسول کے احسان کا بدلہ دے دیا ہے، نصرت دین اور دعاء نبی کے نتیجہ میں امتی خود پر احسان کرتا ہے کہ اس پر بھی اس کو اجر ملے گا، باقی رہا نبی و رسول کے احسان کا بدلہ یا اجرت وہ کوئی امتی نہیں دے سکتا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
انبیاء اللہ کے احکام بندوں تک پہنچانے کے پابند ہوتے ہیں۔، زبردستی حق کو قبول کروانا ان کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔تشریح
انبیاء : علیہم السلام کے کام
انبیاء جس کام کو انجام دیتے ہیں وہ ہے اللہ کے احکام اور شریعت کو بندوں تک پہنچانا اور اس کو ماننے والوں کے درمیان عملی طور پر جاری کرنا، اس شریعت پر عمل کی پابندی سے ہی بندہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوتا ہے، انبیاء علیہم السلام کی پوری زندگی اس کےلئے خرچ ہوتی ہے۔
انسانیت کے جس گروہ نے ان کی اتباع کی انہیں دنیا و آخرت کی سعادت ملی، تاریخ انسانی ان کی دعوت و عزیمت کے اخبار و واقعات سے بھری ہوئی ہے اور ان کے دین و شریعت کے محاسن معلوم و مسلّم ہیں اور اس بات کے ثبوت بھی کہ وہی حق و عدل پر تھے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی جس طرح نصرت فرمائی اور ان کے دشمنوں کو ہلا ک کیا اس کی روایتیں بھی متواتر درجہ کی منقول ہیں، جیسے حضرت نوح علیہ السلام کی مخالف قوم کی تباہی کےلئے طوفان، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دشمن فرعون اور اس کی فوج کا نیل میں غرق ہونا، قوم لوط پر عذاب، اور آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے دشمنوں کے خلاف اللہ کی مدد اور آپؐ کے دشمنوں کی طاقت کا ٹوٹ کر بکھر جانا، جو بھی شخص ان تمام احوال میں کما حقہ غور و فکر کرے گا وہ یقینی طور پر جان لے گا کہ یہ انبیا٫ و رسل خیر و ہدایت کے علمبردار تھے، اور مخلوق کی انہیں امور کی جانب رہنمائی فرماتے تھے جس میں ان کا نفع ہے اور انہیں باتوں سے انہیں روکتے تھے جس میں مخلوق کے نقصان ہے، ان رسولوں میں سب پہلے حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
انبیاء و رسل کی شریعت سے مراد کوئی ایسا نسخہ نہیں ہے جس کے ہاتھ آجانے سے بندہ حسّی نفع و نقصان کی تمیز حاصل کرتا ہے، کیونکہ اس درجہ تمیز تو اللہ تعالیٰ نے ہر حیوان میں پیدائشی طور پر ودیعت کردی ہے، ایک اونٹ اور گدھا بھی اناج اور مٹی کے درمیان فرق کرلیتا ہے، اس حسّی تمیز کے لئے انبیا٫ کو نہیں بھیجا جاتا؛ بلکہ انبیا٫ کی شریعتوں کا خاصہ اور امتیاز یہ ہے کہ اس سے بندوں کے افعال کے نتائج معلوم ہوتے ہیں کہ کونسے اعمال بندوں کےلئے مفید ہیں اور کونسے اعمال مضر ہیں، زندگی گذارنے کا کونسا طریقہ کار نتیجۃً انسانیت کو سعادت کی جانب لے جائے گا اور کونسا طریقہ شقاوت کے گڑھے میں لے جا کر پھینک دے گا؛ کونسے اعمال انسان کے لئے دنیا و آخرت میں کامیابی کے ضامن ہیں اور کونسے اعمال انسان کےلئے ناکامی کا باعث بنیں گے؟ انبیا٫ اس تمیز کو سکھانے کےلئے بھیجے جاتے ہیں، چنانچہ انبیاء نے بتلایا کہ : ایمان، توحید، عدل، برّ و احسان ، امانت و عفت، شجاعت و صبر، علم و حلم، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ، صلہ رحمی، والدین کے ساتھ حسن سلوک، پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ، حقوق کی ادائیگی، اعمال کو اپنے رب کےلئے خالص کرنا، اسی پر بھروسہ کرنا، اسی سے مدد مانگنا، اس کے طے کردہ مقدرات پر راضی رہنا، اور اس کی حکمتوں کو تسلیم کرنا، اور اس کے علاوہ ان تمام باتوں میں اللہ کی اور اس کے رسول کی ہر اس بات میں تصدیق کرناجس کی رسولوں نے خبر دی ہے، اسی میں بندوں کے لئے نفع اور دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی ہے، جبکہ ان امور میں بندوں کی جانب سے انبیاء و رسولوں کی مخالفت دنیا و آخرت دونوں میں سراسر شقاوت اور مضرت ہے۔
انسانیت کو جن جن حوالوں سے نبوت و رسالت کی ضرورت ہے اس کا خلاصہ:
انسان مخلوق و مربوب ہے، اس کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے خالق و رب کو جانے اور یہ بھی کہ وہ ان سے کیا چاہتا ہے؟ اس نے ان کو کیوں پیدا کیا؟ ان سوالوں کا جواب عقلِ انسانی کے بس سے باہر ہے، اس کا حل صرف انبیا٫ سے حاصل ہوتا ہے۔
انسان جسد و روح سے مرکب ہے، جسم کی غذاء کھانے پینے سے پوری ہوتی ہے، روح کی غذاء اسی چیز میں ہے جس کو ان کے خالق نے مقرر کیا ہے، یعنی دین صالح اور عمل صالح، یہ دین صالح انبیا٫ لے کر آتے ہیں اور انسانوں کو عمل صالح کی رہنمائی کرتے ہیں۔
انسان فطری طور پر دین کو اختیار کرنا چاہتا ہے، اس اعتبار سے اس کو ایک دین کی ضرورت ہے، یہ ضروری ہے کہ وہ دین صحیح ہو اور دین صحیح انبیا٫ و رسل اور وہ باتیں جن کو وہ لے کر آئے ہیں ان پر ایمان کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔
انسان کو اس راستہ کی ضرورت ہے جو انہیں اللہ کی مرضی تک پہنچائے اور جو انہیں آخرت میں جنت اور اس کی نعمتوں کا مستحق بنائے، یہ راستہ انبیا٫ و رسل کی رہنمائی کے بغیر نہیں ملتا۔
انسان فی نفسہ بڑا کمزور ہے اور اس کے دشمن بہت ہیں، جیسے شیطان ہے جو ان کو تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہے، اسی طرح بُرے ساتھی جو برائی کو بھی اچھائی بنا کر اس کے سامنے پیش کرتے ہیں، نفس امارہ جو اس کو برائی کی جانب ہی مائل رکھتا ہے، انسان کو ان دشمنوں اور ان کے کید و فریب سے حفاظت کی ضرورت ہے، یہ حفاظت کے طریقے انسان کو انبیا٫ و رسل ہی بتلاتے ہیں۔
انسان طبعاً اجتماعی طور پر رہنا چاہتا ہے، اس اجتماعیت میں عدل و قسط قائم رہے اس کے لئے انسان کو شریعت و قانون چاہئے، ورنہ یہ اجتماعیت جنگل کی طرح بن جائے گی، جہاں صرف طاقت کا زور چلتا ہے اور صرف ظلم کا دور دورہ رہتا ہے، ایسی شریعت کےلئے افراط و تفریط سے بچی ہوئی اور ہر ایک کے حقوق و ذمہ داریاں انصاف پر مبنی ہوں ضروری ہے، ایسی کامل عدل پر مبنی شریعت صرف انبیا٫ و رسل سے ملتی ہے۔
انسان کو وہ معرفت درکار ہے جس سے اس کو قلبی اطمینان اور دلی امن حاصل ہو اور اس کی حقیقی سعادت کی جانب رہنمائی فرمائے، یہ معرفت انسان کو صرف انبیا٫ سے ملتی ہے۔
انبیا٫ علیہم السلام کی ذمہ داری:
نبوت و رسالت کے منصب پر فائز کئے جانے کے بعد نبی و رسول پر لازم ہوتا کہ جو کچھ اللہ کی ہدایات ان تک پہنچیں وہ بندوں کو پہنچائیں اور حق کو کھول کھول کر اپنی قوم اور مخاطبین پر واضح کردیں، رسول پر صرف انذار و تبشیر اور بلاغ مبین کی ذمہ داری ہوتی ہے،کسی سے حق کو قبول کروانا یہ نبی و رسول کی ذمہ داری نہیں ہوتی، اسی طرح نبی کی جانب جو کچھ وحی کیا جاتا ہے وہ اس کو بلا کم و کاست بندوں کو پہنچادیتے ہیں، اور جو کچھ اللہ کے عمومی احکامات نبی و رسول پر نازل ہوتے ہیں ان پر عمل کرنا خود انبیا٫ و رسولوں پر بھی لازم ہوتا ہے،چنانچہ ایمان، عبادت ، حرام سے بچنے اور پاکیزہ کھانے اور عمل صالح کا حکم اور طاغوت سے بچنے کا امر سب سے پہلے انبیا٫ کو دیا جاتا ہے۔
یہ گمان کرنا کہ کسی نبی نے احکام الہیٰ کو بندوں تک پہنچانے میں خیانت سے کام لیا یا احکام الہیٰ بندوں تک نہیں پہنچائے، یا یہ خیال کرنا کہ ان میں سے کوئی بد عمل تھے، یا یہ خیال کرنا کہ ان میں سے کسی نے ان پر نازل کی گئی شریعت کی مخالفت کی یہ سب کفریہ عقائد ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
انبیاء حق کو کھول کر اس حد تک واضح کردیتے ہیں کہ قوموں کو کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔انبیاء کی دعوت ان کی قوم کے ہر فرد کےلئے ہوتی ہے۔تشریح
انبیاء علیہم السلام کا طریقۂ دعوت:
انبیاء کے طریقہ دعوت میں حکمت و تیسیر ہوتی ہے،تدریج و آسانی ہوتی ہے، وہ اپنی قوم و مخاطب کی نفسیات و نشاط کا لحاظ کرکے بات کرتے ہیں، جہاں ضروری نہ ہو وہاں سختی نہیں کرتے، جہاں ضروری نہ ہو وہاں ڈھیل نہیں دیتے، وہ مداہنت سے کام نہیں لیتے، وہ تکلفات سے پرہیز کرتے ہیں اور فطرت سلیمہ پر اعتماد کرتے ہیں، وہ بات سمجھانے کےلئے فطری و عقلی دلائل سے بھرپور استفادہ کرتےہیں، وہ مستقل و مسلسل جد وجہد کرتے ہیں، اپنے دعوے کو پتھر کی طرح پھینک کر نہیں مارتے بلکہ پوری دیانت داری کے ساتھ حتی الامکان مخاطب کو اپنا دعویٰ دلنشین کرانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ نہایت مخلص و ہمدرد ہوتے ہیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ماننے والے بڑھ کر جنتی بن جائیں، یہ نہیں کہ انکار کرنے والے بڑھ کر جہنمی بنیں،نبیوں نے اپنے پیروکاروں کو بھی حکم دیا کہ: یسِّرا ولا تعسِّرا، بشِّرا و لا تنفِّرا۔(تم آگے والوں کےلئے نرمی کرنے والے بنو، تنگی پیدا کرنے والے نہیں، اور خوشخبری دینے والے بنو نفرت پھیلانے والے نہیں) اور یہ بھی حکم دیا کہ: انما بعثتم میسرین و لم تبعثوا معسرین۔(یعنی خود اس امت مسلمہ کی بعثت بعد والوں پر کام کےلئے نرمی کرنے والوں کی حیثیت سے ہوئی ہے)۔
انبیاء مادی اسباب کو ضرورت کے وقت استعمال کرتے ہیں لیکن ان پر بھروسہ نہیں کرتے، ان کا بھروسہ اللہ پر ہوتا ہے، مادی اسباب حاصل نہ ہوں تب بھی ان کا کام جاری رہتا ہے، مادی اسباب کے حصول کےلئے وہ بہت زیادہ تگ و دو نہیں کرتے؛ بلکہ جس معاشرہ میں مادی اسباب پر بھروسہ زیادہ ہوجاتا ہے وہاں وہ مادی اسباب کے خلاف کام کرتے ہیں۔
(الانبیاء:۶۸۔۷۹، سورہ ابراہیم:۳۷، سورۃ القریش:۳۔۴، سورہ اعراف:۱۳۷، سورہ یوسف:۵۶، سورہ انفال:۲۶)

انبیاء کرام کارِ حق کو جاری رکھنے کےلئے مادی اسباب کی منصوبہ بندی نہیں کرتے، ان کی پوری توجہ حق کے غلبہ کےلئے اللہ کی رحمت کے حصول کی جانب ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے متبعین عام طو ر پر اسباب سے محروم لوگ رہے؛ لیکن اللہ کی رحمت سے انجام کار انہیں کو غلبہ حاصل ہوا ہے۔
(سورۃ الشعراء:۱۱، ۱۳۲، ۱۳۴،سورۃ القمر:۱۰، سورۃ ہود:۸۰، ۹۱، سورۃ الزخرف ۵۱، ۵۳، سورۃ الانبیاء: ۸۸، سورۃ الانعام:۶)

جو لوگ انبیاء کی بات قبول کرلیتے ہیں ان کی تعلیم و تلقین کےلئے انبیاء انہیں مکمل و مستحکم نظم بناتے، ساتھ ہی اس بات کا بھی لحاظ کرتے ہیں کہ ان میں طریقہ تعلیم سے بیزاری نہ پیدا ہو۔ بند
عقیدہ:
ہر بات جس کو نبی و رسول پیش کریں ان کی تصدیق لازم ہے۔تشریح
انبیا٫ کے حقوق’تصدیق و ایمان‘:
انبیاء علیہم السلام کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ان پر ایمان لایا جائے اور ان کی باتوں کی تصدیق کی جائے، انبیاء میں سے کسی نبی پر ایمان نہ لانا، یا نبی کی کسی ایک بات میں بھی ان کو جھوٹا قرار دینا یا ان کی تصدیق نہ کرنا کفر ہے، اسی میں یہ بھی داخل ہے کہ نبی کی تعلیمات کے ایک ذریعہ پر ایمان لایا جائے اور ایک ذریعہ کا انکار کیا جائے ، مثلاً کوئی کہے کہ نبی اللہ کی کتاب سے جو بات کہیں گے اس کی تصدیق کی جائے گی اور نبی کی جو بات اللہ کی کتاب میں نہیں ہے اس کو نہیں مانیں گے، یہ بھی کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
انبیاء کی اطاعت فرض ہے۔تشریح
نبی و رسول کی اطاعت:
انبیا٫ و رسولوں کا ایک لازمی حق ان کی اطاعت کرنا ہے، انبیاء کے ا س حق کا انکار کفر ہے، جس قوم کی جانب جس رسول کی بعثت ہو اس پر اس کی اطاعت لاز م ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد قیامت تک کے تمام انسان خواہ وہ کسی علاقہ یا کسی زمانہ کے ہوں ان پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت لازم ہے، جو شخص اس عقیدہ کا انکار کرے وہ کافر ہے۔
اور اطاعت سے عملاً انحراف فسق اور بڑا گناہ ہے، اور رسول کی اطاعت کے وجوب کو ماننے سے ہی انکار کرنا صریح کفر ہے، کیونکہ رسول کی اطاعت اللہ کے حکم سے کی جاتی ہے اور اللہ کے حکم کی تعمیل خود رسول کے حکم کی تعمیل میں ہے، جب کوئی رسول کے حکم کی تعمیل سے انحراف کرتا ہے گویا وہ اللہ کے حکم کی تعمیل سے انحراف کرتا ہے۔
رسول کی اطاعت میں یہ بھی داخل ہے کہ نبی جس بابت فیصلہ کردیں اس میں سے پھر مسلمان کا اپنا اختیار ختم ہوجاتا ہے اور نبی کا فیصلہ ہی واجب التعمیل ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے بعد خود کا اختیار باقی سمجھنا اور نبی کے فیصلہ کو نہ ماننا بھی ایمان کے منافی ہے اور نبی کی نا فرمانی کو روا سمجھنا صریح کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
انبیاء کی اتباع فرض ہے۔تشریح
نبی کی اتباع:
حکم کی تعمیل اطاعت ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ زندگی کی پیروی اتباع ہے، پیروی کرنا بھی انبیاءیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق میں سے ہے، اتباع سے گریز کرنا بد بختی ہے اور اتباع کا انکار ہی کردینا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے کفر ہے، کیونکہ اس کا حکم قرآن سے ثابت ہے۔
نبی کے اسوہ ہونے پر ایمان لانا:
انبیاء و رسول اسوہ ہوتے ہیں، یعنی ایمان و عمل کےلئے نمونہ ہوتے ہیں، ان کی بعثت ہوتی ہی اس لئے ہے کہ ان کے امتی اور پیروکار جیسے انبیاءیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم کریں اور عمل کریں اپنے اعمال کو ان کی تعلیم اور عمل کے مطابق بنائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ ہونے کا انکار کرنا کفر ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں دوسروں کو عقیدۃًاسوہ ہونے کے قابل سمجھنا یہ بھی کفر ہے۔
یہ اس دَور کا بہت نازک مسئلہ ہے جس میں بعض نادانوں یا جاہلوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں دوسروں کو اسوہ سمجھایا بنالیا ہے اور یہ بھی گمان کیا کہ اس دَور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اسوہ نہیں بنایا جاسکتا، ان کا ایسا سمجھنا ایک طرف جہالت ہے تو دوسری طرف کفریہ عقیدہ ہے، اس سے حفاظت بہت ضروری ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
انبیاء کا احترام فرض ہے، انبیاء کی شان میں کسی قسم کی گستاخی کرنا ایمان کے منافی ہے اور ایسا کرنے والا شخص واجب القتل ہے۔تشریح
احترامِ انبیاء:
انبیاء و رسولوں کا ان کے پیرکاروں پر یہ حق ہے کہ پیروکار ان کا اور ان کی تعلیمات کا احترام کریں، اور غیر انبیاء کو انبیاء پر اور غیر انبیاء کی تعلیمات کو انبیاء کی تعلیمات پر ترجیح نہ دیں، انبیاء و رسولوں کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کرنا یا اس کو رَوا سمجھنا کفرہے، اور ایسا شخص جو انبیاء کے احترام کو مجروح کرے واجب القتل ہے، انبیاء کے سامنے اونچی آواز سے بات کرنا بھی جائز نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مقابلہ میں کسی اور بات کو ترجیح دینا ان کے سامنے آواز بلند کرنے کے مترادف ہے، اس لئے جب نزاعی امور میں قرآن و سنت کو فیصل بنایا جائے تو چاہے فیصلہ جو بھی ہو خواہ ہمارے خلاف ہو اس سے دل میں تنگی لانا ایمان کے منافی ہے۔
بعض آزاد خیال مصنفین کی تحریروں میں انبیاء علیہم السلام کےلئے مطلوبہ احترام کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا ہے، اور ان کےلئے بہت آزادانہ زبان و بیان استعمال کئے گئے ہیں، یہ بہت ہی خطرناک اور تشویشناک مسئلہ ہے، مسلمان بغیر تحقیق کے ایسے مصنفین کی کتابیں پڑھ لیتے ہیں اور خود بھی اپنی بات چیت اور تبادلہ خیال میں انبیاء علیہم السلام پر اسی انداز میں کلام کرتے ہیں، یہ ایمان کو حبط کردینے والا عمل ہے، اس سے پورے شعور کے ساتھ بچنا ضروری ہے، اور جہاں کہیں ایسی آزادی دیکھنے میں آئے اس پر روکنا ٹوکنا اور انبیاء کے احترام پر توجہ دلانا ایمان کا جزء ہے، اور اس کو معمولی سمجھ لینا ایمان کو داؤ پر لگانے والی لا پرواہی ہے۔
احترام انبیاء کے معاملہ میں ایک دوسری انتہاء پسندی یہ ہے کہ بعض غلو پسند احترام کے نام پر انبیاء کو الوہیت کے درجہ تک پہنچا تے ہیں، اور ان سے بشری صفات کی نفی کرتے ہیں، یہ بھی کفر ہے، انبیاء کے معاملہ میں مطلوبہ احترام یہ ہے کہ غیر انبیاء کو انبیاء پر فضیلت نہ دی جائے اور غیر انبیاء کی تعلیمات کو انبیاء کی تعلیمات پر ترجیح نہ دی جائے، اور جہاں کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و عمل آجائے اس کو احترام و عزت کے ساتھ قبول کیا جائے اور اس سے انحراف کرنے سے گریز کیا جائے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
نبی کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنا فرض ہے، یہاں تک کہ یہ محبت اپنے ماں اور باپ اور اپنی اولاد اور تمام مخلوقات سے بھی زیادہ ہو۔تشریح
نبی کے ساتھ محبت:
انبیاء و رسولوں سے محبت لازم ہے، ہر قوم و امتی پر لازم ہے کہ وہ تمام انبیاء سے عمومی محبت کرے اور اپنے نبی سے خصوصی سب سے زیادہ محبت کا تعلق رکھے۔ نبی کے علاوہ کسی اور کی محبت نبی کی محبت پر غالب نہ ہو، نہ اپنے رشتہ داروں کی، نہ ماں باپ کی ، یہاں تک کہ مکلف کی محبت اپنے نبی سے خود اپنی ذات سے بھی زیادہ ہو، جب تک ایسا نہ ہو اس وقت تک کسی مؤمن کا ایمان پورا نہیں ہو سکتا۔
دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے درمیان فرق کرنا جائز نہیں ہے۔ نبی کا ہر حکم ہر مؤمن کےلئے واجب العمل ہے۔تشریح
حجیتِ سنت پر ایمان:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کی شکل میں جو کچھ نازل کیا ہے اس کی اپنی اہمیت ہے، اسی طرح رسول قرآن سے ہٹ کر جو کچھ کہیں وہ بھی وحی ہے، رسول کے غیر قرآن خطاب پر لبیک کہنا بھی لازمی ہے، اور اس سے انحراف کرنا نفاق کی علامت ہے۔ یعنی قرآنی احکام کی اطاعت کے علاوہ رسول کی اطاعت کرنا بھی مستقل فریضہ ہے، رسول کے قرآن کے علاوہ احکام کو ماننے سے انکار کرنا کفر ہے، یہ کہنا کہ ہمارے لئے قرآن کافی ہے، اس سے اگر یہ غرض ہو کہ احادیث میں جو کچھ ہے اس کو ماننا لازم نہیں ہے تو یہ کفریہ عقیدہ ہے۔
جو شخص وحی حدیث کا انکار کرے وہ بلا شبہ کافر ہے اور جو شخص تواتر سے ثابت وحی حدیث کا انکار کرے وہ بھی بلاشبہ کافر ہے، اور وحی حدیث کے اتباع کے لازم ہونے کا عقیدہ رکھتے ہوئے خبر احاد سے ثابت وحی حدیث کا جو شخص انکار کرے وہ فاسق ہے۔
جو لوگ وحی حدیث یا حجیت سنت کا انکار کرتے ہیں وہ گویا اللہ اور اس کے رسول کے حکم میں فرق کرتے ہیں، حالانکہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہے، نبی کا حکم اللہ کی جانب سے ہوتا ہے، وہ دین کا کوئی حکم اپنی جانب سے نہیں دیتے، جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے احکام میں اس طرح فرق کرے اور کہے کہ وہ اللہ کے حکم کو مانے گا رسول کے حکم کو نہیں مانے گا ، یا کہے کہ وہ قرآن کے حکم کو مانے گا حدیث کے حکم کو نہیں مانے گا تو وہ بلا شبہ کافر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جس قوم کی جانب جس رسول کو بھیجا گیا ہے تمام انبیاء ور سولوں پر ایمان کے ساتھ اس قوم پر خاص اس رسول کی شریعت کی پابندی لازم ہے ۔تشریح
رسولوں کے درمیان فرق نہ کرنا:
جتنے نبیوں و رسولوں کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے نبی یا رسول ہیں ان سب پر ایمان لانا فرض ہے، ان میں سے کسی ایک کا انکار کرنا بھی کفر ہے، مثلاً کوئی حضرت موسی علیہ السلام کو تو نبی مانے لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کے نبی ہونے کا انکار کرے جیسا کہ یہود کہتے ہیں تو یہ کفر ہے، اسی طرح کوئی حضرت عیسی علیہ السلام کے نبی ہونے کا انکارکرے تو یہ بھی کفر ہے، انبیاء و رسل میں سے قطعی نصوص سے ثابت کسی ایک نبی و رسول کی نبوت و رسالت کا انکار بھی کفر ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت تمام انبیاء و رسل پر ایمان لاتے ہیں۔
جن انبیاء و رسولوں کا ذکر قطعی نصوص میں تفصیلی ہے ان کے بارے میں مذکور تفصیل کے مطابق ایمان لانا لازم ہے، اور جن کے بارے میں اجمالاً نبی و رسول ہونے کا ذکر موجود ہے ان پر اجمالی طور پر ایمان لانا فرض ہے۔
البتہ احکام کی تعمیل اور شریعت کی پابندی میں اس نبی کی پیروی کی جائے گی جو نبی یا رسول ان کی جانب مبعوث کئے گئے ہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تمام سابقہ شریعتیں منسوخ کردی گئی ہیں ، اب قیامت تک ہر زمانہ اور ہر علاقہ کے لوگ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی پیروی کے پابند ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
انبیاء کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کے حق میں رحمت کی دعاء کرے۔تشریح
انبیاء کے حق میں دعاء کرنا:
انبیاء کے حق میں دعاء کرنا بھی انبیاء کا حق ہے، تمام انبیاء کا بالعموم اور خاتم النبیین محمد الامین صلی اللہ علیہ وسلم کا بالخصوص یہ حق ہے کہ وہ ان کے لئے دعاء فرمائیں، دنیا کا کوئی فرد کسی دوسرے پر ایسا محسن نہیں ہے جیسے کہ انبیاء ہیں، اور بالخصوص نبئ آخر الزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے انس و جن کی دنیا و آخرت کی فوز و فلاح کےلئے ایسی قربانیاں دی ہیں اور ایسی اذیتیں برداشت کی ہیں جن کا تصور بھی محال ہے، اور ان قربانیوں کا بدل ان کو لوٹانا کسی کے بس میں نہیں ہے، ان احسانات کی شکر گذاری کے طور پر بس ایک ہی طریقہ جو ہمیں خود اللہ رب العزت نے دیا ہے کہ ہم ان کے حق میں اللہ سے دعاء کریں کہ اللہ انہیں اس کا اجر عطاء فرمائے ۔
اور خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں دعاء خصوصی کا طریقہ صلوۃ (درود) و سلام جاری فرمایا، جس کی کیفیت متواتر احادیث میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام کے اس حق کا انکار کرنا کفر ہے، ہر مؤمن پر لازم ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کا اہتمام کرے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حضراتِ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام وفات کے بعد اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔تشریح
حیات ِانبیاء:
انبیاء علیہم السلام کو موت اور فنا لاحق ہے، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء و رسل نے موت کے مزے کو چکھا ہے، سوائے سیدنا عیسی علیہ السلام کے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتوں سے آسمانوں پر زندہ اٹھا لیا، لیکن قیامت سے قبل وہ زمین پر اتارے جائیں گے اور پھر انہیں بھی موت آئے گی۔
مرنے کے بعد کی زندگی کو عرف عام میں قبر کی زندگی کہہ دیتے ہیں، جبکہ مرنے کے بعد سے لے کر نفخ صور تک کا دورانیہ عالم برزخ ہے، انبیاء علیہم السلام پر موت طاری ہونے کےبعد انہیں عالم برزخ میں پھر زندہ کردیا جاتا ہے، جیسا کہ شہیدوں کی شہادت کے بعد انہیں زندگی عطا کی جاتی ہے، ظاہر ہے انبیاء تو ان سے بہت بلند مرتبہ ہوتے ہیں، چنانچہ انبیاء علیہم السلام عالم برزخ میں باحیات ہیں۔
یہ کوئی اچھنبی چیز نہیں ہے، کیونکہ عام آدمی بلکہ تمام مخلوقات کو موت کے بعد زندگی ملنے والی ہے، ہاں انبیاء کو ان کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے ان سے پہلے زندگی عطا کردی جاتی ہے اور عالم برزخ میں بھی انہیں حیات حاصل ہوتی ہے۔
انبیاء کی ان کی قبروں میں حیات کا عقیدہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ انبیاء اپنی قبروں میں نماز ادا کرتے ہیں اور یہی سلسلہ نفخ صور تک جاری رہے گا، احادیث صحیحہ میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ زمین انبیاء کے اجساد کو کھانہیں سکتی ،حدیث معراج میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت موسی علیہ السلام کو قبر میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے، اسی طرح یہ بھی متواتر نصوص سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کی بیت المقدس میں امامت فرمائی ہے جبکہ یہ دورانیہ بھی ان کے لئے عالم برزخ کا ہے۔
معراج کی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انبیاء علیہم السلام سے ملاقات کی احادیث تواتر کے درجہ کی ہیں ، جو حضرت ابن مسعود، حضرت انس بن مالک، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابو ذر، مالک بن صعصعۃ، اور حضرت جابر عبد اللہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے منقول ہے، ان کے علاوہ دیگر احادیث صحیحہ میں بھی عالم برزخ میں حیات انبیاء کا ذکر موجود ہے، اس لئے اس کی تصدیق لازم ہے اور ان کا انکار کرنا گویا قطعی نصوص سے ثابت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا انکار ہے جو کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
دنیا کے پہلے آدمی اور پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ تشریح
حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان اور پہلے نبی:
یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جوپوری نسل انسانی کے جد امجد ہیں اﷲ تعالیٰ نے انہیں اس دنیا میں پورے شعور اور ہوشمندی کی حالت میں بھیجا، جو اپنے رب حقیقی سے کامل طور پر واقف تھے، اور اس کی پسند و ناپسند بھی جانتے تھے، اور اپنے مقصد حیات سے بھی واقف تھے، اور دنیا کی حقیقت بھی جانتے تھے، جو لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا پہلا آدمی بے شعور تھا، وہ نہ دنیا کو جانتا تھا نہ اپنے رب سے واقف تھا ، اور کہتے ہیں کہ وہ بتدریج دنیا سے واقف ہوا، اور جن چیزوں کی صحیح تعبیر نہیں کرسکا ان کو ایک اختراعی خدا سے جوڑ دیا،یہ ایسا کہنے والوں کا محض وہم ہے اور بے بنیاد دعوی ہے، جس کےلئے ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے، ایسا ماننا کفر ہے۔
دنیا میں آنے والے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام پورے با شعور تھے، اپنے رب کو جانتے تھے، اپنے مقصد حیات سے واقف تھے ،موحد تھے، اور انسانیت کے پہلے نبی تھے، اس پر ایمان لانا لازم ہے ۔
دو بنیادی حقیقتیں:
اﷲ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام اور انسان کو اس دنیا میں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہےتو اﷲ تعالی نے ان کو خلافت کے منصب پر فائز کرنے کےلئے جو بنیادی انتظام فرمایا وہ یہ تھا کہ اس دنیا کے تکوینی نظام سے متعلق مخلوق فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، اور ان سب نے اﷲ تعالی کے حکم پر حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرکے ان کی خلافت اور برتری کو قبول کرلیا۔
دوسرے یہ کہ اﷲ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے ہی ان کے اور ان کی ذریت کے دشمن ازلی کی عداوت کا تجربہ کرادیا، تا کہ معلوم رہے کہ جس منصب پر وہ فائز کئے جارہے ہیں اس کی سب سے بڑی رکاوٹ کون بن سکتا ہے،فرشتوں کو جب سجدہ کا حکم دیا گیا تھا اس وقت اُس حکم کا مخاطب ابلیس بھی تھا؛ لیکن اُس نے حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت کی برتری کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور حسد کا شکار ہوگیا کہ اتنا اہم منصب حضرت آدم علیہ السلام کو کیسے ملا؟جب ابلیس نے حکم الہیٰ کو ماننے سے انکار کیا تو اﷲ تعالیٰ نے اسے ملعون اور مردود قرار دے کر دھتکار دیا، اور ابلیس بجائے اپنی نافرمانی کا احساس کرکے اپنی اصلاح کرنے کے وہ اور سرکشی پر اتر آیا اور اﷲ تعالیٰ ہی سے کہنے لگا کہ :آپ نے جس آدم اور اس کی ذریت کو مجھ پربرتری دی ہے میں اُس کو آپ کے دربار میں کامیاب نہیں ہونے دوں گا، انہیں رسوا اور برباد کرکے چھوڑوں گا، اور اس کےلئے خود اﷲ تعالیٰ سے مہلت مانگی، اﷲ تعالیٰ نے اس سرکش کو اس تنبیہ کے ساتھ مہلت دی کہ تو جو کر نا چاہتا ہے تجھے مہلت ہے کہ تو کر !لیکن میں تجھ کو اور تیرے پیروکاروں دونوں کو جہنم سے بھردوں گا، جب ابلیس نے حضرت آدمؑ سے دشمنی کا تہیہ کرلیا تو اﷲ نے اس دنیا میں انہیں بھیجنے سے پہلے ہی جنت میں اس کی دشمنی کا تجربہ کرادیا، تاکہ دنیا میں منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد انسان متنبہ رہے، اس واقعہ کی تفصیل قرآن نے متعدد مقامات پر بیان فرمائی ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کو جب اس دشمنی کا ایک تجربہ کراکر اس دنیا میں یہ کہہ کر بھیجا گیا کہ تم پوری ہدایت اور شعور کے ساتھ دنیا میں جارہے ہو، لیکن یہ بدبخت تمہیں اور تمہاری ذریت کو گمراہ کرنے کےلئے تمہیں اور تمہاری ذریت کو ہدایت سے دور کرنے کی کوشش کرتا رہے گا، اور جب بھی ایسا ہوگا لازماً ہماری ہدایت تم تک بھیجی جاتی رہے گی، اور جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ کامیاب ہو گا اور جو کوئی کفر کرے گاوہ ناکام ہوجائے گا، گویا یہ کہ اﷲ نے نہ صرف اس دنیا کے پہلے انسان کو ہدایت پر یہاں بھیجا بلکہ آنے والی تمام انسانی نسلوں کی ہدایت اور ان کی جانب اپنے پیغمبروں کو بھیجنے کا بھی وعدہ فرمایا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کے بیٹے نہیں ہیں،بلکہ اس کے بندہ اور رسول ہیں،زندہ آسمان پر اٹھالئے گئے ہیں،قیامت کے قریب زمین پر نازل ہوں گے۔تشریح
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی اور اس کے رسول ہیں، ان کو اللہ کا بیٹا سمجھنا شرکیہ عقیدہ ہے، قرآن کریم میں جا بجا اس باطل عقیدہ کی تردید کی گئی ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے بغیر باپ کے پیدا فرمایا، اور انہیں سولی پر نہیں چڑھایا گیا بلکہ زندہ ہی آسمانوں پر اٹھا لیا گیا ہے، قیامت کے قریب وہ آسمان سے زمین پر نازل ہوں گے، چالیس یا پینتالیس سال زمین پر رہیں گے، پھر ان کا انتقال ہوگا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک میں دفن ہوں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
انبیاء میں سب سے افضل اور سب سے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔تشریح
انسانوں میں سب سے افضل انبیاء کرام علیہم السلام ہیں، انبیاء کرام میں افضل رُسل ہیں اور رسولوں میں افضل اولو العزم ہیں اور وہ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد علیہم الصلوٰۃ و السلام ہیں۔ان میں سب سے افضل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
انبیا٫ کی باہمی فضیلت:
اللہ تعالیٰ نے جتنے رسول بھیجے ہیں سب برحق ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہی یہ بھی بتلایا کہ ان میں سے بعض رسول بعض رسولوں سے افضل تھے، اور بعض کے درجات کو اللہ نے بعض سے بڑا رکھا ہے، اس لئے یہ عقیدہ رکھنا بھی فرض ہے کہ رسولوں میں باہمی فضیلت بھی ہے، یعنی بعض رسول بعض رسولوں سے افضل ہیں، رسولوں کی باہمی فضیلت کا انکار کرنا کفر ہے، کیونکہ یہ عقیدہ قرآن و احادیثِ متواترہ محکمہ سے ثابت ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ جھوٹے مدعیان نبوت کا جھوٹ ظاہر کردیتا ہے، اور ان کے خلاف ایسی شہادتیں جمع کردیتا ہے کہ بندگان خدا اُن کے فریب سے بچ سکیں۔تشریح
جھوٹے مدعی نبوت کی غیب سے تضحیک و تذلیل:
اگر کوئی شخص نبوت کا جھوٹا دعوی کرتا ہے تو اولاً وہ کوئی معجزہ اپنے دعوئ نبوت پر پیش نہیں کر سکتا، کیونکہ ایک شخص اللہ کے نام پر انسانیت کو ایسا دھوکہ دے جس سے ان کی آخرت برباد ہو سکتی ہے اللہ تعالیٰ اس کی تائید نہیں فرماتے۔
دوسرے یہ کہ ایسے شخص کا جھوٹا ہونا اللہ تعالیٰ خود اس کے کلام اور اس کے دعوؤں سے ظاہر فرما دیتے ہیں تاکہ انسانیت اس کے دامِ فریب میں نہ آئے۔
ہر جھوٹے مدعئ نبوت کے ساتھ ایسے ضروری اسباب جمع ہوجاتے ہیں جو اس کے جھوٹ کو ظاہر اور ثابت کرنے کےلئے کافی ہوتے ہیں، ہاں پھر بھی جاہل اور بے وقوف قسم کے لوگ اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں تو انہیں کی خصوصیت ہے، شیطان کا کھلا دشمن ہونا واضح ہوتا ہے اور لوگ اس کی بھی پیروی کرتے ہیں دلائل

عقیدہ:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا، قیامت تک آپ کی شریعت ہی واجب التعمیل ہے۔ آپ کے بعد جتنے مدعیانِ نبوت پیدا ہوں گے سب جھوٹے ہوں گے، ان کی تکذیب لازم ہے۔تشریح
ختم نبوت:
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء و رسولوں کے سلسلہ کی آخری کڑی ہیں، آپ کےساتھ ہی نبوت و رسالت کا سلسلہ مکمل ہو کر ختم ہو گیا ہے، آپ کے بعد کوئی نبی و رسول نہیں آنے والا ہے، یہ عقائد اسلام کا جزوِ لازم ہے کہ آپ خاتم النبیین ہے، آپ کے بعد کسی اور کو نبی یا رسول ماننا کفر ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پیشین گوئی فرمائی ہے کہ آپ کے بعد جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہوں گے، اور ان میں تیس بہت بڑے جھوٹے دجال ہوں گے، جیسے تاریخ میں ہم جانتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، ابن مصنع ، ابن الراوندی، اور اس اخیر زمانہ میں غلام احمد قادیانی جیسے کذاب پیدا ہوئے اور انہوں نے نصوص میں تاویلات کرکے خود کے نبی ہونے کا دعوی کیا، لیکن ان کی تاویلات کی رکاکت خود ان کے کلام سے ظاہر ہوگئی، لیکن عام آدمیوں کو ان سے بچنا اور اپنے عقیدہ کی حفاظت کرنا لازم ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ: أنا خاتم النبیین لا نبی بعدی۔ میں نبیوں کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت:
تمام انبیاء میں سے سب سے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آپ کی بعثت کےلئے دعاء فرمائی ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام نے آپ کی بشارت دی ہے۔
حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام کے بعد آخری پیغمبر سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے، تاریخی اعتبار سے حضرت عیسی علیہ السلام کے ۵۷۰ برس بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی ، آپ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاء اور سیدنا عیسی علیہ السلام کی بشارت کا ظہور ہیں، جیسے انبیاء اپنے بعد میں آنے والے نبی کی پیشین گوئی فرماتے تھے ایسے ہی حضرت عیسی علیہ السلام نے آپ کی آمد کی بشارت دی تھی، چنانچہ آپ کی بعثت سے قبل اہل کتاب کے علماء آپ کی آمد کے منتظر تھے اور آپ کی بعثت کے بعد آپ کو ایسے ہی پہچان گئے تھے جیسے کوئی اپنی اولاد کو پہچانتا ہے اور ان میں کے حق پرستوں نے برملا آپ کی رسالت و نبوت کا اعتراف کیا اور آپ پر ایمان لے آئے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
تمام انبیاء میں سب سے افضل سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،آپ رحمۃ للعلمین بنا کر مبعوث کئے گئے ہیں۔تشریح
تمام انبیاء پر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت:
اہل سنت و الجماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء پر اولوالعز م رسولوں کی فضیلت ہے اور اولوا العزم رسولوں میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سب پر فضیلت ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء ورسولوں میں سب سے افضل رسول و نبی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام انبیاء پر فضیلت ہونے کے مظاہر درج ذیل ہیں:
عالم ارواح میں جب عہد الست لیا گیا تب سب سے پہلے ’’بلیٰ ‘‘ کہہ کر اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرنے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔
تمام انبیاء کی بعثت خاص قوموں اور زمانوں کےلئے تھی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عمومی ہے، آپ کی بعثت کے بعد تمام زمانوں اور علاقوں کی جانب آپ مبعوث کئے گئے ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسانیت کےلئے نہیں بلکہ رحمۃ للعلمین کی حیثیت سے مبعوث ہوئے ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ذریعہ سلسلہ انبیاء کو ختم کردیا گیا اور آپ خاتم النبیین بن کر آئے ہیں، یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ آپ کے افضل ہونے کا بھی نشان ہے۔
دیگر انبیاء کو جو معجزات دئیے گئے وہ حسّی معجزات تھے جو ان کی نبوت کے ساتھ ساتھ ختم ہوگئے، جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسّی معجزات کے علاوہ آپ کا سب سے اہم معجزہ ایک علمی معجزہ ہے جو قیامت تک بلکہ ابد الآباد تک جاری رہے گا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دیگر انبیاء کے مقابلہ میں آپ کو پانچ امتیازات سے نوازا گیا: (۱)آپؐ کے دشمنوں کے دلوں میں آپ کا رعب ڈال دیا گیا، چنانچہ ایک مہینہ کی مسافت کی دوریوں تک بھی آپ کا دشمن آپ کے رعب میں ہوتا،(۲) مالِ غنیمت، جو پچھلی شریعتوں میں حلال نہیں تھا آپ کی امت کےلئے اس کو حلال کردیا گیا، (۳) پچھلی شریعتوں میں صرف پانی کو طہور یعنی نجاست سے پاک کرنے والا قرار دیا گیا تھا جبکہ آپ کی امت کےلئے مٹی کو بھی طہور بنایا گیا، اور زمین کا کوئی بھی خطہ جہاں بھی نماز کا وقت ہوجائے وہاں نماز ادا کرنے کی آپ کی شریعت میں اجازت و حکم ہے، (۴) آپ کو شفاعت کبری یا شفاعت عظمی کا مقام حاصل ہوگا، (اس شفاعت کا ذکر آگے مستقل عنوان سے آرہا ہے)، (۵) آپ سے پہلے انبیاء کی بعثت کسی قوم اور زمانہ تک محدود ہوتی تھی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عام ہے زمانہ کے اعتبار سے قیامت تک ، اور مکان کے اعتبار سے ہر جگہ کے اقوام آپ کی امتِ دعوت اور آپ کی شریعت کے مخاطب ہیں۔
اسراء و معراج کی رات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی اور تمام انبیاء نے آپ کی قیادت میں نماز ادا کی۔
حشر کے میدان میں جبکہ تمام انبیاء و رسول موجود ہوں گے، شفاعت کبری کےلئے تمام انبیاء حتی کہ الواالعزم انبیاء و رسول حضرات نوح، ابراہیم، موسی و عیسی علیہم السلام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب رجوع کرائیں گے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے بعد ہی حساب و کتاب کا سلسلہ شروع ہوگا۔
قیامت کے دن تمام انبیا کے مقابلہ میں سب سے زیادہ متبعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی ہوں گےاور جنت میں سب سے پہلا داخلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ہوگا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ کے زمانہ کے تمام انسانوں اور جنوں اور قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں اور جنوں پر فرض ہے کہ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی شریعت کی پابندی کریں۔تشریح
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی عمومیت کا عقیدہ:
پچھلے انبیاء و رسول کسی ایک قوم یا کسی ایک علاقہ کےلئے بھیجے جاتے تھے، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہر زمانہ کی پوری انسانیت کی جانب ہوئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے آپ رسول ہیں، اور سابقہ تمام شریعتیں منسوخ ہوگئی ہیں، اب وہی شریعت واجب التعمیل ہے جس کو آپ لے کر آئے ہیں اور ہر زمانہ اور ہر علاقہ کے لوگوں کو صرف آپ کی اطاعت کرنی ہے، حتی کہ آخری زمانہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا تو ان کی سابقہ شریعت کے پیروکار نہیں ہو ں گے؛ بلکہ شریعت محمدی کے پیروکار ہوں گے۔
تمام اقوام و ملل کو اب قرآن و سنت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی پیروی کرنا لازم ہے، تورات اور انجیل کی پیروی قرآن و حدیث کے بعد منسوخ ہو چکی ہے، اب اگر کوئی تورات و انجیل ہدایت کےلئے پڑھتا ہے تو وہ غلط کرتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو متعدد معجزات دئے گئے ہیں ،جن میں بڑے بڑے معجزات،قرآن مجید،واقعۂ معراج، شق صدر اور شق قمر وغیرہ ہیں۔تشریح
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے دلائل و معجزات:
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کے بے شمار دلائل اور متعدد معجزات ہیں، آپ کے معجزات حسی اور علمی دونوں طرح کے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم ترین معجزہ قرآن مجید ہے، جو ایک علمی معجزہ ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی نشانیوں اور دلائل میں آپ کی پیشین گوئیاں بھی ہیں، جو ویسے ہی ظاہر ہوئیں جیسی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی۔ تشریح
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیاں اوران کی صداقت:
سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے دلائل میں سے ایک آپ کی پیشین گوئیاں بھی ہیں، جن میں سے ہر ایک پیشین گوئی بر حق ثابت ہوئی ہے، اور جو پیشین گوئیاں آپ نے آنے والے زمانہ سے متعلق کی ہیں وہ بھی حرف بحرف سچ ثابت ہوں گی۔
جو پیشین گوئیاں بذریعہ قرآن کی گئی ہیں وہ بھی درحقیقت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ہی دلائل میں سے ہیں، کیونکہ قرآن خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہے، گویا اس میں جو کچھ کہا گیا ہے آپ کے ذریعہ سے ہی کہا گیا ہے۔
(۱) ابتداء میں جب مسلمان مکہ مکرمہ میں تھے ایران و روم کے درمیان معرکہ آرائی جاری تھی، ایران نے روم کے بعض علاقوں پر دست درازی کرکے قبضہ کرلیا تھا اور اس وقت ایران روم کے مقابلہ میں بظاہر ناقابل شکست فوجی طاقت رکھتا تھا، رومی اپنے علاقوں کو واپس حاصل کرنے کےلئے جد وجہد کررہے تھے۔
رومی عیسائی اور صاحب کتاب تھے اور ایرانی مجوسی اور مشرک تھے، اس لحاظ سے مشرکین مکہ خود کو ایرانیوں کے قریب سمجھتے تھے اور مسلمانوں کو عیسائی اہل کتاب کے قریب گردانتے تھے، اس لحاظ سے ان کی جانب سے طنز و تعریض کا سلسلہ جاری رہتا تھا کہ تم مسلمان یہاں پٹ رہے ہو اور تمہارے جیسے مذہب والے دنیا میں ہم جیسوں کے ہاتھوں دوسری جگہ مار کھارہے ہیں، ایسے میں قرآن نے پیشین گوئی کی کہ روم کو ایرانیوں کے مقابلہ میں غلبہ حاصل ہوگا، یہ پیشین گوئی ایسے وقت کی گئی تھی جبکہ بظاہر ایرانیوں کے مقابلہ میں رومیوں کے پاس فتح حاصل کرنے کے نہ کوئی اسباب تھے نہ دور دور تک امکانات۔
اس پیشین گوئی کا مشرکین نے بڑا مذاق اڑایا اور اس پر شرط لگانی چاہی، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کی صداقت پر یقین رکھتے ہوئے ایک مشرک سے شرط لگالی کہ تین برس میں روم کی جیت ہوگی اور ایران ہار جائے گا، اگر اس کے خلاف ہوگا تو میں ۱۰؍ اونٹ دوں گا، اگر اس کے موافق ہو تو تمہیں دس اونٹ دینے ہوں گے، اور اس شرط کی اطلاع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور نبوت سے قرآن کی مراد زیادہ جانتے تھے، آپؐ نے فرمایا: قرآن نے تین سال کہاں کہا ہے؟ قرآن نے بضع سنین کہا ہے، اس کا اطلاق تین سے نو برس تک ہوتا ہے، اے ابو بکر! تم شرط کی مدت بھی ۹؍ برس تک بڑھا دو اور اونٹوں کی تعداد بھی بڑھا دو! حضرات ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی کیا اور اونٹوں کی تعداد ۱۰۰ تک کردی،چنانچہ اس مدت میں روم کو ایران پر فتح حاصل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی پیشین گوئی بالکل سچ ثابت ہوئی۔
(۲) اسی پیشین گوئی میں ایک پہلو یہ بھی تھا کہ جس وقت رومیوں کو غلبہ حاصل ہوگا اس وقت مسلمان بھی اپنی فتح پر خوشی منا رہے ہوں گے، یہ پیشین گوئی اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز تھی، کیونکہ رومیوں کے پاس کمتر صحیح لیکن فوج تو تھی، لیکن مسلمان تو بے ساز و سامان، نہ جماعت نہ طاقتور افراد ، بلکہ ان میں سے کئی تو غلام یا آزاد کردہ غلام تھے، ان کے مقابلہ میں جو سردار اور قبیلے تھے سب کے سب ان کا نام و نشان مٹانے پر تلے تھے، ایسے میں یہ پیشین گوئی کہ یہ صرف بچ نہیں جائیں گے بلکہ ان کو اپنے دشمنوں پر فتح حاصل ہوگی، ایک بہت ہی نازک پیشین گوئی تھی، جو الحمد للہ بدر کی صورت میں پوری ہوئی، جس وقت رومیوں کو ایرانیوں کے مقابلہ میں فتح حاصل ہوئی اس وقت خود مسلمان معرکہ بدر کی فتح کی خوشی سے سرشار تھے۔
(۳) معرکۂ احد کے بعد ایک بڑا معرکہ خندق کا پیش آیا ، جب تقریباً سارے عرب کی طاقت مسلمانوں کے خلاف جمع ہوکر مدینہ پر حملہ آور ہوئی تھی، جس میں مدینہ کے یہود سازش میں لگے ہوئے تھے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی تجویز کے مطابق مدینہ کے اطراف خندق کھود کر مدینہ میں محصور ہوگئے تھے اور خندق کے پار تمام قبائلِ عرب پورے اطمینان سے مدینہ کے خلاف جمے ہوئے تھے، بظاہر ان کے وہاں سے ٹلنے کے کوئی امکانات نہیں تھے اور مسلمانوں کے پاس خندق کھودنے کی سبیل کے بعد ان سے پورے طور پر مقابلہ کی کوئی سبیل نہیں تھی، ایسے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان پر سرد طوفان بھیجیں گے اور ان کے قدم اکھڑ جائیں گے اور یہ یہاں سے نا امید ہو کر چلیں جائیں گے، چنانچہ ایسے ہی ہوا اور وہ سارے قبائل مسلمانوں کو کوئی زیادہ قابل ذکر نقصان پہنچائے بغیر بے مراد چلے گئے۔
(۴) خندق کے بعد صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت دب کر مشرکین مکہ کی ہر شرط قبول کرکے ان کے ساتھ صلح کی ، یہ صلح بظاہر مسلمانوں کی شکست تھی، اس صلح اور اس کی شرائط سے خود بعض مسلمان بھی سخت بے چینی محسوس کررہے تھے، اس صلح کو جو بظاہر شکست نظر آرہی تھی اسلام نے فتح مبین قرار دیا، جو بظاہر کہیں سے فتح نظر نہیں آرہی تھی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مطمئن تھے، چنانچہ اس صلح کے نتیجہ میں اس فتح مبین کا ظہور بہت جلد فتح مکہ کی شکل میں صرف دو برس بعد ہوگیا، اور سب نے مانا کہ یقیناً یہ صلح ہی اس فتح مبین کا پیش خیمہ تھی۔
(۵) وہ اسلام جس کی دعوت ایک یتیم، اُمّی، ظاہری مادی وسائل سے تہی داماں ہستی کی دعوت پر شروع ہوئی، جن کی دعوت کے مقابلہ میں اس دور کی تمام قوتیں اٹھ کھڑی ہوئیں، کسی طرح کے ظاہری وسائل و ذرائع نہ ہونے کے باوجود وہ ہستی یہ پیشین گوئی کرتی ہے کہ یہ اللہ کا دین ہے اور وہ اس کو تمام ادیان پر غالب کرکے رہے گا، اور ۲۳؍ برس کے مختصر عرصہ میں وہ پیشین گوئی درست ثابت ہوجاتی ہے، جس کو صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام اقوام ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس نبئ اُمّی نے جس کا ظہور ایک یتیم کی حثییت سے ہوا انہوں نے جو دعویٰ کیا وہ بالکل سچ ثابت ہوا ہے۔
(۶) اتنا ہی نہیں کہ یہ دین سر زمین عرب تک ہی غالب ہوتا ہے، بلکہ وہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ پیشین گوئی بھی فرماتے ہیں کہ ان کے وصال کے بعد یہ اسلام اس درجہ پھیلے گا کہ روم و ایران کی سلطنتیں مسلمانوں کے آگے سرنگوں ہوں گی اور ان سب کو اسلام اور مسلمان فتح کریں گے، یہ پیشن گوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے موقع پر خندق کی کھودائی کے دوران کی تھی کہ آپ کو قیصر و کسریٰ کے ایوان فتح ہوتے ہوئے دکھائے گئے ہیں، اس وقت یہودی جو مدینہ کی آبادی کا حصہ تھے ، انہوں نے یہ سنا تو مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ آج عرب قبائل کے مقابلہ میں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور خواب دیکھ رہے ہیں کہ قیصر و کسریٰ کے ایوان فتح ہوں گے؟ لیکن جلد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی بھی پوری ہوئی۔
یقیناً سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خود پیشین گوئیاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و صداقت کے ناقابل تردید دلائل اور ثبوت ہیں، جن کے سچ ہونے کو اپنے اور غیر سبھی تسلیم کرتے ہیں۔
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیوں کا موضوع بہت وسیع ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک ظاہر ہونے والے آثار میں سے بہت سارے واقعات کی پیشین گوئی فرمائی ہے جو ہر دور میں صحیح ثابت ہوتی جارہی ہیں اور قیامت تک ان کی سچائی کا ظہور ہوتا رہے گا۔
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیوں کی تصدیق کرنا لازم ہے، مستقبل میں پیش آنے والے واقعات میں سے جن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے پیشین گوئی کی گئی ہے اور ان کا ظہور ابھی باقی ہے ، ان میں سے جن کا ثبوت احادیث متواتر ہ محکمہ سے ہوا ہے ان کا انکار کفر ہے، ایسی پیشین گوئیوں میں مثلاً :
(۱) قیامت سے پہلے حضرت مہدیؑ کے ظہور کی پیشین گوئی کہ حضرت مہدی ایک شخصیت کا نام ہے، جن کا ظہور ہوگا اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے یعنی سید خاندان سے ہوں گے اور غیر معمولی کارنامے انجام دیں گے، دشمنان اسلام سے ان کا سخت مقابلہ ہوگا اور انہیں فتح حاصل ہوگی۔
(۲) قیامت سے قبل دجال کے ظہور کی پیشین گوئی۔
(۳) قیامت سے پہلے حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان سے نزول کی پیشین گوئی کہ حضرت عیسی علیہ السلام قیامت سے پہلے نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کریں گے اور یہودیوں کو شکست دیں گے، پھر شادی کرنے اور اولاد ہونے کے بعد ان کو موت آئے گی۔
(۴) قیامت سے پہلے سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہونے کی پیشین گوئی۔
(۵) یاجوج ماجوج کے ظہور کی پیشین گوئی۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی پیشین گوئیاں ہیں جو متواتر روایات سے ثابت ہیں، ان پر ایمان لانا لازمی ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چار سے زائد نکاح برحق ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ نکاح خود اللہ کے حکم سے تھے، جن میں دین کی بہت ساری حکمتیں شامل تھیں۔تشریح
ازواج مطہرات اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چار سے زائد نکاح کا حق ہونا:
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا نکاح بعثت سے پہلے ۲۵ سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کیا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت ۴۰ سال تھی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپؐ نے ۲۴ سالہ ازدواجی زندگی گذاری، آپؐ کے بیٹے حضرت ابراہیم ؓ کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب اولادیں حضرت خدیجہؓ سے ہی ہوئی ہیں، جب تک حضرت خدیجہؓ حیات رہیں آپ نے کوئی اور نکاح نہیں کیا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، حضرت سودہؓ بھی بیوہ اور عمر رسیدہ خاتون تھیں، حضرت سودہؓ شروع ہی میں اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہیں، ہجرت حبشہ سے واپسی میں ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا، اگر وہ اپنے گھر جاتیں تو ان کے گھر والے کفار تھے اور جیسے دوسرے مؤمنین کو وہ اذیتیں دے رہے تھے انہیں بھی اذیتوں میں مبتلا کردیتے، اور دوبارہ کفر میں داخل ہونے پر زبردستی کرتے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔
پھر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے بعد سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ، حضرت عائشہؓ کی وداعی نکاح سے متصل بعد نہیں ہوئی؛ بلکہ ہجرتِ مدینہ کے بعد ان کی وادعی ہوئی۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ معرکۂ بد ر میں شہید ہوگئے، اس کے بعد سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا، یہ نکاح ہجرت سے تقریباً تیس ماہ بعد ہوا۔
اس سے متصل بعد سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ، حضرت زینبؓ آپ سے نکاح سے قبل حضرت طفیل بن حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، حضرت طفیلؓ بھی معرکہ بدر میں شہید ہوئے تھے، حضرت زینبؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے بعد صرف ۱۸ماہ باحیات رہیں اس کے بعد ان کا وصال ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی ۔
اس کے بعد سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سنہ ۴ہجری میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح سے قبل حضرت ام سلمہؓ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، ان کے وصال کے بعد انہوں نے مدینہ کی جانب ہجرت کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہراتؓ میں سب سے آخر تک باحیات رہنے والی ازواج مطہرات میں سے ایک ہیں ۵۹ھ میں ان کا وصال ہوا۔
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور نکاح حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے کیا، حضرت جویریہؓ غزوہ بنی مصطلق کے قیدیوں میں سے تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کیا، پھر ان سے نکاح کیا۔
ایک اور نکاح سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ریحانہ بنت زید بن قنافہ رضی اللہ عنہا سے کیا، یہ بنو قریظہ کے قیدیوں میں سے تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرلو تو اللہ کا رسول تمہیں اپنے لئے اختیار کرلے گا، حضرت ریحانہؓ نے بلا تکلف جواب دیا: میں نے اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرلیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کیا اور پھر ان سے نکاح کیا، یہ نکاح ۶ھ میں ہوا تھا، حجۃ الوداع سے واپسی کے وقت حضرت ریحانہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں اور مدینہ واپسی کے وقت ان کا وصال ہوا اور جنت البقیع میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نکاح حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے کیا، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہی زوجہ مطہرہ ہیں جن کا آپ سے نکاح طے ہونے کا ذکر اللہ نے کیا ہے، چنانچہ وہ فخر کیا کرتی تھیں کہ ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح آسمانوں میں طے ہوا ہے۔
ایک نکاح سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے کیا ہے، حضرت صفیہؓ خیبر کے قیدیوں میں سے تھیں ۔
ایک نکاح سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام حبیہ رضی اللہ عنہا سے کیا، حضرت ام حبیہؓ حضرت سفیان رضی اللہ عنہ (سردارِ مکہ) کی صاحبزادی ہیں، ان کا نکاح پہلے عبید اللہ بن جحش سے ہوا تھا ، یہ مکہ میں ابتداء اسلام میں اپنے شوہر کے ساتھ اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھیں اور انہوں نے حبشہ کی جانب ہجرت بھی کی تھی، وہاں عبید اللہ بن جحش اسلام سے پھر کر عیسائی ہوگیا، یہ حضرت ام حبیبہؓ کےلئے بہت تکلیف کا باعث ہوگیا، اسی دوران عبید اللہ بن جحش کا انتقال ہوگیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے ذریعہ حضرت ام حبیبہؓ کو پیغام بھیجا اور نجاشی بادشاہ نے ان کا نکاح حبشہ کے مہاجرین کی موجودگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کروایا اور خطبۂ نکاح بھی نجاشی نے ہی پڑھا رضی اللہ عنہم اجمعین۔
ایک اور نکاح سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے کیا ہے، یہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خالہ ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے آخر میں وفات پانے والی یہی ہیں، ان کی وفات ۶۱ھ میں ہوئی ہے۔
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چار سے زائد نکاح کئے ہیں اور ہجرت کے بعد بیک وقت آپ کے نکاح میں چار سے زائد بیویاں بھی رہی ہیں، بے شمار دینی، تعلیمی اور دیگر مصلحتوں اور حکمتوں کی بنیاد پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے یہ اجازت خاص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو دین اور علم کی خدمت ہوئی وہ محتاج بیان نہیں ہے، دو ہزار (۲۰۰۰) سے زائد احادیث نبوی ان سے روایت کی گئی ہیں، خود صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم میں دو سو سے زائد آپ کے شاگرد ہیں، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے جو احکام و فتاوی ٰ اور اصول دین منقول ہیں وہ جمع کئے جائیں تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان تعدُّدِ ازدواج کے اور بھی کئی مصالح اور حکم ہیں جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں ہے، بعض اسلام دشمن اس پر اعتراض کرتے ہیں، جن سے بعض دین کی تعلیم سے دور آزاد خیال مسلمان بھی متأثر ہوجاتے ہیں، اعتراض کی گنجائش جب ہے جبکہ یہ اللہ کی اجازت کے بغیر ہوتا، جب یہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہوا ہے اور بہت سی دینی حکمتوں اور مصلحتوں کے تحت ہوا تو کوئی اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔
یہاں اس تفصیل سے غرض یہ بیان کرنا ہے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل کو موافق اسلام سمجھنا لازم اور ضروری ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بیک وقت چار سے زائد نکاح جائز تھے اور دینی مصلحتوں سے تھے اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے، کسی بھی زاویہ سے اس پر اعتراض کرنا یا اس کو غلط سمجھنا ایمان کے منافی اور کفر ہے۔
ہاں پھر ایک مرحلہ کے بعد جبکہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جن حکمتوں سےچار سے زائد نکاح کی اجازت دی تھی ان کے پورے ہوجانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ اس کے بعد آپ مزید نکاح نہ کریں اور جو بیویاں نکاح میں ہیں ان کو چھوڑ کر دوسروں کو بیوی نہ بنائیں، ہاں باندیوں پر کوئی پابندی نہیں تھی، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی اور کو اختیار نہیں کیا، جبکہ وہ بھی آپ کے پاس بطور ہدیہ بھیجی گئیں تھیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان حشر میں حساب و کتاب کے آغاز کےلئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بر حق ہے۔اسی طرح قیامت کے دن مؤمنین گناہ گاروں کے حق میں جہنم سے خلاصی کےلئے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بر حق ہے۔تشریح
شفاعت کُبریٰ یا شفاعت عُظمیٰ:
شفاعت کے دوسرے تصور کے دو مرحلے ہیں، ایک یہ ہے کہ روز قیامت جب تمام مخلوقات کو دوبارہ پیدا کیا جائے گا تب اعمال کے جزاء و سزاء کےلئے سب سے پہلے حساب و کتاب کا مرحلہ در پیش ہوگا، حشر کے میدان میں سب جمع ہوں گے، تمام اقوام عالم اپنے اپنے انبیاء کے ساتھ موجود ہو ں گے، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا کے آخری انسان تک سب میدان حشر میں جمع ہوں گے اور ایک بہت طویل عرصہ حساب و کتاب کے انتظار میں گذر جائے گا، یہ انتظار بجائے خود ایک بہت کٹھن مرحلہ ہوگا جس میں سورج ان کے قریب کردیا جائے گا اور وہ ایسی سخت تکلیف میں ہوں گے جس کو برداشت کرنے کی انہیں طاقت نہ ہوگی اور وہ اس کا تحمل نہیں کر پا رہے ہوں گے، ایسے میں لوگ آپس میں کہیں گے: کیسے سخت حالات ہیں؟ کیا حالت ہوگئی ہے؟ کسی ایسی ہستی کو تلاش کرو جو اللہ تعالیٰ کے پاس حساب کتاب شروع کرنے کےلئے سفارش کر سکے کہ اللہ تعالیٰ کم از کم حساب کتاب شروع کریں، بعض لوگ کہیں گے: حضرت آدم علیہ السلام کے پاس چلو، اور وہ حضرت آدمؑ کے پاس آئیں گے اور کہیں گے آپ پوری انسانیت کے باپ ہیں! اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ہے اور آپ میں اپنی روح پھونکی ہے اور فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ آپ کو سجدہ کریں، آپ رب ذب الجلال کے یہاں ہم سب کی سفارش فرمائیے ! آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ہم کس حال میں ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام جواب دیں گے: آج پروردگار ایسے غصہ میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسے غصہ میں نہیں تھے اور نہ ہی کبھی بعد میں ایسے غضب ناک ہوں گے! رب ذو الجلال نے تو مجھے بھی درخت کھانے سے منع کیا تھا، لیکن میں نے اس کے خلاف کردیا، آج تو خود میری جان کی مجھے پڑی ہے، بہتر ہوتا اگر تم نوح کے پاس جاؤ،وہ پھر حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: اے نوح (علیہ السلام)! آپ زمین والوں کی جانب اللہ کے بھیجے ہوئے پہلے رسول ہیں، اللہ نے آپ کو عبد شکور کے لقب سے نوازا ہے، آپ ہی ہماری اللہ تعالیٰ کے یہاں سفارش فرمائیے! آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہوگئی ہے؟ حضرت نوح علیہ السلام فرمائیں گے، آج پروردگار ایسے غصہ میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسے غصہ میں نہیں تھے اور نہ ہی کبھی بعد میں ایسے غضب ناک ہوں گے، میرے پاس ایک قبولیت والی دعاء تھی وہ میں نے اپنی قوم کے خلاف کرلی ہے، آج تو مجھے خود اپنی جان کی پڑی ہے، تم میرے علاوہ دوسروں کے پاس جاؤ ، بہتر ہے ابراہیمؑ کے یہاں جاؤ!
وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے،حضرت ابراہیم بھی انہیں ایسا ہی جواب دیں گے اور کہیں گے بہتر ہوتا اگر موسی کے پاس جاؤ، وہ حضرت موسی علیہ السلام کے پاس جائیں گے، لیکن حضرت موسی علیہ السلام بھی انہیں ایسا ہی جواب دیں گے اور کہیں گے بہتر ہے کہ تم عیسی کے پاس جاؤ، وہ پھر حضرت عیسی علیہ السلام کے یہاں جائیں گے ، وہ بھی انہیں ایسا ہی جواب دیں گے اور کہیں گے : بہتر ہے کہ تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ! وہ سب سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)!آپ اللہ کے پیغمبر ہیں، تمام نبیوں کے سلسلہ کو ختم کرنے والے ہیں، اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمائیں ہیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم سب کا کیا حال ہے؟ آپ رب ذوالجلال کی خدمت میں سفارش فرمادیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: تب میں کھڑا ہوں گا اور عرش کے نیچے آؤں گا اور پروردگار کے لئے سجدہ میں گرپڑوں گا، اس وقت اللہ تعالیٰ میرے قلب پر اپنی حمد کے ایسے پہلو کھولیں گے اور الہام فرمائیں گے کہ اس سے قبل وہ پہلو کسی کےلئے نہیں کھولے ہوں گے، اس حمد کے بعد اللہ کی جانب سے کہا جائے گا: ائے محمد! سر اٹھاؤ! مانگو دیا جائے گا! سفارش کرو سفارش قبول کی جائے گی! تب میں کہوں گا: اے اللہ! آپ نے مجھ سے سفارش قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، اپنی مخلوق کے حق میں میری سفارش قبول فرمائیے، اے اللہ! ان کے حساب کتاب اور فیصلہ کے آغاز کی درخواست ہے؛ تاکہ لوگوں کو ان کے اس مقام سے راحت ملے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے:میں نے تمہاری سفارش قبول کرلی، میں آؤں گا اور ان کا فیصلہ کروں گا، اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کے جھرمٹ میں آئیں گے جبکہ فرشتے صف در صف کھڑے ہو ں گے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شفاعت شفاعت کبری اور شفاعت عظمی کہلاتی ہے، یہ شفاعت حق ہے، یہی مقام محمود بھی ہے، اس پر ایمان لازمی ہے اور اس کا انکار کفرہے۔
اس کی مزید تفصیل ایمان بالآخرۃ کے بیان میں آئے گی۔
شفاعت کا کفریہ تصور:
ایک شفاعت کا تصور یہ ہے کہ اللہ کے مقرب بندے خواہ انبیاء کرام یا اولیاء ان کو الٰہ بنا لیا جائے اور ان کو خوش کرنے کےلئے ان کی عبادت و پرستش کی جائے، اس تصور کے ساتھ کہ وہ اللہ کے دربار میں ان کی سفارش کریں گے اور ان کے کئے ہوئے برے اعمال کو معاف کرادیں گے۔
کسی کو اللہ کے دربار میں سفارشی مان کر اس کو الٰہ بنا لینا یا الوہیت کے کسی حق میں شریک کرنا، مثلاً عبادت کی غرض سے سجدہ کرنا یا اس سے دعا کرنا یا اس کےلئے قربانی دینا اور نذر و نیاز کرنا سب شرک اور کفر ہے۔
اسی طرح یہ ماننا کہ کوئی اللہ کے دربار میں اتنا اثر ورسوخ رکھتا ہے کہ محض اپنی مقبولیت کی بنیاد پر اللہ سے جو چاہے گا منوا لے گا، یہ بھی خلاف عقیدہ ہے، اسی میں یہ صورت بھی داخل ہے کہ محض نسبت کی بنیاد پر خود کو اعلیٰ اور مرحوم و مغفور سمجھے، جیسا کہ بنی اسرائیل کو ایسی غلط فہمی ہو گئی تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کھل کر رد کیا ہے، امت محمدیہ میں بھی کوئی اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو اس کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت فاطمہ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما سے راست خطاب کرکے فرمایا کہ: مجھ سے نسبت پر قناعت کرکے مت بیٹھنا! عمل کرتے رہنا کہ عمل ہی کامیابی کا ذریعہ ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیم دی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ روز قیامت کسی کو اللہ کے حضور کسی قسم کی بات کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوگی، چہ جائیکہ کوئی بات اللہ پر دباؤ ڈال کر منوالے، الا یہ کہ اللہ ہی کسی کو بات کرنے کی اجازت دے تو پھر وہ بات کر سکے گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ہرنبی کی تعظیم و توقیر ضروری ہے، کسی نبی کی شان میں ادنیٰ سے ادنیٰ گستاخی سے انسان دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔دلائل
عقیدہ:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام جہانوں کے لئے نبی ہیں۔ دلائل
عقیدہ:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مخلوقات سے زیادہ علوم عطافرمائے گئے، جو کسی اور کو نہیں دئے گئے، لیکن عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ دلائل
عقیدہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اوردیگر انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبورمیں زندہ ہیں۔اور نبی کی وفات سے ان کی نبوت و رسالت ختم نہیں ہوتی۔تشریح
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء علیہم السلام وفات کے بعد اپنی قبورِ مبارکہ میں اسی طرح نبی و رسول ہیں جیسا کہ وفات سے پہلے دنیوی زندگی میں تھے، اس لئے کہ نبی کی وفات سے ان کی نبوت و رسالت ختم نہیں ہوتی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوردیگر انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبور مبارکہ میں مختلف مشاغل و عبادات میں مصروف ہیں، ان کی یہ عبادات تکلیفِ شرعیہ کے طور پر نہیں بلکہ حصولِ لذت و سرور کے لئے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء علیہم السلام کو قبر مبارک میں حاصل ہونے والی حیات اس قدر قوی اور دنیوی حیات کے مشابہ ہے کہ بہت سے احکام دنیوی حیات کے حضرات انبیاء علیہم السلام پر وفات کے بعد بھی جاری ہوتے ہیں، مثلاً ازواجِ مطہراتؓ سے نکاح جائز نہ ہونا، نبی کی میراث تقسیم نہ ہونا اور سلام کہنے والے کا سلام سننا وغیرہ۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قبر مبارک میں زمین کا وہ حصہ جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کے ساتھ لگا ہوا ہے، اہل سنت و الجماعت کا اجماع ہے کہ وہ تمام روئے زمین حتی کہ بیت اللہ شریف اور عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔ دلائل
عقیدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرنا نہ صرف مستحب ہے بلکہ عمدہ ترین نیکی اور افضل ترین عبادت ہے۔ دلائل
عقیدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس حاضر ہوکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء کرنا، شفاعت کی درخواست کرنا اور یہ کہنا کہ ’’حضورؐ! میری بخشش کی سفارش فرمائیں‘‘ نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔ دلائل
عقیدہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود پڑھنا مستحب اور افضل ترین نیکی ہے۔تشریح
افضل درود وہی ہے جس کے الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، گو غیر منقول درود کا پڑھنا بھی برکت سے خالی نہیں ہے، بشرطیکہ اس کا مضمون صحیح ہو۔ سب سے افضل درود ’’درودِ ابراہیمی‘‘ ہے جسے نماز میں پڑھا جاتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس کھڑے ہوکر جو شخص صلوٰۃ و سلام پڑھتا ہےآپ خود سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں۔ دلائل
عقیدہ:
دور سے پڑھا جانے والا درود و سلام بذریعہ ملائکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا جاتا ہے۔ دلائل
عقیدہ:
نبی کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنا فرض ہے، یہاں تک کہ یہ محبت اپنے ماں اور باپ اور اپنی اولاد اور تمام مخلوقات سے بھی زیادہ ہو۔تشریح
نبی کے ساتھ محبت:
انبیاء و رسولوں سے محبت لازم ہے، ہر قوم و امتی پر لازم ہے کہ وہ تمام انبیاء سے عمومی محبت کرے اور اپنے نبی سے خصوصی سب سے زیادہ محبت کا تعلق رکھے۔ نبی کے علاوہ کسی اور کی محبت نبی کی محبت پر غالب نہ ہو، نہ اپنے رشتہ داروں کی، نہ ماں باپ کی ، یہاں تک کہ مکلف کی محبت اپنے نبی سے خود اپنی ذات سے بھی زیادہ ہو، جب تک ایسا نہ ہو اس وقت تک کسی مؤمن کا ایمان پورا نہیں ہو سکتا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے درمیان فرق کرنا جائز نہیں ہے۔ نبی کا ہر حکم ہر مؤمن کےلئے واجب العمل ہے۔تشریح
حجیتِ سنت پر ایمان:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کی شکل میں جو کچھ نازل کیا ہے اس کی اپنی اہمیت ہے، اسی طرح رسول قرآن سے ہٹ کر جو کچھ کہیں وہ بھی وحی ہے، رسول کے غیر قرآن خطاب پر لبیک کہنا بھی لازمی ہے، اور اس سے انحراف کرنا نفاق کی علامت ہے۔ یعنی قرآنی احکام کی اطاعت کے علاوہ رسول کی اطاعت کرنا بھی مستقل فریضہ ہے، رسول کے قرآن کے علاوہ احکام کو ماننے سے انکار کرنا کفر ہے، یہ کہنا کہ ہمارے لئے قرآن کافی ہے، اس سے اگر یہ غرض ہو کہ احادیث میں جو کچھ ہے اس کو ماننا لازم نہیں ہے تو یہ کفریہ عقیدہ ہے۔
جو شخص وحی حدیث کا انکار کرے وہ بلا شبہ کافر ہے اور جو شخص تواتر سے ثابت وحی حدیث کا انکار کرے وہ بھی بلاشبہ کافر ہے، اور وحی حدیث کے اتباع کے لازم ہونے کا عقیدہ رکھتے ہوئے خبر احاد سے ثابت وحی حدیث کا جو شخص انکار کرے وہ فاسق ہے۔
جو لوگ وحی حدیث یا حجیت سنت کا انکار کرتے ہیں وہ گویا اللہ اور اس کے رسول کے حکم میں فرق کرتے ہیں، حالانکہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہے، نبی کا حکم اللہ کی جانب سے ہوتا ہے، وہ دین کا کوئی حکم اپنی جانب سے نہیں دیتے، جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے احکام میں اس طرح فرق کرے اور کہے کہ وہ اللہ کے حکم کو مانے گا رسول کے حکم کو نہیں مانے گا ، یا کہے کہ وہ قرآن کے حکم کو مانے گا حدیث کے حکم کو نہیں مانے گا تو وہ بلا شبہ کافر ہے۔

لفظِ معجزہ در اصل علم العقائد والوں کی اصطلاح ہے، ورنہ قرآن و حدیث میں اُسے آیت، برہان، علامت اور دلیل سے تعبیر کیا گیا ہے۔
معجزہ اس خارقِ عادت اور لوگوں کو عاجز کردینے والے کام کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نبی کے ہاتھوں ظاہر ہوتا ہے۔
ایسے قطعی معجزات میں سے کسی ایک کے انکار سے انسان دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کی کشتئ معجزہ، حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا معجزہ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کا گلزار بنانے کا معجزہ، حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے لوہے کو موم کی طرح نرم کرنے کا معجزہ، حضرت سلیمان علیہ السلام کو چرند پرند کی بولیاں سکھانے کا معجزہ، انسانوں اور جنوں کو ان کے تابع کرنے کا معجزہ، مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنے کا معجزہ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے عصاء اور یدِ بیضاء کا معجزہ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کرنے کا معجزہ، پیدائش کے فوراً بعد کلام کرنے کا معجزہ، مٹی کے پرندے بناکر انہیں زندہ کرکے اڑانے کا معجزہ، اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرنے اور مُردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ، نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قرآن مجید کا معجزہ کہ چودہ سو سال سے زیادہ گذر جانے کے بعد بھی کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کرسکا اور نہ کوئی پیش کرسکتا ہے، واقعۂ اسراء کا معجزہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے پھینکی جانے والی مٹی کو کافروں کی آنکھوں میں ڈال دینے کا معجزہ وغیرہ۔
انبیاء علیہم السلام کو جو معجزات دئے گئے ہیں وہ بر حق ہیں، ان پر ایمان لانا ضروری ہے اور معجزات کے وجود کا ہی انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
نبی معجزہ پیش کرنے میں اللہ تعالی کے محتاج ہوتے ہیں۔تشریح
نبی و رسول نشانی یا معجزہ کے مطالبہ پر خود سے کوئی معجزہ نہیں پیش کر سکتے؛ بلکہ وہ اللہ سے کسی آیت اور معجزہ کے لئے دعا٫ کر سکتے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ ان کو کوئی نشانی عطا٫ فرماتے ہیں، لیکن قوم یا مخاطبین کے نشانی کے ہر مطالبہ کو قبول نہیں کیا جاتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ مخاطبین کے نشانی کے ہر مطالبہ کو پورا کرنے سے انکار بھی کردیتے ہیں، ایسا انکار اسی وقت کیا جاتا ہے جبکہ کسی قوم کے نبی کو ضروری نشانیاں دے دی جاتی ہیں اور قوم محض انکار اور عناد میں اوٹ پٹانگ نشانیوں کا مطالبہ شروع کردیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بعض مرتبہ کفار کے مطالبہ کے عین مطابق نبی کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر فرمایا اور کافروں کی طرف سے جو مطالبہ، ضد،ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی کی بناء پر کیا گیا اُسے پورا نہیں فرمایا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
نبی و رسول اپنے دعوئ نبوت پر جونشانی پیش کرتے ہیں قوم اس میں نبی کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہوتی ہے۔تشریح
معجزہ کی حقیقت:
معجزہ نبی کے دعوئ نبوت کو پورا کرنے کی ایک ایسی نشانی ہوتی ہے جس کو کرنا یا تو انسان و مخلوقات کے بس سے باہر ہوتا ہے، جیسا کہ پہاڑ سے اونٹنی کو نکالنا، چاند کے دو ٹکڑے کردینا،یا پھر اس کو غیر نبی کر تو سکتا ہے لیکن اس کام کو انجام دینے کےلئے اس کو اسباب اختیار کرنا ہوگا، جبکہ نبی اس کو اسباب کے بغیر محض اپنے اشارہ یا حکم کے ذریعہ باذن اللہ کرتا ہے، مثلاً پانی میں راستہ بنانا، انسان اس کو اسباب اختیار کرکے بنا سکتا ہے، لیکن نبی اس کو بغیر اسباب کے سب کے سامنے انجام دیتا ہے۔
اگر کوئی مدعئ نبوت اپنے دعوئ نبوت پر کوئی ایسی نشانی دے جس کو دوسرا کوئی انسان مدعی نبوت کو چیلنج کرکے اسی طرح کا جواب دکھا دے تو پھر مدعی نبوت کی پیش کردہ نشانی معجزہ نہیں ہو سکتی، نبی یا رسول اپنے دعوئ نبوت پر جو دلیل دیتے ہیں ان کی قوم نہ اس دلیل کو رد کر سکتی ہے اور نہ ہی کوئی جواب دے سکتی ہے،جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کےلئے عصاء کو معجزہ بنایا، جب حضرت موسی علیہ السلام چاہتے وہ اژدہے کی شکل اختیار کر لیتا تھا، ساحروں نے جب اپنے سحر سے اس کا مقابلہ کرنا چاہا تو اس عصاء سے بننے والے اژدہے نے ان سب کو نگل لیا، یہی معجزہ کی شان ہوتی ہے کہ اس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
سحر اور معجزہ میں ایک اور فرق یہ ہوتا ہے کہ سحر انسان سیکھتا ہے، جبکہ نبی معجزہ کے ظہور کو باقاعدہ فن کی شکل میں نہیں سیکھتے، اسی طرح سحر کے لئے ساحر اسباب اختیار کرتا ہے جو عام آدمی کے لئے مخفی ہوتے ہیں، لیکن وہ اسباب ہوتے ضرور ہیں ۔
حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کئی ظاہری بیّن دلائل عطا٫ فرمائے تھے، وہ اللہ کے اذن سے کوڑھ کے مریض اور مادر زاد اندھے کو شفایاب کر دیتے تھے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جو معجزات عطا٫ فرمائے ان میں قرآن مجید سب سے بڑا معجزہ ہے، جتنے بھی سچے انبیا٫ گذرے ہیں ان کے نبوت کے معجزات کا باوجود چیلنج کے مقابلہ نہیں کیا جا سکا ہے،مثلاً حضرت موسی وحضرت عیسی علیہما السلام اور اخیر میں حضرت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ہیں، اور اب نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ یعنی قرآن قیامت تک باقی رہے گا اور اس کا چیلنج بھی قیامت تک باقی ہے، جس کا جواب نہ اب تک دیا جا سکا ہے نہ دیا جا سکے گا۔
انبیا٫ علیہم السلام کے یہ معجزات اتنے واضح ، کھلے ہوئے اور حق پر مشتمل ہوتے ہیں کہ خود انبیا٫ کے مخالفین کو یہ یقین ہوتا کہ ان کاانکار کرنا یا ان پر رد کرنا ممکن نہیں ہے، انہیں میں سے ایک اہم نشانی ان انبیا٫ کے ذاتی حالات کا کمال، ان کے بہترین اخلاقِ حمیدہ اور کریمانہ خصائل اور عادات بھی ہوتے تھے جن کے ذریعہ بھی انہیں ان کے مخالفین سے برتری حاصل ہوتی تھی۔
انبیا٫ و رسولوں کے معجزات اور آیات نبوت جو قطعی طور پر ثابت ہیں ان کا انکار کرنا کفر ہے۔
حضرت صالح علیہ السلام کا معجزہ پہاڑ سے اونٹنی کے نکالنے کا انکار کرنا کفر ہے، حضرت موسی علیہ السلام کے عصاء کے معجزہ کا انکار کفر ہے، حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزہ پرندوں کو باذن اللہ زندہ کرنے، کوڑھ کے مریضوں کو صحت یاب کردینے کا انکار کرنا کفرہے، اسی طرح ان کے علاوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں پھینکے جانے کے باوجود صحیح سلامت بچ جانے کو نہ ماننا کفر ہے، حضرت نوح علیہ السلام کے طوفان سے بچ جانے کو ماننے سے انکار کرنا کفر ہے۔
.بند
عقیدہ:
معجزہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کی نبوت کے برحق ہونے کی ایک آسمانی دلیل ہوتا ہے۔تشریح
نبی کی نبوت کی اصل دلیل نبی کی ذات و صفات اور ان کی تعلیمات ہوتی ہیں، انہیں کو دیکھ کر سلیم الفطرت اور سمجھدار و عقلمند لوگ ایمان لے آتے ہیں، عام لوگ جو ظاہری اور حِسِّی نشانیوں سے متاثر ہوتے ہیں، ان کے لئے اللہ تعالیٰ معجزات کا انتظام فرماتے ہیں اور جن کے مقدر میں سوائے محرومی کے اور کچھ نہیں ہوتا وہ معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جو خرق عادت کام نبی کی نبوت سے پہلے ظاہر ہو اس کو ارہاص کہا جاتا ہے۔ دلائل
عقیدہ:
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر سب سے بڑا اور اہم معجزہ اللہ کا کلام قرآن مجید ہے۔تشریح
قرآن مجید:
عربوں کو قرآن مجید اس چیلنج کے ساتھ دیا گیا تھا کہ اگر تم اس کو اللہ کے علاوہ کسی اور کا کلام سمجھتے ہو تو اس مثل پیش کردو، اور وہ اس کا مثل پیش کرنے سے عاجز ہی رہے۔
قرآن کا چیلنج قیامت تک کے تمام انسانوں اور جنوں کےلئے باقی ہے، قیامت تک کوئی اس کا مثل ہرگز نہیں پیش کر سکتا۔
نبوت کے دعوی کی سچائی کےلئے جو اہم ترین معجزہ خاص طور سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا وہ قرآن مجید ہی ہے، عرب زبان و بیان کے ایسے ماہر تھے کہ خود کو عرب (بولنے کی صلاحیت رکھنے والے) اور اپنے علاوہ پوری دنیا کو عجم (یعنی گونگا) کہتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی غرور پر ضرب لگائی کہ جس میدان میں تم اتنے منجھے ہوئے ہو کہ اس میں کوئی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتا وہی چیز تمہارے لئے معجزہ بنائی جاتی ہے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے، زبان و بیان کا شاہ کار، اور اس کتاب کے حامل اللہ کے پیغمبر ہیں، ان کے اللہ کے پیغمبر ہونے کی دلیل خود یہی کتاب ہے، اگر تمہیں شک ہو کہ یہ اللہ کے علاوہ کسی مخلوق کا کلام ہے تو پھر تم سے زیادہ اس کے مثل کے لانے پر کون قادر ہو سکتا ہے؟ اس کلام کا مثل لے آؤ، ضروری نہیں ہے کہ تم یہ کام انفرادی طور پر کرو، بلکہ اللہ کے علاوہ جس کی چاہے مدد لے لو، تمام جن و انس گٹھ جوڑ کرکے اس کا مثل لانے کی کوشش کرلو، پھر بھی تم ہر گز اس کا مثل پیش نہیں کر سکتے، او ر اگر اس سے عاجز رہ جاؤ تو پھر اس کو قبول کرکے جہنم کی آگ سے خود کو بچاؤ جو کافروں اور اس کا انکار کرنے والوں کےلئے تیار کی گئی ہے، کفار باوجود اپنی قدرت کے اور کلام پر پوری ماہرانہ دسترس رکھنے کے اس کا مثل پیش کرنے سے عاجز آگئے، تو انہیں پھر چیلنج کیا گیا کہ ٹھیک اس کی صرف دس سورتوں کا مثل پیش کردو، جب وہ اس سے بھی عاجز رہ گئے تو پھر انہیں بر سبیل تنزل ایک بہت ہی کمترین پیش کش کی گئی کہ اس قرآن کی کسی ایک سورت کے مشل ہی پیش کرکے دکھا دیں، اور وہ اس سے بھی عاجز رہ گئے۔
قرآن مجید کا یہ چیلنج آج بھی برقرار ہے اور اب تک اس کا چیلنج کوئی توڑ نہیں سکا ہے اور نہ ہی قیامت تک کوئی اس کو توڑ سکتا ہے، دنیا کی یہ واحد کتاب ہے جو ایک اُمّی ہستی کی جانب سے اپنے دعوئ نبوت اور چیلنج کے طور پر پیش کی گئی اور اس کا آج تک جواب نہیں دیا جا سکا ہے، جس کا یقینی طور پر مطلب یہی ہے کہ وہ اللہ کے نبی تھے اور یہ کتاب اللہ کی کتاب ہے، اور بندوں کی دنیا و آخرت کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مانیں اور ان پر اتاری ہوئی کتاب کو اللہ کی کتاب مان کر ان کے احکام کی تعمیل کریں۔
زبان وبیان اور ادبی شہ پارہ کی حیثیت سے معجزانہ شان کے علاوہ قرآن مجید کے اور بھی بہت سارے علمی معجزانہ پہلو ہیں جن کو ’’ایمان بالکتب‘‘ (اللہ کی کتابوں پر ایمان)میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جائے گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
شق صدر بر حق ہے۔تشریح
شق صدر:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ متعدد موقعوں پر چاک کرکے آپ کے قلب مبارک کو زم زم سے دھویا گیا اور علم و حکمت کے انوار سے بھر اگیا۔
اللہ تعالیٰ کی اپنی مصلحتوں اور حکمتوں کی بنیاد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے متعدد موقعوں پر آپ کا سینہ مبارکہ چاک کیا ،اس کو زم زم سے دھویا گیا ہے اور ایک سنہرا برتن لایا گیا جو حکمت و ایمان سے لبریز تھا، اس کو آپ کے سینہ مبارکہ میں اُنڈیلا گیا ، اور پھر اس کو دوبارہ سی دیا گیا، سب سے پہلے یہ واقعہ آپ کے بچپن میں اس وقت پیش آیا جبکہ آپ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں زیر پرورش تھے، دوسری مرتبہ یہ واقعہ آپ کی عمر کے بارہویں سال پیش آیا، تیسری مرتبہ یہ واقعہ آپ کی بعثت کے موقع پر پیش آیا اور چوتھی مرتبہ یہ واقعہ ’اسراء و معراج‘‘ کے موقع پر پیش آیا، ان احادیث کے راوی متفرق طور پر حضرت انس، حضرت ابو ذر، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
شق قمر بر حق ہے۔تشریح
شق قمر:
کفار و مشرکین کے مطالبہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رسالت کی نشانی کے طور پر چاند کو دوتکڑے کرکے دکھایا ۔
شق قمر یعنی چاند کو اپنے اشارہ سے دو ٹکڑے کردینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے، ہجرت سے پہلے قریش کے چند بڑے سردار جن میں ابو جہل اور ابو لہب شامل ہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر آپ اپنے دعوئ نبوت میں سچے ہیں تو چاند کے دو ٹکڑے کر دیجئے ہم آپ کی تصدیق کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعاء کی اور اپنی انگلی سے چاند کی جانب اشارہ کیا اور وہ دو ٹکڑے ہوگیا، ایک حصہ ابو قبیس نامی پہاڑ کی جانب چلا گیا اور دوسرا حصہ دوسری جانب ہو گیا، اور دونوں کے درمیان اتنا واضح فرق ہوگیا کہ دونوں کے درمیان جبل حراء دکھائی دینے لگا، شق قمر کے واقعہ کو دنیا کے دیگر حصوں میں بھی دیکھا گیا، اس کی شہادت دنیا کے دیگر خطوں سے بھی دی گئی ہے، ملیبار کے بادشاہ ’’راجہ چیرامن پیرامن ‘‘ نے اور ہندستان کے راجہ ’’بھوج‘‘ نے بھی دی ہے، ان کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔
معجزہ شق القمر کاثبوت قرآن اور احادیث صحیحہ متواترہ سے ہے اس لئے اس کا انکار کرنا کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
واقعہ اسراء و معراج حق ہے۔تشریح
واقعہ معراج پر ایمان:
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راتوں رات مکہ سے بیت المقدس کا سفر کرایا ، اسی کو اسراء کہتے ہیں۔
بیت المقدس سے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں کی سیر کےلئے لے جایا گیا، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کیا، اس آسمانی سفر کو معراج کہتے ہیں۔
معراج کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانوں پر انبیاء سے ملاقات فرمائی اور اسی طرح بیت المقدس میں سب جمع ہوئے اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کی امامت فرمائی۔
طائف کے سفر کے بعد مدینہ ہجرت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسراء اور معراج کا سفر کروایا۔ بیت اللہ سے بیت المقدس کے سفر کو اسراء ، اور وہاں سے آسمانوں کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔
واقعہ اسراء و معراج دونوں حق ہیں، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے کعبۃ اللہ (مکہ مکرمہ ) سے بیت المقدس (فلسطین) لے جایا گیا، جہاں آپ نے تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی ، اور وہاں سے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں کی جانب لے جایا گیا، اور ساتوں آسمانوں سے ما وراء سدرۃ المنتہی ا اور اس سے آگے اللہ نے جہاں تک چاہا آپ کو بلایا۔ آپ نے معراج کی رات انبیاء علیہم السلام سے ملاقات کی، اور جنت و جہنم کا مشاہدہ کیا۔ اور اسی رات پنجوقتہ نمازیں آسمانوں پر فرض ہوئیں، اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کی آخری آیات سے آپ کو تحفہ کے طور پر نوازا۔
واقعہ اسراء و معراج دونوں حسی واقعات ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے، یہ سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی خواب میں نہیں بلکہ حسی طور پر مکمل کئے ہیں۔ اس کا ثبوت قرآن مجید سے اور اس کی تفصیلات احادیث متواترہ محکمہ سے ثابت ہیں، جس سے علم قطعی حاصل ہوتا ہے ، اس لئے واقعہ اسراء و معراج کی تصدیق لازم ہے کا اور ان کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جھوٹے مدعئ نبوت کو کوئی معجزہ نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اس کی کوئی پیش گوئی پوری ہوتی ہے۔تشریح
اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مغالطہ سے بچانے کے لئے کسی جھوٹے مدعئ نبوت کو کوئی معجزہ نہیں دیا اور نہ ہی اس کی کوئی پیش گوئی پوری ہونے دی، یہی وجہ ہے کہ مرزا قادیانی کی کوئی پیش گوئی سچی ثابت نہیں ہوئی بلکہ اس کے خلاف واقع ہوا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص کسی مدعئ نبوت سے دلیل یا معجزے کا مطالبہ کرے تو وہ بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔تشریح
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، آپؐ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص کسی جھوٹے مدعئ نبوت سے دلیل یا معجزے کا مطالبہ کرے تو وہ بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائے گا، اس لئے کہ یہ مطالبہ عقیدۂ ختمِ نبوت میں شک کے مترادف ہے، و اِلّا فلا۔ دلائل
.