7ستمبریوم تحفظ ختم نبوت

7ستمبریوم تحفظ ختم نبوت
وطن کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی یاددہانی
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
سات ستمبر 1974؁ء کا دن ہماری قومی اور ملی تاریخ میں اس کی خاص اہمیت ہے۔ اس دن مسلمانوں کے دیرینہ مطالبے پر اس وقت کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو جمہوری اور پارلیمانی بنیاد پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخ ساز فیصلہ کیا، یہ یادگار فیصلہ مسلمانوں کی طویل جدوجہد کا نتیجہ تھا،اس روز عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے تحفظ کی سو سالہ طویل ترین جد وجہد ، فتح مبین سے ہمکنار ہوئی۔7؍سات ستمبرکا دن صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے انتہائی تاریخی اہمیت کا حامل ہے،اس سے حضور ﷺ کی ختم نبوت کا تحفظ ہوا۔اس دن آنحضرتﷺ کی عزت وناموس کا جھنڈابلند ہوا۔ اس دن آپ کی ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والے ذلیل و رسوا ہوئے ،آپ کی رادئے ختم نبوت کو چوری کرنے والے ناکام و نامراد ہوئے ، حضور اکرم ﷺ کے تاج ختم نبوت کو چھیننے والے خائب و خاسر ہوئے ،اس دن پاکستان کی پارلیمنٹ اور پوری قوم نے مل کر مرزا ئی اور قادیانیوں کو جسد ملت اسلامیہ سے کاٹ کر علیحدہ کردیا اور انہیں آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دےدیا گیا ، اس پر صرف پوری پاکستانی قوم نے ہی نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ نے سجدہ شکر ادا کیا ،کیوں کہ قادیانیت کے تعفن اور اس کی سڑانڈ نے پوری امت مسلم کو بے چین اور مضطرب کیا ہوا تھا ۔اس فیصلے نے جہاں اہلیان پاکستان کے دینی جذبات کی مکمل ترجمانی کی وہاں پر پوری دنیا کے مسلمانوں میں اسلامیان پاکستان کی قدر کو بھی بڑھا دیا کہ پاکستان کے مسلمان حضورﷺ کی ناموس کے لئے اپنی جان کی قربانی دینے کے لئے بھی تیار ہیں، مگر ختم نبوت پر کسی کو ڈاکا ڈالنے کی قطعاً اجازت نہیں دے سکتے۔ زندہ قومیں اس طرح کے تاریخ ساز اور تابناک ایام و لمحات کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں، بلکہ زندہ بھی رکھتی ہیں۔
خاتم النبیین جناب نبی کریم ﷺ کے منصب رسالت و ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کی اساس اور مسلمانوں میں ”وحدت اُمت“کی علامت ہے، بلاشبہ رحمت للعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کے باب کو بند سمجھنااسلام کی اساس اور بنیاد ہے جس پر دین اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے۔قرآن کی درجنوں آیات اور سینکڑؤں احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تاجدار ختم نبوت حضرت محمدصلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرئے وہ کافر مرتد ، زندیق ، دائرہ اسلام سے خارج ، اور واجب القتل ہے ۔ جھوٹے نبیوں کی ایک پوری تاریخ ہے اور انکار ختم نبوت پر مبنی فتنوں نے ظہور اسلام کے وقت ہی سر اٹھانا شروع کردیا تھا، ماضی کے مختلف ادوار میں کئی بد بخت افراد نے دعویٰ نبوت کرکے مسلمانوں میں افتراق پیدا کرنے اور انہیں گمراہ کرنے کی سعی مذموم کی۔ مگر ہر دور میں اہل ایمان اور حق کے طرف داروں نے ان کے خلاف بھرپور مزاحمت کی، منصب ختم نبوت کی حفاظت کی اور مسلمانوں کو گمراہی اور ارتداد سے بچایا۔انگریز نے جذبۂ جہاد کو مسلمانوں کے دل ودماغ سے نکالنے کے لیے جعلی اور جھوٹا نبی پیدا کیا۔ ’’قادیان‘‘ کے ایک لالچی اور بدکردار شخص ’’مرزا غلام احمد‘‘ کو دعویٰ نبوت کے لیے آمادہ وتیار کیا اور آخر کار اس بدبخت نے نبوت کا دعویٰ کردیا۔ مرزا قادیانی نے پہلا کام یہ کیا کہ انگریز کے خلاف جہاد کو حرام قرار دیا اور انگریز کی اطاعت وفرمانبرداری کو ہی اصل ایمان قراردیا۔
مرزا قادیانی کے جھوٹے دعویٰ نبوت کے بعد امت مسلمہ نے جس طرح اس کی گرفت کی اور علماء نے جس طرح اس کا تعاقب کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔18جنوری 1953ء کو تمام مکاتب فکر کے علماء اور مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونشن میں مجلس تحریک تحفظ ختم نبوت قائم کی گئی۔اورپھراس کے مرکزی رہنمائوں نے قدم بہ قدم شب و روز ایک کر کے تحریک ختم نبوت کو بامِ عروج پر پہنچایا۔اس وقت سے لے کر آج تک ملکی سلامتی کے خلاف سازشیں کرنااس ٹولے کا وطیرہ رہا ہے،چنانچہ22مئی1974ء میں نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیاطلباء کا ایک گروپ سیروتفریح کی غرض سے چناب ایکسپریس سے پشاور جا رہا تھا۔ جب ٹرین ربوہ پہنچی تو قادیانیوں نے اپنے معمول کے مطابق مرزا قادیانی کی خرافات پر مبنی لٹریچر تقسیم کرنا شروع کردیا۔نوجوان طلبہ اس سے مشتعل ہوگئے اور انہوں نے ختم نبوت زندہ باد اور قادیانیت مردہ باد کے نعرے لگائے۔طلبہ جب پشاور سے واپسی پر 29مئی کو ربوہ پہنچے توقادیانی ہتھیاروں سے مسلح ہوکر طلبہ پر ٹوٹ پڑے اورطلبہ کو نہایت بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کردیا، انہیں لہولہان کردیااوران کا سامان لوٹ لیا۔آناً فاناً یہ خبر پورے پنجاب میں پھیل گئی۔ یہ حادثہ شعلۂ جوالہ بن گیا۔یہ تحریک اتنی شدید اور طاقت ور تھی کہ اس وقت کے علمائے کرام اور دانشور حضرات نے اس مسئلہ کو قومی اسمبلی میں حل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسمبلی سے باہر کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت، مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ کی قیادت میں سرگرم عمل تھی۔ خواجہ خان محمدؒ، مولانا سید ابوذر بخاریؒ، نوابزادہ نصر اللہ خان، آغا شورش کاشمیری، حافظ عبدالقادر روپڑیؒ، میاں طفیل محمدؒ، علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ اور تحریک کے دیگر مرکزی رہنمائوں نے قدم بہ قدم شب و روز ایک کر کے تحریک کو بامِ عروج پر پہنچایا۔ ادھر اسمبلی کے اندر مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا مفتی محمودؒ، مولانا عبدالحقؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، پروفیسر عبدالغفور ؒ اور ان کے رفقاء نے آئینی جنگ کر کے تحریک کا مقدمہ بڑی دانشمندی سے لڑا۔
7 ستمبر 1974 ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں آئین میں ترمیم کرتے ہوئے قادیانیوں کی حیثیت کا تعین کیا اور متفقہ طور پر آئین میں ترمیم کرتے ہوئے انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیاگیا۔ یہ فیصلہ یوںہی بیٹھے بٹھائے نہیں کردیا گیا ،بلکہ مکمل غور و خوض اور بحث و مباحثہ ، سوال و جواب کے بعد ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد کیا گیا ،قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلے پر بحث شروع ہوئی، قادیانی اور لاہوری گروپ دونوں نے اپنی خواہش اور درخواست پر اپنے محضر نامے قومی اسمبلی میں علیحدہ علیحدہ پیش کیے، ان کے جواب میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے بھی ’’قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا موقف ‘‘ کے نام سے اپنا تفصیلی موقف پیش کیا۔ لاہوری، قادیانی محضر نامے کا شق وار جواب کی سعادت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ کے حصے میں آئی اور انہوں نے علیحدہ علیحدہ مستقل دونوں محضر ناموں کے جوابات تحریری طور پر اسمبلی میں پیش کیے۔ قادیانی اور لاہوری گروپ نے صرف تحریری طور پر ہی اپنا موقف پیش نہیں کیا، بلکہ انہیں زبانی بھی اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا، چناںچہ قادیانی گروپ کی طرف سے قادیانیوں کا سربراہ مرزا ناصر احمد قومی اسمبلی میں پیش ہوا، 5 سے 10 اگست اور 20سے 24 اگست تک کل گیارہ روز مرزا ناصر احمد کا بیان، اس سے سوالات و جوابات اور اس پر جرح ہوئی۔ ان گیارہ دنوں میں 42 گھنٹے مرزا ناصر پر جرح ہوئی۔ لاہوری پارٹی کی طرف سے ان کے سربراہ مسٹر صدر الدین پیش ہوئے۔ 27،28اگست کو ان کا بیان ہوا اور ان پر 7گھنٹے جرح ہوئی، صدر الدین چوں کہ کافی بوڑھے تھے، پوری طرح بات بھی سننے کی قوت نہیں رکھتے تھے ،اس لیے ان کا بیان میاں عبد المنان عمر کے وسیلے سے ہوا۔گواہوں پر جرح اور ان سے سوالات کے لیے اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کو متعین کیا گیا، انہوں نے پوری قومی اسمبلی کی اس سلسلے میں معاونت کی اور بڑی محنت و جاںفشانی سے اپنی ذمہ داری کو نبھایا۔ قومی اسمبلی کے ممبران اپنے سوالات لکھ کر اٹارنی جنرل صاحب کو دیتے اور وہ سوالات کرتے تھے، اس سلسلے میں مفتی محمود، مولانا ظفر احمد انصاری اور دیگر حضرات نے اٹارنی جنرل کی معاونت کی۔
بالآخر پوری جرح، بیانات اور غورو خوض کے بعد قومی اسمبلی کی اس خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی۔ وزیر اعظم پہلے ہی فیصلے کے لیے 7ستمبر کی تاریخ طے کرچکے تھے ،چنانچہ 7ستمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں خصوصی کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں اور آئین میں ترمیمی بل پیش کیاگیا۔ وزیر قانون نے اس پر مختصر روشنی ڈالی، اس کے بعد وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم نے تقریر کی ۔ تقریر کے بعد بل کی خواندگی کا مرحلہ شروع ہوا اور وزیر قانون نے بل منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کردیا، تاکہ ہر رکن قومی اسمبلی اس پر تائید یا مخالفت میں رائے دئے۔ رائے شماری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے پانچ بج کر باون منٹ پر اعلان کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی ترمیم کے حق میں ایک سو تیس ووٹ آئے ہیں، جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہیں ڈالاگیا، اس طرح قومی اسمبلی میں یہ آئینی ترمیمی اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔
اس وقت کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب بیرونی دباوٴ کی وجہ سے اس آئینی ترمیم پر دستخط سے انکاری تھے، اس لیے بڑے بڑے شہروں میں فوج تعینات کردی گئی اور تحریک ختم نبو ت کے قائدین اور کارکنوں کی لسٹ بنا لی گئی، جنہیں رات کو گرفتا رکرنا تھا۔مگر خالق کائنات مسلمانوں کے حق میں فیصلہ لکھ چکا تھا ۔ ایک حدیث کے مطابق تمام انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں اور وہ ان کو جیسے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے بھٹو صاحب کے دل کو پھیر دیا اور مفتی محمود صاحب کے ان کو منانے کے بعد بالآخر وہ مبارک گھڑی آئی جب 7ستمبر1974ء کو4 بج کر35 منٹ پر قادیانیوں کے دونوں گروپوں (مرزائی اور لاہوری گروپ) کو قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ اور یہ فیصلہ ایک ترمیم کے ذریعے پاکستان کے بنا۔ آج اس آئینی فیصلے کو 46 برس بیت گئے ہیں مگر مرزائیوں نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ وہ آئے روز مسلمانوں کے خلاف اپنی سازشوں کا جال پھینکتے رہتے ہیں۔ علما کے خلاف نفرت پیدا کرنا۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا اور سیاسی طور پر پاکستان کو بدنام اور غیر مستحکم کرنا اور ملکی سلامتی کے خلاف سازشیں کرنا مرزائیوں کا نصب العین ہے۔
تحریک ختمِ نبوّت 1974ء میں جنرل محمد ضیاء الحق شہید نے حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمہ اللہ کی قیادت میں قائم کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوّت کے مطالبات منظور کرتے ہوئے 26اپریل1984ء کو ’’امتناع قادیانیت آرڈیننس‘‘ جاری کیا ،جس کے مطابق قادیانیت کی تبلیغ و تشہیر، قادیانی کا خود کو مسلمان ظاہر کرنا، اذان دینا،اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہنا اور شعائر اسلام استعمال کرنے کو جرم قرار دے دیا گیا۔ یہود و نصاریٰ کی مکمل سرپرستی و تعاون کی وجہ سے اس قانون کا مؤثر نفاذ تو نہ ہو سکا لیکن بہت حد تک مرزائیوں کے اثر و نفوذ کا راستہ روک دیا گیا۔
سات ستمبر کا دن پاکستان کے مسلمانوں کے لیے خصوصی طور پر اور دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے عمومی طور پر ایک یاد گار اور تاریخی دن ہے۔یہ دن ہمیں اس تاریخ ساز فیصلے کی یاد دلاتا ہے جو پاکستان کی قومی اسمبلی نے عقیدہٴ ختم نبوت کی حقانیت کا بر ملا اور متفقہ اعلان کرتے ہوئے جاری کیا تھا۔اس عظیم اور تاریخ ساز فیصلے کی رو سے مرزا قادیانی اور اس کے ماننے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا تھا۔قومی اسمبلی نے جمہوری طریقے کے مطابق متفقہ طور پر یہ بل پاس کیا۔اس دن کو یاد رکھنا اور اس کے بارے میں نئی نسل کو آگاہ کرنا ہمارا فرض ہے اوریہ یقینا ختم نبوت کے تحفظ کا ایک عمدہ ذریعہ ہے۔اس حوالے سے میری پوری اُمت مسلمہ اور بالخصوص پاکستانی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ6ستمبر کو ” یومِ دفاعِ پاکستان“ منانے کی طرح 7ستمبر کو ”یومِ ختم ِ نبوت“عظیم الشان طریقے سے منانے کا اہتمام کرے ۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت1974ء کی آئینی ترمیم اور1984ء کے امتناع قادیانیت آرڈیننس پر نیک نیتی کے ساتھ موٴثر طور پر عمل در آمد کرائے اورمرزائیوں کو اپنی حیثیت کے اندر رہنے کا پابند بنائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں مرتد کی شرعی سزا نافذ کرے۔اس کے علاوہ قادیانیت کی تبلیغ وتشہیر کی پابندی پر بھی سختی سے عمل درآمد کرایاجائے، تاکہ روئے زمین سے قادیانیت کا نام ونشان تک مٹ جائے۔
کیونکہ تعلیمی اوررفاہی کاموں کی آڑ میں قادیانیت کی تبلیغ کے راستے ہموار کیے جارہے ہے امریکہ ومغربی ممالک اور افریقی ممالک کے علاوہ پوری دنیا میں حتیٰ کہ جدہ میں قادیانی اپنی ٹیکنیک سے کام کر رہے ہیں اور ہم ابھی تک روایتی کام کے دائرے سے باہر نکل کر صورتحال کا حقیقی ادراک کرنے کیلئے تیار نہیںپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کچھ لوگ قادیانیوں کا حق الخدمت ادا کر رہے ہیں ایسے میں زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ تحفظ ختم ِنبوت کے محاذکی تمام جماعتیں ،ادارے اور شخصیات لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی صورتحال پر نظر رکھیں اورممکن حد تک تر جیحات طے کرنے میں باہمی مشاورت سے کا م لیں !خلاصہ یہ ہے کہ قادیانی مسلمانوں سے علیحدہ قوم ہیں، ان کے نظریات بھی یہی بتا رہے ہیں۔ان کا اعتراف بھی یہی ہے ۔ اسی کے مطابق قومی اسمبلی نے آئین میں ترمیم کرکے انہیں غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا جو عین انصاف ہے۔ جب سے یہ قانون بنا ہے اس وقت سے کوششیں جاری ہیں کہ کسی طرح یہ قانون یا تو ختم ہوجائے یا اس میں اس طرح ترمیم کردی جائے کہ اس کی افادیت ختم ہوجائے۔ 7؍ستمبر کے موقع پر پوری امت مسلمہ خصوصاً پاکستانی قوم یہ عہد کرے کہ ہم اس قانون کو تبدیل ہو نا تو دور کی بات ہے،اس میں ادنیٰ سی ترمیم بھی نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے لیے پوری قوم کو ہمہ وقت بیدار اور چوکنا رہنا ہوگا کہ کوئی بھی چورراستے سے اس میں نقب زنی نہ کرسکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب رسالت و ختم ِنبوت کے لئے متفق ومتحد ہو کر حقیقی کام کی تو فیق سے نوازیں ،خاتم النبیینﷺ کی ختم نبوت کی حفاظت فرمائے اور ہمیں سرکار دو عالمﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے قبول فرمائے۔(آمین یارب العٰلمین)