یکساں نصابِ تعلیم یا مغربی ایجنڈا؟
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
مسلمانوں کے عروج سے انسانی دنیا اور ان کی زندگیوں پر جو مثبت اور زوال سے جو منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں تاریخ انسانی سے واقف ایک ادنی طالب علم بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا ،لیکن انسانوں میں ہمیشہ سے ایک ایسا استعماری طبقہ چلا آرہا ہے جو اپنے سینو ں میں موجود کینہ ،بغض اور حسد کی بنا پر انسانیت کو آسمانی ہدایت وراہ نمائی سے محروم کر کے ان کا استحصال کرنا چاہتا ہے،چوں کہ مغربی استعماری قوتوں کو اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ ان کے منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں آخری رکاوٹ ”دینی مدارس“ہیں ،اس لیے ان کا سا راز و راس پر ہے کہ کسی بھی طرح سے مدارس کو راہ سے ہٹا دیا جائے ،اگر ایسا نہ ہو سکاتو ان کے نصاب میں ایسی تبدیلیاں کروائی جائیں کہ مدارس سے بھی ”لارڈ میکالے“کے دیے ہوئے نظام تعلیم کی طرح انہیں کہ پروردہ لوگ نکلیں ،جن میں دنیا کو حقیقی اسلام سے متعارف کروانے کی صلاحیت ہی نہ رہے،جو ہر طرح کے جذبہ حریت سے خالی ہوں۔اہل مغرب کی طرف سے ”مدارس دینیہ “کے بارے میں آئے روز جو نت نئے پرپیگنڈے کیے اور دیسی نمک خواروں کے ذریعےآئے روز کروائے جارہے ہیں ۔کیونکہ دشمنانِ اسلام اپنے دلوں کے بغض وعناد کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہر اس چیز کی عمارت کو منہدم کرنا چاہتے ہیں جو اسلام سے تعلق رکھتی ہو، خواہ وہ قرآن کریم ہو، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو اور ہر اُس ہستی کی شکل وصورت کو بگاڑ کر پیش کرنا چاہتے ہیں جس نے اسلام کا جھنڈا بلند کیا ہے، خواہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت یا سنت کے حاملین مجتہدین ہوں یا محدثین اور ہر زمانہ کے علمائے کرام یا ان کے قائم کیے گئے مدارسِ دینیہ۔
الغرض حکومت اور مقتدر قوتوں کا بیرونی دباؤ کی بناپر ایک ہی اصرار ہے کہ کسی طرح دینی مدارس کا نظام اور نصاب ختم کیا جائے،اورعنوان اس کاہےیکساں نصابِ تعلیم مگر مقصدمغربی ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے۔یکساں نصاب تعلیم جب مغرب اور اس کے زیرِ اثر اداروںاور فنڈنگ کے ساتھ تشکیل دیا جا ئے گاتو اس میں اسلامی نظریات اور اقدار کہاں ہوں گی؟نصابِ تعلیم کی آڑ میں مختلف ادوار میں مدارس کے خلاف مہم جوئیاں ہوتی رہیںتاکہ دینی مدارس کو گورنمنٹ کے ماتحت لایاجائے ۔ ابتدا میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے باقاعدہ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے عنوان سے دینی مدارس کے ساتھ ’’ہمدردی‘‘ کا اعلان کیا اور اس کے کچھ عرصہ بعد ’’قومی کمیٹی برائے دینی مدارس ‘‘ کے جال میں دینی مدارس کو پھانسنے کی کوشش کی، لیکن اس وقت کے علماء کرام کی دور اندیشی تھی، انہوںنے اعلان کیا کہ اپنے دینی اداروں کو چلانے کے لیے گورنمنٹ سے کسی قسم کی گرانٹ یا امداد نہ لی جائے، بلکہ آزاد حیثیت میں رہ کر اور عام مسلمانوں کی زکوٰۃ، صدقات اور عطیات سے اپنے اداروں کو چلایا جائے۔ الحمدللہ! علمائے کرام کے اس بروقت اقدام کی بناپر مدارسِ دینیہ حکومت کے دست برد سے بچ گئے۔ اس کے بعد پرویز مشرف کے دور میں دینی مدارس کو بہت ہی زیادہ نشانے پر رکھا گیا اور مدارس کو کنٹرول کرنے کے لیے ’’ماڈل دینی مدارس‘‘ کے عنوان سے آرڈی نینس بھی جاری کیا گیا، جس کے ماتحت ماڈل دینی مدارس بنائے گئے جو بری طرح ناکام ہوئےاور اب تحریکِ انصاف کی گورنمنٹ اسے پورے پاکستان میں یکساں نصابِ تعلیم کے عنوان سے نیا جال لے کر آگئی ہے۔ اور مدارس کو اس جال میں پھانسنے کے لیے معاہدات وغیرہ بھی کررہی ہے۔حکومت کی بدنیتی اس میں بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یکساں نصابِ تعلیم اگر پورے ملک کے لیے ہے تو پرائیویٹ اسکول بھی اس میں شامل ہونے چاہئیں، جب کہ آغا خان فاؤنڈیشن اور بیکن ہاؤس اسکول اور دانش کدہ جیسے ادارے اس میں شامل نہیں۔ صرف ان سرکاری اسکولوں کو اس میں شامل کیا ہے، جہاں پہلے تو بچے پڑھنے جاتے ہی نہیں، اگر جاتے ہیں تو صرف ان غرباء کے بچے ہوتے ہیں جن کے پاس پرائیویٹ اسکولوں یا معیاری اسکولوں میں پڑھانے کی سکت نہیں۔ تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ صرف ’’مدارسِ دینیہ‘‘ کو اس شکنجہ میں کسا جائے گا، باقی سب آزاد رہیں گے۔
موجودہ دور میں یہ مدارس اسلامیہ اور دینی درسگاہیں مسلمانوں کا ایک بڑا قیمتی سرمایہ ہے،دین اسلام کا سرچشمہ ہےاور دین اسلام کی تحفظ و بقاء انہیں مدارس اسلامیہ کی بقاء سے ہے۔اس لئے مسلم قوم کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور مدارس اسلامیہ کی بقاء اور تحفظ کے لئے جو اقدامات ممکن ہوں انہیں اپنانے میں دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ اورحکمران طبقہ دینی مدارس کے خلاف سازشوں سے باز آ جائے۔دینی مدارس پاکستان کی بقا اور سالمیت کی علامت ہیں مملکت خدا داد پاکستان کی بقا اور سالمیت کیلئے علما کرام اور اہل مدارس کے لازوال قربانیاں اور خدمات ہیں،وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔کوئی بھی ہوشمند اور ذی شعور اور منصف مزاج انسان اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا۔ اور مسلم عوام الناس سے درخواست ہے کہ اسلام دشمنوں کی سازشوں کو سمجھیں اور حسب سابق مدارس کی امداد کا سلسلہ جاری رکھیں۔
