یوم وفات وکیل صحابہ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب رحمہ اللہ

یوم وفات وکیل صحابہ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب رحمہ اللہ
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
عند ذکر الابرار تنزل الرحمۃ نیک بندوں کے تذکرہ سے رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ولی کامل وکیل صحابہ حضرت مولاناقاضی مظہر حسینؒ خلیفہ مجاز شیخ الاسلام محمد حسین مدنی کے شاگردِ رشید اور دار العلوم دیوبند ہیں۔ آپ کی یکم اکتوبر 1914ء بمطابق 10 ذوالحج 1336 ہجری چکوال کے علاقہ بھیں میں منا ظر اسلام مولانا کرم دین دبیر رحمہ اللہ کے ہاں ولادت ہوئی،جن کا نام مظہر حسین رکھاگیا۔ حضرت قاضی صاحب کے والد محترم حضرت مولانا کرم الدین دبیرؒ اپنے دور کے بڑے علماء میں سے تھے اور ان کی شہرت دور دراز تک تھی۔ انہوں نے قادیانیت اور روافض کے خلاف اہل سنت کے موقف کے دفاع میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ قادیانیوں کے ساتھ ان کی عدالتی معرکہ آرائی ’’تازیانۂ عبرت‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہے جبکہ روافض پر ان کی معرکۃ الآراء کتاب ’’آفتابِ ہدایت‘‘ نے خاصی شہرت حاصل کی ہے۔ وہ اپنے دور کے معروف مناظر اور واعظ تھے اور انہوں نے بہت سے مناظروں اور مباحثوں میں حصہ لیا۔
حضرت قائد اہلسنت قاضی صاحب نے ابتدائی تعلیم علوم عربی فارسی صرف نحو اور قرآن مجید کی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی1928 میںگورنمنٹ ہائی سکول چکوال سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد 2 سال تک گورنمنٹ پرائمری سکول بھیں میں بچوں کو تعلیم دینے کے بعد اشاعت اسلام کالج لاہور میں داخلہ لیا اور 2 سال تک 1933ء تا 1934ء اس ادارے میں تعلیم حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی میں فاضل عربی کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔اس کے بعد دینی علوم و فنون کی تکمیل کے لئے جامعہ عزیزیہ بھیرہ میں داخل ہوئے اور علوم و فنون پڑھے۔ 1936ء اور 1937ء میں دار العلوم عزیزیہ بھیرہ سے دورۂ حدیث شریف موقوف کرنے کے بعد 1937ء تا 1939ء میں دار العلوم دیوبند سے 1937 میں دارلعلوم دیوبند پہنچے جہاں شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد مدنی رح مولانا نافع گل مولانا ابراہیم بلیاوی مولانا میاں اصغر حسین مفتی اعظم مولانا مفتی شفیع مولانا شمس الحق افغانی کی صحبت میں قرآن حدیث کا علم حاصل کیا۔اورحضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے آپ کو خلافت سے بھی نوازا۔
جولائی 1941ء سے 1949ء تک انگریز کے دورِ حکومت میں راولپنڈی، جہلم، لاہور اور ملتان کے اسیر خانوں میں قید رہے۔ 1949ء میں رہائی کے بعد چکوال میں تبلیغ اشاعت کا کام جاری کرتے ہوئے بھیں میں مدرسہ اظہار الاسلام کی بنیاد رکھی۔ 1955ء میں چکوال میں تبلیغ کا کام شروع کرتے ہوئے مختلف مساجد میں درسِ قرآن دئیے۔ 19 فروری 1952ء میں امدادیہ مسجد پنڈی روڈ چکوال میں دار العلوم کی بنیاد رکھی جس میں حضرت مولانا غلام حبیب کو مہتمم مقرر کیا گیا۔ مجلس مشاورت میں حضرت قبلہ قاضی مظہر حسینؒ شامل ہوئے۔ 28 جنوری 1955ء کو امدادیہ مسجد پنڈی روڈ میں جامعہ عربیہ اظہار الاسلام کی بنیاد رکھی ۔ 1956 میں جمعیت علماء اسلام کی تشکیل نو ہوئی اور قائد اہلسنت مولانا قاضی مظہر حسین مجلس شوری کی ممبر اور ضلع جہلم کے امیر مقرر ہوئے امیر منتخب ہونے کے بعد جمعیت کا پیغام گھر گھر پہنچانے کے لیے سرگرم رہے جمعیت کے صوبائی انتخابات میں مولانا مفتی شفیع سرگودھوی رح کو جمعیت علماء اسلام پنجاب کا امیر اور قائد اہلسنت کو ناظم عمومی بنایا گیا 1957 جنگ آزادی (1857) کا صد سالہ تھا اس سال کو جمعیت نے بڑء زور شور سے منایا 11مئی 1957 (1857 کا وہ دن جب ہندوستانی فوج نے میرٹھ کی چھاونی میں انگریز کے خلاف بغاوت کی) کو چکوال کے چھپڑ بازار میں ایک کانفرنس منعقد کی جس میں اکابر علماء دیوبند کی شاندار کارناموں اور کردار میں ایک شاندار خطاب کیا مولانا عبدالطیف جہلمی نے جمعیت علماء اسلام کے اغراض و مقاصد بیان کئے۔
1969ء میں تحریک خدام اہلسنت کی بنیاد رکھی اور اس کے امیر مقرر ہوئے۔ تحریک نے اہلسنت میں فکری اور ذ ہنی انقلاب برپا کر دقائد اہلسنت حضرت قاضی صاحب کی کم و بیش 70 مشہور تصانیف ہیں جن میں کئی بہت مشہور ہیں۔ آپ کی تصانیف ان شاء اللہ تاقیامت مشعل راہ رہیں گی آپ نے جو کچھ لکھا، وہ بے نظیر ہے۔ اس موضوع پر کام کرنے والے ان سے استفادہ کرتے رہیں گے۔ فروری 1989ء میں ایک جریدہ ماہنامہ ’’حق چاریارؓ ‘‘ جاری کیا جس میں تفکر اور تدبر کے نام سے پہلا اداریہ آپؒ نے لکھا۔ اس کے بعد جب تک آپؒ کی صحت رہی اھدنا الصرط المستقیم کے نام سے یہ اداریہ لکھتے رہے اور یہ مضمون دسمبر 1998ء تک 60 قسطوں میں 5 سال تک رسولِ رحمت کے نام سے چھپتا رہا۔
آپؒ نے زندگی میں متفرق اوقات میں 10 سال جیل میں گذارے اور درجنوں اضلاع میں کئی کئی ماہ تک ہر حکومت میں داخلہ پابندی رہی۔ایک واقعہ جناب انجم نیازی اپنی کتاب ’’ایک تنہا آدمی‘‘ (خود نوشت) میں لکھتے ہیں:’’ایک دن میں ایس ڈی ایم صاحب کے پاس بیٹھا تھا۔ پولیس والوں کے چہرے اترے ہوئے تھے اور گھبراہٹ میں ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ بار بار ایس ڈی ایم کے پاس آتے اور واپس چلے جاتے۔ پتہ چلا کہ چکوال میں ’’آل پاکستان احمدیہ کانفرنس‘‘ کا انعقاد ہونا ہے۔ اس کے لئے ساری انتظامی مشینری مصیبت میں پڑی ہوئی ہے۔ ان دنوں ایم ایم احمد، ایوب خان کا دست راست تھا اور اس کی وجہ سے مرزائی پورے عروج پر تھے۔ حکومت اور اس کی ساری مشینری ان کے اشارے پر چلتی تھی۔ میں نے گھبراہٹ کی وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ قاضی مظہر حسین نے الٹی میٹم دے رکھا ہے کہ یہ جلسہ اس کی لاش پر ہو گا۔ میں نے کہا کیا ایک مولوی کے خوف سے اس قدر سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے؟ مولوی کے لئے تو ایک اے ایس آئی ہی کافی ہوتا ہے۔ جواب ملا وہ ایسا مولوی نہیں ہے جس کے لئے ایک اے ایس آئی کافی ہو۔ اس کے لئے تو پاکستان بھر کی ساری انتظامی قوت بھی ناکافی ہے۔ اول تو وہ کوئی فیصلہ بلا سوچے سمجھے جلدی میں کرتا ہی نہیں۔ جب فیصلہ کر لے تو پھر کسی قیمت پر بدلتا نہیں۔ خوف اور لالچ کے الفاظ اس کے لغت میں ہیں ہی نہیں۔ وہ کئی بار آزمایا جا چکا ہے۔ ایک گولی کے لئے نہیں، کئی گولیاں کھانے کے لیے میدان میں آئے گا۔ اس کی پیش قدمی فوجی ٹینک بھی نہیں روک سکتے۔ ٹینک اسے کچل سکتے ہیں، اس کو روک نہیں سکتے۔ میں حیران تھا کہ چکوال میں ایسی شخصیت موجود ہے۔ جس سے ساری حکومتی مشینری خوف زدہ ہے۔کانفرنس کا دن آنا تھا، آ گیا۔ قادیانیوں نے لائوڈ سپیکر پر اپنی تقریریں شروع کر دیں۔ ان کی عبادت گاہ کو چاروں طرف سے پولیس نے گھیر رکھا تھا۔ مگر وہ چند منٹ ہی تقریریں کر سکے۔ اس کے بعد لائوڈ سپیکر کی آواز بند ہو گئی۔ قادیانی صحن سے بھاگ کر عبادت گاہ کے کمرے کے اندر خوف سے ایک دوسرے کے اوپر ڈھیر ہو گئے۔ پتہ چلا کہ جس مولوی کا خطرہ تھا، وہ مولوی آ پہنچا ہے۔ اس کے ساتھ ایسے سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نوجوان تھے جو گولیوں کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ پہلے تو پولیس نے اپنا دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا۔ رائفلیں لوڈ کر لی گئیں۔ سپاہیوں نے گولی چلانے کی پوزیشن سنبھال لی۔ ڈی ایس پی نے ایک لکیر کھینچی اور کہا کہ جو اس لکیر سے آگے آئے گا، ہم گولی چلا دیں گے۔ اس لائن کو سب سے پہلے کراس کرنے والا وہی مولوی تھا جس نے الٹی میٹم دے رکھا تھا۔بہادری اور شجاعت بھی اپنے اندر کمال کا حسن رکھتی ہیں، بشرطیکہ یہ صداقت کے لئے ہو۔ اب ڈی ایس پی کی ساری شوخی ، رعب اور دبدبہ کی مصنوعی عمارت زمین بوس ہو گئی۔ اس کو نوکری خطرے میں گھری ہوئی محسوس ہونے لگی یا اس کے اندر ایمان کی کسی کرن نے کروٹ لی۔ اس نے قاضی مظہر حسین کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور کہا کہ آپ ہمارے حال پر مہربانی کریں۔ کوئی ایسا حل بتائیں جس پر ہم عمل کر سکیںقائداہلسنت قاضی مظہر حسین رحمہ اللہ نے کہا: لائوڈ سپیکر اتار لو جو کچھ انہوں نے کہنا ہے، بند کمرے میں کہتے رہیں۔ ہم جھوٹے نبی کی کھلے عام تبلیغ برداشت نہیں کر سکتے۔
حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ کی جدوجہد دین کے ہر شعبے میں تھی لیکن دو باتوں کو ان کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی اور ان کی تگ و دو کا اکثر و بیشتر حصہ انہی دو امور کے گرد گھومتا تھا۔ ایک اہل سنت کے مذہب و عقائد کی ترویج اور دوسرا علماء دیوبند کے مسلک کا تحفظ۔ ان دو حوالوں سے وہ کسی مصلحت یا لچک کے روادار نہیں تھے اور کسی کو رعایت دینے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ ان کے نزدیک عقائد اور ان کی تعبیرات کے باب میں اکابر علماء دیوبند کی تصریحات ہی فائنل اتھارٹی کی حیثیت رکھتی تھیں۔ کسی بھی حلقہ یا شخصیت کی طرف سے اس سے ہٹ کر کوئی بات سامنے آتی تو کسی جھجھک کے بغیر اس کی تردید کر دیتے اور اس معاملہ میں ان کے ہاں کوئی ترجیحات یا پروٹوکول نہیں تھا۔
آپؒ نے چکوال میں 14 جولائی 1960ء کو جامعہ اہلسنت تعلیم النساء قائم کیا جس میںہزاروں بچیاں حفظ وناظرہ اور سینکڑوں طالبات شعبہ فاضلات سے سند فراغت حاصل کر چکی ہیں۔ جامعہ عربیہ اظہار الاسلام کے تحت درجنوں بیرونی شاخیں قائم ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں بچے قرآن و حدیث، تفسیر اور دُوسرے دینی علوم و فنون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔قائد اہلسنت قاضی مظہر حسین صاحب نے 1958 میں مدنی مسجد کی خطابت شروع کی اور قریباً 45سال سے زائد عرصہ تک مسلسل درس قرآن دیا۔ اور یہاں سے ہی پورے ملک میں مولانا قاضی مظہر حسین نے اہلسنت و الجماعت کے عقیدے کی ترجمانی کی۔ جامع مدنی مسجد چکوال تحریک خدام اہل سنت والجماعت پاکستان اور جامعہ عربیہ اظہار الاسلام چکوال کا مرکز بھی ہے
حضرت قائد اہلسنت زندگی کی آخری سانس تک باطل کے خلاف صف آرا رہے قائد اہلسنت کا پیغام سنی قوم کے نام یہ تھا اکثر فرماتےجوصحابہؓ کا نہیں وہ ہمارا نہیں۔مال سے محبت نہیں کی ۔اللہ کی رضا کے لیے اس کی مخلوق سے محبت کی اور دین کی تعلیم ودعوت اوردین دشمنوں کی سرکوبی میں زندگی تمام کردی۔وہ دنیا وآخرت میں کامیاب ہوگئے۔ساری زندگی حق سچ بولا، اللہ کی توحید بیان کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت ورسالت اور عقائدِ صحیحہ بیان فرمائے۔ 26 جنوری 2004 کو قافلہ مدنی کا پاکستان کا چکمتا دمکتا ستارہ اپنی حیات مستعار کے 90سال پورے کرکے اپنے خالق حقیقی سے جاملا ‏۔ عیسوی حساب سے شمار کیا جائے تو وفات کے وقت ان کی عمر نوے برس بنتی ہے، لیکن اگر ہجری سن کا اعتبار کیا جائے تو دو اڑھائی برس بڑھ جائیں گے اور ان کی عمر ترانوے برس شمار ہوگی۔چکوال شہر نے جو منظر 26 جنوری 2004ء کو وکیل صحابہؓ حضرت قبلہ قاضی مظہر حسینؒ کی نماز جنازہ کا دیکھا وہ ایک عوامی سیلاب سے کم نہ تھا۔ اہل سنت کے جلیل القدر امام حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا قول مشہور ہے کہ ’’ہمارا جنازہ ہمارے بارے میں شہادت پیش کر دے گا‘‘۔ کیا یہ مقبولیت ومحبوبیت کسی فراہی، کسی اصلاحی یا کسی غامدی کے حصے میںآ سکتی ہے؟ اگر صرف اس نکتے پر غور کر لیں تو کافی ووافی ہے۔ اللہم اہدنا الصراط المستقیم۔اللہ تعالیٰ اپنی جوارِ رحمت میں ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔