گستاخ رسول ﷺ کی سزا
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
مرد مجاہد غازی محمد خالد پٹھان صاحب حفظہ اللہ نے کس کو قتل کیا اور کیوں قتل کیا ؟؟؟ملزم نے دعوی نبوت کیا تھا اور اس پہ اس کے بیانات بھی تھے قتل کی وجہ قادیانی ہونا نہیں بلکہ دعوی نبوت کرنا اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرناتھااورفیس بک اور وٹس ایپ پر نوجوانوں کو گمراہ کرتا تھا، یوٹیوب پر اس لعین کے بہت سارے ویڈیوز موجود ہیںجو کہ اسکی غلیظ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔مقتول کا نام طاہر قادیانی تھا اور 2018 میں تھانہ سربند میں اس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔دو سال سے مقدمہ کی پیروی ہوتی رہی لیکن پیشی پر پیشی ہونے کی وجہ سے کیس آگے نہ بڑھ سکا ، این جی اوز نے اس ملزم کے حق میں مظاہرے بھی کئے اور اسکی طرف سے فریق بھی بنے ، آج دو سال میں 13 ویں پیشی تھی جس میں ایک مرد مجاہد نے اسکے سر میں گولی مار کر قتل کر دیا یہ بات طے ہے کہ اسلام کسی فرد کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا تو پھر لوگ کیوں قانون کو ہاتھ میں لےلیتے ہیں !آخر کیوں ؟؟؟وہ اس لئے کہ جب عدالتیں گستاخوں کو تاریخوں پر تاریخیں دیں،ججوں کے قلم یورپ سےفیصلہ آنے کا انتظار کریںاور آخر میں حکمران طبقہ گستاخ کوہڈی ملنے پر یورپ بھجوادیںاور جب ججوں کے قلم بِک جائیں تووہاںغازیوں کی تلواریں خودفیصلے کرتی ہیں۔ظاہر سی بات ہے عوام الناس کا اعتماد ہمارے موجودہ نظام عدل سے بالکل اٹھ گیاہے اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہر شخص فوری انصاف کا طالب ہے اگر 295 سی کو ختم ہی کردیاگیا تو پھر تو ہر نوجوان فوری فیصلہ کرے گا اس پہ سب ارباب اقتدار کو سوچناہوگا اور یہ بات بھی طے ہے کہ عزت اُسی کی ہوگی جو حضورﷺ کی اہل بیت و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزّت کی بات کرے گا۔اوراس واقعہ سے ایک بات پوری دنیا پر عیاں ہوگئی ہےکہ مسلمان چاہےکتنا ہی کمزور عقیدے والااور کتنا ہی گنہگار کیوں نہ ہو، لیکن اپنے پیارے نبی خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتے۔ لفظ خاتم النبیین پر لڑکھڑاتی زبان والوں کو بھی یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئےکہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام ناموس رسالت پر تن من دھن قربان کرنے کو تیار ہیں۔
گستاخانِ رسولﷺ اور ناموسِ رسالت پر کیچڑ اُچھالنے والوں کو قرآنِ کریم ، سنتِ رسول ﷺ، اجماعِ صحابہ ، اجماعِ اُمت اور قیاسِ صحیح کی رو سے کافر قرار دیا گیا ہے اورنبی خاتم ﷺکو اذیت پہنچانے ، آپ ﷺ کا مذاق اُڑانے اور استہزا کرنے والوں کی سزا قتل طے پائی ہے۔ رسولﷺ کا اِستہزا و مذاق اُڑانا کفر ہے اور سبّ و شتم تو مذاق اُڑانے سے بھی بدترین فعل ہے لہٰذا سنجیدگی سے ہو یا ازراہِ مزاح، نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی اور ناموسِ رسالت پر اُنگلی اٹھانے والاکافر ہوجاتا ہے۔اور ناموسِ رسالت پر حرف گیری کرنے والے کے لئے دنیا و آخرت کی لعنت اور ذلّت ناک عذاب کی قرآن وحدیث میںوعید یںسنائی گئی ہیں جو ایسے شخص کے کفر کی واضح دلیل ہے، کیونکہ ذلت ناک عذاب قرآنِ کریم میں صرف کفار کے لئے ہی آیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اطاعتِ رسول ﷺکواپنی اطاعت سے اور اذیّتِ رسول ﷺکو اپنی اذیت سے ملاکرقرآن کریم میں بیان فرمایا ہے اور جو شحص نبی اکرم ﷺ کو اذیت دے، اس نے گویا اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی وہ کافر حلال الدم ہے۔تحفظِ ناموسِ رسالت کے لئے جس طرح قرآنِ کریم کی متعدد آیات اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والے آدمی کو قتل کردینا ضروری ہے، اسی طرح نبی اکرمﷺکی شان میں بے ادبی و گستاخی کرنے، نبیﷺ کا مذاق اُڑانے اور آپﷺ سے استہزا کرنے والوں کے واجب القتل ہونے اور ان کے خون کے رائیگاں جانے کا پتہ بکثرت احادیثِ رسول ﷺسے بھی چلتا ہے۔ سنن ابو داؤد میں ایک نابیناصحابی رضی اللہ عنہ نے نبیﷺ کو گالیاں دینے والی ایک یہودی عورت کو گلا دبا کر قتل کردیاتھا اور صبح جب معاملہ نبیﷺ کے سامنے آیا تو آپ ﷺنے اُس کا خون رائیگاں قرار دے دیا۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ حدیث ذکر کرکے لکھا ہے کہ یہ اس عورت کے قتل میں نصّ ہے کیونکہ وہ نبیﷺکو گالیاں دیا کرتی تھی۔ اور یہ حدیث کسی ایسے مسلمان مردوزن یا ذمّی کے واجب القتل ہونے کی بھی بالاولیٰ دلیل ہے جو نبیﷺ کو سبّ و شتم کرے۔ور یہ بھی قانونِ قدرت ہے کہ جسے اہلِ ایمان اس کی اہانت و گستاخی کی سزا نہ دے سکیں تو اُس سے خود اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺکا انتقام لیتا ہے اور وہ ہی کافی ہوجاتا ہے جیسا کہ کسریٰ ایران نے نبی اکرم ﷺکے مکتوبِ گرامی کو چاک کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کے پورے خاندان کو ملیا میٹ کردیا اور اس کی حکومت تو کیا رہتی، اچھائی سے نام لیوا بھی کوئی نہ بچا تھا۔اس لئے نبی اکرم ﷺ کے شاتم و گستاخ اور دریدہ دہن کی سزا قتل ہے اور اس پر تمام صحابہ کرام کا اجماع و اتفاق ہے اور اس مسئلہ میں صحابہ کرام اور تابعین کے اس اجماع کے خلاف کسی ایک بھی صحابی یا تابعی کا کوئی اختلاف قطعاً ثابت نہیں ہے ۔
اب رہے بعض لادین عناصر یا لبرل کہلوانے والے تو وہ اسے ایک جذباتی مسئلہ سمجھتے اور گستاخِ رسولﷺکے قتل کی سزا کو شدّت پسندی قرار دیتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شاتم و گستاخِ رسول ﷺ کو قتل کرنے کا مسئلہ جذباتی نہیں بلکہ خالص شرعی و علمی مسئلہ ہے، کوئی مسلمان اس بات کو کیسے پسند کرے گا کہ کوئی نبی ٔ برحق حضرت محمد رسول اللہ ﷺکا مذاق اُڑائے، استہزا کرے، سبّ و شتم کا رویہ اپنائے یا گستاخی اور توہین و تنقیصِ رسالت کا ارتکاب کرے؟اگر کوئی مسلمان اس فعل کا ارتکاب کرے تو وہ کافر و مرتد اور زندیق ہو جائے گا اور اگر کوئی کافر ایسا کرتا ہے تو وہ بھی اس جرمِ توہین و تنقیص کا مرتکب قرار پائے گا اور اسلامی حکومت پر واجب ہے کہ ایسے شخص کو سزائے موت دے۔
