از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
ویسے تو پلے اسٹور پر مختلف ایسے ایپس ہیں جو بے حیائی کو فروغ دینے کا کام کررہے ہیں؛ لیکن اس میں ایک ایپ آپ کی نظروں سے گزرا ہوگا؛ بلکہ اکثر مسلمانوں کے پاس وہ ہوگا بھی جس سے وہ انجوائے کرتے ہیں۔ اس ایپ کا نام ہے ‘ٹک ٹاک، جی ٹک ٹاک جسے آپ فحاشی کا اڈہ، بے حیائی کا گہوارہ، غیرت کا جنازہ کہہ سکتے ہیں۔ٹک ٹاک (Tik Tok ) سے متعلق جو معلومات مجھے ملی ہیں، ان سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ٹک ٹاک دورِ حاضر میں بڑھتا ہوا سوشل میڈیا کا ایک انتہائی خطرناک فتنہ ہے،ٹک ٹاک یہ ایک وڈیو ایپ ہے جس کے ذریعہ چھوٹے چھوٹے وڈیو بنائے جاتے ہیں اور انٹر نیٹ پر اپلوڈ کرکے اسے پھیلاجاتا ہے جو لوگ ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں ان تک اس طرح کی وڈیوز کی عام رسائی ہوتی ہے۔اس ایپ کو2016ء میں چین نے لانچ کیا گیاتھا۔ٹک ٹاک، سوشل میڈیا کا ایک بڑھتا ہوا فتنہ ہے جس کا بنیادی مقصد بے حیائی کو فروغ دینا ہے،اس ایپ کی بیماری میں دنیا بھر کے اکثر نوجوان ملوث ہیں، اس ایپ ٹک ٹاک کو اتنی شہرت حاصل ہوئی جتنی گزشتہ سالوں میں فیس بک(Facebook) کو بھی شہرت حاصل نہیں ہوئی 150 ممالک کے لوگ اس کو استعمال کر رہے ہیں، اور اس ایپ کو لانچ کرنے کا مقصد صرف اور صرف اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا تھا، اور آپ اس ایپ(app) پر دیکھیں گے کہ سارے مذاہب کا مذاق بنا ہوا ہے مگر پھر بھی لوگ اس بے حیائی کے سمندر میں غرق ہوتے جا رہے ہیں، اور اپنے ہی ہاتھوں اپنے مذہب کا مذاق بنا رہے ہیں، اور ایک اندازے کے مطابق اس ایپ کو مسلم قوم زیادہ استعمال کر رہی ہے اور اس میں سب سے زیادہ تعداد مسلم خواتین کی ہے، مسلم خواتین بن سنور کر ایسے ایسے برہنہ کپڑے پہن کر سامنے آتی ہیں کہ جسکا مذہب اسلام میں دور دور تک بھی شائبہ نہیں پایا جاتا، اور دشمنان اسلام یہی چاہتے ہیں کہ قوم مسلم کو ننگا اور برہنہ کیا جائے، اور ان کو اسلامی تعلیم سے ہٹا کر انہیں گیمس اور بے حیائی والے ٹک ٹاک (tik tok) پر لگا دیا جائے تاکہ وہ اپنا قیمتی وقت اس میں برباد کریں، اور ان کا منصوبہ ہے کہ جب قوم مسلم تعلیم کے میدان میں خالی نظر آئے گی۔کسی بھی قوم کو تبا ہ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے غیر ضروری کاموں اور فضول بحثوںمیں الجھا دیا جائے۔ کچھ قومیں یہ غلطی خود کرتی ہیںتو کچھ کے دشمن یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت ان پر مسلط کرتے ہیں۔ توجس سے حکومت ہماری رہے گی غلام ہمارے رہیں گے۔
کسی زمانے میں جنگیں انسانی طاقت کی بنیاد پر لڑی جاتی تھیں۔پھر جسمانی طاقت کی جگہ آتشیں اسلحے نے لے لی۔ یہ ’’ سیکنڈ جنریشن وار‘‘ تھی۔ دوسری جنگ عظیم نے ’’ تھرڈ جنریشن وار‘‘ کو جنم دیا جس میںبحری اور فضائی طاقت کے ساتھ پراپیگنڈہ کی اہمیت اجاگر ہوئی۔پھر ’’ فورتھ جنریشن وار‘‘ کا زمانہ آیا، جس میں میدان جنگ کو کسی اور ملک میں منتقل کرنے کے ساتھ یہ کوشش کی گئی کہ جنگ میں عملی طور پر حصہ لینے والوں کی اکثریت بھی کسی دوسرے ملک کی ہو تاکہ حملہ آور کا کم سے کم جانی نقصان ہو۔ آجکل کے زمانے کی ’’ ففتھ جنریشن وار‘‘ میں نہ تو اسلحہ بارود استعمال ہوتا ہے اور نہ اعلان جنگ کیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ ہی پتہ نہیں چل رہا ہوتا کہ کون در حقیقت کس پر حملہ آور ہے۔ حملہ آور قوم کا اہم ترین اسلحہ ’’ پراپیگنڈہ‘‘ اور نام نہاد ’’ آزاد میڈیا‘‘ اور انسانیت ، امن اور لبرلزم کا نعرہ ہوتا ہے۔ حملہ کی زد میں آنے والی قوم میں سے ہی کچھ لوگ میڈیا میں، خبروں ، کالمز اور ٹالک شوز میں اور کبھی NGOs کی صورت میں اپنی ہی قوم کے نظریے پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ عزت اور بے غیرتی میں فرق صرف احساس کا ہوتا ہے اور اس جنگ کا مقصد کسی قوم میں اس ’’ احساس ‘‘ کو ختم کر دینا ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے نئے لیکن زیادہ مہلک ہتھیار اپنا لیے ہیں اور ہم یہ حقیقت بھول چکے ہیں کہ ’’ اگر امن کی تلاش ہے تو اپنے گھوڑے جنگ کے لیے مکمل تیاری کی حالت میں رکھو‘‘۔
اس جنگ کا سب سے مہلک ہتھیار جسے ہم ’’ ویپن آف ماس ڈسٹرکشن‘‘ کہہ سکتے ہیںوہ یہ ہے کہ اسکولوں کی درسی کتب، تفریحی اور عوامی دلچسپی کی چیزوں اور میڈیا ذریعے سے آنے والی نسل کی نہ صرف بنیادی سوچ تبدیل کر دی جائے بلکہ اسے بیکار کاموں میں مصروف کر دیا جائے۔انکے دماغوں میں’’ انسانیت ‘‘کے نام پر وطن اور مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات کے بیج بو دیے جائیں ۔ تفریح کے نام پر ان میں بیہودگی اور بیکاری پھیلائی جائے۔ نظریہ پاکستان کی جگہ یہ بحث لے لے کہ آخر یہ سرحد کیوں بن گئی۔ یہ سب باتیں کوئی ’’سازشی نظریہ ‘‘ نہیں ہے بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک سمیت امریکہ کی افواج اور ’’ انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل سیکیورٹی‘‘ فتھ جنریشن وار کی تکنیک کو ’’ نان لیتھل ویپن‘‘(NLW) کے طور پر اپنا چکے ہیں ۔ ’’ نیو مڈل ایسٹ‘‘ کا تصور ہو یا پھر ’’ رینڈ کارپوریشن امریکہ ‘‘ کی رپوٹ ’’ سِول اینڈ ڈیموکریٹک اسلام‘‘ جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح ہماری ہی درسی کتب، چینلز، میڈیا اور اور کچھ ’’ لبرلز‘‘ اور NGOsکو استعمال کرتے ہوئے اسلام اور ’’ پاکستانیت‘‘ پر حملہ کرنا ہے۔ کیا ہم نے کبھی احساس کیا ہے کہ ہمارے ہر شہر میں بے شمار مساجد کی موجودگی کے باوجود غیر محسوس طریقے سے ہمارا ہر گھر مندر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بظاہر بے ضرر نظر آنے والے کارٹون ہمارے بچوں کو رام ، سیتا اور ارجن کے ’’ کردار کی عظمت‘‘ کا سبق دے رہے ہیں۔ فتح مکہ سے جہاد کے اصول سیکھنے والی قوم کے بچوںکو جہاد کا واحد مطلب ’’ دہشت گردی‘‘ سکھایا جا رہا ہے۔
اس ایپ کے اس کے علاوہ مختلف مفاسد اس وقت سامنے آچکے ہیں یہی ووجہ ہے بہت سے ممالک نے اس کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے اور نوجوان نسل پر اس کے برے اثرات کو دیکھتے ہوئے اس پر پابندی عائد کی ہے۔برطانیہ کی ایک سماجی تنظیم نے بھی بچوں کے والدین کو باخبر کیا ہے کہ ٹک ٹاک کے ذریعہ جنسی جرائم پیشہ گروہ بچوں کا استحصال کررہے ہیں اور انہیں جنسی جرائم کی طرف راغب کررہے ہیں اس لیے اپنے بچوں کو ٹک ٹاک سے دور رکھیں۔ٹک ٹاک کے جو عمومی نقصانات ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
٭…اس میں عورتیں انتہائی بے ہودہ ویڈیو بناکر پھیلاتی ہیں۔٭… نامحرم کو دیکھنے کا گناہ۔٭… میوزک اور گانے کا عام استعمال ہے۔٭… مرد وزن ناچ گانے پر مشتمل ویڈیو بناتے ہیں۔٭…۔ فحاشی اور عریانی پھیلانے کا ذریعہ ہے۔٭… وقت کا ضیاع ہے، اور لہو لعب ہے۔٭… علماء اور مذہب کے مذاق اور استہزا پر مشتمل ویڈیو اس میں موجود ہیں۔ بلکہ ہر چیز کا مذاق اور استہزا کیا جاتا ہے۔٭… نوجوان بلکہ بوڑھے بھی پیسے کمانے کے چکر میں طرح طرح کی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جنہیں کوئی سلیم الطبع شخص گوارا تک نہ کرے۔یہ سب شرعاً ناجائز امور ہیں۔
اس ایپ کے استعمال کی سب سے بڑی خرابی وقت کی بربادی ہے۔ جو لوگ اس کا استعمال کررہے ہیں وہ جنون کی حد تک اس میں مصروف کار ہیں، ظاہر ہے کہ ایک ایسے کام میں مصروف ہونا جس میں دنیا اور آخر ت کا کوئی فائدہ نہ ہو وہ لایعنی کام ہے اور اس میں وقت لگانا وقت کو ضائع کرنا ہے۔ حدیث میں ہے:
اسلام کی خوبی یہ ہے کہ انسان لا یعنی کام کو ترک کردے، لایعنی کام کرنا اسلام کی خوبی سے محروم ہوناہے۔(سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2317)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول باتوں اور کاموں کو ترک کر دے اور اپنے آپکو صرف ان باتوں اور کاموں میں مشغول رکھے جن کا کوئی فائدہ ہو، جو توجہ کے قابل ہوں اور جن کا کوئی مقصد و مطلب ہو۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب انسان فضولیات سے اجتناب کرتا ہے صرف بامقصد اور فائدے مند چیزوں میں مشغول رہتا ہے تو وہ اپنے اسلام کے حسن اور خوبی کو کمال کے درجہ تک لے جاتا ہے اور جس کا اسلام بہتر ہو جائے اس کا کیا ہی کہنا۔اورعلامہ ابن القیم لکھتے ہیں:وقت کو ضائع کرنا موت سے زیادہ بڑا خسارہ ہے اس لیے کہ وقت کا ضیاع انسان کو اللہ تعالی اور آخرت سے محروم کردیتاہے جب کہ موت سے انسان دنیااور اسباب دنیا سے محروم ہوتا ہے۔
اس کی ایک بڑی قباحت میوزک ہے:یہ ایپ ایک وڈیو ایپ ہے جس میں عام طور پر میوز ک کا سہارا لیا جاتا ہے اور ہر کوئی موسیقی کی دھن پر تھرکتا نظرآتا ہے، اس میں بچے، بوڑھے، عورت،مرد سب شامل ہیں جب کہ میوزک اسلام میں حرام ہے۔
حضرت نافع رحمہ اللہ تعالیٰ روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکے ساتھ جار ہا تھا ایک جگہ راستے میں باجے کی آواز سنی تو راستے سے دور ہٹ گئے اور اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور کچھ دیر بعد فرمایا کیا تمہیں کچھ سنائی دے رہا ہے میں نے کہا نہیں،تو انہوں نے اپنے کان سے ہاتھ نکالا اور فرمایا میں حضور کے ساتھ ایک جگہ تھا آپ نے بھی ایسا ہی کیا تھا (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4924)۔ایک حدیث میں ہے کہ غنا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے۔اس ایپ میں غور فرمائیں میوزک کی جادو کا حال یہ ہے کہ بچے جس نے کبھی ناچ گانا دیکھا نہ ہو یا اس کامکمل شعور نہ رکھتے ہوں وہ بھی اس کے وڈیوز دیکھ کر ناچنے اورتھرکنے لگتے ہیں۔
نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
ترجمہ: میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو زناکاری، ریشم کا پہننا، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنا لیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر (اپنے بنگلوں میں رہائش کرنے کے لئے) چلے جائیں گے۔ چرواہے ان کے مویشی صبح و شام لائیں گے اور لے جائیں گے۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لئے اس سے کہیں گے کہ کل آنا لیکن اللہ ﷻ رات کو ان کو (ان کی سرکشی کی وجہ سے) ہلاک کر دے گا، پہاڑ کو (ان پر) گرا دے گا اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لئے بندر اور سور کی صورتوں میں مسخ کر دے گا۔(بخاری)
اس کی ایک اور بڑی قباحت یہ ہے کہ ٹک ٹاک (tik tok) اور میوزیکلی جیسے ایپس کے استعمال میں لوگ علانیہ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق حدیث ہے:ترجمہ: میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوا گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6069)
اس ایپ کامقصدہی بے حیائی کو فروغ دینا ہے، اس کا فیصلہ ا س کے وڈیوز کے ذریعہ ہوتا ہے اس لیے کہ زیادہ تر اس کے وڈیوز بے حیائی، عریانیت، ننگا پن پر مشتمل ہیں،باپردہ خواتین بے پردہ ہوکر کھلے عام بے حیائی کا مظاہر ہ کررہی ہیں بن سنور کر شرم و حیاء کو اس طرح تارتار کرہی ہیں کہ حیاء کو خود حیاء آجائے،شرم اپنے دامن کا چلمن چھوڑ دے۔ایسا لگتا ہے اخلاقی قدروں کا جنازہ نکل رہا ہو۔خواتین مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ بلکہ جو لوگ بے حیائی کے فروغ کا ٹھیکہ لیے ہوئے ہیں وہ خواتین کے اس طرح کی وڈیوز کی ایڈوٹائزنگ زیادہ کر رہے ہیں تاکہ حقیقت سے آنکھیں بند کی ہوئی دنیا کو یہ باور کرایا جاسکے کہ خواتین اس میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہیں حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کو اس غلاظت کی دنیا میں لانے کے لیے تشہیری مہم کا یہ ایک حصہ ہے اور افسوس اس کا ہے کہ ایسی تصویریں بھی سوشل میڈیا میں پھیلائی جارہی ہیں کہ مسلم خواتین اور باپردہ خواتین اس میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں یہ سب کچھ اسی ناپاک منصوبے اور گندی ذہنیت کا حصہ ہے ۔ اسلام نے ستر پوشی،پردہ اور حیاء کی خاص تعلیم دی ہے،حدیث میں ہے الحیاء شعبۃ من الایمان۔ قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:اور اپنے گھروں میں ٹھری رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار مت کرو۔(سورۃ الاحزاب 33)ٹک ٹاک ایپ کے ذریعہ عورتوں کا اپنے وڈیوز بنانا اور اس کو لوگوں کے مابین نشر کرنا نمود نمائش اور اظہار زینت اور بے حیائی ہے جس سے اسلام نے سختی سے منع کیاہے۔
اس ایپ کے ذریعہ لوگ دوسروں کو گناہوں کی دعوت دیتے ہیں، فلمی ڈیلاگ پر ایکٹنگ کر کے انہیں فلم بینی پر ابھارتے ہیں،بلکہ ٹک ٹاک کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعہ بچے شارٹ فلم بنانے کی مشق کررہے ہیں ان بچوں کو اس میں اپنا مستقبل نظر آرہا ہے،وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ آگے چل کر ہم بھی فلم اسٹار بن سکتے ہیں جب کہ یہ سب کچھ اس ایپ کی کرشماتی طاقت ہے لیکن اس کا منفی نتیجہ یہ ہے نوجوان نسل بڑی تیز ی سے اس سیلاب میں بہنے کو تیار ہیں، اس میں مذہب کا بھی مذاق اڑایا جاتا ہے اوربسا اوقات مقتدر شخصیات کی توہین کی جاتی ہے اس کی آواز کی نقل کی جاتی ہے، کبھی ان کے کارٹون بنائے جاتے ہیں اور ان کا مسخرا اور مذاق بنایا جاتا ہے۔لباس، وضع قطع،ڈارھی اور سر کے بال ہر جگہ اس کا مشاہدہ ہورہا ہے،یہ فتنہ بڑی تیزی سے نوجوان نسل میں پھیلتا جارہا ہے،اور کبھی خود اپنی صورت بگاڑی جاتی ہے اسلام نے مزاق اڑانے، کسی کی توہین کرنے اورصورت بگاڑنے سے منع کیا ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے جس طرح گناہ کرنے سے منع کیا ہے اسی طرح گناہوں کی تشہیرسے بھی منع کیا ہے۔۔ ایسے لوگوں کے متعلق اللہ ﷻ نے کتنی سخت وعید سنائی ہے:
ترجمہ: جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔(سورۃ النور: 19)
اس لئے جو وقت میسر ہے اس کو غنیمت سمجھیں اور اپنی زندگی اسلامی زندگی بنائیں کیونکہ وقت ایک قیمتی سرمایہ ہے اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تیز رفتار ہوتا ہے اور کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اعمال صالح میں جلدی کرو قبل اس کے کہ وہ فتنے ظاہر ہوجائیں جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہونگے اور ان فتنوں کا اثر ہوگا کہ آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر بن جائے گا اور شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کفر کی حالت میں اٹھے گا نیز اپنے دین و مذہب کو دنیا کی تھوڑی سی متاع کے عوض بیچ ڈالے گا(صحیح مسلم)
آج ہمارا بچہ بچہ نیٹ کے استعمال کو جانتا ہے نیٹ کے استعمال سے جتنا فائدہ اٹھانا چاہیے اس سے کئی گناہ زیادہ انٹرنیٹ کا غلط استعمال ہو رہا ہے، آج ہماری مسلم خواتین گھر میں رہ کر وہ کام کرتی ہیں جو عورتیں بازار میں بھی نہیں کرتیں،آج بنتِ حوا ننگا ناچ رہی ہیں، اور ابن آدم اپنی ہوس بجھانے کے لئے چسکیاں لے لے کر دیکھ رہا ہے، اسلام نے عورت کو ایک نظام دیا ہے، جس میں اس کی بھلائی چھپی ہوئی ہے، اسلام میں عورت کی حفاظت کے خاطر اسے مسجد میں جانے سے روک دیا، اذان اور اقامت سے روک دیا، حج کے دوران اونچی آواز میں تلبیہ کہنے سے روک دیا، تاکہ ان کی آواز غیر محرموں سے محفوظ رہے، اور دل میں ملال پیدا نہ ہو، لیکن جب اسی مذہب کی نو جوان لڑکیاں ٹک ٹاک (tik tok) پر ناچ رہی ہوں تو امت مسلمہ کی بربادی اسی میں مضمر ہے، اور ٹک ٹاک(tik tok) کی بیماری میں صرف لڑکیاں ہی نہیں بلکہ بچہ بچہ اس کا دیوانہ ہے، اور لڑکیوں کے ساتھ اپنا ویڈیو بنا کر لوگوں میں شیئر کرتے ہیں اور اس گناہ کے کام میں لذت محسوس کرتے ہیں، بلکہ ان لوگوں کے بھی چہرے سامنے آتے ہیں، جو والدین ہیں، بڑے ہیں، اور دین کے جاننے والے ہیں، جب ہمارے رہبر اور رہنما ایسے کاموں میں لگ جائیں تو سمجھ لینا کہ قوم تنزلی کا شکار ہوچکی ہے، رہنماؤں کو تو چاہیے کہ وہ اس کے خلاف لوگوں کی ہدایت فرمائیں، مگر اب تو ڈاکٹر ہی بیمار ہونے لگے ہیں تو قوم مسلم کا علاج کیسے ہو گا،
آج ہماری قوم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پسند نہیں، ہماری قوم کی بچیوں کو پردہ پسند نہیں، ہمارے نوجوان مسلم لڑکوں کو چہرے پر داڑھی رکھنا پسند نہیں، اگر پسند ہے تو یہودی اسٹائل میں رکھے جانے والے سر کے بال پسند ہیں، یہودی اگر اپنے چہرے پر ڈاڑھی کو فیشن بنا کر رکھتے ہیں تو ہمارا جوان اسی طرح اپنے چہرے پر داڑھی رکھتا ہے، جیسے وہ کپڑے پہنتا ہے ہمارا جوان ان کی اسٹائل والا لباس پہنتا ہے ہماری بچیوں کو نقاب پسند نہیں، وہ نقابوں پردوں کو دقیانوسی خیال کرتے ہیں، اگر یہودی لڑکیاں تنگ وچست لباس پہنتی ہیں تو ہماری بچیاں اسی طرح کا لباس خرید کر پہنتی ہیں مردوں کی طرح لباس اور بال رکھتی ہیں، یہ سب قیامت کی نشانیاں ہیں جو وجود میں آ رہی ہیں جو اُن بے حیائیوں سے بچ گیا وہ امن پا گیا، اپنے گھر والوں کی حفاظت کیجئے اور سیرت مصطفی پر چلنے کا عادی بنا دیجئے انشاء اللہ کبھی کوئی مصیبت و پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے گا۔
اللہ تعالی نے انسان کے اندر دو مادّے پیدا کیے، (1) نیکی کا مادہ (2)گناہ کا مادہ،جب انسان نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور جب گناہ کرتا ہےتو اللہ کے عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے، جب ہم دنیا کے حالات کا معائنہ کریں گے تو ایک چیز ہمارے سامنے روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہیں کہ دنیا کے حالات روز افزوں بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں، ہمارے نوجوانوں کو لذت اسی میں محسوس ہوتی ہے، اور لذت کے پیچھے اپنی آخرت کو کھو بیٹھتے ہیں، یاد رکھیں کہ ایک دن ختم ہوجائے گی لیکن گناہ باقی رہ جائے گا، نوجوانوں کی زندگی کا کھلواڑ بہت ساری چیزیں ہو سکتی ہیں، اس میں سے ایک ملٹی میڈیا موبائل اور اس میں بے حیائی اور فحاشی والا ایپ ٹک ٹاک (tik tok) بھی ہے، اس کی بے حیائی اور عریانیت ہمارے سمجھ سے بالا تر ہے، اور اس کو بیان کرنے کے لیے بہت زیادہ وقت اور محنت درکار ہے، مگر یہ چیز کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے، بلکہ صرف اس طرف اشارہ بھی کافی ہے،
یاد رکھیں! آپ کا ہر ہر عمل ریکارڈ ہو رہا ہے۔ آپ ٹک ٹاک ایپلیکیشن (tik tok app) میں وڈیوز اپلوڈ (upload) کرنے میں مصروف ہوں یا اس میں موجود فحش کاریوں کو دیکھنے میں، واٹس ایپ (whatsapp) میں گانے، فلمی ڈائیلاگ اور رومانس بھرے اسٹیٹس (status) لگانے میں مشغول ہوں یا یوٹیوب (youtube) اور دیگر ویب سائٹس (websites) میں فحش چیزیں پھیلانے میں، یا پھر موبائل میں گانے سننے اور فلمیں (خواہ وہ فحش فلمیں ہوں یا اسکے علاوہ) میں آپکا وقت صرف ہو رہا ہو۔ غرض یہ کہ آپ کا ہر ہر عمل ریکارڈ ہو رہا ہے۔ فرمان الہی ہے:ترجمہ: (انسان) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر یہ کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے۔(سورۃ ق: 18)
مزید فرمایا:ترجمہ: تم پر محافظ بزرگ (فرشتے) لکھنے والے مقرر ہیں، جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں۔(سورۃ الانفطار: 10-12)
مسلمانوں کے اندر فحاشی ، عریانی، بد تہذیبی پھیلانے، اور انہیں اپنے دین سے دوری کے لیے اغیار اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، مسلمانوں کو ان فتنوں کو سمجھنا چاہیے، اور اس ایپلی کیشن کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے، اس کی کسی بھی ویڈیو کو آگے شئیر کرنے سے مکمل اجتناب کرنا لازم ہے۔تمام مسلم ممالک کے عوام کو اس کا مطالبہ کرنا چاہیے، اور اسلامی مملکت کے سربراہان کو اپنے نوجوانوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچانے کے لیے حکومتی سطح پر اس ایپلی کیشن پر پابندی لگانی چاہیے۔ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے اور برائیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائےاور اللہ تعالی امت مسلمہ کو اس قسم کے فتنہ سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)
