ویلینٹائن ڈے

از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
ویلینٹائن ڈے اصلاً رومیوں کا تہوار ہے جس کی ابتدا تقریباً 1700 سال قبل ہوئی تھی ۔ اہلِ روم میں 14 فروری ’یونودیوی‘ کی وجہ سے مقدس مانا جاتا تھا جسے ’عورت اور شادی بیاہ کی دیوی ‘سمجھا جاتا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ویلنٹائن نامی‘ ایک پادری نےخفیہ طریقے سے شادیوں کا اہتمام کیا۔ جب شہنشاہ کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو قید کردیا ، آج کے دن اسی نسبت سے ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں کے دوران پاکستان میں بھی اس دن کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔ بالخصوص سوشل میڈیا کے باعث اس مغربی تہوار سے مشرق کا ہر نوجوان واقف ہوچکا ہے۔
’’ویلنٹاین‘‘ میں نامحرم افراد کا ایک دوسرے سے سرِعام اظہارِ محبت کرنا فطری غیرت کے خلاف ہے۔ میاں بیوی کے اظہارِ محبت کی بھی کچھ حدود ہیں۔ ہر جائز کام بھی سرِعام نہیں کیا جاسکتا۔ دائمی یا عارضی عقد کے علاوہ اسلام میں عورت مرد کے تعلق یا دوستی کا کوئی تصور نہیں۔ کلاس فیلو، کولیگ ہونے اور دوست ہونے میں واضح فرق ہے۔ قرآن میں عورت کو نامحرم سے ایسے لہجے میں بات کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے، جس سے اس میں تعلق بنانے کی جرات پیدا ہو، چہ جائیکہ محبت کا اظہار اور پھول پیش کئے جائیں۔
جولوگ یہ دن مناتے ہیں ان سے اگر یہ پوچھا جائے کہ کیا وہ پسند کرتے ہیں کہ ان کی بہن،بیوی،بیٹی،کو کوئی کھلے روڑ پر پھول پیش کرےاور گناہ کی دعوت دے؟ تو یقینآجواب جو آئے گا وہ آپ بھی سمجھ ہی گئے ہوں گے لیکن یہ کیسا ماجرہ ہے کہ کوئی کرے تو مارنے پر اتر آئیں اورخود کریں تو محبت۔۔۔! واہ رے انسان تیری خود پسندی۔ کوئی یہ نہیں جانتا کہ یہ پیار کا ڈرامہ 99۔99% ایک ہی رات میں ختم ہو جاتا ہے تو یہ کیسا پیارہے ؟ کوئی منانے والا بتا دے۔دنیا کاکوئی مذہب،کوئی تہذیب،کوئی ثقافت ایسی بے حیا ئی کی اجازت نہیں دے سکتی ۔دکھ کی بات تو یہ ہے کہ پرائے تو پرائے اپنے بھی اس کام میں آگے آگے ہیں۔جب کہ اسلام جتنا صاف،پاکیزہ،ماڈرن،آئیڈیل اور محبت کرنے والا مذہب اور کوئی نہیں اس سے بڑھ کر محبت کی اور مثال کیا ہوسکتی ہے کہ اسلام ایک بے زبان جانور کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ اس کے حقوق مجروح نہ ہوں اس چیز کا درس دیا گیا ہے۔مسلمان یہ سمجھنےسے قاصر ہی ہو گیا ہے کہ یہ مغربی گندگی تہذیب ہے یہ تہوار ان کا بھی کوئی اسلامی تہوارنہیں ہے۔
پوری دنیا میں *14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے* . گویا کہ ایک تیر سے دو شکار کیے جاتے ہیں. ایک تو مسلمانوں کو تہذیبی اعتبار سے گمراہ کیا جاتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ جیسے کہ کرسمس (Christmas) کا تہوار ہوتا ہے اسی طرح ہے مسلمان نوجوانوں کو اپنے تہذیبی تہوار میں جزب(Absorb) کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.کوئی بھی غیرت مند مسلمان حضرت محمدٌ کی اس حدیث کے اوپر عمل کرتے ہوئے کبھی بھی غیر مسلموں کے کسی بھی تہوار کو قبول نہیں کرسکتا.*آپٌ نے فرمایا : جو کسی قوم کی مشاہبت کو اختیار کرتا ہے وہ ان ہی میں سے ہے۔
اِسلام اختیاری نہیں بلکہ لازمی دین ہونے کی وجہ سے مسلمان کا ہر کام اُس خالق کے حکم کے مطابق ہونا چاہیئے، جس نے فقط نقصان دہ کاموں سے منع کیا ہے۔ شرم، حیاء اور عفّت کردار کی بنیادی صفات ہیں۔ عورت کو غلط عناصر، بُری نظروں سے بچانے کے لئے حجاب لازم قرار دیا گیا ۔پردہ پابندی نہیں بلکہ حفاظت ہے۔ اس کا خیال رکھتے ہوئے اسلام نے کھیل سمیت عورت کو کسی بھی جائز کام، تفریح سے منع نہیں کیا، لیکن مغرب کی طرح اسے کاروباری آئیٹم کے طور استعمال کرنا دینِ فطرت کے خلاف ہے۔اسلام میں کہیں موجود ہے تو وہ صرف شوہر اور بیوی کے درمیان موجود ہے اس کے علاوہ اور کسی رشتہ میں رومانیت کا اسلام میں کوئی تصور موجود نہیں ہے. آزاد رومانیت لڑکے لڑکی کا آپس میں ملنا تحفہ تحائف دینا، ان کے درمیان نہ جائز تعلقات کا ہونا اس کا اسلامی تہذیب و تمدن میں دور دور تک کا بھی کوئی تصور نہیں ہے. ایک تو اس میں یہ قباحت والی بات ہے۔
ایسے لوگوں کے بارے میں قرآنِ پاک میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے،”وہ لوگ جو اہلِ ایمان کے درمیان بےحیائی کی اشاعت کو پسند کرتے ہیں، اُن کے لیے دُنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے-“ (سورہ النور: 19)اِسلام ہمیں فحاشی اور بےحیائی سے روکتا ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اب تو ہر جگہ سرِعام حیا سوز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں- مختلف تفریحی مقامات پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ نظر آتے ہیں- پاکستان کے شہری علاقوں کی عوام اس دن کو زیادہ زوروشور سے مناتی ہے بلکہ فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی اِس کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں-قرآنِ پاک میں کئی جگہوں پر فحاشی اور بُرائی سے بچنے کا حکم آتا ہے-”فحاشی کے قریب بھی نہ جاؤ، خواہ یہ کُھلی ہو یا چُھپی ہو-“ (سورہ البقرہ: 169)
تو مسلمانوں تمہاری عقل کو کیا ہو گیا ہے تم عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوں کے تہوار کو کیوں مناتے ہو.. کرسمس ان کا تہوار ہے. ہولی ان کا تہوار ہے یہ سارے کہ سارے تہوار ان کے ہیں. ویلینٹائن ڈے ان کا تہوار ہے. ہمارے ان تہواروں سے کوئی تعلق نہیں.تم اتنے لبرل کیوں بنتے ہو کبھی بھی غیر مسلم نے تمہارے تہواروں پر اپنی مہر لگانے کی جستجو نہیں کی تو تم کیوں ان کے تہواروں کو اپنے تہوار بنانے کی کوشش کرتے ہو.آپٌ کا امتی اٹھتا ہے جو اپنے آپ کو آزادی خیالی اور لبرلازم کا علم بردار بن کر میدان عمل میں آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بھی کرسمس کا کیک کاٹوں کا میں بھی ہولی کا تہوار منائوں کا اور مین بھی ویلنٹائن ڈے جیسے تہواروں کو منائوں گا..مسلمان تجھے کیا ہو گیا ہے ان کے تہوار اپنے ہیں تیرے تہوار اپنے ہیں. ان کی زندگی اپنی ہے تیری اپنے ہے ان کے زندگی گزارنے کے طریقے اپنے ہیں تیرے اپنے ہیں.اسلامی جمہوریہ پاکستان یا کسی بھی اسلامی ریاست میں عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوں کو زندہ رہنے کا حق ہے. اسی طرح ان کے تہواروں کو منانے کا حق ان کا ہے، انجیل پڑھنے کا حق ان کو ہے تجھ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ تو قرآن کے ہوتے ہوئے انجیل پڑھنا شروع کر دے۔
ملکِ پاکستان ہمارے اکابر نے دس لاکھ سے زائد قربانیاں دے کر اور ایک لاکھ کے قریب عزت مآب عصمتیں لٹا کر اس لئے تو حاصل نہیں کیا تھا کہ اس کے حکمران شرابی، زانی اور بدکردار ہوں گے اور اس ملک کے ہر سرکاری اور پرائیویٹ شعبے میں استحصال ہوگا یہ ملک رشوت خوری اور سود خوری کے لئے نہیں بنایا گیا تھا یہ ملک چھیاسٹھ سال تک کافر انگریز کے آئین کی اندھی تقلید کرنے کے لئے نہیں بنایا گیا تھا اب جب میں جدید نظام تعلیم کے خلاف آواز بلند کرتا ہوں تو اس سے مراد حکمرانوں اور اشرافیہ کی بے بصیرت پالیسیاں اور اپنے تعیش کے لئے نافذ کئے گئے مادر پدر آزاد نظام کے خلاف احتجاج کرتا ہوں، مثلاً ان درندوں کی ہوس کی تسکین کے لیے پوری پوری کالج وین گم ہو جاتی ہے اور کئی دہائیوں تک اس کا سراغ نہیں ملتا۔ تمام بڑے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ان سیاست دانوں کے ہوتے ہیں جن کی اپنی ڈگریوں کی داستانیں، زبان زد عام ہیں اور اداروں میں ثقافت کے نام پر جو بے حیائی اور بے غیرتی کا طوفانِ بدتمیزی برپا ہوتا ہے ممکن ہے فرعون کے ظالمانہ نظام میں بھی نہ ہوتا ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہمیں ویلینٹائن ڈے جیسے بیحودہ اور غیر اِسلامی تہوار سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین