واقعہ معراج کاپیغام

 از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
واقعۂ معراج اعلانِ نبوت کے دسویں سال اور مدینہ منورہ ہجرت سے تین سال قبل مکہ مکرمہ میں مشہور قول کے مطابق رجب کی ستائیسویں رات کو پیش آیا۔واقعہ معراج بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو چشم زدن میں بظاہر رونما ہوا لیکن حقیقت میں اس میں کتنا وقت لگا یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ میں اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرایا۔ماہ رجب کی ستائیسویں شب کس قدر پرکیف رات ہے مطلع بالکل صاف ہے فضاؤں میں عجیب سی کیفیت طاری ہے۔ رات آہستہ آہستہ کیف و نشاط کی مستی میں مست ہوتی جارہی ہے۔ ستارے پوری آب و تاب کے ساتھ جھلملا رہے ہیں۔ پوری دنیا پر سکوت و خاموشی کا عالم طاری ہے۔ نصف شب گزرنے کو ہے کہ یکا یک آسمانی دنیا کا دروازہ کھلتا ہے۔ انوار و تجلیات کے جلوے سمیٹے حضرت جبرائیل علیہ السلام نورانی مخلوق کے جھرمٹ میں جنتی براق لئے آسمان کی بلندیوں سے اتر کر حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لاتے ہیں۔ جہاں ماہ نبوت حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم محو خواب ہیں۔ آنکھیں بند کئے، دل بیدار لئے آرام فرمارہے ہیں۔ حضرت جبرائیل امین ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اگر آواز دے کر جگایا گیا تو بے ادبی ہوجائے گی۔ فکر مند ہیں کہ معراج کے دولہا کو کیسے بیدار کیا جائے؟ اسی وقت حکم ربی ہوتا ہے یاجبریل قبل قدمیہ اے جبریل! میرے محبوب کے قدموں کو چوم لے تاکہ تیرے لبوں کی ٹھنڈک سے میرے محبوب کی آنکھ کھل جائے۔ اسی دن کے واسطے میں نے تجھے کافور سے پیدا کیا تھا۔ حکم سنتے ہی جبرائیل امین علیہ السلام آگے بڑھے اور اپنے کافوری ہونٹ محبوب دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پائے ناز سے مس کردیئے۔یہ منظر بھی کس قدر حسین ہوگا جب جبریل امین علیہ السلام نے فخر کائنات حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کو بوسہ دیا۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کے ہونٹوں کی ٹھنڈک پاکر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں اے جبرائیل! کیسے آنا ہوا؟ عرض کرتے ہیں: یارسول اللہ! ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے بلاوے کا پروانہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔
پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت برق رفتار سواری پیش کی جس کا نام براق تھا۔ آپ اس پر تشریف فرما ہوئے۔ براق کی رفتار کا یہ عالم تھا کہ جہاں نگاہ جاتی تھی وہاں اس کا قدم پڑتا تھا۔ راستے میں کھجور کے باغات نظر آئے تو جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ یہاں اتر کر دو رکعات نفل ادا فرمائیے، یہ جگہ آپ کا مقام ہجرت ہے۔ یہاں سے آپ پہلے آسمان پر پہنچے اور وہاں کے عجائبات ملاحظہ فرمائے۔آپﷺ عرش اعظم تک پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے تمام حجابات اٹھا دئیے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی زیارت کی۔ اس وقت اللہ اور اس کے رسول کے درمیان جو راز و نیاز ہوئے وہ اللہ اور رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔
یوں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی ہمارے لئے قابل تقلید نمونہ ہے۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو تعلیمات حدیث کی شکل میں ہم تک پہنچی ہیں۔ ان میں معراج کا واقعہ ایسا ہے جس سے انسانیت کے لئے ایک عظیم پیغام ہے۔ اور اگر ہم اس پیغام کی روشنی میں اپنے انفرادی معاملات کو ترتیب دے سکیں تو ہمیں معراج انسانیت کا مقام حاصل ہوسکتا ہے۔
معراج کے سفر کی تفصیل قرآن میں موجود نہیں ہے۔معراج کے اس سفر کی تفصیل حدیثوں میں ملتی ہے۔28 ؍ایسے راوی ہیں جنہوں نے معراج کے سفر کی تفصیل بتائی ہے۔اُن میں سے 21؍ وہ ہیں جنہوں نے خود اپنے کان سے یہ باتیں نبی مکرم ﷺ کی زبانی سنی ہیں۔اِن حدیثوں کے حوالے سے یہ ایک نہایت دلچسپ، حیرت انگیز اور نصیحت و عبرت سے لبریز سفر نامہ بنتا ہے جو اِس طرح ہے:…
٭… سیڑھی کے ذریعہ پہلے آسمان پر پہنچے تو پوچھا گیا کون آیا ہےحضرت جبرئیل ؑ نے بتایاکہ محمد ﷺ آئے ہیں اور اپنا نام بھی بتایا۔پوچھا گیا کیا بلایا گیا ہے۔ جواب دیا ہاں۔ تب پہلے آسمان کا دروازہ کھلا۔وہاں حضور ﷺ کی ملاقات فرشتوں اور اُن روحوں سے ہوئی جو دنیا میں صالح اورنامور لوگ تھے۔پھر حضرت آدم ؑ سے بھی ملاقات ہوئی۔
٭…حضورﷺ نے دیکھا ، ایک جگہ لوگ فصل کاٹ رہے ہیں۔جتنی کاٹتے ہیں اُس سے زیادہ وہ بڑھ جاتی ہے۔پوچھا یہ کیا ہورہا ہے ؟ کہا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو دنیامیں اللہ کی راہ میں جہاد کیا کرتے تھے۔٭…آپﷺ نےدیکھا کہ کچھ لوگوں کے سر کچلے جارہے ہیں۔ پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے ؟ کہاگیا یہ ایسے سر والے ہیں جن کے سر دنیا میں نماز کے لئے سجدے میں نہیں جاتے تھے۔٭…نبی کریم ﷺ کوکچھ لوگ دکھائی دیے جن کے کپڑوں میں آگے پیچھے پیوندتھے اور وہ مویشی کی طرح گھاس چر رہے تھے۔پوچھا یہ کیاہے ؟ جواب ملا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں نکالاکرتے تھے۔٭…آپ ﷺ نےدیکھا کچھ لوگوں کی زبان اور ہونٹ قینچیوں سے کترے جا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کیا ہورہا ہے ؟ کہا گیا یہ ایسے مقرر ہیں جو اپنی زبان سے غیر ذمہ دارانہ باتیں کہتے تھے اور فتنے پھیلاتے تھے۔یعنی لوگوں کو آپس میں لڑاتے تھے۔٭…حضور اکرم ﷺ نےدیکھا ایک چھوٹے سوراخ سے ایک موٹا بیل نکلا اور پھر اُسی سوراخ میں جانے کی کوشش کرنے لگا۔ پوچھا یہ کیا ہے ؟ کہا گیا یہ اُس آدمی کی مثال ہے جس نے اپنی زبان سے ایسی بات کہہ دی جس پر پچھتایا اور اُس کی تلافی کرنا چاہا مگر نہ کر سکا۔٭…ایک جگہ نبی پاک ﷺ نے دیکھا کچھ لوگ اپنا ہی گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کیا معاملہ ہے ؟ کہا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں پر لعنت ملامت کیا کرتے تھے۔٭…وہیں پر کچھ لوگ تانبے کے ناخن والے تھے اور وہ اپنے اُنہیں ناخنوں سے اپنے منہ اورسینے نوچ رہے تھے۔ پوچھا یہ کیاہورہا ہے ؟ کہا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کے پیٹھ پیچھے اُن کی برائیاں کیا کرتے تھے۔٭…آپ ﷺ نےدیکھا کچھ لوگوں کے ہونٹ اونٹوں جیسے ہیں اور وہ آگ کھا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کیا ہورہا ہے ؟کہا گیا یہ وہ لوگ ہیں جویتیموں کا مال ناجائز طور پر کھایا کرتے تھے۔٭…دیکھا کچھ لوگ پیٹ کے بل لیٹے ہوئے ہیں اور اُن کے پیٹ میں سانپ بھرے ہوئے ہیں۔ پوچھایہ کون لوگ ہیں ؟ کہا گیا یہ دنیا میں سود کھایا کرتے تھے۔٭…ایک جگہ آپ ﷺ نے دیکھا ایک طرف عمدہ نفیس گوشت رکھا ہوا ہے اور ایک طرف سڑا ہوا گوشت رکھا ہے۔ کچھ لوگ اچھا گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے ؟ کہا گیا یہ وہ مردا ور عورتیں ہیں جو اپنی بیویوں اور شوہروں کوچھوڑ کر دوسری عورتوں اور مردوں کے ساتھ حرام کاری کیا کرتے تھے۔٭…ایک جگہ نبی کریم ﷺ نے دیکھا کچھ عورتیں اپنی چھاتیوں کے بل لٹک رہی ہیں۔ پوچھا یہ کیا ماجرا ہے ؟ کہا گیا یہ وہ عورتیں ہیں جنہوں نے اپنے شوہروں کے سرایسے بچے منڈھ دیے جو اُن کے نطفے سے پیدا نہیں ہوئے تھے۔
وہاں سے چل کر نبی کریم ﷺ دوسرے آسمان پر پہنچے۔ وہاں نبی کریم ﷺ کی ملاقات یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام سے ہوئی۔تیسرے آسمان پر پہنچے تو یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔چوتھے آسمان پر حضرت ادریس اور پانچویں آسمان پر حضرت ہارون سے ملاقات ہوئی۔چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ سے ملاقات ہوئی۔ساتویںآسمان پر پہنچے تو اپنی ہی شکل کے آدمی سے ملاقات ہوئی۔ بتایا گیا یہ حضرت ابراہیم ہیں۔وہاں سے سدرۃ المنتہیٰ پہنچے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں سے آگے کسی مخلوق کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔اسی مقام پر بار گاہ الٰہی سے ہدایات آتی ہیں اور وہاں سے زمین والوں تک پہنچائی جاتی ہیں۔اس مقام پر رسول اللہ ﷺ کو جنت دکھائی گئی۔وہاں پر حضرت جبرئیل ؑ رک گئے اور حضور ﷺتنہا آگے بڑھے یہاں تک کہ بارگاہ ربالعالمین تک پہنچ گئے۔اللہ تعالیٰ نے ان سے باتیں کیں اوریہ سب تحفے دیے:…
٭…روزانہ پچاس وقت کی نماز فرض کی گئی۔٭…سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں اسی موقع پر عطا ہوئیں۔٭…فرمایا گیا کہ جو نیکی کا ارادہ کرے گا اُس کے حق میں ایک نیکی لکھ لی جائے گی۔ جب اُس ارادے پر عمل کرے گا تو دس نیکیاں ملیں گی۔ جو برائی کا ارادہ کرے گا تو جب تک اُس پر عمل نہ کرلے اس کے نامہ اعمال میں برائی لکھی نہیں جائے گی۔ اور برائی کرنے پر صرف ایک بدی ہی لکھی جائے گی۔
وہاں سے واپس ہوئے تو پھر موسیٰ سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے کہا کہ آپ کی امت کمزور ہے پچاس وقت کی نماز ادانہ کر سکے گی۔جائیے کم کرائیے۔ حضورؐ واپس گئے اور خدا وند عالم سے نماز کم کرنے کی درخواست کی۔دس نما ز کم کر دی گئی۔موسیٰ نے کہا یہ بھی زیادہ ہے۔ آپ پھر گئے۔ اسی طرح پچاس نمازیں کم ہوتے ہوتے پانچ پر آ گئیں۔کہا گیا نمازیں تو لوگ پانچ وقت ہی پڑھیں گے لیکن اجر و ثواب ان کو پچاس وقت کی نمازوں کا ملے گا۔
وہاں سے سیڑھی سے اتر کر بیت المقدس تک آئے۔یہاں پھر سارے انبیا موجود تھے۔ فجر کی نماز پہلے کی طرح اداکی اور اس کے بعد براق پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ واپس آ گئے۔یہ پورا سفر رات کے ایک حصے میں انجام پا گیا۔جبکہ مکہ سے بیت المقدس صرف جانے میں دومہینے لگتے تھے۔صبح کے وقت جب لوگوں سے اس کا تذکرہ کیا تو کوئی ماننے کو تیار نہیں تھا۔
معراج سے واپسی پر آپ نےصبح سویرے اس واقعہ کا تذکرہ اہل مکہ سے کیا تو مشرکین نے اس کا انکار کردیا اور آپ سے چند ثبوت مانگے جو آپ نے فراہم کردئیے، اس کے باوجود وہ ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ مسلمان سارے کے سارے ایمان لے آئے اور سب سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کی تصدیق کی جس پر زبان نبوت سے آپ کو صدیق کا لقب عطا ہوا۔
اللہ نے جن کو ہدایت دی وہ معراج کا واقعہ سن ایمان لے آئے ۔جو ہدایت سے محروم رہے وہ صرف سوچتے ہی رہ گئے۔ہدایت اور عمل کی توفیق سے محروم رہے۔ آج بھی بیشمار لوگ ایسے ہیں جو معراج کے اِس معجزے کو قصے کہانی کی طرح بڑے شوق سے سناتے ہیں اور حضور ﷺ کی شان میں بھی قصیدہ خوانی کرتے ہیں، لیکن اِس سے جو نصیحت ملتی ہے وہ نہیں بتاتے۔اوربہتیرے ایسے بدنصیب ہیں جو۲۷؍ رجب کو مسجدوں میں چراغاں تو کرتے ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق نہ تو زندگی گزارتے ہیں اور نہ زندگی میں شریعت کی پابندی کرتے ہیں۔
آج ہمارے سامنے مغربی لادینی معاشروں کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ جن کی تقلید کرکے ہم فخر کرتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے پاس ایسے اصول موجود ہیں۔ اگر ہم نہ صرف خود ان پر عمل پیرا ہوں۔ بلکہ انسانیت کیلئے یہ نمونے مشعل راہ کے طور پر پیش کریں۔