از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نماز پڑھتے ہیں اور ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو جماعت کا بھی اہتمام فرماتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ایسی بُری طرح پڑھتے ہیں کہ وہ نماز بجائے اس کے ثواب و اَجر کا سبب ہو ، ناقص ہونے کی وجہ سے منہ پر مار دی جاتی ہے ۔ گو نہ پڑھنے سے یہ بھی بہتر ہے کیونکہ نہ پڑھنے کی صورت میں جو عذاب ہے وہ بہت زیادہ سخت ہے ۔ البتہ یہ مناسب ہے کہ جب آدمی وقت خرچ کرے ، کاروبار چھوڑے ، مشقت اٹھائے تو اس کی کوشش کرنا چاہئے کہ جتنی زیادہ سے زیادہ وزنی اور قیمتی نمازپڑھ سکے اس میں کوتاہی نہ کرے ۔
ایک کوتاہی نماز میں خشوع اور حضورِ قلب کا نہ ہونا بھی ہے جسے عوام تو عوام ، خواص بھی کوتاہی میں شمار نہیں کرتے ۔ خشوع اور حضورِ قلب کے مطلوب و مقصود ہونے پرسورۃ المومنون میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :…’’ یعنی کامیاب ہوئے وہ ایمان والے جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں ۔‘‘
اس خشوع کے نہ ہونے کے دو سبب ہیں : (۱) …بعض کو تو اہتمام ہی نہیں ، ان کیلئے تو یہ بے اعتنائی اور لاپرواہی کا سبب ہے ۔ (۲) …بعض کو اہتمام ہے مگر اس کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور اس کو اختیار و قدرت سے باہر سمجھتے ہیں ۔ اس کے حاصل کرنے کا ارادہ نہیں کرتے ۔
مذکورہ آیت میں وہ مؤمن فلاح یافتہ ہیں جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں ۔ گویا کہ فلاح کی اولین شر ط اور فلاح کا سب سے پہلا راستہ یہ ہے کہ انسان نہ صرف یہ کہ نماز پڑھنے بلکہ نماز میں خشوع اختیار کے ، کیونکہ نماز ایسی چیز ہے کہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے ۶۲ سے زیادہ مقامات پر اس کا حکم فرمایا ۔ اس کے ذریعہ اس حکم کی اہمیت بتانا مقصود ہے کہ نماز کو معمولی کام مت سمجھو اور یہ نہ سمجھو کہ یہ روزہ مرہ کی روٹین کی ایک معمولی چیز ہے بلکہ مؤمن کے لئے دنیا و آخرت میں کامیابی کے لئے سب سے اہم کام نماز پڑھنا ہے ، نماز کی حفاظت کرنا ہے اور نماز کو اس کے احکام اور آداب کے ساتھ بجا لانا ہے ۔
خشوع کے معنیٰ ہیں پست ہوجانا ، دَب جانا ، عاجزی اور انکساری سے جھک جانا ۔ نماز میں خشوع اختیار کرنے کے معنی یہ ہیں کہ دل پر خدا کے جلال اور عظمت کی ہیبت طاری ہو اور وہ ہیبت و خوف سے پست اور جھکا ہوا ہو ۔ خشوع کے لغوی معنی سکون کے ہیں اصطلاحِ شرع میں خشوع یہ ہے کہ قلب میں بھی سکون ہو ۔ یعنی غیر اﷲ کے خیال کو قلب میں بالقصد حاضر نہ کرے اور اعضاء بدن میں بھی سکون ہو کہ عبث اور فضول حرکتیں نہ کرے (بیان القرآن )
خصوصاً وہ حرکتیں جن سے رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے نماز میں منع فرمایا ہے اور فقہاء نے اُن کو مکروہات نماز کے عنوان سے جمع کر دیا ہے ۔ خشوع کا اصل تعلق اگرچہ دل سے ہے لیکن جب دل میں عجز اور پستی ہوگی تو لازمی طور پر اعضاء پر بھی اس کا اثر پڑے گا ۔ خشوع کی یہ کیفیت دل کو غلط جذبات اور غیر متعلق خیالات سے پاک رکھے گی ۔ اور ظاہر میں بھی اعضاء پر ایک طرح کا سکون اور پستی کے آثار نمایاں ہوں گے ۔خشوع کے ساتھ ایک دوسرا لفظ خضوع بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن کریم میں بھی بار بار آیا ہے ۔ یہ دونوں لفظ تقریباً ہم معنی ہیں ، لیکن خشوع کا لفظ اصل کے اعتبار سے آواز اور نگاہ کی پستی اور تذلّل کے لئے بولاجاتا ہے ۔ جب کہ وہ مصنوعی نہ ہو بلکہ قلبی خوف اور تواضع کا نتیجہ ہو ۔
بزرگوں سے جو خشوع کی تعریف میں مختلف چیزیں نقل کی گئی ہیں وہ دراصل اسی سکونِ قلب و جوارح کی تفصیلات ہیں ۔ مثلاً :… حضرت مجاہد رحمہ اﷲ نے فرمایا کہ نظر اور آواز کو پست رکھنے کا نام خشوع ہے ۔٭… حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ دائیں بائیں التفات یعنی گوشۂ چشم سے دیکھنے سے بچنا خشوع ہے ۔٭… حضرت عطاء نے فرمایا کہ بدن کے کسی حصہ سے کھیل نہ کرنا خشوع ہے ٭… ۔ حدیث میں حضرت ابو ذر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نماز کے وقت اپنے بندے کی طرف برابر متوجہ رہتا ہے ۔ جب تک وہ دوسری طرف التفات نہ کرے ، جب دوسری طرف التفات کرتا ہے یعنی گوشۂ چشم سے دیکھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اُس سے رُخ پھیر لیتے ہیں ۔ اور نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے حضرت انس رضی اﷲ عنہ کو حکم دیا کہ اپنی نگاہ اُس جگہ رکھو جس جگہ سجدہ کرتے ہو اور یہ کہ نماز میں دائیں بائیں التفات نہ کرو ۔ ( البیہقی)
خشوع کی لغوی حقیقت سکون ہے اور اس کی حقیقت شرعیہ قلب اور جوارح کا سکونِ ارادی ہے اور سکون مقابل ہے حرکت کے ۔ لہٰذا جیسی حرکت ہوگی ویسا ہی سکون حاصل ہوگا ۔ جوارح کا سکون یہی ہے کہ جس حرکت کا شرعاً امر نہیں وہ حرکت نہ کرے یعنی اپنے ارادے سے ہاتھ پائوں بے کار نہ ہلائے ۔ اِدھر اُدھر گردن یا نظر سے توجّہ نہ کرے ، سر اُوپر کو نہ اُٹھائے ، بالوں کو ، کپڑوں کو باربار نہ سنوارے ، بدون ضرورت نہ کھجلائے ، نہ کھنکارے وغیرہ وغیرہ ۔ اور قلب کا سکون یہ ہے کہ اپنے ارادہ سے کسی بات کو نہ سوچے ۔ اگر کوئی خیال خود بخود آجائے تو وہ منافی خشوع کے نہیں ۔ پس غلطی لوگوں کی یہ ہے کہ خشوع کے معنی یہ سمجھنے لگے کہ بالکل خیال ہی نہ آئے ۔ اسی بناء پر اس کو محال سمجھنے لگے ۔ مذکورہ بالا تعبیر سے واضح ہوگیا کہ خشوع اختیاری فعل ہے اور ہر شخص اس پر قادر ہے اور بہت آسان ہے البتہ توجہ کی ضرورت ہے۔
حضور اقدس صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا ارشاد ہے کہ جو شخص نمازوں کو اپنے وقت پر پڑھے وضو بھی اچھی طرح کرے ، خشوع و خضوع بھی کرے ، کھڑا بھی پورے وقار سے ہو ، پھر اسی طرح رکوع سجدہ بھی اچھی طرح سے اطمینان سے کرے ۔ غرض ہر چیز کو اچھی طرح ادا کرے تو وہ نماز نہایت روشن چمکدار بن کر جاتی ہے اور نمازی کو دعا دیتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ شانہ‘ تیری بھی ایسی ہی حفاظت کرے ، جیسی تو نے میری حفاظت کی ۔ اور جو شخص نماز کو بُری طرح پڑھے وقت کو بھی ٹال دے ، وضو بھی اچھی طرح نہ کرے ، رکوع سجدہ بھی اچھی طرح نہ کرے تو وہ نماز بُری صورت سے سیاہ رنگ میں بددعا دیتی ہوئی جاتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ تجھے بھی ایسا ہی برباد کرے جیسا تو نے مجھے ضائع کیا ۔ اس کے بعد وہ نماز پُرانے کپڑے کی طرح سے لپیٹ کر نمازی کے منہ پر مار دی جاتی ہے ۔
نماز دراصل بندے اور اس کے رب کے مابین تعلق کا نام ہے ۔ خشوع و خضوع تدبر اور حضور قلب کو نماز کی روح قرار دیا گیا ہے اس لئے اس نماز کی مثال جو خشوع سے خالی ہو ، ایسے جسم کی مانند ہے جس کی روح نکال لی گئی ہو اور روح کے نکال لئے جانے کے بعد وہ جسم کیوں کر زندہ رہ سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج کل ہم لوگ اپنی نمازوں میں لذت مناجات محسوس نہیں کرتے کیونکہ وہ نماز کی روح کھو چکے ہیں اور خشوع کے حوالے سے بے پروائی برتتے ہیں ۔ جس کے باعث وہ نماز کے ثمرات و برکات سے محروم ہیں ۔
امام غزالی و قرطبی (رحمہم اﷲ ) اور بعض دوسرے حضرات نے فرمایا کہ نماز میں خشوع فرض ہے ۔ اگر پوری نماز خشوع کے بغیر پڑھی جائے تو نماز ادا ہی نہ ہوگی ۔ دوسرے حضرات نے فرمایا کہ اس میں شبہ نہیں کہ خشوع روحِ نماز ہے ۔ اس کے بغیر نماز بے جان ہے مگر اس کو رُکن نماز کی حیثیت سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ خشوع نہ ہوا تو نماز ہی نہ ہوئی اور اس کا اعادہ فرض قرار دیا جائے ۔
خشوع پیدا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جیسے تمام افعال ارادیہ کی یہ شان ہے کہ ارادہ کرو تو آسان ہے اور ارادہ نہ کرو تو دشوار ۔ حتی کہ اگر کوئی منہ میں لقمہ لے کر بیٹھ جائے اور لقمہ نگلنے کا ارادہ نہ کرے تو وہ بھی آسان نہیں اگرچہ لقمہ نگلنا فی نفسہٖ آسان ہے ۔ اسی طرح خشوع بھی اتنا ہی آسان ہے ۔ اس کا سہل طریقہ یہ ہے کہ نماز میں جو کچھ بھی منہ سے نکلے اسے محض بے خیالی سے نہ پڑھتا جائے بلکہ ہر لفظ پر ارادہ کر کے اور سوچ کر منہ سے نکالے ۔ مثلاً یہ خیال کرے کہ اب سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ کہوں گا اور اب وَبِحَمْدِکَ کہہ رہا ہوں ، اب وَتَبَارَکَ اسْمُکَ منہ سے نکل رہا ہے ۔ پس جب ہر لفظ پر خاص توجہ رہے گی تو دوسرے خیالات آنے بند ہوجائیں گے ۔ اگر اس کی پابندی کر لی جائے تو انشاء اﷲ تعالیٰ بلا قصد بھی کوئی خیال نہ آئے گا ۔ اور اگر بفرضِ محال کبھی کوئی خیال آبھی جائے تو اس سوچ میں نہ پڑے کہ یہ کیوں آئے ۔
نماز کے دوران آنے والے خیالات ہی خشوع کو زائل کرتے ہیں ۔ لہٰذا اس کا علاج ضروری ہے اور کسی بھی چیز کو ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے اسباب کو ختم کیا جائے ۔ ان خیالات کے پیدا کرنے کے اسباب یا تو ظاہری ہوں گے یا باطنی ۔ ظاہری سبب یہ ہے کہ انسان کانوں سے کوئی اور چیز سنے یا آنکھوں سے کچھ اور دیکھ رہا ہو جس کی وجہ سے اس کا خشوع جاتا رہتا ہے ۔ اور اس کا پہلا علاج یہ ہے کہ اس سبب کو ختم کرنے کیلئے نظریں جھکالی جائیں اور ایسی جگہ پر نماز پڑھنے سے گریز کیا جائے جو نماز سے غافل کر دینے والی ہو جیسے سڑک وغیرہ ۔
البتہ باطنی اسباب ظاہری اسباب سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ وہ شخص جسے دنیا کے بکھیڑوں نے گھیر رکھا ہو اس کی سوچ کسی ایک معاملے تک محدود نہیں رہتی بلکہ وہ مختلف سوچوں میں غرق رہتا ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ انسان اس وقت تک نماز شروع نہ کرے جب تک کہ اپنے تمام کام نمٹا نہ لے۔
حضرت مجدد الف ثانی نور اﷲ مرقدہ نے اپنے خطوط میں نماز کے اہتمام پر بہت زیادہ زور دیا ہے ۔ ایک گرامی نامہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ سجدہ میں ہاتھوں کی انگلیاں ملانے اور رکوع میں انگلیوں کو علیحدہ علیحدہ کا اہتمام بھی ضروری ہے ۔ اور رکوع کی حالت میں پائوں پر نگاہ رکھنا اور سجدہ میں جا کر ناک پر رکھنا اور بیٹھنے کی حالت میں گود اور ہاتھوں پر نگاہ رکھنا نماز میں خشوع کو پیدا کرتا ہے اور اس سے نماز میں دلجمعی نصیب ہوتی ہے ۔ جب ایسے معمولی آداب بھی اتنے اہم فائدے رکھتے ہیں تو بڑے آداب اور سنتوں کی رعایت تم سمجھ لو کہ کس قدر فائدہ بخشے گی ۔ صوفیاء نے لکھا ہے کہ نماز حقیقت میں اﷲ جل شانہ‘ کے ساتھ مناجات کرنا اور ہمکلام ہونا ہے جو غفلت کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتا ۔ نماز کے علاوہ اور عبادتیں غفلت سے بھی ہوسکتی ہیں ۔ لیکن نماز کا معظّم حصہ ذکر ہے قرأت قرآن ہے ۔
اس لئے نہایت اہم ہے کہ نماز اپنی وُسعت و ہمت کے موافق پوری توجہ سے پڑھی جائے لیکن یہ امر نہایت ضروری ہے کہ اگر یہ حالات اور کیفیات جو پچھلوں کی معلوم ہوئی ہیں حاصل نہ بھی ہوں ۔ تب بھی نماز جس حال سے بھی ممکن ہو ضرور پڑھی جائے ۔ یہ بھی شیطان کا ایک سخت ترین مَکر ہوتا ہے ۔ وہ یہ سمجھائے کہ بُری طرح پڑھنے سے تو نہ پڑھنا ہی اچھا ہے ، یہ غلط ہے ۔ نہ پڑھنے سے بری طرح کا پڑھنا ہی بہتر ہے ۔ اس لئے کہ نہ پڑھنے کا جو عذاب ہے وہ نہایت ہی سخت ہے ۔ حتیٰ کہ علماء کی ایک جماعت نے اس شخص کے کفر کا فتویٰ دیا ہے جو جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے ۔
بہرحال اگر کسی نمازی کو قلب کا سکون اور روح کی توجہ نماز میں میسر نہ ہو تو نماز کو چھوڑا نہیں جاسکتا ۔ کیونکہ نماز تو ہر حالت میں پڑھنا ہی ہوگی خواہ دل لگے یا نہ لگے ۔ البتہ توجہ اور دل لگانے کے ذریعے بھی استعمال کرتے رہیئے تاکہ رفتہ رفتہ آپ کی نماز نماز کامل بن جائے اور اﷲ والوں کی طرح آپ بھی حضور قلب اور کامل توجہ سے نماز ادا کرنے کے قابل بن جائیں ۔