میرے شیخ حضرت ہزاروی رحمہ اللہ تعالیٰ

میرے شیخ حضرت ہزاروی رحمہ اللہ تعالیٰ
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
عربی کا مقولہ ہے’’موت العالِم موت العالَم‘‘ یعنی عالم دین کی موت دنیا کی موت کے برابر ہے،بظاہر یہ مقولہ حقیقت کے منافی معلوم ہوتا ہے،مگر مقصد یہی ہے کہ ایک عالم دین کا دنیا سے اٹھ جانا دنیا کے باقی لوگوں کو دینی علوم سے محروم کرنے کے مترادف ہے،موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے کسی دور میں انکار نہیں کیا گیا ۔جنازے روز اٹھتے ہیں ،قبرستانوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ،موت سے کسی کو مفر نہیں ،کیا امیر اور کیا غریب،کیا بادشاہ اور کیا فقیر ،کیا علماء اور کیا جہلاء، اس دنیا میں جو بھی آیا ہے جانے کے لیے آیا ہے،دیوانے ہیں جو اسی دنیا کو اپنی حقیقی منزل اور اپنی علمی او رعملی کا وشوں کا منتہیٰ سمجھ لیتے ہیں مگر بعض جانے والے دنیا سے اس شان سے جاتے ہیں کہ بڑے بڑے ان کے جانے سے رشک کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کا جینا اور مرنا ،محبت اور دشمنی،وصل اور ہجر،سب کچھ اللہ کے لیے ہوتا ہے،وہ درختوں کی طرح خود گرم سرد موسموں کا سامنا کرتے ہیں مگر دوسروں کو راحت بخش سایہ عطا کرتے ہیں،شمع کی مانند خود پگھلتے ہیں مگر انسانیت کے لیے تاریک راہوں کو روشن کر دیتے ہیں۔اوربے شمار لوگ اپنا وقتی اور معمولی نوعیت کا کردار دکھا کر ذہنوں سے جلد محو ہو جاتے ہیںاور کچھ افراد اپنے غیر معمولی کردار کے انمٹ نقوش چھوڑ کر امر ہو جاتے ہیں،اس دنیائے فانی پر ایسے بھی کچھ خوش بخت لوگ بستے ہیں جو اپنی قابل رشک کارکردگی کی بدولت گمنامی کی زندگی سے شہرت کی رفعتوں کو چھوتے ہیں،وہ اپنی ہر دلعزیز شخصیت کی وجہ سے نظروں کو بھاتے ،دلوں میں سماتے اور ذہنوں پر چھا جاتے ہیں، ان کی دل نشیں یادوں سے تصورات کی حسین دنیا درخشاں،آباد اور شادر رہتی ہے،وہ خود تو اس جہان بے ثبات سے کوچ کر جاتے ہیں مگر زمانہ انہیں صدیوں تک یادر کھتا ہے،وہ اپنے عظیم کردار ونظریات کی صالح باقیات اور ایسی روشن یادگار یں چھوڑ جاتے ہیں، دنیا جن سے رہنمائی پاتی اور سدا، ان کا تذکرۂ خیر کرتی رہتی ہے،یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے درخشاں کردار کی بدولت تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن جاتے ہیں،ایسی ہی قابل قدر شخصیات میں سے ایک عظیم شخصیت ولیٔ کامل پیرحضرت مولانا عزیز الرحمان رحمہ اللہ تعالیٰ اللہ خلیفہ ٔ مجاز شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا نوراللہ مرقدہ‘اللہ سبحانہ‘ وتعالیٰ ا ن حضرات کی قبور پر اپنی رحمتوں کی بارش برسائے۔
بندۂ ناچیز ان کے بارے میں کچھ لکھنے کے قابل تو نہیں لیکن اپنے پیرومرشد کے بارے میںاپنے آپ کو لکھنےسے روک نہیں پارہا،اگر کچھ صحیح لکھ سکا تو وہ میرے رب کی عنایت ہے اور اگر حضرت جی کی شان کے مطابق نہ تحریر ہوسکا تووہ سراسر راقم کی کوتاہی اور نالائقی ہے۔بہر کیف یکم ذی القعدہ 1441ھ بمطابق 23جون2020ء منگل صبح پونے سات بجے حضرت جی کے بارے میں معلوم ہوا کہ دار الفنا سے دار البقا ء کی طرف تشریف لے گئے ، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعْوْن۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت جی رحمہ اللہ کی جملہ مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے انہیں جنت الفردوس میںجگہ نصیب فرمائے ۔وہ بحیثیت انسان بیک وقت بے مثال خطیب ،بے لوث و مخلص راہنماء، بلند پایہ مصنف،اعلیٰ درجہ کے منتظم، دینی افکار و نظریات کے عظیم مبلغ اور اس کے ساتھ ساتھ خدا ترس، زاہد ،متقی ،متوکل اور پرہیز گار تھے، جنہوں نے حیات مستعار کا راحت و سکون،آسائش و آرام امت مسلمہ کے واسطے ترک کردیا تھا اسی لئے علماء وصلحاء نے انہیں شفیق الامۃ کے خطاب سے نوازا ہوا تھاجس کی ساری زندگی دین حق کی سر بلندی اور سرفرازی کے لئے وقف ہو،مندرجہ بالا صفات وخصوصیات کے انسانوں کو اگر شمار کیا جائے توزمانۂ موجودہ میں پہلی صف میں میرے شیخ اورمیرے حضرت کا اسم گرامی ہو گاانشا ء اللہ تعالیٰ۔
٭…حضرت ہزاروی رحمہ اللہ تعالیٰ کاآبائی تعلق صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع بٹ گرام کے گاؤںچپل گرام سے تھا،آپ نے ابتدائی دینی تعلیم جامعہ فرقانیہ راوالپنڈی،جامعہ انوارالعلوم سے حاصل کی جبکہ 1974ء میں جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے سند فراغت حاصل کی۔٭…حضرت جی بعد ازاںجامع مسجد صدیق اکبرؓ الٰہ آباد راوالپنڈی میں امام و خطیب مقرر ہوئے جہاں انہوں نے ایک دینی اداراہ قائم کیا پھر کچھ عرصہ بعددارالعلوم زکریا ترنول کی بنیاد رکھی جو بعد میں ایک مرکزی حیثیت اختیار کر گیا،ان کا قائم کردہ دارالعلوم زکریا خدتعالیٰ ا اسے آباد و شاد رکھے- جس کی تعمیر و ترقی میں انہوں نے اپنی جسم کی توانائیوں کے ساتھ جان بھی گھلا دی تھی۔٭…آپ درس وتدریس کے علاوہ خانقاہ کے ساتھ ساتھ عملی سیاست سے بھی وابستہ رہے،آپ نے امام سیاست حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اﷲ کی 14سال تک خدمت کی، اسی خدمت کا فیض تھا کہ جو سادگی، عاجزی اورانکساری مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اﷲ میں تھیں، وہی آپ کی سیرت وکردار میں بھی جھلکتا تھا۔
1970 کے الیکشن میں حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ تعالیٰ کے الیکشن مہم میں بھر پور حصہ لیا اور آپ مولانا غلام غوث ہزاری کے خادم خاص تھے اور ان کی سیاسی سرگرمیوں میں بھی ان کے معان خصوصی تھے۔جمیعت علمائے اسلام کے ترجمان ماہنامہ الجمیعت کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔٭…آپ نے زندگی کے ہر موڑ پر رسم و رواج سے رو گردانی کرتے ہوئے سنت رسول ﷺ کو ترجیح دی ،اپنے محبوب ﷺ کی ہرہر ادا پر عمل کرکے اپنے متعلقین کو عمل کرکے دکھایااور بتایا،اورآقائے دوجہاں ﷺ پر درود وسلام پڑھنے پڑھانے اور پھیلانے کا ذریعہ بنیں۔ اس وقت دنیا بھر میں حضرت والا کے لیے دعائیں ہو رہی ہیں…اوراراد و اذکار اور درود شریف پڑھے جارہے ہیں….مجھے اور بہت سوں کو درود شریف پڑھنا سکھایا ہی حضرت جی نے ہے….درود شریف پڑھنے کا ذوق ہی ان سے ملا…اس لیے ان کا یہ حق ہے کہ ان کے ایصال ثواب کے لیے بہت درود شریف پڑھا اور پڑھایا جائے۔٭…اورفرمایا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وعقیدت دین وایمان کا جز ہے، دنیوی واخروی فلاح وکام یابی کا ضامن ہے ،جہنم اوراس کے درد ناک عذاب سے گلوخلاصی کے لیے اولین شرط ہے ،اور فرمایااپنی ساری زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے سانچے میں ڈھال دینا ہی اصل محبت ہے۔ اگر ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کے دعوے دار ہیں تو ہمیں اپنے قول و فعل سے اور اپنے عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو لوگوں تک پہنچانا ہوگا۔یہی اصل حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ ہم محمدی نظر آئیں۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق نظر آئیں اور زندگی کے ہر قدم پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں۔ہم اپنی تمام تر زندگی میں بغیر کسی حیل و حجت کے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں۔یہی محبوبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان ہے۔٭… حضرت استادجی میں بھی خشیت الٰہی کا غلبہ رہتا تھابالخصوص قرآن کریم کی تلاوت کے وقت حضرت والا پر عجیب کیفیت طاری ہو جاتی اور تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُم کا عملی نمونہ ہوتاتھایعنی قرآن کریم کی تلاوت کے وقت اپنے رب سے ڈرنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں،٭… قرآن سے شغف تو ان کو پالنے میں ملا تھا، ان کے شب بیدار ہونے کی گواہیوں سے تو ان کا سارا اہل چمن معمور تھا۔ آپ کو قرآن کریم سے اس قدر عشق و شغف تھا جب تک صحت نے وفا کی رمضان المبارک میں ساری ساری رات قرآن کریم سنتے سناتے رہتے تھے دعوت وتبلیغ کے اسفار میں رات کو جس پہر بھی واپسی ہوئی مسجد میں اللہ کے حضورنماز میں کھڑے ہوجاتے اور قرآن کی تلاوت کرتے رہتے تھے٭… آپ بہترین مدرس،عمدہ خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ کئی کتب کے مصنف بھی تھے،انتظامی امور کے باوجود آپ کے قلم سے ایسی فقید المثال تصانیف منصہ شہود پر آئیں جو بلاشبہ امت مسلمہ کے لئے گراں قدر و بیش بہا علمی ذخیرہ ہیں۔٭… عملی اعتبار سے ان کے تقویٰ و طہارت اور شرم و حیاء کا یہ حال تھا کہ ان کی نگاہیں ہمیشہ نیچی رہتی تھیں،حتیٰ کہ درس گاہ میں بھی ان کا یہی معمول ہوتا ،دورا ن درس نہایت متانت و سنجیدگی کا مظاہرہ فرماتے اپنے اساتذہ و مشائخ کے ذوق و مزاج کے خوگر تھے ،تا ہم اگر خلاف اسلام یا اکابر علماء کی اہانت و توہین کاکوئی پہلو محسوس فرماتے تو جلال میں آجاتے۔٭…ان کا ہر روز بلکہ زندگی بھر کا معمول تھا کہ وہ نماز کے وقت سے پہلے نماز کے لیے تیار ہو جاتے تھے،رمضان المبارک میں توبارہا دیکھا مغرب کی اذان خود دیتے’’بلا شبہ ہمارے اکابر و اسلاف صحابہ ؒ و تابعین ؒکے سچے عاشق،شیدائی اور فرمانبردار تھے ،جس طرح ان حضرات کا مسجد کے ساتھ رشتہ مضبوط و مستحکم تھا ،ٹھیک اسی طرح ان حضرات کو بھی مسجد کے علاوہ کہیں چین و سکون نہیں ملتا تھا،یہی وجہ ہے کہ وہ نماز سے پہلے مسجد میں نماز کا انتظار فرمایا کرتے تھے۔٭…حضرت جی انتہائی مہمان نواز بھی تھے جب مہمان آتے تو ان کی حیثیت کے مطابق مہمانی کا انتظام ہوتاتھا،بعض مہمانوں کو جاتے وقت بالخصوص آئمہ ومدرسین اور غریب طلباء کو نقد رقم بھی عطا فرماتے تھے ،٭…اپنے دوست احباب سے ایسے گھل مل جاتے جیسے ان کے برابر کے فرد ہی ہیں،اپنی علیحدہ ممتاز حیثیت قائم رکھنے کی کوشش نہیں فرماتے تھے،مدرسہ کے چھوٹوں اور بڑوں، سب میں استاد جی کے نام سے مشہور تھے ان کی بزرگانہ شفقت سے ہر شخص اپنا حصہ پاتا تھا اور میری طرح غالباً ہر شخص یہ محسوس کرتا تھا کہ اسے ان کی خاص توجہ اور عنایت حاصل ہے،اُن سے زیادہ ہمارا لحاظ کرتے ہیں،ان سے زیادہ ہمارا خیال رکھتے ہیں،یہ صرف میری بات نہیں آپ کو بہت سےحضرات ایسے ملیں گے جو یہی دعوی کر رہے ہوں گے کیوں کہ حضرت رحمہ اللہ سنت کے مطابق ہر کسی کو ایسے ہی توجہ دیتے،ایسی ہی شفقت فرماتے تھےایسا ہی اکرام کرتے تھے،حضرت جی عجیب انسان تھے،کیا سادگی اورکیا درویشی تھی کہ انہیں دیکھ کر زہد کا مفہوم سمجھ آتا تھا…ان کی باتیں سن کر ایمان تازہ ہوجاتا….عشق رسالت کا ایسا جذبہ کہ ان کی صحبت میں بیٹھ کر پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی میں تجدید کا احساس ہوتا تھا۔٭…وہ ایک بلند پایہ عالم دین اور عمر رسیدہ بزرگ ہونے کے باوجود ہم چھوٹوں کے ساتھ ایسے پیش آتے تھے جیسے وہ ایک دوست ہوں ،ان سے ہر ایک بات ہم بغیر کسی ڈر ،خوف اور جھجک کے کر لیا کرتاتھاجس پر انہوں نے کبھی بھی برا نہیں منایا بلکہ ہر بات میں مفید مشورہ دیتے ،نصیحت فرماتے اور حوصلہ افزائی کرتے، وہ اپنے سالکین اور اپنے سے تعلق رکھنے والوں کا بہت ہی زیادہ خیال رکھتے تھے۔حضرت کے مزاج میں خوش طبعی تھی اورکبھی کبھی خوش طبعی میں مزاح بھی فرمالیا کرتے تھے، اپنے مزاج کے لحاظ سے تواضع اور انکسار کا پیکر تھے۔٭… اپنی تمام زندگی علم دین کی خدمت کرنے میں گزار دی ،آپ رحمہ اللہ ایک معمولی وظیفہ پر اپنا گزارا کرتے رہے،طبیعت بے انتہا غیور تھی کبھی کسی کے سامنے اپنی ضرورت یا اپنی کسی تکلیف کااظہار نہیںکیا،٭…جید عالم دین جامع مسجد زکریا کے خطیب اور بہت بڑے دارالعلوم زکریا کے مہتمم ہونے کے باوجود انتہائی سادگی میں زندگی گزار دی،باہر سے آنے والوں کو جب یہ بتایا جاتا کہ وہ مدرسہ کے مہتمم اور ہمارے پیرصاحب ہیں تو پہلی نظر دیکھنے پر اس کو یقین ہی نہ آتا تھا مگر ملاقات کرنے اور گفتگو کرنے سے اس کا سارا تردد دور ہو جاتا ،وہ اپنے تلامذہ اور سالکین کو بھی ہمیشہ سادگی اپنانے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔٭…دروس وتقاریر میں حضرت کی جرأت و بے باکی پر زمانہ گواہ ہے،خلاف شرع عمل کو دیکھ کر اس کی اصلاح کرنے میں کسی بڑے سے بڑے کا لحاظ کئے بغیر تنبیہ کرنا ان کا مشن تھا۔٭…آپ بہت ہی نرم مزاج، رحم دل اور شگفتہ طبیعت کے مالک تھے،بڑے بڑے مشکل معاملات کو انتہائی خوش اسلوبی سے حل کر دینے والے،بڑی بڑی آزمائشوں کو صبر سے برداشت کرنے والے اور مشکل سے مشکل تکالیف کا ہمت سے مردانہ وار مقابلہ کرنے والے انسان تھے، ان کی ہر بات،ان کا ہر کام اور ان کی ہر عادت ہی سنت کے مطابق اور قابل رشک تھی۔٭…حضرت کی طبیعت میں خوش طبعی کے ساتھ ساتھ جلال بھی تھا،کئی بارکسی خلاف شرع بات حضرت کو غصہ کی حالت میں دیکھا گیاتو ڈر لگنے لگتا تھاجب کچھ دیر بعد غصہ کی کیفیت ختم ہوجا تی توکہتے ناراض نہ ہونا آپ کے بھلے کیلئے غصہ کرتا ہوںاگر مجھ میں بھی کوئی خلاف سنت کام پاؤ تو مجھے بتاؤ میں آپ کا شکریہ ادا کروں گا۔اور کبھی یہ بھی کہتے کہ مٹھائی بھی پیش کروں گا٭…زندگی میں کئی بار خوشی کے لمحات بھی آتے رہتے لیکن زیادہ خوشی اپنے کسی عزیز کے قرآن کریم حفظ مکمل کر لینے کے موقع پر فرماتے،اس دن بار بار حضرت فرماتے رہتے کہ بھئی الحمد للہ میں آج بہت خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس چھوٹی سی عمر میں میرے (فلاں) بیٹے یاپوتے کو حافظ بنا دیا ہے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے اس کوحفظ مکمل کرنے کی توفیق دی،حفاظ کی دستار بندی پر بھی حافظ بچوں سے ،ان کے والدین سے بلکہ پورے مجمع سے باربار الحمدللہ،الحمد للہ ،الحمدللہ کہلواتے اور فرماتے کہ اس نعمت پر جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے٭…بیان کے بعدمجلس ذکر سے پہلے حضرت جی کامنفرد اور نمایاں معمول یہ تھا تقریبا ہر اجتماع میں تمام حاضرین کوغلافِ کعبہ کے ٹکڑے کی زیارت کراتے اور نوجوانوں سے ایک عہد لیتے کہ جو بھی آئیندہ داڑھی سنت کے مطابق رکھنے کا وعدہ کرے اور نہ کٹانے کا عزم کرے اس کے چہرے پر اس غلافِ کعبہ کومَلوں گا بھی اور اس کے لئے دعا بھی کروںاورروضۂ رسولﷺ کے خادم کو فون کے ذریعہ توبہ کرنے والوں کا سلام عرض کریگا حضرت اقدس ہزاروی رحمہ اللہ کی یہ ادا دل کو چھونے والی تھی کہ جب بھی کوئی نوجوان ڈاڑھی رکھنے کا انکے ہاتھ پر توبہ کرکے وعدہ کرتا تو حضرت فوراً موبائل فون نکال کر روضۂ رسول کے خادم کو فون کرکے اس نوجوان کا سلام اور توبہ حضور اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش فرماتےکہ آج آپ کےفلاں امتی نے توبہ کی۔ معلوم نہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سے کتنے خوش ہوتے لیکن اب یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیاکیونکہ آج ایک سچےعاشق رسول حضرت مولانا پیر عزیز الرحمان ہزاروی صاحب ہمیں داغ مفارقت دے کراپنے لاکھوں علماء کرام مریدین کو یتیم کرکے ہم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیے ۔اس طرح ہر اجتماع میں سینکڑوں نوجوان کھڑے ہو جاتے اور داڑھی رکھنے کا عزم مصمم کرتے حضرت کے اس عمل سے لاکھوں نوجوانوں کو اس سنت پر عمل کرنے اللہ سبحانہ‘ وتعالیٰ نے توفیق دی۔٭…انھیں اکابر دیوبند کے ساتھ بے پناہ محبت تھی اور وہ موقع بہ موقع ان بزرگوں بالخصوص اپنے شیخ ومرشد شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اﷲ ان سے تعلق یافتہ حضرت سے اوراپنے اساتذہ اور بڑوںکا از حد احترام کرتے تھے، حضرت کے سامنے اکابر میں سے کوئی آجاتاتوحضرت کو باوجود شدید تکلیف کے دوزانو ہو کر بیٹھے ہی دیکھاگیا۔کبھی اپنے بڑوں کے ساتھ انتہائی درجہ کی بے تکلفی کے باوجود کبھی بے ادبی کا انداز اختیار کرتے نہیں دیکھا گیا، حضرت کی شخصیت کو ان کے اقرباء تلامذہ اور تمام متعلقین کبھی بھول نہ سکیں گے۔٭… آپ نے فرمایااللہ رب العزت کی محبت اور اللہ تعالیٰ کے لیے کسی سے محبت ، ایک ایسی نعمت ہے جو دین ودنیا ہر جگہ فلاح ونجات کے لیے کافی ہے۔٭…آپ نہایت راسخ العقیدہ عالم دین تھے،ان کا دل عشق رسول ﷺ دینی اور ملی حمیت سے معمور تھا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف،خاتم النبیین ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف کوئی بات برداشت نہ کرسکتے تھے۔٭…ایک دفعہ فرمایا اہل سنت والجماعت کے نزدیک حضور علیہ السلام کے چاروں خلفاء حضرت ابو بکر صدیق ؓ، حضرت عمر فاروق ؓ،حضرت عثمان غنی ؓاور حضرت علی مرتضیٰؓ خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین ہدایت یافتہ ہیں،او ر ہمارے لئے ان کی اقتداء ضروری ہے ،٭…باطل فتنوں کا تعاقب بھی حضرت والاکا ایک خاص وصف تھا،ہر دور میں جس چیز کو شریعت کی رو سے غلط پایا،اس پر بڑی جرات مندی سےتنقید کی اس میدان میں بھی لایخافون لومۃ لائم کا مصداق تھے۔٭…ایک مرتبہ حضرت نے اپنی کتاب دوبھائی مجھے دی اور فرمایاکہ حضرت جی وکیل صحابہ مولانا قاضی مظہر حسین صاحب رحمہ اﷲ کومیری طرف سے سلام عرض کرنااور یہ کتاب ہدیہ کردینا،میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا حضرت یہ کس موضوع پر ہے،انہوں نے فرمایا اسے لے کر پڑھو،یہ مودودی صاحب کے نظریات و عقائد پر ہے اس کا نظریہ ہے کہ رسولِ خدا کے سوا کسی انسان کو معیار حق نہ بنایا جائے،اورکسی کو تنقید سے بالا تر نہ سمجھا جائے، کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہوں،اس شر انگیز اصول سے پہلے تو حضور ﷺ کے علاوہ باقی انبیاء علیہم السلام کا معیار حق ہونا بھی ساقط ہو جاتا ہے…اور پھر صحابہ کرام ؓ کا معیار حق ہونا بھی۔اور مودودی صاحب کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃوالسلام فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے تھے۔اوریہ رافضیت کا دوسرا نام ہے ،اس کتاب (دوبھائی)میںخمینی اور مودودی کا تذکرہ ہے،مودودی صاحب نے صحابہ کرام ؓ کے معیار حق ہونے سے انکار کیا تو اکابرین اہل سنت کے نزدیک گمراہ ٹھہرے۔٭…اور فرمایا کہ ہمارے حضرات پڑھتے نہیں ہیںاپنے بزرگوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا کرو،اپنے عقائد ونظریات کو پختہ کرو ۔
٭…آپ ناموس رسالت، عظمت صحابہؓ و اہل بیتؓ، عقیدہ ختم نبوت کے لیے ہمیشہ سربکف رہے۔ آپ کی تمام زندگی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ، تزکیہ نفس، اصلاح معاشرہ، مساجد و مدارس اور خانقاہوں کے قیام و دفاع، دینی ومذہبی جماعتوں کی سرپرستی میں گزری۔ آپ ملک میں نظام مصطفیٰؐ کے عملی نفاذ اور ناموس صحابہؓ و اہل بیتؓ کے تحفظ کے لیے عملی طور پر سرگرم رہے۔ پاکستان بھر کی دینی جماعتیں،قائدین، علماء و مشائخ سبھی آپ کا بے حد احترام کرتے تھے بلکہ آپ پر مکمل اعتماد بھی تھا۔٭…ایک بیان میں فرمایا کہ آج ایک نہایت ہی دردناک خبر سننے کو ملی قادیانیوں کو اقلیتی رکن کی حیثیت سے نامزد کیا جا ئے گا اس ضمن میں یہ واضح کردینا چاہتاہوںقادیانیوں نےمفکرپاکستان حضرت علامہ اقبال رحمہ اللہ کو ملک وملت کا غدار قرار دیا تھا،اور یہ وہی قادیانی ہیں جنہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کاجنازہ اس وقت کےوزیر خارجہ سر ظفر اللہ نے یہ کہہ کر پڑھنے سے انکار کیاکہ مجھے مسلمان حکومت کا کافر وزیرسمجھویاکافر حکومت کا مسلمان وزیر ۔اور اب تک انہوں نےہر موقع پرملک پاکستان سےبے وفائی ہی کی ہے اور ہمیں افسوس ہے کہ موجودہ حکومت نے آتے ہی قادیانیوں کیلئے راستے کھولےہیں ، یہ فیصلہ انتہائی تشویس ناک ہے ،پورے ملک اور پوری دنیا کے مسلمانوں پر تشویش کی لہر ہےاور اگر ایسا کرنا ہی تھا پہلے ان کو منو او، قادیانی یہ تسلیم کریںکہ ہم غیر مسلم اقلیت ہیں ،انہوں نے اس آئین کو تسلیم نہیں کیااور وہ اپنے آپ کو پوری دنیا میں مسلمان شو کر رہے ہیں،اسلام کا نام استعمال کررہے ہیں اور متفقہ آئین پاکستان کاجو فیصلہ ہے اس کے وہ منکر ہیں ، اور تم ان پر یہ نوازشات کررہے ہو، ان نازک حالات میں جب ملک ہر طرح معاشی لحاظ سے بھی انتشاروخلفشار کا شکار ہےیہ فیصلہ ملک وملت کے لئے اور عوام کیلئے بالکل مفید نہیں ہے فوری طور سے یہ فیصلہ واپس لیا جائےختم نبوت کے تمام علمائے کرام نے بھی اس کو رد کیا ہے۔اس سے پہلے ان سے یہ لکھوائیں،آمادہ کریںوہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کریں،جیسے ہندو،سکھ ،عیسائی وغیرہ برادری ہے کسی کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلم سمجھتے ہیں،اور یہ حقوق اسلام کے استعمال کرتے ہیں،اسلام کے نام سے یہ کام کررہے ہیں اوپر سے یہ نوازشات یہ حرکتیں ٹھیک نہیں ہیں اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہیں یاد رکھو! انشاء اللہ یہ کامیا ب نہیں ہوں گے اور نہ ہم ہونے دیں گے ،یہ آئین پاکستان سےوفاداری کریں اوراپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کریں،میں یہ بات وضاحت سے کہنا چاہتا ہو ںیہ کھیل مت کھیلو یہ قادیانی آئین پاکستان اور اسلام کے ہمیشہ سے غدار رہیں ہیںان کو اقلیتی کمیشن میں ہرگز شامل نہ کریں اور یہ فیصلہ فوراً واپس لیں۔٭… فرمایا’’جائز فروعی اختلاف تو باعث رحمت ہیں مگر بعض ضدی او رمتعصب قسم کے لوگ کسی معمولی اختلاف کوبنیاد بنا کر آپس میں بحث و مناظرہ کرتے ہیں اور پھر ہٹ دھرمی کی وجہ سے کسی نتیجے پر نہیںپہنچ پاتے تو آپس میں سر پھٹو ل کرتے ہیں ،بعض اوقات ایسے اختلاف قتال تک پہنچ جاتے ہیں۔
٭…کرونا وائرس کی وبا شروع سے قبل حضرت نے مسلم سربراہان مملکت کے نام ایک کھلے خط میں دردمندانہ اپیل کرتے ہوئے کہاتھا کہ ’’ہمارا قرآن و سنت پر ایمان ہے، اس وقت ساری دنیا کے انسان جس کرب و ابتلاء سے دورچار ہیں، تمام تر قوتیں اور تدبیر یںفیل ہوچکی ہیں،قوم سخت خوف و ہراس میںہے، اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں ۔ (ترجمہ) ’’تم اپنے رب سے معافی مانگو، پھر اسی کی طرف رجوع کرو، یقین رکھو کہ میرا رب بڑا مہربان، بہت محبت کرنے والا ہے‘‘ (سورہ ھود آیت نمبر90 ) ہمارے نبی حضرت محمد کریمﷺ خاتم النبین ہیں، آپﷺ کا پیغام امت کے نام آیا تھا، ’’ آپﷺ نے قبل از وقت تنبیہ فرما دی کہ امت کے ہر فرد کو توبہ و استغفار، درود شریف کی کثرت، دعائوں کا اہتمام، صدقہ و خیرات، مساجد کو نمازوں سے آباد کریں، تاجر حلال کمائیں، منافع کم کریں، یتیموں، مسکینوں، غریبوں اور حیوانات کی بھی مدد کریں، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچیں اور اتباع سنت کا اہتمام کریں حضرت جی نے مسلم سربراہان کے نام لکھے ہوئے اپنے خط میں فرماتے ہیں کہ مسلم سربراہان! آپ کو اللہ نے اختیار دیا ہے، جلد سے جلد مندرجہ بالا ارشادات پر خود بھی فوری عمل کریں، اور اپنے ہاں عوام کو بھی عمل کی تربیت دیں۔حضرت اقدس نے اپنے مکتوب میں مزید لکھا تھا کہ تاجر حلال کھائیں‘ حرام سے پرہیز کریں‘ یتیموں‘ مسکینوں اور چرند‘ پرند کی مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کی کوشش کریں اور ابتاع سنت کا خوب اہتمام کریں‘ اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر اپنے لئے‘ اپنے وطن کے لئے‘ پوری انسانیت کی ہدایت کیلئے خوب دعائوں کا اہتمام کریں۔‘‘
٭…طالبان حکومت میں آپ افغانستان دورے پر تشریف لے گئے وہاں مختلف جگہوں کی زیارت کی اور طالبان کے فتح کئے ہوئے علاقوں کو دیکھا ۔اتفاق سے ایک دن افغانستان میں آباد سکھوں کے بستی میں جانا ہوا ، ( یہ کہتے ہوئے ) حضرت مسکرائے اور فرمایا میری لمبی داڑھی ہے اور پنجابی زبان پر مہارت حاصل ہے ، میں وہاں سکھوں کے قریب گیا اور انکو متعجبانہ انداز میں کہا کہ آج کل تو بڑے طالبان وغیرہ ہیں ہر طرف ، آپ لوگوں کو تکلیف تو پہنچاتے ہونگے .فرمایا ان سکھوں نے اپنے روایتی لہجے میں کہا : نہیں جی ، ھمارے تو کتے بھی اب رات کو سکون سے سوتے ہیں ۔٭…ایک دفعہ ملا محمد عمر رحمۃ اللّٰہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں افغانستان بازار میں چکر لگا رہا تھا تو باقی تو کوئی مسئلہ مجھے نظر نہیں آیا ، لیکن دکانوں میں جو صابن اور صرف بک رہا تھا ، اس پر تصاویر بنی ہوئیں تھیں ۔حضرت نے فرمایا : میں نے ملا محمد عمر رحمۃ اللّٰہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت یہ تصاویر ہٹادیں ۔ کہتے ہیں میں کچھ دن کے بعد پاکستان چلا آیا ، کچھ دن کے بعد مجھے خبربھیجی گئی کہ ملا محمد عمر رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پورے افغانستان میں حکم صادر فرمایا ہے کہ کسی بھی ساشے پر کوئی بھی تصویر نہ لگائی جائے ۔
٭…اللہ والوں کا سایہ ہمارے سروں سے اٹھ جانا کسی قیامت سے کم نہیں، لوگ مٹی سے سونا نکالتے ہیں اور ہم اپنے ہاتھوں سے سونے جیسی شخصیات مٹی میں دفن کر آئے ہیں،یہی حکم خدا وندی تھا، اسی کی رضا میں ہمیں راضی رہنا ہے، ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ اﷲ پاک نے اپنے اس نیک بندے کو ان کے شایان شان زندگی عطا کی ہوگی، وہ زندگی جو دائمی ہے، ہر ذی نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور اس دائمی زندگی کی جانب بڑھنا ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ دائمی زندگی ہی ایک حقیقت ہے۔ ہم جس زندگی کو زندگی سمجھ کر اسے سنوارنے کے لیے دن رات ایک کر رہے ہیں، یہ سب سے بڑا دھوکہ ہے۔٭…حضرت کی وصیت کے مطابق مفتی سید مختارالدین شاہ صاحب کوان کی خانقاہ مدرسہ ومسجد کا سرپرست قرار دیا گیا بعد ازاں مفتی مختارالدین شاہ صاحب نے حضرت والا کے بڑے صاحبزادے مولانا عتیق الرحمان صاحب کو جانشین مدرسہ خانقاہ کا مہتمم،جبکہ صاحبزادہ مفتی محمد اویس عزیز صاحب کو نائب مہتمم بنا کر دستار بندی کی گئی۔٭…حضرت والا دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور گزشتہ چند روز سے طبیعت ناساز تھی ان کی نماز جنازہ آپ کی وصیت کے مطابق مفتی سید مختارالدین شاہ صاحب کی اقتداء میں ادا کی گئی جو شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ کے خلفاء میں سے ہیں۔پنڈی اسلام آباد کی تاریخ کے سب سے بڑے جنازوں میں سے ایک جنازہ پیر جی حضرت پیر عزیز الرحمن ہزاروی صاحب رحمہ اللہ کا ہوا،سخت گرمی اور حبس میں جنازہ سے قبل خوب گرج چمک کر بارش ہوئی، جس کی برکت سے موسم ٹھنڈا ہوا اور آسمان پر انتہائی خوبصورت دھنک رنگ نمودار ہو گئے۔
نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد حضرت والاکے جسد خاکی کی تدفین دارالعلوم زکریا سے متصل قبرستان میں کی گئی ۔ ہزاروں افراد اپنے اس محبوب استاذ اور مربی کو رخصت کرنے کے لیے ساتھ ساتھ تھے جبکہ نماز جنازہ میں مشائخ عظام اور ہزاروں دیگرجید علماء کرام اور دینی کارکنوں تاحد نگاہ ایک جم غفیر تھا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حضرت کے نقش قدم پر چلائے اور ان کے درجات بلند فرمائے، ان کے لگائے ہوئے پودے کو شاداب رکھے اور ان کے مشن کو اللہ تعالیٰ تاقیامت جاری و ساری رکھے،اور ہمیں اس مشن کو استقامت اور خلوص کے ساتھ آگے بڑھانے کی توفیق دے ، اللہ تعالیٰ حضرت کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور ہم سب کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں ، ان کے الطاف وعنایات کی یاد اس دنیا میں بھی سرمایہ حیات ہے اور یقین ہے کہ جب وہ جنت الفردوس کے بلند وبالا مقامات میں اپنے رب کی نعمتوںکے حق دار قرار دیے جائیں گے تو ہم جیسے کوتاہ عمل وہاں بھی ان شاء اللہ اس نسبت کی برکات سے محروم نہیں رہیں گے: وَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُم بِإِیْمَانٍ أَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَا أَلَتْنَاہُم مِّنْ عَمَلِہِم مِّن شَیْئ (الطور ۲۱)