مقدّس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرنے والے شرپسند
حالیہ عشرہ محرم الحرام میں اسلام آباد اور کراچی سمیت اہل تشیع نےاپنی مجالس اور ماتمی جلوسوں میں اصحاب رسول اللہ !ﷺ کی شان میں گستاخی کرکے فرقہ واریت پھیلانے کی ناکام کوشش کی ہےحکومتی اداروں اوراس کے متعلقہ لوگوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چا ہئے کہ خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی یا دیگر صحابہ واہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم میں سےکسی ایک بزرگ کی توہین تحقیر بھی کسی سنی مسلمان کے لئے قابل برداشت نہیں ہے اور ایسی کوئی بات اگر سرعام ہو تو فساد کا باعث بنتی ہے امن وامان کے لئے ایسے امن کے دشمنوںاور شرپسند عناصر کوگرفتار کرکے سخت کاروائی عمل میں لائی جائےبصور ت دیگر حکومتی ایماء پر ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کا خطرہ ہےجس کو سنبھالنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا اور فرقہ وارانہ اقدامات کو روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا تعلق براہِ راست خاتم النبیین نبی کریمﷺ کی ذات گرامی سے ہے، اس لیے ان کی محبت عین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے اور ان سے بغض رکھنا ، براہ راست نبی کریم ﷺسے بغض رکھنا ہے، ان کے حق میں ادنیٰ لب کشائی اور جرأت بھی ناقابل معافی جرم ہے۔چنانچہ خاتم الانبیاء امام الانبیاء ﷺ نے ارشادفرمایا:” اللہ سے ڈرو۔ اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملہ میں، ان کو میرے بعد ہدف تنقید نہ بنانا،پس جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض کی بنا پر، جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی، اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑ لے۔(ترمذی حدیث نمبر:3662 )اسی طرح ایک مقام پر فرمایا:” میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو ،میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو ، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر تم میں سے ایک شخص اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کردے تو ان کے ایک سیر جَو کو،بلکہ اس کے عشر عشیر کوبھی نہیں پہنچ سکتا۔(ترمذی، حدیث نمبر:3861 )ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سے جو بُرا ( یعنی صحابہ کو بُرا کہتا) ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ (ترمذی ،حدیث نمبر :3866)ایک حدیث میں خاتم النبیین ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے میرے صحابہ کو گالی دی ،اس پر اللہ تعالیٰ کی ،فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔(رواہ الطبرانی)یہ وہ محبوب جماعت ہے جسے دنیا ہی میں رضائے الٰہی کا پروانہ عطا کیاگیا،قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے ایک عظیم واسطے ہیں کہ ان کے بغیر دین و شریعت نا مکمل ہے ، امت کو دین و ایمان کا سرمایہ انہی مقدس نفوس کے واسطے سے ملا ،اگرخیر القرون میں ان کی محنتیں اور قربانیاں نہ ہوتیں تو آج نہ جانے امت مسلمہ زیغ وضلالت اور گمراہی کی کن کھائیوں میں جاگرتی،حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم کی اسی رفعت ِ شان اور عالی مرتبت صفات کے سبب ہر دور کے علمائے حق نے صحابہ کرا م رضی اللہ عنہم سے عقیدت و محبت کو ایمان کا جز قرار دیا ہے ، ان سے محبت حب نبوی ﷺکی دلیل ہے اور ان سے بغض ونفرت نبی کریمﷺ سے بغض و عداوت کے مترادف ہے ۔ اصحاب ِ محمدﷺ کو بُرا بھلا کہنا ، ان کی شان میں ادنی سی گستاخی بھی سخت محرومی کا باعث ہے ۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول مبارک ہے کہ” میں اس شخص سے بیزار ہوں جو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بغض رکھے،جو مجھ سے محبت رکھتا ہے وُہ ان(حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے بھی محبت رکھے۔(فضائل صدیق ترجمہ مولانا عبدالتواب صاحب ملتانی ؒ ص15)٭… حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا”وہ میرے دو دوست ہیں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں ہدایت کے امام،اسلام کے بزرگ اور رسول اللہ!ﷺ کے بعد سب کے مقتداء جس نے ان کی اطاعت کی شر سے بچ رہا اور جو شخص ان کے قدم بقدم چلا وہ سیدھی راہ پر چلا۔”(فضائل صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ص7) ٭… حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ”میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،کی بطیب خاطر بیعت کرکے ان کی مدد کرتا رہا۔”(ایضاً ص9)٭… “امام ابو جعفر صادق محمد باقر ؒ کا بیان ہے کہ”میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت کا منکر نہیں اور نہ ہی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت کا منکر ہوں۔ہاں لیکن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں۔”( احتجاج طبرسي ص 204)”مخالف گروہ کے ایک شخص نے امام جعفر صادق ؒ سے خلافت صدیق وعمر رضوان اللہ عنھم اجمعین کے متعلق سوال کیا تو آپ ؒنے فرمایا۔”وہ دونوں امام عادل تھے،مصنف تھے،حق پر تھے اور حق پر انہوں نے وفات پائی ان دونوں پر قیامت تک اللہ کی رحمت نازل ہورضوان اللہ عنھم اجمعین ۔(احقاق الحق ص 1 مطبوعۃ 1203)٭… حضرت امام جعفر صادق ؒ نے فرمایا:”حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پڑ نانا ہیں۔کیا کوئی شخص اپنے آباؤاجداد کو سب وشتم کرنا پسند کرتا ہے؟اگر میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں گستاخی کروں توخدا مجھے کوئی شان اور عزت نہ دے۔”(احقاق الحق ص7)”حضرت امام جعفر ؒ کی والدہ ام فروہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پڑ پوتی (پوتے کی بیٹی) تھیں اور امام جعفر صادق کی نانی حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوتی تھیں”٭…حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ:”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ شخص ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیلؑ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر”صدیق” رضی اللہ تعالیٰ عنہ ” کا نام دیا ہے۔نماز کی امامت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تھے۔آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہمارے دین کےلئے پسند فرمایا ہم نے ان کو اپنی دنیا کے لئے پسند کیا اور بیعت کی اور خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تسلیم کیا۔(بحوالہ رسالہ فضائل صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مصنف امام ابو طالب محمد ابن العشاری المتوفی 451ھ ص 15 ترجمہ مولانا عبدالتواب صاحب ملتانی ؒ)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کوئی پھولوں کی سیج نہ تھی۔بلکہ کانٹوں کا بستر تھا جس کو آرام دہ بنانے کےلئے تمام کانٹوں کو چننا ضروری تھا۔خلافت کے مختصر اور قلیل عرصے میں اندرون ملک کے فتنوں کو فروع کرنے کے علاوہ بلاد غیر کو ممالک محروسہ اسلامی بنا کر آئندہ کے لئے فتوحات کے دروازوں کا افتتاح کیا اور جن مشکلات کا سامنا سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہوا اس کی مثال پیش کرنے سے تاریخ بالکل خاموش ہے۔( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )٭… حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مفصل تقریر کی جس کا شروع حصہ یہ ہے کہ:”اے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خدا آپ پر رحم فرمائے۔اللہ کی قسم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام امت میں سب سے پہلےایمان لائے۔سب سے زیادہ ایمان کو اپنا خُلق بنایا،سب سے بڑھ کر (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل دوستدار تھے۔اور خُلق وفضل اور سیرت وصحبت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سب سے زیادہ نسبت حاصل تھی۔خدا آپ کو اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جمیع مسلمانوں کی طرف سے جزاء خیر دے۔آمین!
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا گیا کیا جناب ابو بکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے محبت کرنا سنّت ہے ؟ توآپ نے فرمایا کہ نہیں،بلکہ فرض ہے۔(کتاب الرّقائق والحکایات لخیثمۃ بن سلمان،ص:171)امام مالک رحمہ اللہ کا فرمان:”کہ سلف صالحین رحمہم اللہ اپنی اولاد کو قرآن کریم کی سورتوں کی طرح سیدنا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی محبت کے آداب سکھاتے تھے۔(مسند ابن القاسم الجوہری ،ص:100)حضرت ابنِ حزم رحمہ اللہ کا فرمان ہےآپ فرماتے ہیں کہ:صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبّت فرض ہے۔(الجمہرۃ، ص:3)امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:جو شخص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو بھی ،خواہ وہ حضرت ابوبکرو عمر و عثمان ہوں یا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم ہوں، برا کہے تو اگر کفر و فحش کا الزام لگائے تو اس کو قتل کردیا جائے اور اس کے علاوہ گالیوں میں سے کوئی گالی دے تو اسے سخت سزا دی جائے گی ۔امام احمدرحمہ اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ :جو شخص کسی صحابی پر عیب یا نقص کاالزام لگائے تو اس پر شرعی سزا واجب ہے اور امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے اسلام کو مشکوک سمجھا کرتے تھے، فرماتے تھے کہ ایسے شخص کو دین اسلام پر تم ایک تہمت سمجھو۔امام مسلم کے استاد ابوزرعہ عراقی فرماتے ہیں کہ: تم کسی کو دیکھو کہ وہ کسی صحابی کی تنقیص کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ یہ شخص زندیق ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن حق ہے اور رسول حق ہے اور جو کچھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں وہ حق ہے ، اور ہم تک یہ سب حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واسطے سے پہنچا، پس جس نے صحابہ کو مجروح کیا اور ان کی شخصیت کو داغ دار کیا بے شک وہ شخص کتاب و سنت کو باطل کرنا چاہتا ہے، پس اس نالائق کو زندیق اور گم راہ قرار دینا زیادہ احق اور اقوم ہے۔امام طحاوی اپنی مشہور ترین کتاب عقیدہ طحاویہ میں ذکر فرماتے ہیں:ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے کسی کی محبت میں غلو نہیں کرتے اور نہ ہی کسی پر تبرّا کرتے ہیں،اور ہم ہر اس شخص سے بغض و نفرت کرتے ہیں جو صحابہ سے بغض رکھتا ہے اور ہم ہمیشہ خیر و بھلائی کے ساتھ ہی انکا ذکرکرتے ہیں ، ان سے محبت کرنا دین ہے، ایمان ہے، احسان ہے، جب کہ ان سے بغض رکھنا کفر ہے ، نفاق ہے اور سرکشی و فساد کا سبب ہے۔(شرح العقید ة الطحاویۃ:7042 )
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثارصحابہ رضی اللہ عنہم پر سبّ وشتم(گالی گلوچ)کرنا، اُن پر تبرّا کرنا اور اپنی زبانوں کو اُن مقدّس ہستیوں کے خلاف استعمال کرنا یہ موجودہ دور کی پیداوار نہیںبلکہ اس کی ابتدا اُسی دن سے ہوگئی تھی جس دن سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے امام الانبیاء خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی دعوت پر لبیک کہاتھا اور اپنا سب کچھ اللہ اور اُس کے دین کی سر بلندی کے لیے وقف کردیا تھا ، اُسی دن سے اسلام کے خلاف جہاں یہود و نصاریٰ اورمشرکین سرگرم ہوئے وہیں اسلام کا لبادہ اوڑھ کر چند لوگ جواپنے دلوں میں دینِ اسلام کو مٹانے کی خواہش رکھتے ہیں اس مشن میں اُن کے ساتھ لگ گئے اوراپنے مذموم مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے انہوں نے پہلےخاتم النبیین رسولِ اکرمﷺکی مقدّس شخصیت کو مجروح کرنا چاہا،لیکن وہ اس میں کام یاب نہ ہوسکے کیوں کہ اس طرح اُن کا نفاق اور کفر ظاہرہوجاتااوروہ مسلمانوں میں گھل مل نہ سکتے تھے، اسی لیے اُنہوں نے رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کواپناہدفِ تنقید بنایا اور اُن کے خلاف پرو پیگنڈہ شروع کیا ،ان کی شان میں بے ادبی اور گستاخانہ کلمات کہے اور نامناسب تحریریں لکھیں اور تاریخی کتابوں میں بے شمار واقعات گستاخانِ صحابہ کے عبرت ناک انجام کے بارے میں موجود ہیں، ذیل میں بطور نمونہ کےکچھ عبرت آموز واقعات ہدیہ قارئین کیے جارہے ہیں۔
کمال ابن القدیم نے تاریخ حلب میں بیان کیا ہے کہ: ابن منیر نامی شخص جو حضرات شیخین (حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما)کو برا کہتا ہے، جب مرگیا تو حلب کے نوجوانوں کو ابن منیر کا انجام دیکھنے کا داعیہ پیدا ہوا، آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے سنا ہے کہ جو شخص حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہتا ہے تواس کا چہرہ قبر میں سور جیسا ہوجاتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ابن منیر حضرات شیخین کو برا کہتا تھا، چلو اس کی قبر کھود کر دیکھیں کیا واقعی ایسا ہی ہے، جیسا کہ ہم نے سنا ہے چناں چہ چند نوجوان اس پر متفق ہوگئے اور بالآخر انہوں نے ابن منیر کی قبر کھودڈالی، جب قبر کھودی گئی تو کھلی آنکھوں سے دیکھا گیا کہ اس کا چہرہ قبلہ سے پھر گیا اور سور کی شکل میں تبدیل ہوگیا ہے۔ چناں چہ اس کی لاش کو عبرت کے لیے مجمع عام میں لایا گیا، پھر اس کو مٹی میں چھپا دیا گیا۔ (الزواجر:2/383)
ایک مرد صالح نے بیان کیا کہ :ایک شخص کوفہ کا رہنے والاتھا، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہتا تھا، ہمارے ساتھ ہم سفر ہوا، ہم نے ہر چند اسے نصیحت کی، لیکن وہ نہ مانا، ہم نے اس سے کہا کہ ہم سے تو علیحدہ ہوجا، چناں چہ جب ہم اس سفر سے واپس ہونے لگے تو ایک روز اسی ہم سفر کا ملازم نظر آیا، اس نے ہم سے کہا کہ ہمارے آقا کی تو عجیب حالت ہوگئی ہے، اس کے دونوں ہاتھ بندر کے مانند ہوگئے ہیں، پھر جب ہم اس کے پاس گئے اور اس سے گھر واپس چلنے کے لیے کہا، اس نے جواب دیا کہ مجھے عجیب مصیبت پہنچی ہے اور اپنے دونوں ہاتھ آستین سے نکال کر دکھائے تو واقعی بندر کے مثل تھے، پھر وہ ہمارے ساتھ ہولیا، لیکن راستے میں اس سے زیادہ عجیب تر واقعہ پیش آیا، ایک جگہ بہت سے بندر جمع تھے، جب ہمارا قافلہ وہاں پہنچا تو وہ سواری سے اتر کر بندر کی شکل میں ہو کر ان ہی کے ساتھ جاملا۔(عظمت صحابہ نمبر:961)
حضرت سعد بن ابی وقاص جو خاتم النبیین حضور کریم ﷺ کے رشتے میں ماموں ہوتے تھے، وہ مستجاب الدعوات تھے، حضور نبی کریم ﷺنے ان کے لیے دعا فرمائی تھی کہ اے اللہ! سعد کی دعا قبول فرما، ایک مجلس میں کچھ ناقدین معترضین لوگ بیٹھے تھے، جو حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی لڑائیوں پر تبصرہ کر رہے تھے، حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا بھائی! ان کو برا مت کہو،کیوں کہ یہ اچھے لوگ ہیں اور حضورکریم صلی الله علیہ وسلم نے ان کے جنتی ہونے کی بشارت دی ہے۔ ایک شخص اصحاب تنقید میں سے جو بہت زور و شور سے بول رہا تھا، اس نے پھر نامناسب الفاظ کہے، سعد بن ابی وقاص نے پھر منع کیا، اس کے باوجود وہ بولتا ہی رہا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا اچھا اب میں بددعا کرتا ہوں، انہوں نے بد دعا کی کہ اے اللہ! یہ تیرے مخلص بندے ہیں، جن کے متعلق تیرے رسول صلی الله علیہ وسلم نے جنتی ہونے کی بشارت دی ہے، یہ شخص ان کو برا کہہ رہا ہے، اگر واقعی یہ تیرے بندے تیری بارگاہ میں مقبول ہیں تو اس برا کہنے والے پر ایسا عذاب مسلط فرما جو دیکھنے والوں کے لیے عبرت بن جائے، پس اتنا کہنا تھا کہ سامنے اونٹوں کی قطار جا رہی تھی، ان میں سے ایک اونٹ بگڑا، وہ ان کی قطار میں سے نکل آیا، ادھر ادھر دیکھا، پھر اس شخص کو پکڑا اور اس کی کھوپڑی کو چبا گیا، اور چباکر اس کو ختم کردیا، پھر قطار میں جاکر مل گیا۔(عظمت صحابہ نمبر:966)
الغرض! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ مبارک ہستیاں ہیں کہ جن کی عبادات ، جن کے معاملات ، جن کی قربانیاں ،حتی کہ جن کا جینا اور مرنا صرف اور صرف ایک الله ربّ العزّت والجلال ہی کے لیے تھا، اس لیے ان کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کرنے سے بچنا چاہیے اور ان سے عقیدت و محبت رکھنا اور ان کے نقش قدم پر چلنا ہر مسلمان کی شرعی ذمہ داری ہے۔اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ وہ ہمیںدین حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور حشر زمرہ صالحین سے کرے۔آمین!