مفتی محمد زرولی خان صاحب رحمہ اللہ کا مختصر تعارف
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب احمدِ مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر دروازۂ نبوت و رسالت کو بند کر دیا۔ اب اگر اس کے بندے گمراہی اور ضلالت میں مبتلا ہوں گے تو ان کی ہدایت و راہنمائی کے لیے اس نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہ عظیم منصب امتِ محمدیہ کے سپرد کر دیا۔اب دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے تحفظ و استحکام کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے نیک بندوں علما، صلحا، اور اولیا کو منتخب فرما کر ان کے مقامات کو بلند فرما دیا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے العلماء ورثۃ الانبیاء (علما انبیا کے وارث ہیں ) کا مژدہ سنا کر علما کی عزت بڑھائی علمائے حق ،علمائے دیوبند درحقیقت اہل السنت والجماعت کے صحیح جانشین اور سچے ترجمان ہیں اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو دین اسلام کے تمام شعبہ جات کی خدمت ، حفاظت اور تبلیغ کے لئے عصر ہذا میں منتخب فرمایا ہے حتی کہ دین حق کی محنت کا کوئی ایسا میدان نہیں ہے جس میں یہ لوگ محنت کرکے اور مشقت اٹھا کر نمایاں کر دار ادا نہ کر رہے ہوں ۔
اسی گلدستہ میں ایک شخصیتمفتی، محقق عالم دین، کئی کتابوں کے مصنف، اپنے اسلاف کی روایات کے امین، فتنۂ جدیدیت کے لیے سیف قاطع،علوم و معارف کے نیر تاباں، سرتاج محدث و مفسر، علامہ کشمیری رحمہ اللہ کے عاشق صادق، بے باک عالم دین حضرت مفتی زر ولی خان رحمہ اللہ (بانی و ناظم وشیخ الحدیث:جامعہ عربیہ احسن العلوم، کراچی، پاکستان) اب اس فانی دنیا میں نہیں رہے بلکہ عالم جاودانی کی طرف ہمیشہ ہمیش کے لئے کوچ کر گئےإنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔حضرت مفتی صاحب قدس سرہٗ اس قحط الرجال کےدور میں علم و عمل کے بحر بیکراں تھے، باری تعالیٰ عز اسمہ نے حضرت والا کو ان گنت خوبیوں سے نوازا تھا۔
جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون سے سند فراغت حاصل کی،علامہ یوسف بنوری، مفتی ولی حسن ٹونکی،مولانا مفتی احمد الرحمن، شیخ الحدیث مولانا عبدالحنان،مولانا عبداللہ کاکاخیل اورمفتی لطف اللہ جیسے جیدعلماء اْن کیاساتذہ میں شامل تھے،مفتی زر ولی خان پوری زندگی درس وتدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے،آپ سے درس تفسیر پڑھنے کیلئے پورے ملک کے علما طلبہ ہر سال جامعہ احسن العلوم میں آتے تھے،مفتی زر ولی خان کئی کتابوں کے مصنف اور بہترین خطیب تھے۔مفتی زر ولی خان کے درس تفسیر میں پشتو اشعار کا ترنم کے ساتھ پڑھنا انتہائی مشہور تھا اور محفل میں سماں باندھ دیتا تھا امام العصر انورشاہ کشمیری رح سے ان کی علمیت کی وجہ سےانتہائی متاثرتھے، اسی لئے اپنے بیٹے کا نام بھی انہی کے نام پر رکھا،اسی طرح آپ مفتی محمود رحمتہ علیہ سے کافی متاثر تھے اور آپنے درس و تدریس میں مفتی محمود صاحب واقعات جابجا بیان کرتے ہیں اور یہی وجہ ہیں کہ مفتی صاحب نے جمعیت کا ہر محاذ پر بھرپور دفاع کیا ۔
مفتی زر ولی خان رحمہ اللہ نے 1398 ھجری میں ایک اسلامی ادارے جامعہ عربیہ احسن العلوم کی بنیاد رکھی.اس جامعہ کا غرض وغایت ایسے ماہر اورلائق فضلاء تیار کرنا ہے جومسلم امہ کے صحیح خطوط پر رہنمائی کرسکے۔جامعہ بلامعاوضہ تمام اسلامی علوم بشمول تفسیر، حدیث، فقہ، منطق،عربی ادب کی تعلیم فراہم کرتاھے.اسلامی علوم کے علاوہ حفظ وناظرہ قران، درجہ اعدادیہ جسمیں آٹھویں کلاس کے نصاب ابتدائی عربی وفارسی اوردیگر اسلامی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔جامعہ میں درجہ تخصص (PhD) کا مخصوص طرز پر انتظام ھے۔جامعہ میں دارالافتاء بھی ہے جہاں مفتی صاحب کے زیرنگرانی روزمرہ پیش آمدہ مسائل کو دین کی روشنی میں خوب تحقیق سے حل کیا جاتاہے،سالانہ چھٹیوں میں شاندار دورہ تفسیرکااہتمام ہوتا ہے۔ جسمیں ہرشعبہ زندگی سے وابستہ افراد اور خواتین(پردے کے ساتھ) باقاعدگی سے شریک ہوتی ہیں۔ آپ پوری زندگی درس و تدریس سے وابستہ رہے، وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔آپ نے اپنی خداداد ذہانت، عزم وہمّت، مسلسل محنت اور اللہ تعالیٰ کی خصوصی توفیق سے ایک طرف تو نہایت کامیابی کے ساتھ مختلف فنون اور حدیث کی کتابیں پڑھاتے رہے، اور ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا، علمی حلقوں میں آپ کی شہرت اور طلبہ میں آپ کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔آپ کئی کتب کے مصنف اور بہترین خطیب تھے ،شیخ التفسیر مفتی زرولی خان نے متعدد کتابیں، تصنیف کی اہم کتب میں احسن الرسائل(مختلف موضوعات پر لکھے گئے 10علمی و تحقیقی رسائل کا مجموعہ) احسن الخطبات (جمعہ کے خطبات کا مجموعہ 3 جلدیں احسن البرھان (سوانح حیات 2 جلدیں) معارف و محاسن۔ (ماہنامہ الاحسن میں لکھے گئے اداریوں کا مجموعہ) شمار ہوتی ہیں۔مرحوم ہزاروں علما کے بھی استاد تھے، انھیں تفسیر و حدیث کے درس میں منفرد مقام حاصل تھا، ان سے استفادے کے لیے ملک بھر سے طلبہ آتے تھے۔
حضرت مولانا مفتی زر ولی خان مرحوم ” بسطۃ فی العلم والجسم ” کے مصداق تھے۔ مزاج شاہانہ تھا خوش لباس اور خوش خوراک تھےعمدہ قسم کی پگڑی اور جبہ زیب تن کیا کرتے تھے جو ان کے پرکشش قدوقامت کو چار چاند لگا دیتے تھے ان کی شخصیت با رعب اور طبیعت جلالی تھی،آپ جب جلال میںآتے تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اپنے مسلک میں بڑے متصلب تھے ہیں اپنے اسی مسلکی تصلب کی وجہ سے بعض فرقوں کے بارے میں مفتی صاحب کا موقف بڑا سخت تھا خصوصاً بدعت اور شرک کے معاملے وہ کسی قسم کی لچک کے قائل نہ تھےان کا اختلاف اور جلال سیلیکٹو نہیں ہوتا تھا جس چیز کو غلط سمجھتے ڈنکے کی چوٹ پر غلط کہتے چاہے کسی پر بھی زد پڑے تنقید میں وہ اپنے اور پرائے کی تمیز کے قائل نہ تھے حق کہنے میں “لا یخافون لومۃ لائم” کی عملی تصویر تھے۔
مفتی صاحب علمی دنیا کے آدمی تھے ان کی گفت گو سے مطالعے کی وسعت جھلکتی تھی دلائل کی رو سے جس بات کو درست سمجھتے برملا اس کا اظہار کرتے۔ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ دوسری طرف کون ہےاور ان کی تعداد کیا ہے شوال کے چھ روزوں کے عدم استحباب کے بارے میں اپنی تحقیق سے مطمئن تھے حالانکہ جمہور علماء اور خود ان کے اساتذہ کا موقف اس کے خلاف تھا، اسی طرح تصویر ، اسلامی بینکنگ سمیت بہت سے معاملات میں اپنے وقت کے اساطین علم سے کھل کر اختلاف کیا۔ تراویح میں قرآن سنانے اور قرآن خوانی کی اجرت اور تحائف وصول کرنے کے بارے میں بھی اپنی الگ علمی رائے رکھتے تھے۔ اس حوالے سے مضبوط علمی اور عقلی دلائل رکھتے تھے۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ جو شخص علم کا فروغ کرتا ہے وہ موت کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے علم والا اوربے علم ،سایہ اور دھوپ برابر نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالی آپ کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی ٹھکانہ عطا فرمائے۔اللہم تقبل سعیھم و نور قبورھم و کثر سوادھم و احشرنی فی زمرتہم یوم البعث والنشور آمین یا رب العالمین ثم آمین۔