مصائب اور حوادث ….اعمال بد کے نتائجہیں

از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
یہ دنیا بے شک عالم اسباب ہے اور یہاں کی یہ چیز سلسلہ اسباب سے جکڑی ہوئی ہے لیکن اللہ تعالیٰ جل شانہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو بتلایا ہے کہ ہماری آنکھوں سے نظر آنے والے اس دنیا کے عام اسباب کے علاوہ اسباب کا ایک اور غیبی و مخفی سلسلہ بھی ہے جو ہمارے حواس اور ہماری عقل سے بالا تر ہے اور جس کا زیادہ تر تعلق انسان کے اچھے برے اعمال سے ہوتا ہے مثلاً کسی قوم کی خوش حالی کیلئے یہی عام ظاہری تدبیریں سب جانتے ہیں۔
لیکن قرآن مجید نے بتایا کہ ایمان و تقویٰ والی زندگی بھی اس کا ایک ذریعہ ہے ایک قوم کے متعلق ارشاد ہے اگر ایمان و تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے جس طرح قرآن مجید میں کسی قوم کی نیکو کاری اور پرہیز گاری کی زندگی امن و عافیت‘ عزت و شوکت اور خوشحالی و ترقی کا سبب بتلایا گیا ہے اسی طرح فسق و فجور اور معصیت و خدا فراموشی کی زندگی کو بدحالی اور ذلت و پستی اور آلام و مصائب کا سبب فرمایا گیا ہے۔
ارشاد الٰہی ہے۔’’اور جو لوگ بے پرواہی اور بے رخی برتیں گے میری نصیحت سے تو ان کے واسطے اس دنیا میں زندگی ہے تنگی اور بے چینی کی اور قیامت کے دن ہم اٹھائیں گے ان کو اندھا‘‘۔الغرض قرآن مجید کی ایسی بہت سی آیات ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ارشادات میں ہمیں اس حقیقت سے مطلع فرمایا ہے کہ قوموں کے اچھے برے حالات اور ان کے عروج و زوال کا سبب ان کے نیک و بداعمال بھی ہوتے ہیں۔ پس اگر ہم سچے مومن ہیں تو ہمیں چاہئے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بتلائی ہوئی اس حقیقت پر یقین رکھتے ہوئے اپنے موجودہ مصائب و مشکلات اور ذلت کے ظاہری اسباب کے علاوہ ان کے مخفی اسباب کو قرآن و حدیث کی روشنی میں تلاش کریں اور ان کے ازالہ کی فکر کریں جن معصیتوں اور بد اعمالیوں کو ہماری موجودہ پستی و بدحالی میں دخل ہے اپنی انفرادی و قومی زندگی کو ان سے پاک کرنے کی کوشش کریں اور جن اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ پر اللہ تعالیٰ نے عزت و قوت اور فتح و نصرت کا وعدہ فرمایا ہے ہم ان اعمال صالحہ کو اپنے اندر اور اپنی قوم میں پیدا کرنے کی کوشش میں سرگرمی سے لگ جائیں۔
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۴۱
ترجمہ۔ بروبحر (یعنی خشکی کا اور تری غرض ساری دنیا) میں لوگوں کے اعمال کی بدولت فساد پھیل رہا ہے (اور بلائیں قحط‘ زلزلے وغیرہ نازل ہورہے ہیں) تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض اعمال کی سزا کا مزہ چکھا دے شاید کہ وہ اپنے ان اعمال سے باز آجائیں۔
قرآن کریم نے بار بار واضح الفاظ میں یہ بیان فرمایا ہے کہ دنیا کے مصائب اور حوادث عموماً انسانوں کے اعمال بد کے نتائج اور آخرت کی سزا کا ہلکا سا نمونہ ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ مصائب مسلمانوں کیلئے ایک طرح کی رحمت ہوتے ہیں کہ ان کے ذریعے غافل انسانوں کو چونکا جاتا ہے تاکہ وہ اب بھی اپنے اعمال بد کا جائزہ لے کر ان سے باز آنے کی فکر میں لگ جائے اور آخرت کی بڑی اور سخت سزا سے محفوظ رہے۔
بعض علماء نے فرمایا کہ جو انسان کوئی گناہ کرتا ہے وہ ساری دنیا کے انسانوں‘ چوپایوں اور چرند‘ پرند‘ جانوروں پر ظلم کرتا ہے کیونکہ اس کے گناہوں کے وبال سے جو بارش کا قحط اور دوسرے مصائب دنیا میں آتے ہیں۔ اس سے سب ہی جاندار متاثر ہوتے ہیں اس لئے قیامت کے روز یہ سب بھی گناہ گار انسان کے خلاف دعویٰ کریں گے۔
یہی اسباب ہیں جن کی وجہ سے آج کل نئی نئی آفات‘ زلزلے‘ فسادات‘ طوفان‘ قحط‘ وبا‘ ریلوں کا ٹکرانا وغیرہ وغیرہ ایسے ایسے حوادث روز مرہ کے ہوگئے ہیں جن کی حد نہیں نئے نئے امراض نئے نئے مصائب ایسے روز افزوں ہیں جو پہلے کبھی برسوں میں بھی پیش نہیں آتے تھے اخبار میں حضرات اس سے بہت زیادہ واقف ہیں۔
ان معروضات سے صاف صاف معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں دنیا میں مصائب کا سبب ہیں اور نیک اعمال دنیا میں بھی فلاح کا ذریعہ ہیں آج ہم لوگ حوادث‘ مصائب‘ فسادات کی شکایات کا طومار باندھتے ہیں اور انعامات کی ہر وقت امید لگائے رہتے ہیں اور جن امور پر یہ چیزیں مرتب ہوتی ہیں ان سے غافل ہیں بلکہ ان کا مقابلہ کرتے اور دیدہ دانستہ چھوڑتے ہیں۔
آج ہم اپنی تنگدستی اور فقرو فاقہ کا رونا روتے ہیں ذرا غور کریں حق تعالیٰ مالک الملک قادر مطلق کا ارشاد ہے کہ اگر بندے میری اطاعت (پوری پوری) کریں تو رات کو سوتے ہوئے ان پر بارش برسائوں اور دن میں آفتاب نکلا رہے (کہ کاروبار میں حرج نہ ہو) اور بجلی کی آواز بھی ان کے کان میں نہ پڑے۔ تاکہ ان کو ذرا خوف وہراس نہ ہو۔
مگر ہماری شامت اعمال کہ قلت بارش کی شکایات پڑھتی رہتی ہیں اور جہاں بارش ہوتی ہے بسا اوقات سیلاب کی صورت میں ہوتی ہے ہم لوگوں کا اپنے اوپر کتنا صریح ظلم ہے کہ ہم اپنی بد اعمالیوں کی بنا پر مہلکات میں پڑتے رہتے ہیں مصائب کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔
پس یاد رکھئے مسلمانوں کی صلاح و فلاح صرف اتباع مذہب اسوہ رسول اور سلف صالحین کا طریقہ اختیار کرنے اور معاصی سے بالکلیہ پرہیز کرنے پر منحصر ہے۔ یہی آخرت میں کام آنے والی چیز ہے‘ یہی دنیا میں ترقیات کا سبب ہے اس کے سوا دوسرا راستہ منزل مقصود کی طرف ہے ہی نہیں بلکہ اس کے خلاف جو کچھ ہے اس میں مسلمان کیلئے ہلاکت ہے بربادی ہے آخرت کا خسارہ ہے دنیا کا نقصان ہے۔