مرادرسول سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ

مرادرسول سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
زیر نظرتصویربنگلہ دیش میں کسی بیغیرت بدبخت نجسی رافضی نے سیدنا فاروق اعظمؓ کی گستاخی کی تو اس کے خلاف بیس ہزار وہ لوگ جن کے نام عمر تھے انہوں نے ایک ساتھ مل کر انوکھا احتجاج ریکارڈ کروایایہ سارا جلوس ان لوگوں کا تھا جن کا نام عمر تھا۔
نبی کریم ﷺنے صحابۂ کرام ؓ کے مبارک نفوس کو انسانوں کے لیے ہدایت کے جگمگاتے ستاروں سے تعبیر فرمایا کہ جس طرح رات کی اندھیری میں انسان ستاروں کی روشنی سے منزل تک پہنچتا ہے اسی طرح کفرکی تاریکیوں میں صحابۂ کرام ؓ کی ہستیاں مشعل ِہدایت ہیں ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے صحابہ میں کسی کو برانہ کہو اس لیے کہ ( وہ اتنے بلند مقام اور اللہ کے محبوب ہیں ) تم اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا کرچ کروگے تب بھی ان کے ایک مد بلکہ نصف مد خرچ کرنے کے برابر ثواب کے مستحق نہ ہوگے۔ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: … بلاشبہ میری امت کے برے لوگ وہ ہیں جو میرے صحابہ کے بارے میں گستاخ ہیں ۔
مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ ٴ راشد، امام العادلین، مرادرسول حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی” عمر “ہے،دورجاہلیت اور اسلام دونوں میں آپ کا نام عمر ہی رہا ،عمر کا معنی ہے آباد کرنے یا آباد رکھنے والا۔چوں کہ آپ کے سبب اسلام کو آباد ہونا تھا لہٰذا پہلے ہی سے یہ نام عطا کردیا گیا، نیزآپ کا عہد خلافت چوں کہ اِسلام کی آبادی کا زمانہ ہے اس لحاظ سے بھی آپ اسم بامسمی ہوئے۔‘‘والد کانام خطاب، قبیلہ قریش بنی عدی ،والدہ کانام ختمہ بنت ہشام ، ان کا تعلق قریش کے قبیلہ مخزوم سے تھا۔حضرت سیدنا عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوالحفص (ابوالاسد) اور آپ کا لقب فاروق ہے۔اس لقب کے حوالے سے حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے عرض کیا گیا کہ ہمیں حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے متعلق کچھ بتائیے تو ارشاد فرمایاحضرت عمر وہ ہستی ہیں جنہیں اللہ عزوجل نے لقب فاروق عطا فرمایا، کیوں کہ آپ نے حق کو باطل سے جدا کردکھایا۔(تاریخ ابن عساکر)آپ کی کنیت ابو حفص ہے ،جس کی نسبت آپ کی صاحب زادی حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنھاکی طرف ہے جوام الموٴمنین بھی ہیں۔آپ کالقب وکنیت دونوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا کردہ ہیں۔آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعا سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لیے آپ کو مراد رسول بھی کہا جاتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے دعا فرمائی تھی اے اللہ!ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے، جو آپ کو زیادہ محبوب ہو اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ روایت بیان کر کے آگے کہتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں میں سے عمر رضی اللہ عنہ زیادہ محبوب تھے۔(سنن ترمذی)
سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ تاریخ اسلام کی اتنی ولولہ انگیز اور ہمہ جہت شخصیت تھے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی سیرت ،اوصاف ، کردار ،بلند حوصلے ،خداداد شجاعت ،غیر معمولی فراست اور کارناموں کو اختصار سے بیان کرنا ممکن نہیں۔یہ وہ صحابی ہیں جن کی فضیلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ قرآن کریم ان کی رائے کی موافقت کرتا ہے اور سیدالمرسلین ،خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے فرمایا :میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔(سنن ترمذی)22لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والے خلیفہ کی زندگی کا ایک ایک گوشہ اپنے اندر ایسے ان مٹ نقوش لیے ہوئے ہے جن کی اتباع کرنے والے بادشاہ ہوں یا رعایا سبھی راہِ ہدایت پر گامزن ہوجاتے ہیں آپ کی اطاعتِ الہٰی ،اتباعِ رسول،زہد وتقوی، اخلاق حسنہ، رعایا کی نگہبانی، یتیموں پر شفقت ،غم زدوں کی غم گساری،غریبوں پر رحم،ناداروں کی دل جوئی،بے سہاروں کے ساتھ ہم دردی،عاجزی وانکساری،احساسِ ذمہ داری،بیت المال سے حق دار کی خیر خواہی،یادِ آخرت وغیرہ تمام ہی صفاتِ عالیہ قابل تقلید ہیں ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دین میں اس قدر پختہ تھے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان بھی ان کے مقابلے میں آنے سے کتراتا تھا۔اسی حقیقت کے متعلق نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی ہےاے ابن خطاب !اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !جب کبھی شیطان کا سرِ راہ تم سے سامنا ہوتا ہے تو وہ تمہارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چل دیتا ہے۔(صحیح بخاری)تاریخ گواہ ہے کہ جس قدر فتوحات اور احکامات شرعیہ کا نفاذ آپ رضی اللہ عنہ کے زمانہٴ خلافت میں ہوا اتنا کسی اور خلیفہ کے زمانے میں نہ ہوا، حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصالِ پرملال کے وقت اِسلامی حکومت کا کل رقبہ تقریبانو لاکھ ستائیس ہزار مربع میل تھا۔خلافتِ صدیقی میں اس رقبے میں مزید دو لاکھ پچہتر ہزار ایک سو چونسٹھ مربع میل کا اضافہ ہوااور سلطنت اسلامیہ کا کل رقبہ بارہ لاکھ دو ہزار ایک سو چونسٹھ مربع میل ہوگیااور پھر خلافتِ فاروقی کی عظیم الشان فتوحات کی بدولت اس رقبہ میں تیرہ لاکھ نو ہزار پانچ سو ایک مربع میل کا اضافہ ہوااور یوں پچیس لاکھ گیارہ ہزار چھ سوپینسٹھ مربع میل زمین آپ کے زیر نگیں آگئی ۔یہ تمام علاقہ بغیرآرگنائزڈآرمی کے فتح ہوا۔ آپ کی ان فتوحات میں اس وقت کی دو سپرپاورطاقتیں رو م اورایران بھی ہیں۔ آج سیٹلائٹ میزائل اورآبدوزوں کے دور میں دنیا کے کسی حکمراں کے پاس اتنی بڑی سلطنت نہیں ہے ۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے کسی ساتھی نے ان کی حکم عدولی نہیں کی، وہ ایسے عظیم مدبرومنتظم تھے کہ عین میدان جنگ میں اسلام کے مایہ ناز کمانڈرسیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ کومعزول کردیا اورکسی کو یہ حکم ٹالنے اور بغاوت کرنے کی جرا ت نہ ہوئی ۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے جن علاقوں کوفتح کیا وہاں آج بھی سیدنا عمرفاروق کا نظریہ موجود ہے ،دن رات کے پانچ اوقات میں مسجد کے میناروں سے اس نظریے کا اعلان ہوتا ہے ۔ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے دنیا کوایسے سسٹم دیے جو آج تک دنیا میں موجود ہیں ۔آپ کے عہد میں باجماعت نماز تراویح کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا،آپ کے دورمیں شراب نوشی کی سزا 80 کوڑے مقررہوئی ، سن ہجری کا اجراکیاگیا، جیل کاتصور دیاگیا، موٴذنوں کی تنخواہیں مقررکیں،مسجدوں میں روشنی کابندوبست کروایا،باوردی پولیس، فوج اورچھا وٴنیوں کاقیام عمل میں لایا گیا، آپ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواوٴ ں اور بے آسرا لوگوں کے وظائف مقررکیے ۔ آپ نے دنیامیں پہلی بار حکمرانوں، گورنروں، سرکاری عہدے داروں کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا تصور دیا ۔ آپ جب کسی کو سرکاری عہدے پر فائز کرتے تھے تواس کے اثاثوں کا تخمینہ لگواکر اپنے پاس رکھ لیتے اوراگرعرصہ امارت کے دوران عہدے دار کے اثاثوں میں کوئی غیرمعمولی اضافہ ہوتا تواس کی تحقیق کرتے ۔ یہ وہ سسٹم ہے جس کو دنیا میں کوئی دوسرا شخص متعارف نہ کروا سکا، دنیا کے 245ممالک میں یہ نظام کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے ۔ان حقائق کی روشنی میں زبان وقلم بے اختیار گواہی دیتا ہے کہ دنیا کا سکندر اعظم عمرفاروق رضی اللہ عنہ ہیں۔
قرآن کریم کے مطابق تمام صحابہ کرام محبت والفت اور باہمی رحم دلی میں بے مثال تھے ۔ اسی لیے حضرت عمرفاروق اور حضرت علی رضی اللہ عنہمابھی ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ شیر وشکر رہے ،غزوہ خندق کے موقع پر جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مشہور جنگ جوکافر عمر بن عبد وُدّکو جہنم رسید کیا تو حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرط مسرت سے ان کا سر چوم لیا۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حج سے واپسی کے بعد ابولوٴلو نامی مجوسی ایرانی غلام ،جس کی قبرآج بھی معلوم ہے اورایرانی اسے بابافیروزکے نام سے یادکرتے ہیں،فیروزہ نامی پتھربھی اسی بدترین دشمن اسلام کی طرف منسوب ہے،نے خنجر کے پے درپے تین وار کرکے شدید زخمی کردیا۔آپ تین دن اسی حالت میں رہے، مگرنماز کوئی نہ چھوڑی، پھر یکم محرم الحرام کودس سال پانچ مہینے اور اکیس دن مسند خلافت پر متمکن رہنے کے بعد63برس کی عمر میں آپ شہید ہوگئے ۔آپ اکثر یہ دعا فرمایاکرتے تھے: اللہم ارزقنِی الشہادة فِی سبِیلِک، واجعل موتِی فِی بلدِ رسولِک صلی اللہ علیہِ وسلم ( الہی !تو مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت عطا فرما اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مدینے میں مرنانصیب فرما۔)آپ نے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: جب مجھے قبر میں رکھ دو تو میرا گال زمین سے یوں ملا دینا کہ اس کے اور زمین کے درمیان کوئی چیز حائل نہ رہے ۔آپ کو بیری کے پتوں سے پانی گرم کرکے غسل دیا گیااور دوچادروں اور جو قمیص پہن رکھی تھی اس میں کفنایا گیا۔وصیت کے مطابق آپ کی نمازِ جنازہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے چارتکبیروں کے ساتھ پڑھائی اوریکم محرم الحرام کوروضہٴ رسول میں دفن ہونے کی سعادت پائی۔ (اسدالغابہ،طبقات کبریٰ)
صحابہ کرامؓ کا ادب واحترام ہر ایک کے لیے ضروری ہے ،جو کوئی ان کی بے ادبی یاگستاخی کرے گا وہ دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوگااور آخرت میں رسوا ونامراد ہوگا۔صحابۂ کرامؓ کی سیرت واخلاق، کردار واوصاف کو اپنانا اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر منزلِ مقصود کو پانے کی فکروکوشش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ یقینا جسے اپنے نبی سرورکونین ﷺ سے محبت ہوگی تو صحابہؓ سے بھی ضرور محبت کرے گا،دین کو ہم تک پہنچانے اور انسانوں تک نبی کے پیغام کو عام کرنے کے لیے صحابۂ کرامؓ نے جو قربانیاں دی ہیں ان کا تصور بھی ہمارے دلوں میں عقیدت ومحبت کے جذبات کو موجزن کردیتا ہے۔ہمارے گھرانوں میں صحابۂ کرامؓ کی سیرت وواقعات کے تذکرے ہونے چاہئیں ،ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ صحابۂ کرامؓ کے حالات ِ زندگی سے سبق لیں اور ایک بامقصد زندگی گزارنے والے بنیں ۔