مدارس میں دینی و دنیاوی تعلیم کا امتزاج
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
بندہ کے مضمون یکساں نصاب تعلیم یا مغربی ایجنڈا؟کے مضمون کے جواب میں میرے نہایت ہی مشفق ومہربان محترم ومکرم چچا جان نے وٹس اپ میسج میں بطور مشورہ کےاپنی رائے عالی سے نوازاکہ اگر سائنس،میڈیکل ،بزنس یعنی عصری مضامین کو اسلامی علوم کے ساتھ پڑھایا جا ئے تو غلط تو نہیں ہے۔اسی طرح کالج ویونیورسٹیوںمیڈیکل سائنس اور بزنس وغیرہ کے ساتھ قرآن وحدیث کی بھی تعلیم دی جا ئے۔
تو عرض ہے کہ اسلام میں دینی اور دنیاوی تعلیم کی تفریق نہیں ہےاسلام نے علم نافع اور علم غیر نافع کی تقسیم کی ہے،یعنی جس علم سے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو اور پوری انسانیت کو فائدہ پہنچے تو وہ علم نافع ہے۔اس کے برعکس جو علم انسان کو گمراہی اور فسق و فجور میں ملوث کر دے اور خلق خدا کے لئے ضرر رساں ہو تو وہ علم غیر نافع ہے۔ جہاں تک دینی مدارس میں عصری علوم پڑھانے کی بات ہے تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ مدارس کے نصاب میں ہمیشہ سے عصری تعلیم موجودرہی ہے بقدر ضرورت ۔علم جغرافیہ ، فلکیات اور حساب ہر زمانہ میں اس نصاب کا حصہ رہے ہیں۔ عصر حاضر میں دینی و تحقیقی کاموں میں انٹرنیٹ کی ضرور ت و اہمیت، ابلاغی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے انگریزی و عربی زبانوں پر عبور اور صحافت کے فن کو حاصل کرنے کے لئے بہت سے مدارس نے انگریزی و عربی کو شامل کیا ہے۔ کمپیوٹر، صحا فت ، دعوت و ارشاد اور جدید ابلاغی تدریسی صلاحیتوں پر مبنی چھوٹے بڑے متعدد کورسز جاری کر رکھے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام بیک وقت دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کا درس دیتا ہے دینی تعلیم حاصل کرلینے سے فرد ایک عمدہ نمونہ اخلاق بن جاتا ہے اور دنیاوی تعلیم حاصل کرنے سے فرد اپنے ذہنی رجحان کے مطابق شعبہ ہائے زندگی میں ملک و قوم کی خدمت کرنے کے قابل بن جاتا ہے۔ مسلمان ہر میدان میں ماہر تھے ،قدیم اسلامی تعلیمی اداروں کی روایت ہمیں بتاتی ہے کہ دینی علوم کی تعلیم کے ساتھ وقت کے تقاضوں کے مطابق عصری علوم کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ قرآن و حدیث کا علم ہر عہد اور عصر سے ہم آہنگی رکھنے والا علم ہے۔ انسان کے وضع کئے ہوئے اصول و قواعد تو چند سال میں ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ،لیکن قرآن و سنت کے اصول و قواعد زندہ اور کبھی نہ ختم ہونے والے ہیں۔ عصری علوم کا طرز نہ مذہب سے متصادم ہو اور نہ مذہب کی رہنمائی سے بے نیاز۔ بعض لوگوں کے ذہن میں یہ وہم ہے کہ اسلام اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی لازماً متضاد چیزیں ہیں یہ بات خلاف واقعہ ہے ۔سائنس اور ٹیکنالوجی کا کام وسائل و ذرائع پیدا کرنا ہے اور اسلام وسائل کو استعمال کرنے کا طریقہ بتاتا ہے،ساتھ ہی مقاصد کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔
دنیاوی علوم و فنون یہ سب ہماری ضرورت کی چیزیں ہیں۔ زبان، لکھائی پڑھائی، حساب کتاب، بیالوجی، سوشیالوجی، سائنس و ٹیکنالوجی وغیرہ یہ سب ہماری ضرورت کی چیزیں ہیں جن کے بغیر ہماری دنیا کی زندگی منظم نہیں ہوتی اور ہم سلیقے کی زندگی نہیں گزار سکتے۔تعلیم کا مقصد محض حصول روزگار نہیں ہے، بامقصد تعلیم فرد کو معاشرے کے لیے ذمے دار شہری اور کارکن بناتی ہے، اس طرح ملک و قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ تعلیمی مقاصد اپنی تہذیب و تمدن کے مطابق ہونا بھی لازم ہے، چونکہ ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے اس لیے اسلامی تعلیم کو کسی بھی طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ آنکھ بند ہونے سے پہلے پہلے دنیاوی علوم کی یہ چیزیں ہمارے کام کی ہیں لیکن آنکھ بند ہونے کے بعد اِن میں سے کوئی چیز بھی نہ ہماری ضرورت کی ہے اور نہ فائدے کی۔ نہ سائنس نہ ٹیکنالوجی کچھ بھی نہیں۔ چنانچہ موت کی سرحد پار کر کے جو چیزیں ہماری کام آئیں گی وہ قرآن مجید اور سنت نبویؐ کے مطابق اعمال صالحہ ہیں۔ جن لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ یہی دنیا کی زندگی ہے اور بس، ایسے لوگوں کے لیے تو یہی فیوچر ہے۔ دس سال، بیس سال، تیس سال جتنا جس کا مقدر ہے۔ لیکن کیا ہم مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ہمارا مستقبل یہی دنیا کی زندگی ہے؟ اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ دنیاوی زندگی تو ہمارے مستقبل کا ایک بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔ کیا برزخ کی زندگی ہمارا فیوچر ہے یا نہیں؟ اور پھر حشر کے پچاس ہزار سال بھی ہمارا فیوچر ہے یا نہیں؟ یہ مدارس اور دینی درس گاہیں ہی ہمارے اصل مستقبل کی ہمیں تعلیم دیتی ہیں۔ اِس دنیا کی تعلیم بھی ضروری ہے اور اس کے بعد کی زندگی کی تعلیم بھی ضروری ہے۔ جتنا عرصہ ہم نے اس دنیا میں رہنا ہےاس قدر تعلیم یہاں کے لیے ضروری ہے اور جتنا عرصہ ہم نے اگلی دنیا میں رہنا ہے اسی قدر تعلیم و تیاری وہاں کے لیے ضروری ہے۔
راقم کے مضمون یکساں نصاب تعلیم یا مغربی ایجنڈا؟ کامقصددنیاوی تعلیم کی مخالفت کرنا نہیں ہےلیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی قوم کا نظامِ تعلیم ہی اس کی تہذیب و تمدن کا صحیح آئینہ دار ہوتا ہے اور چونکہ ہماری موجودہ تعلیم کا ڈھانچہ خداکو نہ ماننے والے تہذیب کے پجاریوں کے ہاتھوں وضع ہوااس لئے اس کا یہاں اپنے تمام برگ و بار کے ساتھ آنا ضروری تھا جس کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں رائج شدہ نظامِ تعلیم ہمارے لئے زہرِ ہلاہل ثابت ہو رہا ہے جو طلبہ کو نہ صرف دین سے برگشتہ کرتا رہتا ہے بلکہ انجام کار طلباء کو ملحد بنا کر چھوڑتا ہے کیونکہ اکثر و بیشتر نصابی اور امدادی کتب غیر مسلم مصنفین اور ان کے مولدین کی مرتبہ ہوتی ہیں جنہیں دین سے کوئی مس نہیں ہوتا۔ اور اسلامی افکار وا خلاق سے بھی وہ بالکل کورے ہوتے ہیں۔ اندریں حالات جدید تعلیم یافتہ طبقے کے بیشتر افراد اگر اکھڑ مزاج، بے ادب، من چلے ترش رُو، آزاد رَو اور اساتذہ اور والدین سے گستاخی سے پیش آنے والے والدین تک کو نظر انداز کرنے والے ہیں تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔افسوس ہے کہ ہم نے صحیح مقصد اور منزل سے صرفِ نظر کر کے صرف ایک سفلی مقصد ہی سامنے رکھا اور وہ ہے حصولِ معاش۔ لیکن موجودہ تعلیم معاشی تحفظ دینے میں بھی تو ناکام ہو چکی ہے۔ چنانچہ فی الوقت جتنی بے روزگاری تعلیم یافتہ طبقے میں ہے شاید ہی کسی طبقے میں موجود ہو۔
باقی رہی بات مدارس میںدنیاوی تعلیم کی میٹرک تک کی بنیادی تعلیم تو تقریباًہر مدرسہ میں دی جاتی ہے۔ بعض مدارس نے تویہ تجربہ بھی کیا کہ دونوں تعلیم ایک مخصوص نظم کے تحت ریگولر کروائی جائیں۔ 8 سالہ درس نظامی کے نصاب کو چار سال کی مدت میں محدود کرکے ایم اے، ایم ایس، ایم بی اے سمیت عصری علوم کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو درس نظامی کی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے،جبکہ مدارس سے فارغ التحصیل علماء کے لئے جدید علوم پرمشتمل شارٹ کورس متعارف کروائے ہیں۔ اسی طرح ان دینی مدارس سے فارغ ہونے والے گریجویٹ علماء کیلئے جو ایف اے کی ڈگری رکھتے ہیں ہیں، بی بی اے اور گریجویٹ علماء کیلئے ایم بی اے کی کلاسیں بھی شروع کی ہوئی ہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ عصری تعلیمی اداروں نے کتنے علماء،مفتی اور فقیہ پیدا کیے ہیں ؟ کالج یونیورسٹیوں کے کونسے فضلاء کی کھیپ ہیں جو عالمی سطح پر خدماتِ جلیلہ سر انجام دے رہی ہے؟
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ دینی مدارس سے ڈاکٹرز،انجینئر،وکیل، ماہرِ معاشیات، کمپیوٹرانجینئر، حساب داں اور سائنس داں پیدا نہ کرنے کا گلہ کیا جائے؟ کیا دینی مدارس اس کام کے ذمہ دار ٹھہرائے جاسکتے ہیں؟ اور ان سے یہ شکوہ کیا جاسکتا ہے؟ جو دانشور دینی مدارس اور ان کا نظام و نصاب یکسر تبدیل کرنے کی باتیں کرتے ہیں، ان کی خدمت میں مفکر پاکستان علامہ اقبال ؒ کے یہ کہنا کا فی ہونا چاہئے کہ: ’’ان مدرسوں کو اسی حال پر رہنے دو۔ غریب مسلمانوں کے بچوں کو اِنہیں مدارس میں پڑھنے دو۔ اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا، میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ مدرسوں کے اَثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں کی گئی آٹھ سو سالہ اسلامی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروکاروں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا۔‘‘
اورمدارس کا ایک خاص امتیاز یہ ہے کہ اس نے اپنا فیض پہنچانے میں کسی خاص طبقہ یا کسی خاص جماعت کو دوسرے طبقہ یا جماعت پر فوقیت نہیں دی بلکہ اس نے اپنے دروازے امیر اورغریب سب کے لیے یکساں طور پر کھلے رکھے ، اتنا ہی نہیں بلکہ غریبوں میں تعلیم کو عام کرنے میں سب سے بڑا کردار مدارس ہی کا ہے ، چنانچہ اگر سروے کیا جائے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ آج اسکولوں کی بہ نسبت مدارس میں غریب طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
دیہی علاقوں میں تعلیم وتعلم کا نظم جتنا مدارس نے کیا ہے اتنا کسی دوسرے سرکاری یا غیر سرکاری اداروں نے نہیں کیا ، مدارس کے فارغین نے اسلامی تعلیم کو عام کرنے، مسلمانوں سے جہالت کو دور کرنے اور مسلم گھرانوں کو علم کی روشنی سے منور کرنے کے لیے نہ صرف بڑے شہروں یا قصبوں پر توجہ دی ہے بلکہ گاؤں اور دیہاتوں کا بھی رخ کیا ہے، تاکہ کوئی بھی گوشہ علم دین سے خالی نہ رہ جائے۔بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں مدارس کے زیر انتظام دار القضاء اور دار الافتاء قائم کئے گئے ہیں جہاں مسلمانوں کے عائلی مسائل قرآن وسنت کی روشنی میں حل کئے جاتے ہیں۔ دار الافتاء کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ لاکھوں لوگ عدالتوں اور کورٹ کچہریوں کا چکر لگانے سے بچ گئے۔ اسی کے ساتھ دوسرا اہم فائدہ اصحاب معاملہ کو یہ ہوا کہ کسی معاوضہ کے بغیر دار الافتاء کے ذریعہ ان کے مسائل جلد حل ہوگئے۔
ہر قوم کی ایک تہذیب ہوتی ہے اور یہ تہذیب ہی اس قوم کی شناخت اور اس کے وجود کا سبب ہوتی ہے۔ مدارس اسلامیہ نے مسلمانوں کو اسلامی تہذیب وتمدن پر قائم رہنے کی نہ صرف تلقین کی ہے بلکہ عمل کرکے اس کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج عالمی سطح پر دشمنان اسلام کا مقصد ہے کہ اسلامی تہذیب کو ختم کرکے مسلمانوں پر اپنی تہذیب تھوپ دیں۔ مدارس اسلامیہ اور علماء کرام ان کے مقصد کی تکمیل میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، لہٰذا دشمنان اسلام مدارس کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔
دنیا کے اطراف واکناف میں مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لیے مختلف ناموں سے چلنے والی جماعتوں اور تنظیموں میں بھی مدارس کا اہم رول ہے۔ آج مسلمانوں کی سیاسی، سماجی اور تعلیمی سطح پر خدمت انجام دینے والی تنظیموں کی سرپرستی زیادہ تر فضلاء مدارس ہی کررہے ہیں۔تعلیم کے ساتھ ساتھ نوجوان طلبہ کی تربیت اور ان کی اصلاح میں مدارس کا رول اہم ہے ، چنانچہ مدارس میںطلوع صادق کے وقت جاگنے سے لے کر عشاء کے بعد سونے تک سبھی طلبہ کے کھانے پینے ، پڑھنے لکھنے ، کھیلنے کودنے اور دیگر ضروری امور کی پابندی نہایت منظم طریقہ سے کرائی جاتی ہے۔ شریعت کی تعلیمات کے مطابق ان کی تربیت اور ذہن سازی کی جاتی ہے اور ان کو معاشرت کے اصول وآداب بھی بتائے جاتے ہیں تاکہ مدرسہ سے فارغ ہونے کے بعد گھر اور سماج میں ایک باوقار اور مثالی زندگی گزار سکیں۔مدارس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ اس قدر جامع ہوتا ہے کہ اس کو مزید سمجھنے کے لئے طلبہ کو الگ سے ٹیوشن کی ضرورت پیش نہیں آتی اور اگر درس کے دوران کوئی مسئلہ سمجھ میں نہیں آتا تو طلبہ بعد میں بھی بغیر کسی معاوضہ کے اساتذہ سے رجوع کرلیتے ہیں۔
برصغیر میں قائم مدارس ومکاتب میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ روزگار سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ کم تنخواہ کے باوجود قناعت کرتے ہیں۔غرضیکہ علماء کرام نے مساجد ومدارس ومکاتب کے ذریعہ بچہ کی ولادت کے وقت کان میں اذان دینے سے لے کر نماز جنازہ پڑھانے تک امت مسلمہ کی دینی وتعلیمی وسماجی رہنمائی کے لئے ایسی خدمات پیش کی ہیں کہ ایک مسلمان بھی ایسا نہیں مل سکتا جو ان خدمات سے مستفیض نہ ہوا ہو۔
