ماہ رجب کی فضیلت اور بدعات کی حقیقت

از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
کیلنڈر اور تقویم:
اللہ رب العزت نے اس کائنات کو پیدا فرمایا، زمین و آسمان کو پیدا فرمایا، پھر اشرف المخلوقات انسان کو پیدا فرمایا، انسان کو پیدا فرمانے کے بعد اسے یوں ہی چھوڑ نہیں دیا، بلکہ انسان کی ضرورت کی ہر چیز پیدا فرمائی، ہر چیز کے خزانے انسان کو دیے، یہ زمین بہت قیمتی چیز ہے، اس زمین میں انسان کی ضرورت کے سارے خزانے ہیں، غلہ یہیں سے نکل رہا ہے، پانی یہیں سے نکل رہا ہے، کھانے کا خزانہ یہیں سے نکل رہا ہے، سونے چاندی کا خزانہ یہیں سے نکل رہا ہے، ساری دھاتوں کا خزانہ یہیں سے نکل رہا ہے، پٹرول ڈیزل کا خزانہ یہیں سے نکل رہا ہے، یہاں تک کہ اس میں موت و حیات کا بھی خزانہ ہے، اسی سے انسان پیدا ہوتا ہے، اور اسی میں مر کھپ جاتا ہے، بہرحال فطری طور پر انسان کو جس چیز کی ضرورت ہوسکتی تھی وہ سب عطا فرمائی۔
جن چیزوں کی فطری طور پر انسان کو ضرورت ہوتی ہے ان میں سے ایک وقت کا حساب ہے، کہ انسان وقت کا صحیح اندازہ لگاسکتے وقت پتہ کرسکے، انسان کی حالت ایک جیسی نہیں ہوتی، بدلتی رہتی ہے، پہلے بچپنہ ہے پھر کچھ بڑا ہوا، پھر جوانی، پھر ادھیڑ عمر، پھر بڑھاپا، پھر ایک وقت وہ آیا کہ وہ انسان دنیا سے چلا گیا، اور انسان کا تعلق صرف اپنی زندگی سے ہی نہیں ہوتا، بلکہ اپنے رشتہ داروں سے بھی ہوتا ہے والدین ہیں دادا دادی نانا نانی وغیرہ، دینی اعتبار سے دیکھیں تو انبیاء اور رسولوں سے ہوتا ہے، اور یہ انبیاء اور رسول اس کے زمانے میں نہیں آئے، بلکہ پہلے گزر چکے ہیں، تو انسان کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ وہ پیدا کب ہوا، بچپنہ کب گزرا، کب وہ جوان ہوا، کب بوڑھا ہوا، اس کے والدین اور دادا دادی نانا نانی کی حیات و وفات کا زمانہ کیا ہے، اس کے آباؤ اجداد کس زمانے کے تھے، ہمارے نبی کریمﷺ کا تعلق کس زمانے سے تھا، دیگر انبیاء اور رسول کب تشریف لائے تھے، یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جن کا تعلق وقت سے ہے، انسان کو جب وقت کا نظام پتہ ہوگا، تو وہ سمجھ پائے گا کہ آج ہم کس زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں، انبیاء اور رسولوں کا زمانہ کب تھا وغیرہ۔
اس کے لیے ضرورت پڑتی ہے کیلنڈر کی، جس کو عربی زبان میں تقویم کہا جاتا ہے، کیلنڈر اور تقویم بنیادی طور پر تین طرح چلتے ہیں، ایک وہ کیلنڈر ہے جس کا تعلق سورج سے ہے جسے شمسی کہا جاتا ہے، ایک وہ ہے جس کا تعلق چاند سے ہے جسے قمری کہا جاتا ہے، اور تیسرا کیلنڈر وہ ہے جس کا تعلق ستاروں سے ہے، اسے نجومی کہا جاتا ہے، سورج سے چلنے والے کیلنڈر بہت سے ہیں، لیکن مشہور عیسوی کیلنڈر ہے جو پوری دنیا میں مشہور ہے، اور اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیؑ کی ولادت سے اس کا آغاز ہوا، نجومی کیلنڈر کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے، قمری کیلنڈر کو اسلامی اور ہجری کیلنڈر بھی کہا جاتا ہے۔
یوں تو سورج بھی اللہ رب العزت کا ہے چاند اور ستارے بھی اللہ رب العزت کے ہیں، لیکن جتنے بھی انبیاء کرام تشریف لائے انھیں جو عبادات دی گئیں اور جو احکامات دیے گئے ان کا دارومدار قمری کیلنڈر پر رکھا گیا کیوں کہ یہ فطری کیلنڈر ہے یہ اللہ رب العزت کی طرف سے متعین کیا گیا نظام ہے، باقی کیلنڈر انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں، اور انسانوں کی بنائی ہوئی چیز ضروری نہیں کہ وہ انسانی فطرت کے مطابق بھی ہو، اور انسانوں کی بنائی ہوئی چیز ہر زمانے کے لیے نہیں ہوتی، زمانے کے گزرنے کے ساتھ اس میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔
اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اگر انسان کے پاس چھپے ہوئے کیلنڈر نہ ہوں یا تاریخ معلوم کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہ ہو تو سورج کو دیکھ کر شمسی تاریخ کو نہیں معلوم کیا جاسکتا، جبکہ چاند کو دیکھ کر قمری تاریخ کا اندازہ بہت آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔
اسلام میں ساری عبادات کی بنیاد قمری کیلنڈر ہی ہے، نماز، روزہ، زکوۃ، حج، قربانی، عیدالفطر، عیدالاضحی وغیرہ سب کا دارومدار قمری کیلنڈر ہی ہے، یہ اس کی اہمیت و فضیلت ہے، گزشتہ انبیاء کے دور میں بھی چاند سے چلنے والے کیلنڈر کا استعمال ہوتا تھا، لیکن اسے ہجری کیلنڈر نہیں کہاجاتا تھا قمری کیلنڈر کہا جاتا تھا، ہجری کیلنڈر اس امت میں کہا جانے لگا۔
اور قمری سال کے خاص مہینوں میں ایک خاص مہینہ ”رجب المرجب “ بھی ہے،اس مہینے کی سب سے پہلی خصوصیت اس مہینے کا ”اشہر حرم “میں سے ہونا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:” ملتِ ابراہیمی میں یہ چار مہینے ادب واحترام کے تھے ،اللہ تعالی ٰ نے ان کی حرمت کو برقرار رکھا اور مشرکینِ عرب نے جو اس میں تحریف کی تھی اس کی نفی فرما دی“۔(معارف القرآن مولانا کاندھلوی رحمہ اللہ تعالیٰ)
ماہ رجب کی عمومی فضیلت:
ہر سال کی طرح اس سال بھی ماہ رجب کامہینہ شروع ہو چکاہے اس کے آنے سے ہی ہم پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ان لوگوں کا ہاتھ پکڑ کر صحیح راستہ دکھائیں جو اس مہینہ کے آنے سے ہی مختلف من گھڑت رسم و رواج کا شکار ہو جاتے ہیں اور قصے کہانیاں بنا بنا کر اور سن سن کر اپنے ایمان کے ساتھ اپنا مال اور وقت بھی برباد کرتے ہیں۔
رجب قمری مہینوں میں ساتویں مہینے کا نام ہے ۔رجب کا لغوی معنی عزت واحترام کے ہے،یہ ماہ ان چارمہینوں میں سے ایک ہے جو حرمت والے کہلاتے ہیں،جن میں لڑائی وغیرہ کو سختی سے منع کیاگیاہے۔رجب،شوال،ذوالقعدہ ،ذو الحجہ کا شمار اشہر حرم میں کیا جاتا ہے، ان مہینوں میں جنگ وجدال حرام قرار دیا گیا ہے۔بعثت نبوی سے قبل عہد جاہلیت میں ان چار مہینوں کا بے حد ادب و احترام کیا جاتا تھا اور عرب اپنی بدویانہ زندگی کی وجہ سے لوٹ مار،فتنہ فساد اور ڈاکہ زنی جیسی عادتوں کے خوگر ہونے کے باجود ان ایام میں اپنی تمام سرگرمیاں موقوف کردیتے تھے اور ہر طرف امن و امان ،صلح و آشتی کا دور دورہ ہو جاتا تھا۔اسلام نے ان مہینوں کی حرمت و عظمت کے تصور کو باقی رکھا اور ہر قسم کی انسانیت دشمن سرگرمیاں حرام قرار دے کر ان مہینوں کو امن کا گہوارہ بنانے کا حکم دیا ۔قرآن عظیم الشان ان مہینوں کی حرمت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:ترجمہ: مہینوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ ماہ ہے جو اللہ کی کتاب میں اسی دن سے درج ہے۔جب کہ اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔(سورۃ التوبہ)
نبیﷺ نے فرمایاہے : وقت (زمانہ) اس حالت میں پلٹ آیا ہے جس حالت میں اس روزتھا جب اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان پیدا کیے تھے سال میں بارہ مہینے ہیں ان میں سے چار حرمت والے ہیں وہ بھی تین تو لگاتار ہیں ذوالقعدہ، ذوالحجۃ اورمحرم جبکہ چوتھا رجب مضر ہے جو کہ جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان آتاہے۔ ‘‘ اسلام سے قبل دور جاہلیت میں اس مہینے کا بہت زیادہ احترام کیا جاتا تھا،اس کی حرمت کو اسلام نے بھی برقرار رکھاہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: جب نبیِ اکرم ﷺ رجب کے مہینہ کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرمایا کرتے تھے:”اللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي رَجَبَ وَشَعْبَانَ و بلِّغْنا رمَضَان“(مشکاۃ المصابیح) ترجمہ:اے اللہ ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما،اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا دے۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ: ”ان مہینوں میں ہماری طاعت و عبادت میں برکت عطا فرما،اور ہماری عمر لمبی کر کے رمضان تک پہنچا؛ تا کہ رمضان کے اعمال روزہ اور تراویح وغیرہ کی سعادت حاصل کریں“۔
ماہِ رجب کے چاند کو دیکھ کر نبی کریم ﷺ دعا فرماتے تھے ،اسی کے ساتھ بعض روایات سے اس رات میں قبولیتِ دعا کا بھی پتہ چلتا ہے ، جیسا کہ ”مصنف عبدالرزاق“میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :”پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں کی جاتی وہ شبِ جمعہ،رجَب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں رات،عید الفطر کی رات اور عید الاضحیٰ کی رات“ ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر کوئی معترض کہے کہ یہ چار مہینے بھی دیگر مہینوں کی مانند ہیں تو پھر انہیں دوسروں سے ممتاز کیوں کیا گیا تو اس کاجواب یہ ہے کہ شریعت میں یہ چیز بعید نہیں کیونکہ شریعت میں مکہ مکرمہ کو دیگر شہروں سے زیادہ محترم قرار دیا گیا ہے ۔ ،جمعہ کے دن اور عرفہ کے دن کو باقی دنوں سے زیادہ محترم کہا گیا ہے، شب قدر کو باقی راتوں پر برتری دی گئی ہے ،بعض اشخاص کو رسالت عطا کر کے دوسروں پر فوقیت دی گئی ہے تو اگر بعض مہینوں کو دوسروں کے مقابلے میں امتیازی حیثیت دی گئی ہے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔
ماہ رجب کی اتنی عمومی فضیلت تو ثابت ہے کہ وہ چار حرمت والے مہینوں میں شامل ہونے کی وجہ سے باقی مہینوں سے زیادہ قابل احترام اور متبرک ہے، لیکن بطورِ خاص ماہ رجب کی فضیلت میں کوئی بھی روایت ثابت نہیں۔بلکہ علمائے کرام کی نزدیک ’’خاص طور پر ماہ رجب کے متعلق کوئی صحیح حسن یا کم درجے کی ضعیف سنت وارد نہیں بلکہ اس سلسلے میں وارد تمام روایات یا تو من گھڑت اورجھوٹی ہیں یا شدید ضعیف ہیں ۔ ‘‘
تاریخی حیثیت
تاریخی حیثیت سے یہ مہینہ خاص اہمیت کا حامل ہے اور اسلامی مہینوں میں اس عتبار سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ان میں سے چند واقعات درج ذیل ہیں:
٭… مثلاً تحویل قبلہ کا واقعہ ماہ رجب ہی میں پیش آیا ہے۔اس کے علاوہ اسلامی تاریخ کا اہم واقعہ معراج اسی مہینہ میں پیش آیا ہے بنسبت دیگر اسلامی مہینوں کے ماہ رجب میں احتمال زیادہ ہے۔بہر حال واقعہ معراج ایک حیران کن اور حیرت انگیر واقعہ ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو دین کو عقل کی کسوٹی پر کھتے ہیں، آخر ان کا نتیجہ گم راہی ہوتی ہے اور وہ لوگ اس اظہر من الشمس حقیقت کا انکار کر بیٹھتے ہیں،لیکن واقعہ معراج نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے اور معجزے کی تعریف یہ ہے کوئی”خارق العادۃ“کام کا صدورنبی سے ہوجائے تو معجزہ کہلاتا ہے ،جب کہ عام ولی سے ہوجائے تو وہ کرامت ہوتا ہے۔اس واقعے کا پورا تذکرہ ،بخاری شریف ومسلم شریف میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔
٭… اس کے علاوہ نماز کی فرضیت بھی واقعہ معراج میں ہوئی ہے،اسی طرح غزوہ تبوک بھی ماہ رجب میں پیش آیا ہے۔
٭… غزوہ موتہ میں رومیوں کو اپنی شکست فاش کا بڑا رنج وقلق تھا، وہ مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتے تھے،مسلمانوں سے ٹکر لینے کی تیاری کی خبر برابر موصول ہورہی تھی اور انہوں نے فوج کو تبوک پر جمع کیاتھا۔جس کی سرکوبی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ضروری سمجھی اور باوجود سخت مشکلات ،گرمی اور دیگر سازو سامان کی کمی کے مسلمانوں نے ان کے سامنے سینے تانے رکھے اور ان مغروروں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
٭… پہلی صدی ہجری ہی میں ماہ رجب 2ھ میں مصر و اسکندریہ کے بادشاہ”مقوقسقبطی“نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو تحفہ بھیجا ۔(تقویم تاریخی از عبدالقدوس ہاشمی صاحب ص2)اس کو حضور صلی الله علیہ وسلم نے جب اسلام کی دعوت کا خط لکھا تو اس نے بڑے اچھے طریقے سے خط کا جواب دیا اور حضورصلی الله علیہ وسلم کے لیے درج ذیل تحفے بھیجےدوعدد باندیاں، جن میں ایک حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہابھی تھیں۔جن سے حضور صلی الله علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے۔ ایک ہزار مثقال سونایعفور نامی حماردلدل نامی خچر 30 عدد مصر کے نفیس کپڑے عمدہ شہدلکڑی کی شامی سرمہ دانی کنگھا آئینہ۔ (بحوالہ عہد نبوت کے ماہ وسال ص334)۔
٭… ماہ رجب 2ھ میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح کیا۔نکاح کا خطبہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خود پڑھا۔اس پر وقار مبارک تقریب میں خلفائے راشدین سمیت دیگر اصحاب کرام شریک تھے۔
٭… ماہ رجب میں صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی۔(صحابہ انسائیکلو پیڈ یا ص 557)
٭… ماہ رجب میں صحابی رسول الله صلی الله علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی فوت ہوئے۔ (تقویم تاریخی)اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ارتحال، وصحابی رسول صلی الله علیہ وسلم اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہماکی وفات ہوئی۔
٭… ماہ رجب میں ہی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ،اورحضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ(یعنی حضرت حسن ابن ابی الحسن )اور امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم جیسی شخصیات بھی اس دار فانی سے رخصت ہوئیں۔
ماہ رجب کی بدعات :
اسلام ایک دین فطرت ہے ،اس دین میں سنت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس کی اتباع کا حکم دیاہے ،اورسنت نبوی کی روشن شاہراہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اورجنت کا راستہ ہے جبکہ دین میں بدعات کا اجراء ضلالت اور جہنم کا راستہ ہے۔ اللہ کے رسول کا فرمان ہے:’’ میں تمہیں سیدھی روشن شاہراہ پر چھوڑ کر جارہا ہوں ،اس کی رات بھی دن کی روشن اور واضح ہے،میرے بعد کوئی ہلاکت اور تباہی چاہنے والا ہی اس راہ سے ہٹے گا۔‘‘( مسند احمد)۔
سنت کی راہ جنت اوررضائے الہٰی کی راہ ہے مگر بدعت کی راہ اختیار کرنیوالے کیلئے جہنم اور تباہی مقدر ہے۔ اور بدعات سے سختی کے ساتھ ڈراتے ہوئے اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ انہی بدعات میں سے کچھ بدعات کا تعلق ماہ رجب کے حوالے سے ہے ، جسے یہاں بیان کرنا مقصود ہےان میں کچھ رائج بدعات درج ذیل ہیں:
ماہ رجب کی بدعات میں سے ایک بدعت یہ بھی ہے کہ اس ماہ کو روزوں کے لیے خاص کرناہے،اس کی خصوصیت کی کوئی صحیح دلیل نبی ﷺ سے ثابت نہیںشیخ البانی رحمہ اللہ نے امام ابن تیمیہ رحمہ کے حوالے سے نقل کیاہے:’’اس مہینے میں روزوں کے حوالے سے نبی ﷺ سے کچھ بھی ثابت نہیں اور نا ہی اسلاف نے خاص طور پران کا اہتمام کیاہے،بلکہ حضرت عمر رضی اللہ نے اس ماہ میں روزوں کا اہتمام کرنے والوں کو تعزیراً سزا دیتے اور فرماتے کہ اس کو رمضان کی طرح مت بناو”ستائیسویں رجب کے روزے کو جوعوام ہزارہ روزہ کہتے ہیں اور ہزارروزوں کے برابر اس کا ثواب سمجھتے ہیں، اس کی کچھ اصل نہیں ہے‘‘۔(فتاوٰی دار العلوم مد لل و مکمل: 6/491۔ 492)‘‘
ماہ رجب کی بدعات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شب معراج کو عباد ت کے لیے خاص کرنا ہے،حالانکہ اس رات کو عبات کے لیے خاص کرنے کا ذکر کتاب وسنت میں کہیں بھی وارد نہیں ہے ،اس امت کے بہترین لوگ جو سلف صالحین کہلاتے ہیں جوکہ نیکیوں میں شدید رغبت رکھنے والے تھے ان کے شب روز اس عمل سے خالی نظر آتے ہیں۔اس رات محافل کا انعقاد بھی کیاجاتاہے یہ سب بدعات کے زمرے میں آتی ہیں جو کہ صریح گمراہی ہے اور گمراہی بدعت اور ہر بدعت کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے۔(اعاذنا اللہ منھا)
رجب کی 27تاریخ کو شب معراج منائی جاتی ہے ۔ دن کوروزہ اور رات کو قیام کیا جاتا ہے ۔ محافل نعت اور مختلف دینی مجالس منعقد کی جاتی ہیں اورمساجد میں چراغاں وغیرہ کیا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ قابل ذکر ہے کہ شب معراج کی تاریخ تو کجا اس کے مہینے میں بھی اختلاف ہے ۔ کچھ نے معراج کے لئے ربیع الاوّل، کچھ نے محرم اور کچھ نے رمضان کا ذکر کیا ہے ۔(الرحیق المختوم،ص1377)
جب شب معراج کے مہینے میں ہی اختلاف ہے تو اس کی تاریخ کا تعین کیسے کیا جاسکتا ہے ۔دوسرے یہ کہ اگر بالفرض یہ ثابت بھی ہو جائے کہ شب معراج 27رجب ہی ہے تب بھی اس دن کا خصوصی روزہ، قیام، محافل و مجالس اور چراغاں وغیرہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ بات طے ہے کہ معراج مکہ میں ہوئی اور اس کے بعد تقریباً تیرہ برس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ میں موجود رہے ۔ اگر اس دن کوئی خاص عمل باعث برکت و فضیلت ہوتا تو سب سے پہلے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اختیار کرتے جبکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اس دن کاکوئی بھی خاص عمل نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی کسی صحابی سے ۔ تو اس دن کو بعض اعمال کے لئے خاص کرنا دین میں نئی ایجاد کردہ بدعت نہیں تو اور کیا ہے ؟ لہٰذا ایسی تمام بدعات و خرافات سے خود بھی بچنا چاہئے اور دوسروں کو بھی بچانا چاہئے ۔ نیز اگر کوئی نفلی روزہ و قیام کا اہتمام کرناہی چاہتا ہے تو اس کے لئے سنت نبویؐ موجود ہے ۔ آپؐ روزانہ رات کو گیارہ رکعت قیام کیا کرتے تھے ۔ (موطأ امام مالک:۲۴۳) اور ہر ہفتے میں سوموار اور جمعرات کا نفلی روزہ رکھا کرتے تھے ۔ (سنن أبوداؤد: ۲۴۳۶)
اس لئے اگر کوئی شخص نفلی روزہ رکھنا چاہے یا قیام اللیل کرناچاہے تو اس سنت کو اپنائے، بدعات میں مبتلا ہونے کی کیا ضرورت ہے جو کوشش و محنت کے باوجود انسان کے لئے ہلاکت کا باعث ہیں ۔جبکہ معراج کی رات کے تعین میں ہی اختلاف ہے تو 27 رجب کی شب کو شب معراج قرار دے کر اس میں عبات کا اہتمام کرنا ہی مشکوک عمل ہے۔کیوں کہ اس بارے میں روایات مختلف ہیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے ، بعض روایتوں میں رجب، بعض میں ربیع الثانی، بعض میں رمضان اور بعض میں شوال کا مہینہ بیان کیا گیا ہے، اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا کہ کون سی رات صحیح معنی میں معراج کی رات تھی، اگر یہ کوئی مخصوص رات ہوتی اور اس کے بارے میں خاص احکام ہوتے تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا، جب کہ شبِ معراج کی تاریخ قطعی طور پرمحفوظ نہیں۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اِن دونوں راتوں (شبِ قدر اور شبِ معراج) میں سے کون سی رات افضل ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی اکرم ﷺ کے حق میں لیلۃ المعراج افضل ہے اور امت کے حق میں لیلۃ القدر ، اس لیے کہ اِس رات میں جن انعامات سے نبی اکرم ﷺ کو مختص کیا گیا وہ ان (انعامات ) سے کہیں بڑھ کے ہیں جو (انعامات آپ ﷺ کو) شبِ قدر میں نصیب ہوئے،اور امت کو جو حصہ (انعامات)شبِ قدر میں نصیب ہوا ،وہ اس سے کامل ہے جو(امت کو شبِ معراج میں ) حاصل ہوا ، اگرچہ امتیوں کے لیے شبِ معراج میں بھی بہت بڑا اعزاز ہے؛ لیکن اصل فضل ،شرف اور اعلیٰ مرتبہ اُس ہستی کے لیے ہے جِس کو معراج کروائی گئی،ﷺ۔(مجموع الفتاویٰ،کتاب الفقہ ،کتاب الصیام،رقم الحدیث: ۷۲۳،۲۵ / ۱۳۰،دار الوفاء)
بہرحال کہ رجب کے مہینہ میں تخصیص کے ساتھ کسی دن روزہ رکھنا یا کوئی مخصوص قسم کی تسبیحات صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے، لہذا 27 رجب کو تخصیص کے ساتھ روزہ رکھنے اور اس رات شب بیدار رہ کر مخصوص عبادت کرنے (مثلاً: صلاۃ الرغائب یا دیگر مخصوص تسبیحات وغیرہ ) کا التزام درست نہیں ہے، اس لیے اس دن کے روزہ کو زیادہ ثواب کاباعث یا اس دن کے روزہ کے متعلق سنت ہونے کا اعتقاد صحیح نہیں ہے ،یعنی”اس شب کے لیے خصوصی نوافل کا اہتمام کہیں ثابت نہیںلہذا اس مہینے میں تخصیص کے ساتھ کسی عبادت کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے، ہاں تخصیص اور التزام کے بغیر جس قدر ہوسکے اس پورے مہینے میں عبادت کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔
رجب کے کونڈے:
مسلمانوں کے اندر اسلامی تعلیم کو بگاڑنے کے لیے کفار نے ہر طرح کی کوشش کی ہے اور اس کوشش سے منافقین پیدا کیے ہیں جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے اور خود کار طریقوں سے مسلمانوں کو اسلامی تعلیم کا کہہ کر گمراہ کرتے ہیں۔’’کونڈوں کی یہ رسم بعد میں عام مسلمانوں میں کس طرح پھیلی: ہوایوں کہ 1906ء میں ریاست رام پور میں امیرمینائی لکھنوی کے فرزند خورشید احمدمینائی نے ایک عجیب وغریب لکڑھارے کی کہانی چھپواکر رام پور کے مسلمانوں میں تقسیم کروادی اس کہانی کی کوئی سند نہیں ہے اور نہ ہی کسی مستند کتاب میں موجود ہے۔ اس جھوٹی داستان کانام ’’داستانِ عجیب‘‘ اور’’نیازنامہ‘‘ رکھاگیا۔ اس کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ 22 رجب کو اگر کوئی شخص امام جعفررحمہ اللہ کے نام کی کونڈوں کی نیاز کرے گا تو اس کی ہرحاجت پوری ہوگی، اگر ایسا نہ ہوتوقیامت کے دن وہ میرا(امام جعفر) کا دامن پکڑسکتاہے۔ معاذاللہ!
علماءِ کرام نے اپنی تصانیف میں اس کی بہت تردید کی ہے،حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ”تبیین العجب بما ورد في فضل رجب“کے نام سے اس موضوع پر مستقل کتاب لکھی ہے،جس میں انہوں نے رجب سے متعلق پائی جانے والی تمام ضعیف اور موضوع روایات پر محدثانہ کلام کرتے ہوئے سب کو باطل کردیا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ داستان عجیب والاقصہ ہی من گھڑت ہے کیونکہ اس کا ذکر کسی بھی مستند ماخذ میں موجود نہیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ 22 رجب یا کسی بھی دن کی خاص فضیلت کا تعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی کر ہی نہیں سکتا اور یہ واقعہ اگر بالفرض صحیح بھی تسلیم کر لیاجائے تب بھی عہد رسالت سے صدیوں بعد کا ہے ۔ اور دین عہد رسالت میں مکمل ہو گیا تھا۔ بعد کا اضافہ دین شمار نہیں ہو گا بلکہ اسے دین میں بدعت اور گمراہی کہا گیا ہے جیساکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’’دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ ‘‘
تیسری بات یہ ہے کہ یہ رسم شیعہ حضرات کی ایجاد معلوم ہوتی ہے کیونکہ جعفر صادق کا قصہ تو ثابت نہیں البتہ یہ ثابت ہے کہ 22 رجب کو حضرت امیرمعاویہ (بزرگ صحابی رسول کاتب وحی اور خلیفۃ المسلمین ) کی وفات ہوئی تھی اور شیعہ حضرات کو ان سے جو بغض و عناد ہے وہ سب پر عیاں ہے اس لئے وہ ان کی وفات کے روز بطور جشن میٹھی اشیا تقسیم کرتے لیکن جب انہوں نے محسوس کیاکہ یہ رسم سنیوں میں بھی عام ہونی چاہئے تو جعفر صادق کا من گھڑت قصہ چھپوا کر ان میں تقسیم کرا دیا اور یوں یہ رسم عام سے عام ہوتی چلی گئی۔
یہ دن امام جعفر صادق رحمہ اللہ تعالیٰ کی نہ تاریخ ولادت ہے اور نہ تاریخ وفات، بلکہ اگر تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو ہمیں اس تاریخ میں جلیل القدر صحابی، کاتب وحی، بحری فوج کے موجد، عرب کے منجھے ہوئے سیاستدان سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ملتی ہے۔ اور اس تاریخ کو بعض دشمنان صحابہ ان سے اپنا بغض و کینہ نکالتے ہیں اور عظیم سپہ سالار کی وفات پر اظہار خوشی کرتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ اس خوشی میں اہل سنت اور سادہ لوح عوام کو بھی اس من گھڑت قصہ کے ذریعے شامل کر لیا گیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ 22رجب کے روز کونڈے بھرنے والی رسم خود ساختہ اور جاہلانہ ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں اس لئے ہر مسلمان کو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔یہ رسم بد اعدائےاسلام روافض کی کارستانی جوکہ بغض صحابہ کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ،22 رجب المرجب( 60ھ میں) کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسولﷺفاتح شام و قبرص عظیم سیاستدان اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ کی وفات کا دن ہے اس لیے یہ اسلام کے دشمن کونڈوں کی آڑ میں ان جلیل القدر صحابی کی وفات کا جشن مناتے ہیں۔قاتلھم اللہ ہمارے سادہ لوح مسلمان امام جعفر صادق کے محترم نام سے دھوکہ کھا کر اس خوشی کا حصہ بنتے ہیں اور نادانی میں یہ جہالت کربیٹھتے ہیں۔اس کے علاوہ اس ماہ کی من گھڑت بدعات یہ ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ اگر اسی طرح آنکھیں بند رکھ کر بدعات کرتے چلے گئے تو ان میں مزید اضافہ ہو گا اور طریقے بھی نئے نئے ایجاد ہوتے رہیں گے کیونکہ بدعت کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا وہ نت نئی بنتی رہتی ہے۔ اور جیسے جیسے لوگوں میں گھومتی ہے اس میں کچھ نا کچھ بدلتا رہتا ہے۔
رجب کی بدعات اور دوسری جتنی بھی خرافات ہیں ان سے ہمیں خود بھی بچنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی ترغیب دلانی چاہیے یہ ہم سب پر لازم ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے یہ سوال بھی کرنا ہے کہ خود تو بدعات و خرافات سے بچتےرہے لیکن اپنے آس پاس، دوست، رشتہ دار اور جاننے والوں کو ایسی خرافات کرتے دیکھ کر روکتے کیوں نہ تھے؟ پھر ہمارے پاس بھی کوئی جواب نا ہو گا اور ہم نہ کیے جرم کی سزا لے رہے ہوں گے۔ اس لیے ابھی وقت ہے اور ایسی تمام چیزیں جن کی تعلیم اللہ اور اس کے رسولﷺ نے نہیں دی ان کے خلاف جہاد کرنا ہوگا اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی بچانا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی اہل اسلام کو سنت سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اللہ تعالی ہمیں صحیح دین کا فہم عطا کرے اور بدعات سے محفوظ رکھ کر سنت کی پیروی کرنے والا بنائے،صحابہ اکرام واہل بیت عظام رضوان علھیم اجمعین کی سچی محبت نصیب فرمائے ۔آمین۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا عشقِ رسول ﷺ
کیا کسی بھی درجے میں یہ بات سوچی جا سکتی ہے کہ العیاذ باللہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو نبی اکرم ﷺ سے عشق و محبت نہ تھی، یا اُن کو اس رات میں نبی اکرم ﷺ کو ملنے والے اتنے بڑے اعزاز کی خوشی نہیں ہوئی،ہر گز نہیں ! اُن سے بڑا عاشقِ رسول کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ،لیکن اُن کا عشق حقیقی تھا، جس کی بنا پر اُن سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو ہی نہیں سکتا تھا ،جو سرکارِ دو عالم ﷺ کی منشاکے خلاف ہوتا،وہ تو خیر کے کاموں کی طرف بہت تیزی سے لپکنے والے تھے،لہذا ماہ رجب میں کوئی مخصوص عبادت ہوتی تو وہ ضرور اسے سرانجام دیتے اور اسے امت تک بھی پہنچاتے،لیکن ایسا کوئی بھی اقدام صحابہ رضوان اللہ اجمعین کی تاریخ میں نہیں ملتا،تو جب کوئی خیر کا کام ان کو نہیں سُوجھا تو وہ ”خیر “ہو ہی نہیں سکتا بلکہ وہ بدعت ہو گا، جیسا کہ علامہ شاطبی نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے:ترجمہ:”ہر وہ عبادت جسے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کیا ،سو تم بھی اسے مت کرو“۔
بدعت کی پہچان کے لیے معیار
تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہو ہے کہ ترجمہ:”اہل سنت والجماعۃ یہ فرماتے ہیں کہ جو فعل حضرات ِ صحابہ رضوان اللہ علیہم سے ثابت نہ ہو تو اس کا کرنا بدعت ہے کیونکہ اگر وہ اچھا کام ہوتا تو ضرور حضرات ِ صحابہ رضوان اللہ علیہم ہم سے پہلے اُس کام کو کرتے، اِس لیے کہ انہوں نے کسی نیک اور عمدہ خصلت کو تشنہ عمل نہیں چھوڑا بلکہ وہ ہر(نیک ) کام میں سبقت لے گئے“۔
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہ فرماتے ہیں کہ : ”حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحہم اللہ تعالیٰ اور تبع تابعین رحہم اللہ تعالیٰ دین کو سب سے زیادہ جاننے والے ، دین کو خوب سمجھنے والے ، اور دین پر مکمل طور پر عمل کرنے والے تھے ، اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ان سے زیادہ دین کو جانتا ہوں ، یا ان سے زیادہ دین کا ذوق رکھنے والا ہوں، یا ان سے زیادہ عبادت گذار ہوں تو حقیقت میں وہ شخص پاگل ہے، وہ دین کی فہم نہیں رکھتا؛ لہٰذا اس رات میں عبادت کے لیے خاص اہتمام کرنا بدعت ہے ، یوں تو ہر رات میں اللہ تعالیٰ جس عبادت کی توفیق دے دیں وہ بہتر ہی بہتر ہے؛لہٰذا آج کی رات بھی جاگ لیں، لیکن اس رات میں اور دوسری راتوں میں کوئی فرق اور نمایاں امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔“(اصلاحی خطبات:جلد1)
مت مسلمہ کی یہ بد قسمتی ہے کہ ضعیف اور موضوع احادیث کے سہارے بہت ساری ایسی روایات ہماری ثقافت کا حصہ بن گئی ہیں۔جن کا دیناسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مزید مصیبت کی بات یہ ہے کہ یہی غلط روایات اہم تر ہو کر لو گوں کی توجہ اور اہتمام کا مرکز بن گئی ہیں۔اور جو بنیادی اسلامی تعلیمات وروایات ہیں انہیں یا تو لوگوں نے بھلا رکھا ہے یا پھر انہیں ثانوی حیثیت عطا کر رکھی ہے۔ ہماری بہتری اور بھلائی اسی میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اتباع کریں اور جو باتیں بعد کے زمانوں میں غلط طور پر ترویج پا چکی ہیں ان سے اپنے دامن کو بچائے رکھیں،اللہ رب العزت محض اپنے فضل وکرم سے صحیح نہج پر اپنے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی اور ان کو اوروں تک پہچانے کی توفیق عطا فرمائے،اوراللہ تعالی ہمیں بدعات وخرافات سے محفوظ رکھے اور سنت صحیحہ کے مطابق عمل کی توفیق عطا کرے ۔ آمین