ماہ ربیع الاول یعنی پہلا بہار کا مہینہ
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ربیع الاول ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب ابتداء میں اس کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع یعنی فصل بہار کا آغاز تھا۔ ربیع کے معنی ’’بہار‘‘ کے ہیں اور الاول کے معنی ’’پہلا‘‘ ہے۔ عربی قاعدے کے مطابق ماہ ربیع الاول کا معنی پہلا بہار کا مہینہ ہے۔انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار اسی طرح محال ہے جیسے سورج کی روشنی میں ستارے گننا،مگر سب سے بڑھ کر جو احسان اللہ نے بالخصوص انسان پر اور بالعموم پوری کائنات پر فرمایا وہ اپنے محبوب ، رحمۃ للعالمین ،خیر الخلق اور اشرف الناس کو عالم دنیا میں مبعوث فرما کر کیا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رب ذوالجلال نے ربیع الاول (موسم بہار)میں لوگوں کی فلاح کے واسطے دنیا میں بھیجا ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ”بہار در بہار“کی مصداق ہے،ایک تو زمانہ بہار کا ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد بھی حسین بہار چند سال کم ساڑھےچودہ سو برس پہلے عرب کے ریگستانوں میں ایسی بہار آئی کہ جس سے چہار سو پھیلی ظلمت چھٹ گئی ،ہر سمت چھائی گھٹائیں مٹ گئیں، ہر ذرے پر نور برسنے لگا، اشجار سر سبز ہوئے، اور زمین بھی شاداب ہوئی ،فضائیں مہکنے لگیں، اور ہوائیں جھومنے لگیں ،کیوں کہ اس بہار میں شہنشاہِ اعظم، وجہ تخلیق آدم ،کائنات کے سردار ،زمینوں و آسماں کے سرتاج اور وہ ہستی تشریف لارہی تھی جس کے ثنا خواں زمین پر پتھر اور آسمان پر تارے تھے،جس کا فلک کو روز اول سے انتظار رہا تھا،یوں تو ہر ساعت اور گھڑی تمام ماہ وسال اللہ ربّ العزت کے تخلیق کردہ مگر ان ہی میں کچھ ایسی نسبت کی حامل ہیں جو انہیں دوسری ساعتوں سے مہمیز وممتاز کردیتی ہیں۔ اس اعتبار اور حوالے سے ماہ ربیع الاوّل بڑی عظمت و توقیر اور عزوشرف کا حامل منفرد وممتاز مہینہ ہے کہ اس میں وہ عظیم الشان اور عالی مرتبت ہستی جلوہ آرائے کائنات ہوئی،ماہ ربیع الاول جس کو ماہ کامل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس ماہ عظیم میں حضور سرور کون و مکاں، رحمۃ اللعالمین شفیع المذنبین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا فانی میں تشریف لائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ تمام لوگوں کے لیے رحمت وسعادت کا ذریعہ ہے ۔
ربیع الاوّل وہ مبارک مہینہ ہے جس میں رب العالمین نے محسن انسانیت، پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمتِ مجسم بناکر اس خاکدان عالم میں بھیجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی روشن تعلیمات اور نورانی اخلاق کے ذریعہ دنیا سے نہ صرف کفر و شرک اور جہالت کی مہیب تاریکیوں کو دور کردیا بلکہ لہوولعب، بدعات و رسومات اور بے سروپا خرافات سے مسخ شدہ انسانیت کو اخلاق و شرافت، وقار و تمکنت اور سنت و شریعت کے زیور سے آراستہ وپیراستہ کردیا۔نبی کریمﷺ کی ولادت مبارکہ یقینا تاریخ انسانیت کا وہ موڑ ہے جس کاپیغام یہ تھا کہ اب دنیا میں وہ عظیم انقلاب لانے والی عظیم شخصیت پیدا ہوچکی ہے جسے رب کائنات نے تمام مخلوقات میںسب سے افضل مقام عطا فرما کر سب سے بڑی ذمہ داری نبھانے کے لیے منتخب فرمایا ہے۔حضور اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت اس امت پر سب سے بڑا احسان ہے*خدائے بزرگ وبرتر نے روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں پر اپنے بے حساب انعامات و احسانات فرمائے ہیں، اسی طرح امت محمدیہ ﷺ پر لاتعداد نوازشات و مہربانیاں فرمائیں ہیں ـ نیز تا قیامت اور روز محشر میں بھی اسی طرح کے احسانات و انعامات کی بارشیں برساتا رہےگا کیونکہ وہ ذات رحمن و رحیم اور حلیم و کریم ہے، اتنی بے شمار نعمتوں کو عطا کرنے کے بعد بھی کبھی کوئی احسان نہیں جتلایا لیکن ایک نعمت نعمت عظمی ایسی تھی کہ وہ اس کو جب بنی آدم کی جانب بھیجا اور اپنی اس نعمت سے نبی انسان کو سرفراز کیا تو اس پر احسان جتلاتے ہوئے فرمایا:
بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہیں میں سے عظمت والارسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے”۔(سورۃ آل عمران 3 : 164)اس آیت کریمہ میں آیت يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ الخ سے صاف طور پر ہمیں یہ معلوم ہورہا ہے کہ خوشی کی اصل چیز اور احسان یہ ہیکہ حضور ﷺ ہمارے لئے سرمایہ ہدایت ہیں ـ۔کون نہیں جانتا کہ نبی کریمﷺ سے پہلے جتنے بھی انبیاء و رسول آئے وہ سب کے سب متعین ومحدود وقت اور علاقوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے چنانچہ ظاہر سی بات ہے کہ اس صورت میں ذمہ داری بھی انتہائی محدود ہوجاتی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے نبی محمدﷺ کو تمام انسانوں کی طرف نبی و رسول بنا کربھیجا اور قیامت تک کے لیے یہ منصب دے کر بھیجا اور ساتھ ہی اعلان کروادیا گیا کہ وہ ’’خاتم النبیین‘‘ ہیں ۔ اب ان کے نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس ہستی کو تمام انسانوں کے لیے اور قیامت تک کے لیے مبعوث کیاگیا ہے اس کی ذمہ داری کتنی بڑی ہوگی؟بلاشبہ انہوں نے اس ذمہ داری کو احسن انداز سے نبھایا، اس مقصد کے لیے جوقربانی انہیں دینا پڑی انہوں نے بخوشی دیدی، اس راہ میں انہیں جو مصائب اٹھانے پڑے انہوں نے ان سب کو صبر سے برداشت کیا، دعوت دین کے لیے خود کو ایسا وقف کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ’’داعی الی اللہ‘‘ کے لقب سے سرفراز فرمایا۔ حضرت آقا مدنیﷺ ایک ایسا دین لے کر آئے جس نے پہلے موجود تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا، پہلے سے موجود ملتوں میں جو تحریفات واقع ہوچکی تھیں نہ صرف ان سے پردہ اٹھایا بلکہ ایک مکمل نیا نظام زندگی عنایت فرمایا جس کے بعد کسی اور نظام سے بھیک مانگنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ زندگی کے ہرشعبے سے متعلق وہ واضح ہدایات دیدی گئیں جن کے بعد کسی اور ہدایت کی ضرورت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روشن ہدایت اوروہ عمدہ شریعت لے کر آئے ،وہ ایک ایسی مبارک ملت لائے جس کی راتیں پر امن اور دن پر نور ہوتے ہیں ۔ہادی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وہ راہ دکھلائی جس پر چل کر انسان دونوں جہاں میں کامیاب ہوتا ہے اور جس سے دلوں کا بگاڑ ختم ہو جاتا ہے ،انسان رحمن کو پہچان لیتا ہے ۔
ماہ ربیع الاول میں عشق رسولﷺ کی لہریں:
تاریخ انسانی میںیہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں حضرت محمد ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے۔ آپ کے ذاتی نام احمد اور محمد(ﷺ) ہیں۔ صفاتی نام بہت سے ہیں ۔ مشہور نام 99؍ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں۔ مصطفی، مجتبیٰ، حامد ، محمود، قاسم، صادق اورامین ﷺ۔ آپ نے فرمایا: میں سید الاولین والآخرین اور خاتم النبیین ہوں۔ اسی لیے آپ کالقب سید المرسلین، افضل الانبیاء اور خاتم الانبیاء ہے۔زمانے کی گردش جب بھی ربیع الاول کا ہلال دکھاتی ہے دلوں میں عشق رسول کی لہریں موج زن ہو جاتی ہیں اور ایمان یک دم تازہ ہو جاتا ہے۔تاریخِ ولادت باسعادت میں مؤرخین نے بہت کچھ اختلافات کیا ہے، جیسے کہ ابوالفداء نے 10/ربیع الاوّل لکھی ہے، بعض نے 8/ربیع الاوّل، طبری اور ابن خلدون نے 12/ربیع الاوّل اور مشہور بھی یہی روایت ہے مگر سب کا اس پر تو اتفاق ہے کہ ولادت باسعادت پیر کے دن ہوئی، اور اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ پیر کا دن 9/ربیع الاوّل کے علاوہ کسی اور تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتاہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ولادت باسعادت کی صحیح اور راجح قول 9/ ربیع الاول ہی ہے۔علامہ سید سلیمان ندوی نے بھی نو(9) تاریخ کو ولادت ہونا راجح قراردیا ہے۔۵۷۱ء، بروز پیر بوقت صبح آپ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔بھولی بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے فلاح کی راہ دکھانے والا دستورِ زندگی لے کر آپ تشریف لائے ،جو ہر قوم و ہر ملک کے لوگوں کے لیے نسخۂ اکسیر ہے۔ ربیع الاول کی آمد ہر سال تجدید عہد و فا و سنت کا پیام دیتی ہے ،اس ماہ کا حق تو یہ ہے کہ اس میں کوئی خلافِ سنت کام نہ ہو،جودین ھادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم لائے اس کے خلاف کوئی عمل نہ ہو۔مگر افسوس ہے ان احسان فراموش انسانوں پر، جنہوں نے سب کچھ بھلادیا،جہالت کے جس گھٹا ٹوپ اندھیرے سے اس کریم ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکالاتھا آج اسی گڑھے میں کودنے کو دوڑ رہے ہیں ،ظلم در ظلم یہ مسلمان حبیبِ خدا کو ناراض کر کے بھی ان کی شفاعت کا امیدوار ہے۔ محسنِ کائنات ﷺ نے انسانوںکے لیے جو دستورِ زندگی دیا وہ صرف دستور کی حد تک نہیں بلکہ آپ نے ایک ایک حکم پر عملی طور پر عمل فرماکر، دستورِ حیات کو نافذ کرکے دکھادیا۔اسی لیے جو کوئی اس دستور کا عملی نمونہ دیکھنا چاہے وہ مصطفی جانِ رحمت ﷺ کی سیرت میں دیکھ لے اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی گزارے۔
اس دستورِ حیات میں نہ کالے گورے کا فرق رکھا گیا نہ عربی و عجمی کا، نہ امیر و غریب کا نہ بادشاہ و فقیر کا۔ کرئہ زمین پر جہاں کہیں بھی انسانی آبادی پائی جاتی ہے یہ دستورِ حیات سب کی رہنمائی کرتا ہے۔حضور ﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع میں واضح الفاظ میں یہ اعلان فرمایا : اے لوگو! خبر دار ہو جاؤ کہ تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمھارا باپ(حضرت آدم ؈) ایک ہے۔ کسی عرب کو غیر عرب پر اورکسی غیر عرب کو عرب پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید فام پر فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے۔آپ ﷺ نے مزید ارشاد فرمایا:’’ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پید اکیے گیے(، کنزالعمال، جلد۵ صفحہ۲۹، حدیث نمبر۱۲۳۵۴) اسی دستورِ حیات میں عزت و شرف کا معیار امیر و غریب اور قوم و قبیلہ کونہیں بلکہ حسنِ کردار ( اخلاق) کو بتایا گیا ہے۔فرمان الٰہی ہے:اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیداکیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میںپہچان رکھو، بے شک اللہ کے یہاں تم میںزیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے۔القرآن، الحجرات ۴۹/۱۳)اہم بات یہ ہے کہ پیدائشی لحاظ سے تمام انسان یکساں ہیں۔ انعاماتِ الٰہیہ سے سب انسان نوازے گیے مگر ان کا صحیح اور بر محل؛ استعمال کرکے خدا کا خوف اورتقویٰ حاصل کرنے والا سب سے بہتر و افضل ہے۔
ماہِ ربیع الاوّل کو پیدا ہونے والے محسنِ کائنات ﷺکا پیغام ماننا ہی دنیا کی ساری قوموں کے لیے نسخۂ کیمیا ہے۔ اس میں مرد وعورت، بوڑھے ، جوان ، کنبہ و خاندان اور حاکم و محکوم سبھی کے لیے آرام و راحت اور سکون و اطمینان کا سامان ہے۔ اور اس کا عملی نمونہ بھی خلافت راشدہ کے زمانے میں پورے ۳۶؍سال تک دنیا دیکھ چکی ہے اور اس کا میٹھا پھل بھی کھا چکی ہے۔ آپ ﷺ کی عطا کردہ تعلیم سے نسلی و قبائلی برتری کے تمام بت پاش پاش ہوگیے ۔ یہ مساواتِ اسلامی زندگی کے ہر گوشے میں نظر آتی ہے۔ بارہ ربیع الاوّل شریف کو آنے والے رسول اللہ ﷺ نے انسانوں کے لیے جو دستورِ حیات دیا وہ صرف دستور کی حد تک نہیں رہا بلکہ اللہ کے رسولﷺ نے اس کے ایک ایک حکم پر عمل کرکے ، نافذ کرکے دکھا دیااور حکم دیا کہ اسوئہ رسول پر چل کر زندگی گزارو۔
اورماہ ربیع الاول میں خصوصیت سے مجالس منعقد کرنا ،حضوراکرم ﷺ کا ذکر مبارک ایک اعلی ترین عبادت ہے، بلکہ روحِ ایمان ہے۔آپ کی ولادت، آپ کا بچپن، آپ کاشباب، آپ کی بعثت، آپ کی دعوت ، آپ کا جہاد ،آپ کی عبادت ونماز، آپ کے اخلاق، آپ کی صورت وسیرت، آپ کازہدو تقوی، آپ کی صلح وجنگ ، خفگی و غصہ، رحمت و شفقت، تبسم و مسکراہٹ، آپ کا اٹھنابیٹھنا ، چلنا پھرنا، سونا جاگنا، الغرض آپ کی ایک ایک ادا اور ایک ایک حرکت و سکون امت کے لیے اسؤہ حسنہ اور اکسیر ہدایت ہے اور اس کا سیکھنا سکھانا، اس کا مذاکرہ کرنا اور دعوت دینا امت کا فرض ہے۔اسی طرح آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے ایک ایک نقشے کو اپنی زندگی کےظاہر و باطن پر اس طرح آویزاں کیا جائے کہ آپ ﷺ کے ہر امتی کی صورت وسیرت، چال ڈھال، رفتارو گفتار، اخلاق وکردار آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کی تصوير بن جائے اور دیکھنے والے کو نظرآئے کہ یہ محمدرسول اللہﷺ کا غلام ہے۔اورجہاں بھی موقع ملے آپﷺ کے ذکر خیر سے ہر مجلس و محفل کو معطر کیا جائے۔ آپ ﷺ کے فضائل و کمالات اور آپﷺ کے بابرکت اعمال اور طریقوں کا تذکرہ کیاجائے۔سلف صالحین صحابہ کرام و تابعین اور آئمہ کرام ان طریقوں پر عمل کرتے تھے۔ وہ آپ ﷺ کی ایک ایک سنت کو اپنے عمل سے زندہ کرتے تھے اور ہر محفل و مجلس میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کا تذکرہ کرتے تھے۔
اخلاق النبی ﷺ
اخلاق کا لفظ ذہن میں آتے ہی ایک ایسا خاکہ ابھر کر سامنے آجاتاہے کہ جس کو ہر آدمی اپنانے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ اخلاق انسان کاایک ایسا جز ہے کہ جس کے اندر یہ صفت پائی جاتی تو سمجھ لیجئے کہ وہ کامل انسان ہے، اخلاق ایک ایسی دوا ہے جو دل و دماغ دونوں کو غذا پہنچاتا ہے،جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقِ حسنہ کے اعتبار سے پوری نسل انسانی میں ممتاز ترین شخصیت ہیں۔ ایک بات یہ ہے کہ کوئی شخص ذاتی حد تک عادات و اخلاق کے اعتبار سے اچھے مزاج کا حامل ہو، اس اعتبار سے تو آپؐ اچھے مزاج کے حامل تھے ہی، لیکن آپ ؐ نے اپنے اچھے اخلاق و عادات کو اپنے ساتھیوں، دوستوں، بچوں اور شاگردوں میں تقسیم فرمایا اور اخلاق فاضلہ کی ایک بہترین سوسائٹی دنیا کو دی۔ یہ جناب نبی کریمؐ کا کمال ہے کہ آپ نے اچھے اخلاق کی تربیت دے کر ایک باکمال جماعت تشکیل دی جو آج بھی ایک بہترین معاشرے کے طور پر دنیا کے سامنے مثال ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:’’ اِنَّمَا بُعِثْتُ لاِتمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَا ق‘‘میری بعثت اس لیے ہوئی کہ میں اخلاق کی تعلیم کو مکمل کروں۔رسول اللہ ﷺ کے اخلاق عالیہ ، اوصاف جمیلہ اور حلیہ مبارک ، اوصافِ کریمہ اور فضائلِ شریفہ کا ذکر صحابیِ رسول ہند ابی ہالہ نے (جو ام المومنین حضرت خدیجہ کے فرزند اور حضرت حسن و حسین کے ماموں ہیں) آپ کو اوصاف النبی(حضور کے اوصاف بتانے والے) بھی کہا جاتا ہے،بہت جامع اور بلیغ انداز میں کہاہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:’’آپ ﷺ طبعاً بدکلامی اور بے حیائی و بے شرمی سے دور تھے اور تکلفاً بھی ایسی کوئی بات آپ سے سرزد نہیں ہوتی تھی۔ بازاروں میں آپ کبھی آواز بلند نہ فرماتے، برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے، بلکہ عفو درگزر کا معاملہ فرماتے۔ آپ نے کسی پر کبھی دست درازی نہ فرمائی سواے اس کے کہ جہاد فی سبیل اللہ کا موقع ہو، کسی خادم یا عورت پر آپ نے کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا۔ ہند ابی ہالہ عرض کرتے ہیں : میں نے آپ کو کسی ظلم و زیادتی کا انتقام لیتے ہوئے بھی نہ دیکھا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے خلاف ورزی نہ ہو اور حدود اللہ کی حرمت و ناموس پر آنچ نہ آئے۔ ہاں، اگراللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو پامال کیا جاتااور اس کے ناموس پر حرف آتا تو آپ ہر شخص سے زیادہ غصہ فرماتے۔ دو چیزیں سامنے ہوتیںتو ہمیشہ آسان چیز کا انتخاب فرماتے۔ جب اپنے دولت خانہ پر تشریف لاتے تو اپنے کپڑوں کو صاف فرماتے، بکری کا دودھ دوہتے اور اپنی ضرورتیں خود انجام دیتے، اپنی زبان مبارک محفوظ رکھتے، صرف اور صرف اسی چیز کے لیے کھولتے جس سے آپ کو کچھ سروکار ہوتا۔ لوگوں کی دلداری فرماتے اور ان کو متنفر نہ کرتے۔
حضرت علی فرماتے ہیں : آپ ہمہ وقت کشادہ رو اور انبساط و بشاشت کے ساتھ رہتے تھے۔ بہت نرم اخلاق، نرم پہلو تھے۔ نہ سخت طبیعت کے تھے نہ سخت بات کہنے کے عادی ، نہ چلاکر بولنے والے نہ کسی کو عیب لگانے والے، نہ تنگ دل نہ بخیل۔ تین باتوں سے آپ نے اپنے کو بالکل بچا کر رکھا ۔ ایک جھگڑا، دوسرے تکبر اور تیسرے غیر ضروری اور لا یعنی کام۔ لوگوں کو بھی تین باتوں سے آپ نے بچارکھا تھا۔ نہ کسی کی برائی کرتے نہ اس کو عیب لگاتے تھے اور نہ اس کی کمزوریوں اور پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑتے تھے۔ صرف وہ کلام فرماتے تھے جس پر ثواب کی امید ہوتی تھی۔ جب گفتگو فرماتے تو شرکاے مجلس ادب سے اس طرح سر جھکا لیتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ ان سب کے سروں پر چڑیا ں بیٹھی ہوئی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو لباس و جمال و کمال سے آراستہ فرمایا تھااور آپ کو محبت و دلکشی اور رعب و ہیبت کا حسین و جمیل پیکر بنایا تھا۔ہند بن ابی ہالہ بیان کرتے ہیں: آپ خود دار ،باوقار اور شان و شوکت کے حامل تھے اور دوسروں کی نگاہ میں بھی نہایت پر شکوہ ، آپ کا روے انور چودھویں رات کے چاند کی طرح دمکتا تھا۔حضرت انس راوی ہیں کہ میں نے حریر و دیباج کو بھی آپ کے دست مبارک سے زیادہ نرم نہیں پایا۔ نہ آپ کی خوشبو سے بڑھ کر کوئی خوشبو سونگھی۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق حسنہ کی دولت سے تڑپتی انسانیت کی غمخواری کی، اپنے ازلی وابدی دشمنوں کو پتھر کے جواب میں پھولوں کا گلدستہ پیش کیا، نفرت کے اندھیروں میں الفت و محبت کی شمع روشن کی، آپسی تفرقہ بازی اور دائمی بغض و عداوت کی بیخ کنی کرکے بھائی چارگی اور الفت ومحبت کے چشمے بہائے، یہی نہیں بلکہ ذرا دو قدم آگے بڑھ کر فتح مکہ کی تاریخ کے اوراق کو الٹ کر دیکھئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوتے ہیں، صحابہ کرام کی دس ہزار جمعیت آپ کے ساتھ ہے، صحابہ اعلان کرتے ہیں ”الیوم یوم الملحمة“ آج بدلے کا دن ہے، آج جوش انتقام کو سرد کرنے کا دن ہے، آج شمشیروسناں کا دن ہے، آج گذشتہ مظالم کے زخموں پر مرہم رکھنے کا دن ہے، آج ہم اپنے دشمنوں کے گوشت کے قیمے بنائیں گے، آج ہم ان کی کھوپڑیوں کو اپنی تلواروں پر اچھالیں گے، آج ہم شعلہٴ جوالہ بن کر خرمن کفار کو جلاکر بھسم کردیں گے اور گذشتہ مظالم کی بھڑکتی چنگاری کو ان کے لہو سے بجھائیں گے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے اور زمین و آسمان گواہی دیتے ہیں کہ ایساکچھ نہیں ہوا، رحمت نبوی جوش میںآ ئی اور زبان رسالت کی صدائیں لوگوں کے کانوں سے ٹکراتی ہیں ”لاتثریب علیکم الیوم واذہبوا انتم الطلقاء“ کہ جاؤ تم سب آزاد ہو، تم لوگوں سے کسی قسم کا بدلہ نہیں لیا جائیگا، یہ تھاآپ کا اخلاق کریمانہ، یہ تھا آ پ کے اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ، جس کی مثال سے دنیا قاصر ہے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم انسانیت کو اخلاقیت کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس کی گواہی باری تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ”انک لعلی خلق عظیم“ ایک جگہ خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اخلاقیت کی گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں ”انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“ مجھے تو اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ میں نیک خصلتوں اور مکارم اخلاق کی تکمیل کروں، اسی کو سراہتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کے اخلاق حسنہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں: ”کان خلقہ القرآن“ ۔
لہٰذا جو مکارم اخلاق آپ کو خالق کونین کی طرف سے مرحمت ہوئے تھے اور جن کی تکمیل کے لیے آپ کو اس دنیا میں بھیجا گیا تھا وہ مکلف مخلوق کی فطرت کے جملہ مقتضیات کے عین مطابق تھے اور جن کا مقصد صرف یہی نہ تھا بلکہ ان کے ذریعہ روحانی مریضوں کو ان کے بستروں سے اٹھایا جائے اوراٹھنے والوں کو چلایاجائے اور چلنے والوں کو تیزی سے دوڑایا جائے اور دوڑنے والوں کو روحانی کمال اور اخلاقی معراج اور سعادت دنیوی ہی نہیں؛ بلکہ سعادت دارین کی سدرة المنتہیٰ تک پہنچایاجائے۔
بیشک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اخلاق حسنہ سے بھری پڑی ہے، جسے آج ہمیں اس نازک ترین حالات میں اپنانے کی ضرورت ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اخلاق کی تعلیم دوسروں کو دیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل پر اپنی زندگی کو سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کو اپنانے کے بعد ہمارے لیے بھی اخلاقیت کی بلند اور دشوار گزار گھاٹی پر چڑھنا آسان ہوجائے گا۔ اللہ کے رسول ﷺ کے اخلاق و شمائل کا یہ ایک مختصر خاکہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں پاکیزہ زندگی کے تمام پہلوؤں کی مثالیں اور نمونے موجود ہیں امن وآشتی کی جھلکیاں ہوں تو صلح ومصالحت کی بھی، دفاعی حکمت عملی کی بھی اور معتدل حالات میں پرسکون کیفیات کی بھی، اپنوں کے واسطہ کی بھی اور بے گانوں سے تعلقات کی بھی معاشرت و معاملات کی بھی اور ریاضت و عبادات کی بھی۔ عفوو کرم کی بھی اور جودوسخا کی بھی تبلیغ و تقریر کی بھی اور زجر و تحدید کی بھی ان جھلکیوں میں جاں نثاروں کے حلقے بھی ہیں اور سازشوں کے نرغے بھی ، امیدیں بھی ہیں اور اندیشے بھی گویا انسانی زندگی کے گوشوں پر محیط ایک ایسی کامل اور جامع حیات طیبہ ہے جو رہتی دنیا تک پوری انسانیت کے لئے رہبر و رہنما ہے۔اگر کوئی آپ کی مکمل زندگی کا مطالعہ کرکے عمل پیرا ہوجائے تو بلاشبہ زندگی میں چارچاند لگ سکتے ہیں اور عمل کرنے والے دنیا و آخرت میں قابل رشک بن سکتی ہے کاش ہم رسول اللہ کی سیرت مبارکہ پر عمل پیراہوجائیں۔
12/ ربیع الاول ولادت با سعادت یا سانحہ وفات؟
اُس محسن اعظم ﷺکا حق تو یہ تھا کہ ہمارے قلوب ہرلحظہ اس کی عظمت واحترام سے معمور اور ہمارے دلوں کی ہر دھڑکن اس کی تعظیم و توقیر کی ترجمان ہوتی، ہمارا ہر عمل اس کے اسوہ پاک کا نمونہ اور ہر حرکت و سکون اس کی سنت مطہرہ کے تابع ہوتا گویا ایک مسلمان کی مکمل زندگی سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جیتی جاگتی تصویر ہونی چاہئے۔ نہ یہ کہ دیگر اہل ادیان وملل کی طرح ہم بھی اس نبیٴ برحق کی یاد و تذکرہ کے لئے چند ایام کو مخصوص کرلیں اور پھر پورے سال بھولے سے بھی اس کی سیرت و اخلاق کا ذکر زبان پرنہ لائیں۔ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں زندگی کے جتنے لمحات بھی گذرجائیں وہ ہمارے لئے سعادت اور ذریعہٴ نجاتِ آخرت ہیں۔اور 12/ ربیع الاول کی تاریخ کو خاص کرکے میلاد النبی کے عنوان سے جشن وتہوار منانا،جلسے جلوس کا اہتمام کرنا نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ صحابہٴ کرام اور تابعین عظام سے، صحابہٴ کرام سے بڑھ کر سچا عاشق رسول اور جاں نثار کون ہوسکتا ہے، اس کے باوجود صحابہٴ کرام نے کبھی بھی اس دن (12/ ربیع الاول) کو عید اور تہوار کے طور پر نہیں منایا، یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی تاریخوں میں متعدد اقوال ہیں؛ لیکن وفات کی تاریخ اکثر موٴرخین کے نزدیک 12/ ربیع الاول ہے، اس لیے اسے بارہ وفات بھی کہا جاتا ہے تو ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ اس امت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے سے بڑا المناک سانحہ اور کیا ہوسکتا ہے، اس المناک حادثہ کے دن کو عید اور خوشی کا دن قرار دینا اور ایک دوسرے کو مبارک دینا، نئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا وغیرہ کسی سچے ومحبِ رسول کو کیسے گوارہ ہوسکتا ہے؛ لہٰذا اس متعین تاریخ کو جشن میلاد النبی کے طور پر منانا اور اسے باعث اجر وثواب سمجھنا بدعت ہے۔
مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کچھ عرصے سے اس بارے میں بے انتہاء غلو کیا جارہاہے جس سے نہ صرف روح شریعت بری طرح متاثر ہوتی ہے بلکہ شریعت کا ظاہری حسن و جمال بھی بگاڑا جاتا ہے۔ غیر شرعی افعال کی بھرمار میں اگر سیرت النبی ﷺ یا میلاد النبیﷺ کا پروگرام منعقد کیا جائے گا تو یقینا یہ صورت نہ صرف یہ کہ کسی ثواب کا باعث نہیں ہوگی بلکہ خطرہ ہے کہ ڈبل گناہ کا سبب نہ بن جائے کیوں کہ سیرت النبیﷺ اور ولادت نبوی کاتذکرہ اس لیے قابل مدح ہے تاکہ نبی کریمﷺ کے لائے ہوئے دین سے وفاداری میں پختگی لائے جائے ۔لیکن آہ ! آج رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم فداہ روحی، ابی، وامّی کے نام لیوا اوراس کے عشق و محبت کے دعویدار ماہ ربیع الاوّل میں ”عید میلاد النبی“ کے دلنشیں نام پر جو وقتی اور بے روح محفلیں منعقد کرتے ہیں اس کے تصور ہی سے روح تھرا اٹھتی ہے اور کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے۔ ملتِ اسلامیہ کی یہ کیسی بدبختی و بدنصیبی ہے کہ سیرت پاک اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پراس ہڑبونگ، غل غپاڑہ اور طوفان بد تمیزی کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ کچھ دیر کیلئے شیطان بھی شرماجاتا ہے۔ دل کی دنیا تاریک وتباہ ہوتی جارہی ہے، مگر اس کی فکر سے بے پرواہ بازاروں کے گلی اور کوچے برقی قمقموں سے منور اور خوشنما جھنڈیوں سے سجائے جاتے ہیں۔ چار چار اور چھ چھ گھنٹے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جلوس میں گذاردئیے جاتے ہیں مگر اسلام کے رکن اولیں نماز کا خیال تک نہیں آتا۔ میلادالنبی کے ان جلسوں اور جلوسوں میں فکرننگ وناموس سے بے نیاز ہوکر مردوں اور عورتوں کا جس طرح اجتماع اوراختلاط ہوتا ہے عہد جاہلیت کا جشن نوروز بھی اس کے آگے ماند پڑجاتا ہے۔ اور قوم وملت کااس قدر سرمایہ ان سطحی اور غیرشرعی مجلسوں کی زیبائش و آرائش پر صرف ہوتا ہے کہ اس کا اندازہ بھی دشوار ہے۔کیا ربیع الاول کی اتنی سی اہمیت رہ گئی ہے کہ ملت کے کچھ افراد کچھ دن جشن مناکر، کھا پی کر باقی سال آرام سے سو جائیں اور دیگر مسالک صرف اس کام کو بدعت گردان کر دفاعی پوزیشن میں یہ مہینہ گزار کر اپنے آپ کو مجاہدین اسلام سمجھ کر سارا سال چپ رہیں؟نہیں نہیں! ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا امت مسلمہ نے اس نادر موقع سے بہت کچھ فیض لینا ہے،امت کے لیے یہ موقع اس بھلائے ہوئے سبق کی یاد دہانی ہے جس کو مسلمان بھلا کر آج دنیا میں ذلیل و خوار ہے۔ربیع الاول کا مہینہ پوری امّت کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا مہینہ ہے، حالانکہ سارے مہینے ہمارے آقا علیہ السلام کے ہیں مگر یہ مہینہ آپ علیہ السلام کی ولادت کے ساتھ مخصوص ہے اس لیے امت کو چاہیے وہ اس نادر موقع کو اپنے لڑائی جھگڑوں میں ضائع نہ کرے بلکہ امن اور محبت کے ساتھ اس مہینے میں اجروثواب کمائےاپنی بقیہ ماندہ زندگی کو نبی پاک ﷺ کی نقش قدم پر گزارنے کی فکر کرے۔
اس مہینے کی مناسبت سے تمام امت کو چاہیے کہ وہ اپنے آقا علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کرے، اس سلسلے میں مساجد، مدارس، سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں سیرت پاک کے لیے روزانہ کی بنیاد پر سلسلہ دروس منعقد کیے جائیں۔آج امت کو ہٹلر، سٹالن،مارکس اور لینن کی بائیوگرافی تو حرف بہ حرف یاد ہے مگر اپنے محبوب آقا علیہ السلام کی زندگی کے متعلق کچھ علم نہیں۔وہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ و سلم جن کی ذات پوری انسانیت کے لیے کامل نمونہ ہے آج امت نے ان کی زندگی کو بھلا دیا ہے اور اپنے مسائل کا حل ناقص العقل دانشوروں کے ہاتھوں تلاش کرتی ہے۔
ربیع الاول کا ماہ شروع ھوتے ھی درود شریف کا معمول بڑھا دینا چاہیے۔ سنتوں پر عمل کرنا اور سنتوں کا علم حاصل کرنے کی کوششوں میں اضافہ کر دینا چاہیے۔ علما جمعہ کے خطبات میں اس ماہ خصوصی طور پر سیرت رسول اللہ ﷺ پر روشنی ڈالتے ہیں، اور ہر روز کسی مسجد اور اہم مقام پر سیرت النبی ﷺ کی محافل ھوتی ہیں۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے آگاہی حاصل ہوتی ہے اور سنتوں کے علم میں اضافہ ہوتا ھے۔اسی طرح بدعات سے بچنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ گو مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر بدعت کی تعریف میں اختلاف کرتے ہیں۔لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ بدعت گمراھی ھے۔ بدعت سے منع کرنے کا فلسفہ بھی سب مانتے ہیں کہ اس سے اصل مقصود دین کی حفاظت ھے۔ سب کا اس پر اتفاق ھےکہ چودہ سو سال میں دین میں تحریف اس لئے نہیں ھو سکی کہ علما ئے کرام اصل دین میں کمی بیشی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے رہے۔
رسول اللہ ﷺ حقوق:
ہمیں آپ ﷺ کے ساتھ انتہائی محبت ھونی چاہیے۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی مومن نہیں ھوسکتا جب تک میری محبت اس کےدل میں اہل وعیال اور تما م انسانوں کی محبت سے زیادہ نہ ہو۔رسول اللہ ﷺ کے بے شمار حقوق ہیں، ان میں تین بہت اہم ہیں۔
اول آپ ﷺ کی محبت ہے:
آپ ﷺ کی ذات مقدسہ سے محبت ہرمسلمان کے قلب میں ہونی چاہیے۔ آدمی کو اپنے گھر سے محبت ہوتی ہے، اپنے کاروبار سے،اپنی اولادسے اپنے والدین سےمحبت ہوتی ہےلیکن آپ ﷺ سے محبت سب محبتوں سےبالاتر اور اعلی ہونی چاہیے۔
دوئم عقیدت:
آپ ﷺ کی عقیدت کے معنی آپ ﷺ جو دین لے کر آئے جو کتاب لے کر آئے، جو احکام لے کر آئے وہ سب حق ہیں۔وہ سب ایسے سچے ہیں کہ ان کےاختیار کئے بغیر نجات نہیں۔ نجات آپﷺ کی ارشادات کی تعمیل میں ہے۔
سوئم اطاعت:
تیسرا حق اطاعت ہے۔ محبت بھی ہو عقیدت بھی ہومگر اطاعت نہ ہو تواس کی مذمت آئی ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا کہ اس گھمنڈ میں نہ ہونا کہ میںپیغمبر کی بیٹی ہوں بخشی جاؤں گی وہاں اپنا عمل کام آئے گاہم سمجھتے ہیں کہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کارنگ ہی سب سے بہتریں رنگ ہے ہمیں چاہیے کہ اسی رنگ کو اختیار کریں۔یہی ربیع الاول کے مہینے کا پیغام اور سیرت کا نچوڑ ہے۔اسی میں ہماری فلاح ہے۔لہٰذا ہمارا ہر ہر عمل (عقائد و عبادات، اخلاق و معاملات اور معاشرت و مواخات) میں حضورِ اقدس کی اتباع کا اہتمام کیا جائے ، اپنے عقائد و اعمال کی اصلاح کی جائے ، شرک و بدعات سے بچا جائے۔مثال کے طور پر٭… ربیع الاول کا چاند دیکھ کر لوگوں کو عید مبارک کہنا یا آمد عید کا اعلان کرنا،٭… بارہ ربیع الاول کو تیسری عید قرار دینا اور اس کو اللہ اور رسول کی مقرر کردہ دونوں عیدوں سے زیادہ اہم سمجھنا٭… نیز جشن میلاد منانا اور بسوں، کاروں، ٹرالیوں اور بیل گاڑیوں کی صورت میں جلوس نکالنا یا اس میں شرکت کرنا، مختلف مقامات پر جھنڈیاں آویزاں کرنا ٭… خانہ کعبہ، روضہ مبارکہ، مسجد نبوی اور دیگر مقامات مقدسہ کے ماڈل بنا کر ان کا طواف کرنا اور آتش بازی، ہلڑ بازی اور رقص و سرور کی مخلوط اور غیر مخلوط محفیلیں جمانا یہ سب اعمال قرآن و سنت کی رو سے ممنوع ہیں۔اور ہر قسم کے صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے ،فرض نماز اور دیگر روز مرہ کی مختلف عبادات کی پابندی کی جائے، اپنی معیشت و معاشرت اسلامی تقاضوں اور اسلامی روایات کے سانچوں میں ڈھالی جائیں ، ہر قسم کے نت نئے رسم و رواج ، نمود و نمائش اور اسراف و فضول خرچی سے بچا جائے ، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ معاملات خصوصاً کاروبار ی معاملات میں حلال و حرام اور جائز و ناجائزطریقوں میں فرق کیا جائے اور حرام اور ناجائز بلکہ مشتبہ ذرائع آمدنی سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کی جائے ۔ اپنے اندر حلم و بردباری ، صبر و شکر ، عاجزی و انکساری ، خشیت و للہیت اور تقویٰ و طہارت وغیرہ جیسے عمدہ اور اچھے اخلاق پیدا کیے جائیں اور غرور و تکبر ، بغض و حسد ، ریاکاری و بدکاری ، گالم گلوچ ، ہیرا پھیری اور جھوٹ وغیرہ جیسے رذائل اور برے اخلاق سے اپنے آپ کو حتی المقدور دور رکھا جائے ۔ غرضیکہ اپنے ظاہرو باطن اور اپنے اندر اور باہر کو حضور نبی کریم کی سیرت کے مطابق مکمل طور پر ڈھالاجائے ، اپنی طرف سے اس مہینہ یا اس مہینے کی کسی تاریخ کے لئے کوئی ایسا مخصوص عمل ایجاد نہ جائے کہ جس کا قرآن و حدیث سے کوئی ثبوت نہ ملتا ہو ، نیز آئندہ کے لئے نیک اعمال کو بجالانے کا عزم مصمم اور پختہ عہد کیا جائے اور گناہوں سے بچنے کے لئے سچی اور پکی توبہ دل سے کی جائے ۔
ربیع الاول کے مہینے میں ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ سیرت رسول صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے حوالے سے کوئی کتاب لازمی ختم کرے، چاہے وہ مختصر ہو یامفصل۔آج انٹرنیٹ کے دور میں کتب تک رسائی انتہائی آسان ہو گئی ہے۔اب سارا علم انگوٹھے کے نیچے آگیا ہے۔ہر پڑھے لکھے شخص کو چاہیے کہ وہ اس موقع پر فضول بحث میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کے بجائے سیرت رسول صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کا خود بھی مطالعہ کرے اور دیگر دوستوں کو بھی یہ پیغام پہنچائے۔او ر نیک عبادات و اعمال میں اضافہ کیا جائے اور برے کاموں اور گناہوں سے اپنے آپ کو بچایا جائے ،آپ علیہ السلام کی مبارک سنتوں اور طریقوں پر عمل پیرا ہوا جائے اور فواحش و منکرات سے اجتناب کیا جائے ، حضورِ پاک کا کثرت سے ذکر خیر کیا جائے، آپ کی خدمت میںدرودوسلام کے گراں قدر تحفے تحائف بھیجے جائیں ، آپ کے اخلاق و کردار، اعمال و افعال کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے ، غیروں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے اپنے آپ کو دور رکھا جائے،غریبوں اور بے سہارا لوگوں پر خرچ کیا جائے ، بے پردگی و بد نظری کرنے کے بجائے اپنی نظروں کو پاک اور صاف رکھا جائے ، گانے بجانے اور موسیقی سننے کے بجائے اپنے کانوں کو قرآن مجید کی تلاوت اور حضور نبی کریم کے مبارک ذکر سے بہرہ ور کرایاجائے،نیز اس مہینہ میں فرض نمازوں سمیت دیگرروز مرہ کی واجبی و نفلی عبادات کو ضائع کرنے کے بجائے اپنے آپ کو مسجد اور منبرو محراب کا عادی بنایا جائے کہ یہی حضورا قدس کی نورانی تعلیمات کا نچوڑ ہے اور اسی میں اقوام عالم کی کامیابیوں ا ور کامرانیوں کا راز مضمر ہے۔
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُونِی الایة اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں سے کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ (بغیر اتباع الٰہی کے دعوی محبت خود فریبی ہے۔ بلکہ اگر بغور دیکھا جائے تو یک گونہ مذاق و استہزاء ہے )(نعوذ باللہ منہ)اس لئے ہم سب کے لئے ایک لمحہٴ فکریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پاک رسول کی صریح مخالفت کرتے ہوئے یہ میلاد النبی اجلاس و جلوس ، ہمیں فلاح و کامیابی کی جانب لے جارہے ہیں یا دنیا و آخرت کی ناکامی اور خسارے کی جانب ۔اس لئے مسلمان بھائیو! اس پُرفتن دور میں بدعت کے اندر پڑنا نہایت آسان اور سنت پر چلنا انتہائی مشکل ہے ، خلافِ شریعت عمل بہت سہل اور اسلام پر عمل بڑا کٹھن ہےاللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو سنت نبویﷺ و تعلیمات نبویﷺ کو اپنی زندگی میں اتارنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، اور رسولﷺ کا سچا عاشق بنائے۔ یاد رکھیے! جس مسلمان کا تعلق نبی صلی الله علیہ وسلم سے جتنا زیادہ ہو گا وہ اتناہی باطل کی آنکھوں میں کھٹکے گا۔ الله رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں بدعات ومنکرات سے بچائے اور سنت نبوی پر چلاتے ہوئے ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ اے الله! ہمیں اسلام کی سربلندی کے لیے قبول فرما۔ آمین ثم آمین۔