ماں باپ سے بد سلوکی پر اللہ کا غضب

ماں باپ سے بد سلوکی پر اللہ کا غضب
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
سوشل میڈیا پرایک جاہل انسان کی ویڈیووائرل ہورہی ہے جس میں ایک بد بخت،شقی القلب انسان اپنی ماں پر تشدد کرتے ہوئے دکھایا جارہا ہےاللہ کی پناہ!یہ انتہائی بدبختی اور شقاوت قلبی کا مظاہرہ ہے۔اولاد پر والدین کی اطاعت فرض ہے جن کی اطاعت میں شریعت کے کسی حکم سے ٹکراؤ لازم نہ آئے، نیز والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرنا بھی شرعاً ضروری ہے، ان کی نافرمانی اور ان کی ایذا رسانی سخت حرام اورکبیرہ گناہ ہے، قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے، اور والدین کی نافرمانی، ان کے ساتھ بدکلامی کے ساتھ پیش آنے، اور والدین کو ستانے کی بہت وعیدیں آئی ہیںاوریہ وعیدیں حضرت آدم علیہ السلام کی امت سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کی امت تک جاری و ساری رہی ہیں۔ تمام بنی نوع انسان کو یہی تلقین کی جاتی رہی ہے کہ تمہاری جبین نیاز سوائے ذات باری تعالیٰ کے کسی اور کے سامنے نہ جھکے اور اپنے والدین کے ساتھ احسان اور فروتنی سے پیش آئو۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تعلیم، تاکید کے ساتھ ہر دور میں ہر نبی کی امت کو دی گئی اور یہ حکم آج بھی ہمیشہ کی طرح امت محمدیﷺ کے لئے مفروض الاطاعت ہے۔
والدین اﷲ تبارک و تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہیں۔ اولاد کی آنکھوں کی ٹھنڈک باعث سکون و راحت ہیں۔ غموں کا مداوا ہیں، سرمایہ حیات اور سرمایہ آخرت بھی ہیں۔ والدین کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں جابجا ایسے مقامات ہیں جہاں عقیدہ توحید، ایمانیات، اطاعت اللہ تعالیٰ عزوجل اور اطاعت رسولﷺ کے ذکر کے فورا بعد کسی اور موضوع کو درمیان میں لائے بغیر جس موضوع کو بیان کیا گیا وہ والدین کے حقوق سے متعلق ہے، حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا تعلق انسان سے ہے اور انسانی زندگی کا آغاز ماں باپ سے ہوتا ہے۔ یعنی خاندانی زندگی کی عمارت عائلی نظام میں ماں باپ پر استوار ہوتی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:… اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو، اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔ ( سورہ بنی اسرائیل)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا…: کبیرہ گناہوں میں سے یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے، صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی بھی دے سکتاہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! آدمی کسی دوسرے کے والد کو گالی دیتاہے تو وہ بھی اس کے والد کو گالی دیتاہے، اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتاہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتاہے۔ (بخاری ومسلم)
دوسرے کے والدین کو گالی دینا جو اپنے والدین کو گالی دینے کا سبب ہے اسے کبیرہ گناہ قرار دیا جارہاہے، پھر براہِ راست اپنے والدین کو خود گالی دینا کتنا بڑا گناہ ہوگا!! اسی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حیرت سے سوال کیا کہ کیا کوئی اپنے والدین کو گالی بھی دے سکتاہے؟
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔ (بیہقی فی شعب الایمان)
دیکھ لیجیے رسول اللہ ﷺ نے کیا تعلیم ارشاد فرمائی؟ والدین خواہ ظالم ہی کیوں نہ ہوں، اولاد کا کام ان کا احتساب یا اصلاح نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں بھی اولاد کا فرض ان کی اطاعت ہے، والدین سے ان کا رب خود حساب لے لے گا، لیکن اس صورت میں اولاد نافرمانی کرے گی تو وہ اللہ کے ہاں غضب کی مستحق ہوگی، اور اس کے لیے جہنم کا دروازہ کھل جائے گا۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا ؛ شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے، مگر والدین کی نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں جلد ہی سزا دے دیتا ہے۔(مظاہرِ حق ، 4/487، ط قدیمی) ملاحظہ کیجئے اولاد کا یہ رویہ اور سلوک ناجائز اور کبیرہ گناہ ہے، جس کا خمیازہ آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی بھگتنا پڑتا ہے، ایسی اولادپر لازم ہے کہ اپنے اس رویہ سے توبہ کریں، والدین کی خدمت کریں،ان کے بڑھاپے میں ان کا سہارا بنیں ، جیساکہ بچپن میں وہ ان کا سہارا بنے تھے، اور مشقتیں اٹھا کر ان کو پالا تھا، اور ان کی زندگی کو اپنے لیے سعادت کا باعث سمجھیں۔باقی ماں جیسی ہستی کو گالی دی جائے،اوراس پر ہاتھ اٹھا جائے یہ انتہائی بدبختی اور شقاوت ہے، مذکورہ بالابدبخت شخص پر لازم ہے کہ اپنے اس عمل پر اللہ سے بھی اور اپنی والدہ سے بھی معافی مانگے، ورنہ آخرت بلکہ آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی ذلیل وخوار اور برباد ہوجائے گا ۔الله ہمارے سروں پر ماں باپ کا سایہ ہمیشہ قائم رکھے اور ہمیں ان کی فرمانبرداری کرنے اور انکی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!