لوگوں کو برے القاب سے مت پکارو

سورۃ الحجرات سے نو نصیحتیں

ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو

 از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی

(6)… چھٹی نصیحت ﴿وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ﴾ ’’ اور ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو ۔‘‘(الحجرات 49؍11)

اچھے نام اچھی علامت کا مظہر ہیں، نبیﷺ نے اچھے نام رکھنے اور بْرے ناموں سے گریز کی تلقین فرمائی ہے ،اس لئے یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ نام خوبصورت، با معنی اور ہر لحاظ سے جامع ہو اور پکارتے وقت پورا نام پکارا جائے۔ اسلئے کہ نام ہی وہ پہچان ہے جو ایک کو دوسرے انسان سے علیحدہ پہچان دیتا ہے اور اسکو ایک دوسرے پر فضیلت عطا کرتا ہے اور انسان کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہےہمارے معاشرے کاکسی کی تحقیر کرنے اور اذیت پہنچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے ایسے لقب سے منسوب کیا جائے جس سے اسے تکلیف یا اذیت پہنچے۔برے القاب سے منسوب کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ کسی متعین شخص کو ایذا پہنچانے کی نیت سے کوئی لقب دینا یا کسی ایسےلقب سے منسوب کرنا جس سے مخاطب کو ناحق تکلیف پہنچے یا کوئی ایسا نام یا لقب استعمال کرنا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر اخلاقی ہو ۔یعنی کسی شخص کو ایسے نام سے نہ پکارا جائے یا ایسا لقب نہ دیا جائے جو اس کو ناگوار ہو اور جس سے اس کی تحقیر و تنقیص ہوتی ہو۔ مثلاً کسی کو فاسق یا منافق کہنا۔ کسی کو لنگڑا یا اندھا یا کانا کہنا۔ کسی کو اس کے اپنے یا اس کی ماں یا باپ یا خاندان کے کسی عیب یا نقص سے ملّقب کرنا۔ کسی کو مسلمان ہوجانے کے بعد اس کے سابق مذہب کی بنا پر یہودی یا نصرانی کہنا۔ کسی شخص یا خاندان یا برادری یا گروہ کا ایسا نام رکھ دینا جو اس کی مذمت اور تذلیل کا پہلو رکھتا ہو۔ اس حکم سے صرف وہ القاب مستثنیٰ ہیں جو اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے تو بد نما ہیں مگر ان سے مذمت مقصود نہیں ہوتی بلکہ وہ ان لوگوں کی پہچان کا ذریعہ بن جاتے ہیں جن کو ان القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔
برے ناموں سے منسوب کرنا درحقیقت مسلمان کی عزت کی اس قدر حرمت ہے کہ جو کوئی اس حرمت کو نقصان پہنچائے ، اس کی نمازیں تک قبول نہیں ہوتیں۔حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آیت میں تنابزو بالا لقاب سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص نے کوئی گناہ یا برا عمل کیا ہو اور پھر اس سے تائب ہوگیا ہو اس کے بعد اس کو اس برے عمل کے نام سے پکارنا، مثلاً چور یا زانی یا شرابی وغیرہ جس نے چوری، زنا، شراب سے توبہ کرلی ہو اس کو اس پچھلے عمل سے عار دلانا اور تحقیر کرنا حرام ہے۔ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو ایسے گناہ پر عار دلائے جس سے اس نے توبہ کرلی ہے تو اللہ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے کہ اس کو اسی گناہ میں مبتلا کر کے دنیا و آخرت میں رسوا کرے گا (قرطبی)
البتہ اس سے بعض وہ صفاتی نام بعض حضرات کے نزدیک مستثنی ہیں جو کسی کے لیے مشہور ہوجائیں اور وہ اس پر اپنے دل میں رنج بھی محسوس نہ کریں جیسے لنگڑے پن کی وجہ سے کسی کا نام لنگڑا پڑجائے کالے رنگ کی بنا پر کا لیا یا کالو مشہور ہوجائے وغیرہ۔ القرطبی
بعض لوگوں کے ایسے نام مشہور ہوجاتے ہیں جو فی نفسہ برے ہیں مگر وہ بغیر اس لفظ کے پہچانا ہی نہیں جاتا تو اس کو اس نام سے ذکر کرنے کی اجازت پر علماء کا اتفاق ہے بشرطیہ ذکر کرنے والے کا قصد اس سے تحقیر و تذلیل کا نہ ہو جیسے بعض محدثین کے نام کے ساتھ اعرج یا احدب مشہور ہے اور خود رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کو جس کے ہاتھ نسبتاً زیادہ طویل تھے ذوالیدین کے نام سے تعبیر فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک سے دریافت کیا گیا کہ اسانید حدیث میں بعض ناموں کے ساتھ کچھ ایسے القاب آتے ہیں مثلاً حمید الطویل، سلیمان الاعمش، مروان الاصفر وغیرہ، تو کیا ان القاب کے ساتھ ذکر کرنا جائز ہے، آپ نے فرمایا جب تمہارا قصد اس کا عیب بیان کرنے کا نہ ہو بلکہ اس کی پہچان پوری کرنے کا ہو تو جائز ہے (قرطبی)اسی طرح ایک نام کے کئی آدمی موجود ہوں اور ان میں سے کسی خاص شخص کی پہچان اس کے کسی خاص لقب ہی سے ہوتی ہو تو وہ لقب استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ وہ بجائے خود برا ہو۔ مثلاً عبداللہ نام کے کئی آدمی ہوں اور ایک ان میں سے نابینا ہو تو آپ اس کی پہچان کے لیے نابینا عبداللہ کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح ایسے القاب بھی اس حکم کے تحت نہیں آتے جن میں بظاہر تنقیص کا پہلو نکلتا ہے مگر در حقیقت وہ محبت کی بنا پر رکھے جاتے ہیں اور خود وہ لوگ بھی جنہیں ان القاب سے یاد کیا جاتا ہے، انہیں پسند کرتے ہیں، جیسے ابوہریرہ اور ابو تراب۔
سنت یہ ہے کہ لوگوں کو اچھے القاب سے یاد کیا جائےحدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مومن کا حق دوسرے مومن پر یہ ہے کہ اس کا ایسے نام و لقب سے ذکر کرے جو اس کو زیادہ پسند ہو اس لئے عرب میں کنیت کا رواج عام تھا اور آنحضرت ﷺ نے بھی اس کو پسند فرمایا۔ خود آنحضرت ﷺ نے خاص خاص صحابہ کو کچھ لقب دیئے ہیں۔ صدیق اکبر کو عتیق اور حضرت عمر کو فاروق اور حضرت حمزہ کو اسد اللہ اور خالد بن ولید کو سیف اللہ فرمایا ہے۔
مسلمان کو ایسی چیزوں سے اپنی زبان کو محفوظ رکھنا چاہیے جو کسی کی ایذاء اور بے عزتی کا باعث بنتی ہوں۔برے القابات سے پکارنا بدگوئی کا ایک پہلو ہے جس کے بارے میں حدیث میں بیان ہوتا ہے ۔”جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے”۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 977 )