لاک ڈاؤن اورپرایئویٹ تعلیمی ادارے
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
ہمارے مذہب میں آدمی کی خود اپنے ہاتھ کی کمائی یعنی محنت مزدوری اور حرفت وصناعت کو سب سے پاکیزہ عمل قرار دیا گیا ہے، اللہ تعالی نے اپنے چہیتے بندوں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے محنت ومزدوری کرواکے پیشہ محنت واجرت کی فضیلت اور عملی مثال بھی بیان کردی۔ یہ اللہ کا کتنا بڑا کرم واحسان ہے کہ بعض بندوں، مزدوروں، جفاکشوں اور محنت کشوں کو بعضوں کے ماتحت کرکے اس کا غلام، نوکر، خادم یا مزدور بنادیا، تاکہ وہ ازخود محنت مزدوری کرنے سے بچا رہے۔ جس کو کسی کے کام پہ لگایا جائے خواہ جسمانی کام ہو یا ذہنی ۔ سرکاری اور نجی اداروں، تعلیم گاہوں اساتذہ جن کے کام اور ذمہ داری کے اوقات متعین ہوں۔ یہ لوگ اجرت ومزدوری کے مستحق ہوجاتے ہیں۔کسب معاش کے تین ذرائع: تجارت، زراعت اور اجارہ ومزدوری میں سے تیسرا ذریعہ معاش “محنت ومزدوری” ہے۔ ہر مخلوق کا اصل رازق تو اللہ تعالی ہے؛ لیکن سبب وذریعہ کے درجے میں اللہ تعالی نے دونوں طبقوں مالک ومزدور کی روزی روٹی ایکدوسرے سے مربوط کردی ہے۔ اگر مالک، زمیندار وصنعت کار مزدوروں وملازموں کے محتاج ہیں تو وہیں محنت کش مالکان کے محتاج ہیں. دونوں کے باہمی احتیاج، ارتباط وانضباط سے سماج کا اقتصادی نظام رواں دواں ہے۔
دنیوی زندگی میں ہم نے ان کی روزی تقسیم کررکھی ہے اور ہم نے ایک کو دوسرے پر رفعت دے رکھی ہے، تاکہ ایک دوسرے سے کام لیتا رہے۔ (سورۃ الزخرف: 32)
سرمایہ دارانہ نظام کی طرح مالک ومزدور کا یہ رشتہ خود غرضی، مفاد پرستی، جبروتشدد، بدعہدی پر مبنی نہیں ہے؛ بلکہ مالک ومزدور کے مابین محنت واجرت کا یہ رشتہ اخوت، بھائی چارہ، جذبہ خیرخواہی، وفاداری، نفع رسانی، ترحم، تعاون باہمی، ہمدردی وغمگساری اور مساوات پہ مبنی ہے۔ مذاہب عالم کے نظامہائے اقتصاد ومزدور میں یہ صرف اسلامی قانون محنت واجرت کا امتیاز ہے کہ اس نے مالک ومزدور کو بنیادی انسانی حقوق میں یکسر برابر قرار دیا، اونچ نیچ، اعلی وادنی، ارفع وکمتر کے فرق کو مٹایا، مالک کو بالادستی کے خبط اور مزدور کو حقیر وکمتر جیسے احساس کمتری سے یکسر پاک کیا۔ دونوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی استواری کی یہی اساس وبنیاد ہے۔ اس میں کمی ہونے سے ہی دونوں طبقوں میں تصادم واحتجاج کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اپنے حقوق کے مطالبہ کے لئے دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل آتے، صف آراء ہوتے اور اس کے نتیجے میں احتجاج ومظاہرے ہوتے ہیں۔
ارشاد نبوی ہے:تمہارے خادم ومحتاج تمہارے بھائی ہیں، جس شخص کے بھائی کو اللہ اس کا ماتحت ومحتاج بنائے یعنی جو شخص کسی غلام کا مالک بنے تو اس کو چاہئے کہ وہ جو خود کھائے وہی اس کو بھی کھلائے اور جو خود پہنے وہی اس کو بھی پہنائے نیز اس سے کوئی ایسا کام نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اور اگر کوئی ایسا کام اس سے لئے جائے جو اس کی طاقت سے باہر ہو تو اس کام میں خود بھی اس کی مدد کرے)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل دے دو)
“آدم خور” کورونا کی تباہ کاری وقیامت خیزی سے ایک بھی شعبہ زندگی بچ نہیں سکا، تادم تحریر یعنی اس وباء نے قریب آٹھ ملین صحت مند افراد کو بیمار کردیا وہیں دنیا کی بڑی بڑی اقتصادی منڈیوں کی کمر بھی توڑ دی اور کاروبار زندگی کا پہیہ جام کردیا ہے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے فیکٹریاں، سرکاری وپرائیویٹ سکولز ویگر ادارے، ملازمتی مراکز، مدارس وجامعات بالکل بند ہوگئے، معاشی سرگرمیاں معطل ہوگئیں، معاشی بحران کی وجہ سے برسرروزگار کروڑوں واربوں افراد ملازمت سے فارغ یا بغیر تنخواہ چھٹی پہ بھیجے جارہے ہیں، لاکھوں دیہاڑی دار افراد فاقہ کشی پہ مجبور ہیں۔ کورونا خدائی قہر اور آسمانی عذاب ووباء ہے، یہ مزدوری اور محنت کشوں کی طرف سے پیدا کردہ صورت حال نہیں ہے بلکہ ایک مجبوری کی حالت ہے۔ جس طرح ان دنوں میں اپنے اہل وعیال اور گھر والوں کا خیال رکھ رہے ہیں اسی طرح اپنے ملازمین کا بھی خیال رکھیں، جس طرح وہ کھارہے ہیں اپنے ملازمین کے چولہا چکی گرم رکھنے کا بھی نظم فرمائیں، “لاضرر ولاضرار” “لایظلمون ولایظلمون” اور “الضرر یزال” یعنی حتی الامکان نقصان کی تلافی کی جائے گی) جیسے اصول وضوابط کا تقاضہ ہے کہ ملازمین کو فارغ کرنا یا بغیر تنخواہ چھٹی پہ بھیج دینا شرعا و اخلاقا جائز نہیں، بلکہ وحشیانہ عمل ۔
یہ اعلان بعض اداروں کی طرف سے کہ کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے اگست تک اسکولز کھلیں گے نہ تعلیمی سلسلہ جاری ہوسکے گا؛ لہذاٹیچرز ادھر کا رخ نہ کریں، اپنی ملازمت کہیں اور دیکھ لیں، جبکہ بعض ٹیچرز کو بلاتنخواہ چھٹی کردی گئی ہے یہ حد درجہ شرمناک، المناک، افسوسناک، غیرانسانی اور مفادپرستانہ حرکت ہے، معمولی تنخواہوں پہ اخلاص، کفایت شعاری، محنت، جدوجہد، لگن، دل جمعی اور بشاشت قلبی سے جوٹیچرزآپ کے اسکولزمیں کام کرتے رہے ہیں، آج برے وقت میں انہیں یوں بے یار ومددگار چھوڑدینا کوئی انسانی کام ہے؟ بھلا اس وقت انہیں کون کام پہ رکھے گا؟ موجودہ اضطرابی حالات میں اپنے ٹیچرز کی تنخواہوں کی کٹوتی کرنا، انہیں بلاتنخواہ گھر بٹادینا یا ملازمت سے سبکدوش کردینا شرعا واخلاقا جائز نہیں ہے۔