قومی ترانے کے خالق کی یوم وفات

قومی ترانے کے خالق کی یوم وفات
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
نام محمد حفیظ، ابوالاثر کنیت، حفیظ تخلص۔ ۱۴؍جنوری۱۹۰۰ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔مروجہ دینی تعلیم کے بعد اسکول میں داخل ہوئے۔ حفیظ کو بچپن ہی سے شعروسخن سے دلچسپی تھی۔ مولانا غلام قادر گرامی جوان کے ہم وطن تھے، ان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔کسب معاش کے لیے عطر فروشی، کلاہ سازی، خیاطی، فوج کی ٹھیکیداری، خطوط نویسی ، مزدوری، سنگر سیونگ مشین کمپنی کی مینیجری سب کچھ کرڈالا۔۱۹۲۱ء میں سنگر کمپنی کی ملازمت چھوڑ دی اور وطن واپس آگئے۔ وہاں سے اردو زبان میں ایک ماہانہ رسالہ ’’اعجاز‘‘ جاری کیا جو پانچ ماہ بعد بند ہوگیا۔۱۹۲۲ء میں لاہور آئے۔ان کا شروع سے اس وقت تک شعروادب اوڑھنا بچھونا تھا۔ رسالہ’’شباب‘‘میں ملازمت کرلی۔اس کے بعد ’’نونہال‘ اور ’ہزار داستان‘ کی ادارت ان کے سپرد ہوئی۔ پھر ’پھول‘ اور ’تہذیب نسواں‘ سے منسلک رہے۔ کچھ عرصہ ریاست خیرپور کے درباری شاعر رہے، ’’قومی ترانہ‘‘ کے خالق کی حیثیت سے حفیظ کو بہت شہر ت ملی۔آپ اپنے لکھے ہوئے قومی ترانے کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ۲۱؍دسمبر ۱۹۸۲ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔چند تصانیف یہ ہیں: ’نغمۂ زار‘، ’سوز وساز‘، ’تلخابۂ شیریں‘، ’چراغ سحر‘۔ ’’شاہنامہ اسلام‘‘ (چار جلدوں میں)۔’ شاہنامہ اسلام ‘ سے ان کی شہرت میں بہت اضافہ ہوا،آپ نے شاہنامہ اسلام لکھ کر اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انہیں فردوسیِ اسلام کا خطاب دیا گیا۔۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے۔ بچوں کے لیے گیت اور نظمیں بھی لکھیں۔بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:356
شعروسخن کا ذوق رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ حفیظ کی مشہور نظم’’ رقاصہ‘‘ ایک والئی ریاست کی فرمائش بلکہ حکم پر لکھی گئی۔حفیظ صاحب ان دنوں اس ریاست کے درباری شاعر تھے۔ یہ ۱۹۴۰ء کے لگ بھگ کا واقعہ ہے۔ والئی ریاست نے حفیظ کو اپنی منظورِنظر رقاصہ کی شان میں نظم لکھنے کو کہا۔ حفیظ صاحب نے تعریف کرنے کے بجائے اس کی تضحیک کردی۔ عین اس وقت جب وہ محوِرقص تھی، حفیظ نے ترنم سے یہ اشعار سنائے ؎
ہاں ناچتی جا ، گائے جا
نظروں سے دل برمائے جا
تڑپائے جا ، تڑپائے جا
او نیم عریاں نازنیں!
تیرا تھرکنا خوب ہے
تیری ادائیں دل نشیں
لیکن ٹھہر تو کون ہے؟
او دشمن دنیا و دیں!
تیری نظر چالاک ہے
تیری نظر بے باک ہے
شرم اور عزت والیاں
ہوتی ہیں عفت والیاں
کسی قوم کی بیٹی ہے تو
تقدیر کی ہیٹی ہے تو
جب وہ رقص تھم گیا اور محفل پر سکوت طاری ہوگیا، تو رقاصہ سر جھکائے نواب کے قدموں میں جا بیٹھی۔ نواب کو حفیظ کی اس حرکت پر سخت غصہ آیا۔ اس نے حکم دیا کہ حفیظ کو جیل میں ڈال دیا جائے۔
آپ نے غزل اور نظم کے علاوہ اردو ادب کی مختلف اصنافِ سخن کو اپنی تخلیقات سے مالا مال کیا اور خوب نام و مرتبہ حاصل کیا۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے جنھوں نے مختلف موضوعات کو اپنی شاعری سمویا۔ انھوں نے بچّوں کے لیے بھی نظمیں تخلیق کیں۔اورآپ علامہ اقبال سے بہت متاثر تھے اکثر اقبال کے ہاں حاضری دیتے۔ علامہ اقبال نے جب 1926 میں پنجاب لیجسلیٹیو اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا تو آپ کی انتخابی مہم میں حفیظ اکثر آپ کے ساتھ رہتے۔ حفیظ نے اپنے مضمون ’حفیظ کا اقبال‘ میں جہاں علامہ اقبال سے اُن کی بے تکلفی کا ذکر کیا ہے وہاں وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ایک روز اقبال نے علی بخش کو جالندھر بھیج کر مجھے لاہور طلب کیا اور کہا کہ ’’حفیظ ! تم میرا مرثیہ لکھنا‘‘۔ حفیظ تحریر کرتے ہیں کہ اقبال نے اُن سے شاہنامہ میں سے ولادتِ رسول کے اشعار سنانے کی درخواست کی‘ جسے اُنہوں نے قبول کیا۔اور ایک دفعہ آپ جب رخصت ہونے لگے توعلامہ کی آنکھوں میں آنسو جھلک رہے تھے۔ علامہ صاحب نےجو آپ کے رسالے کے لیے جو چند اشعار دیے اُن میں سے ایک فارسی کا شعر یہ ہے:
ازخاکِ سمرقندے تر سم کہ دِگر خیزد آشوب ہلاکُوئے، ہنگامۂ چنگیزے
آپ فرماتے ہیں کہ جب میں سلام کرکے رُخصت ہونے لگا تو فرمایا: ‘‘شاعر اگر مومن ہے تو وہ شعر سے بھی جہاد میں امداد کرسکتاہے۔’’
حفیظ جالندھری صاحب کا ‘‘بزم نہیں رزم’’ کے نام سے ایک کتابچہ موجود ہے۔ جس کا انتساب کچھ یوں ہے ‘‘اس کتاب کا دائمی انتساب اُس والدہ محترمہ کے نام ہے جس کے مقدس آغوش نے جہادِ آزادیٔ کشمیر کے اولین مجاہد کو پروش فرمایا۔ ع: یہی مائیں ہیں جنکی گود میں اسلام پلتا ہے۔ حفیظ’’
آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں جذبہ حریت بیدار کرنے میں بھرپورکردار ادا کیا۔ حفیظ جالندھری کے بڑے کارناموں میں ایک ’شاہنامہ اسلام‘ ہے جو 4 جلدوں میں شائع ہوا جبکہ دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کے قومی ترانے کی تخلیق ہے۔ حفیظ جالندھری کی کئی نظمیں اردو ادب میں شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔ حفیظ جالندھری کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ہلال امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا ہے۔ حفیظ جالندھری 21 دسمبر 1982ء کو اس جہان فانی سے کوچ کرگئے اور لاہور میں مدفون ہیں۔ آپ کا تخلیق کیا گیا قومی ترانہ رہتی دنیا تک گونجتا رہے گا۔حفیظ جالندھری اپنے لکھے ہوئے قومی ترانے کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔